تبادلۂ خیال:کلن بیرپوری

صفحے کے مندرجات دوسری زبانوں میں قابل قبول نہیں ہیں۔
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

محب اردو کلن بیرپوری کی پیدائش 1 جنوری انیس سو تیس میں اترپردیش کے بہرائچ ضلع کے بیر پور گاؤں میں ہوا تھا ان کے والد کا نام باور علی اور والدہ کا نام قدرتا تھا یوں تو بچپن میں زیادہ تعلیم حاصل نہیں کر سکے مگر بعد میں وہ گھر پر ہی کتابوں سے مطالعہ کرتے رہے دھیرے دھیرے ان کے علم میں اضافہ ہوتا گیا انیس سو بیالیس میں جب جماعت علمائے ہند کے کارکن لوگوں کو جگہ جگہ پر ملک کے خدمت کے لئےجاگرک کر رہے تھے موصوف کے تقریروں سے متاثر ہو کلن بیرپوری کے اندر ملک کی خدمت کرنے کا جذبہ پیدا ہو گیا کلن بیرپوری ایک شاعر ایک مفکر اور ایک فلسفی بھی تھے کلن بیرپوری کا یہ قول کافی مقبول ہے کہ ۔۔ کوئی کام کرنے سے پہلے غور کرو کہ اس کام کا انجام کیا ہوگا کلن بیرپوری کہتے تھے جس طرح ایک چھوٹی سی چھید ناو میں ہوجائے تو کشتی سمندر میں غرق ہو سکتی ہے اسی طریقے سے اگر انسان تھوڑا تھوڑا فضول خرچی کرتا رہے تو ایک دن کنگال ہو سکتا ہے کلن بیرپوری کے کچھ اشعار مندرجہ ذیل ہیں

یہ عہد سیاست ہے اس عہد کو بھی دیکھو اس عہد میں کچھ کہنا تم سوچ سمجھ کر ہی

کلن بیرپوری کا ماننا تھا کہ سائنس اور فرنگی زبان کے ساتھ ساتھ علم دین کو حاصل کرنا بھی بہت لازمی ہے وہ کہتے ہیں سائنس سیکھئے اور فرنگی زبان بھی مع اس کے علم دین کو حاصل بھی کیجئے

کلن بیرپوری نے ملک میں پھیلے بدعنوانی پر لکھا بھلا بدعنوانی کیسے ختم ہو ملک سے کلن یہاں جب اکثریت سے ہو رہے اسکیم کے دھندے کلن بیرپوری ایک سچے محب وطن تھے

کلن بیرپوری کا ایک شعر کافی مقبول ہے اور یہ شعر ان کی زندگی کی عکاسی کرتا ہے پاس جو تم نہ رہے دل کو وہ سکون کہاں

دل یہ روتا ہے میرا اب وہ ہے مسنون کہاں
ایک وہ وقت تھا طوفان سے لڑ جاتے تھے
حوصلہ اب بھی مگر پاس وہ جنون کہاں
آخر کار کلن بیرپوری 15 فروری 2005 کو اس دار فانی کو الوداع کہہ گئے۔

کلن بیرپوری کی حیات[ترمیم]

محب اردو کلن بیرپوری کی پیدائش 1 جنوری انیس سو تیس میں اترپردیش کے بہرائچ ضلع کے بیر پور گاؤں میں ہوا تھا ان کے والد کا نام باور علی اور والدہ کا نام قدرتا تھا یوں تو بچپن میں زیادہ تعلیم حاصل نہیں کر سکے مگر بعد میں وہ گھر پر ہی کتابوں سے مطالعہ کرتے رہے دھیرے دھیرے ان کے علم میں اضافہ ہوتا گیا انیس سو بیالیس میں جب جماعت علمائے ہند کے کارکن لوگوں کو جگہ جگہ پر ملک کے خدمت کے لئےجاگرک کر رہے تھے موصوف کے تقریروں سے متاثر ہو کلن بیرپوری کے اندر ملک کی خدمت کرنے کا جذبہ پیدا ہو گیا کلن بیرپوری ایک شاعر ایک مفکر اور ایک فلسفی بھی تھے کلن بیرپوری کا یہ قول کافی مقبول ہے کہ ۔۔ کوئی کام کرنے سے پہلے غور کرو کہ اس کام کا انجام کیا ہوگا کلن بیرپوری کہتے تھے جس طرح ایک چھوٹی سی چھید ناو میں ہوجائے تو کشتی سمندر میں غرق ہو سکتی ہے اسی طریقے سے اگر انسان تھوڑا تھوڑا فضول خرچی کرتا رہے تو ایک دن کنگال ہو سکتا ہے کلن بیرپوری کے کچھ اشعار مندرجہ ذیل ہیں

یہ عہد سیاست ہے اس عہد کو بھی دیکھو اس عہد میں کچھ کہنا تم سوچ سمجھ کر ہی

کلن بیرپوری کا ماننا تھا کہ سائنس اور فرنگی زبان کے ساتھ ساتھ علم دین کو حاصل کرنا بھی بہت لازمی ہے وہ کہتے ہیں سائنس سیکھئے اور فرنگی زبان بھی مع اس کے علم دین کو حاصل بھی کیجئے

کلن بیرپوری نے ملک میں پھیلے بدعنوانی پر لکھا بھلا بدعنوانی کیسے ختم ہو ملک سے کلن یہاں جب اکثریت سے ہو رہے اسکیم کے دھندے کلن بیرپوری ایک سچے محب وطن تھے

کلن بیرپوری کا ایک شعر کافی مقبول ہے اور یہ شعر ان کی زندگی کی عکاسی کرتا ہے پاس جو تم نہ رہے دل کو وہ سکون کہاں

دل یہ روتا ہے میرا اب وہ ہے مسنون کہاں
ایک وہ وقت تھا طوفان سے لڑ جاتے تھے
حوصلہ اب بھی مگر پاس وہ جنون کہاں
آخر کار کلن بیرپوری 15 فروری 2005 کو اس دار فانی کو الوداع کہہ گئے Sikandaralishikan (تبادلۂ خیالشراکتیں) 15:28، 10 مارچ 2019ء (م ع و)