مختار مسعود

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے


مختار مسعود
معلومات شخصیت
پیدائش 15 دسمبر 1926ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سیالکوٹ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 15 اپریل 2017ء (91 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لاہور[1]  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان (1949–15 اپریل 2017)[1]
برطانوی ہند (15 دسمبر 1926–1949)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی علی گڑھ یونیورسٹی  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مصنف[1]،  وفاقی سیکرٹری  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات

مختا ر مسعود علی گڑھ سے تعلیم یافتہ تھے۔ وہ مینار پاکستان کی تعمیر ی کمیٹی کے صدر بھی تھے۔

ولادت[ترمیم]

مختار مسعود کی تاریخِ پیدائش اور مقامِ پیدائش کے بارے میں بہت مغالطے رہے ہیں۔ کسی نے ان کا سالِ پیدائش 1918ء لکھا تو کسی نے 1928ء۔ کسی نے علی گڑھ کو ان کی جائے پیدائش قرار دیا تو کسی نے انھیں گجرات(پنجاب) میں اتارا، لیکن پنجاب یونیورسٹی میں لکھے گئے ایک حالیہ تحقیقی مقالے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مختار مسعود 15دسمبر 1926ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے۔ دراصل مختار مسعود صاحب نے خود اپنی تاریخِ پیدائش اور جائے پیدائش کو کبھی کوئی اہمیت نہیں دی، بلکہ ایک طرح سے ان باتوں کو بالکل ہی نظر انداز کر دیا۔ مقامِ پیدائش کے مغالطے کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ مختار مسعود کے والد، معروف اقبال شناس اور معاشیات کے استاد پروفیسر شیخ عطاء اللہ کا تعلق ضلع گجرات کے شہر جلال پور جٹاں سے تھا، وہ وہیں 1896ء میں پیدا ہوئے تھے۔ شیخ عطاء اللہ 1929ء میں علی گڑھ میں معاشیات کے پروفیسر بنے تو علی گڑھ میں سکونت پزیر ہو گئے۔[2]

عملی زندگی[ترمیم]

شیخ عطاء اللہ کو علامہ محمد اقبال سے بڑی عقیدت تھی، انھوں نے ’’اقبال نامہ‘‘ کے عنوان سے علامہ محمد اقبال کے خطوط دو جلدوں میں بڑی کاوش سے مرتب کیے۔ معروف اقبال شناس ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے مطابق ’’عقیدت مندی کے ساتھ کی جانے والی اس کاوش کے نتیجے میں مکاتبِ اقبال کا ایسا مجموعہ فراہم ہو گیا، جو تعدادِ مکاتب کے اعتبار سے آج بھی اقبال کا سب سے بڑا مجموعۂ خطوط ہے۔‘‘ شیخ عطاء اللہ پروفیسر معاشیات کے تھے، لیکن ادیب اُردو کے تھے۔ ڈاکٹر محمد منیر اے سلیچ کے مطابق شیخ عطاء اللہ نے اورنگ زیب عالم گیر کے خطوط کا ترجمہ کیا اور محمد مارماڈیوک پکتھال کے اُن خطبات کا بھی ترجمہ کیا، جو انھوں نے مدراس میں اسلامی کلچر کے موضوع پر دیے تھے۔ شیخ صاحب نے پکتھال کی ایک انگریزی کتاب کا بھی اُردو میں ترجمہ کیا تھا، جو ’’اورینٹل ان کاونٹرز‘‘ کے نام سے تھی۔ ظاہر ہے کہ والدکے ان علمی کاموں اور اقبال سے عقیدت کا اثر مختار مسعود پر بھی پڑنا تھا اور اسے ان کی کتابوں میں جھلکنا بھی تھا، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مختار مسعود اُردو، اسلام، اقبال اور پاکستان سے جذباتی وابستگی رکھتے تھے۔

مختار مسعود نے علی گڑھ ہی میں بنیادی تعلیم حاصل کی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ پاکستان بننے کے بعد شیخ عطاء اللہ نے اس سرزمین سے ہجرت کا فیصلہ کیا، جس کا خواب ان کے ممدوح علامہ محمداقبال نے دیکھا تھا۔ مختار مسعود بھی اہل خانہ کے ہمراہ پاکستان آئے اور پاکستان میں ہونے والے مقابلے کے امتحانات منعقدہ 1949ء میں شریک ہو کر کامیاب قرار پائے۔ سول سروس میں وہ مختلف اعلٰی عہدوں پر رہے، کئی اداروں کے سربراہ اور وفاقی سیکریٹری بھی رہے، جس زمانے میں لاہور میں مینارِ پاکستان زیرِ تعمیر تھا، اُس وقت اس کو ’’یادگارِ پاکستان‘‘ کہا جاتا تھا، اُسی دوران مختار مسعود لاہور کے کمشنر بن گئے اور انھوں نے اس کا نام ’’مینارِ پاکستان‘‘ کروا دیا، کیونکہ ’’یادگار‘‘ تو مرنے والوں کی ہوتی ہے اور پاکستان ایک زندہ حقیقت ہے، جو ہمیشہ زندہ رہے گی۔ ’’آوازِ دوست‘‘ میں انھوں نے بتایا ہے کہ جب وہ تعمیراتی کمیٹی کے اجلاس میں پہلی بار شریک ہوئے تو یہ نکتہ اٹھایا۔ لکھتے ہیں کہ

’’جب کارروائی کے لیے پہلے مسئلہ پیش ہوا تو میں نے کہا اسے ملتوی کیجیے، تاکہ ایک اور ضروری بات پر بحث ہو سکے۔ میز پر لغات کا ڈھیر لگ گیا۔ سب متفق ہوئے کہ یادگار، وہ نشانِ خیر ہے، جو مرنے کے بعد باقی رہے۔ جب یادگار کا عام تصور موت اور فنا و بقا کے تصور سے جدا نہ پایا تو منصوبے سے یادگار کا لفظ خارج کر دیا۔ میز صاف کی گئی، لغات کی جگہ مینارِ پاکستان کے نقشے پھیلائے گئے۔‘‘

مختار مسعود کا اپنی ذات اور شہرت سے بے نیازی کا یہ عالم تھا کہ نہ کبھی اپنی تاریخِ پیدائش وغیرہ کے جھنجھٹ میں پڑے اور نہ کبھی کسی سے اپنی کتابوں پر فرمائشی مقدمہ لکھوایا، نہ کبھی کتابوں کی رونمائی کروائی اور نہ کسی سے اپنی تعریف میں تنقیدی مضامین لکھوائے، حالاں کہ اتنے بڑے عہدوں پر تھے کہ ایک اشارہ کرتے تو خوشامدیوں کی فوجِ ظفر موج ہاتھ باندھے کھڑی ہوتی اور انھیں اُردو کیا، دنیا کا سب سے بڑا ادیب قرار دے دیتی، ادبی جرائد ان پر خصوصی نمبر شائع کرتے، یونی ورسٹیاں ان پر تحقیق کرواتیں اور نقاد انھیں سر آنکھوں پر بٹھاتے، ان پر کتابیں لکھی جاتیں، لیکن مختار مسعود ان چھوٹی باتوں سے بہت بلند تھے۔ اپنی کسی کتاب پر کسی نقاد یا محقق کی رائے شائع نہیں کی۔ اپنی تمام کتابوں کے مختصر دیباچے بھی خود ہی لکھے۔ ’’آوازِ دوست‘‘ کا دیباچہ تین سطروں پر مبنی ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

’’اس کتاب میں صرف دو مضمون ہیں، ایک طویل اور دوسرا طویل تر۔ ان دونوں مضامین میں فکر اور خون کا رشتہ ہے۔ فکر سے مراد فکرِفردا ہے اور خون سے خونِ تمنا۔‘‘

واقعی آوازِ دوست میں انھوں نے خونِ تمنا اور خونِ جگر دونوں ہی صرف کر دیے، ورنہ اس طرح کے نثر پارے بھلا کہاں سے آتے، جن کے بلیغ اور عالمانہ جملے قولِ زرّیں اور ضرب المثل بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دیکھیے:

’’اس برِعظیم میں عالمگیری مسجد کے میناروں کے بعد جو پہلا اہم مینار مکمل ہوا وہ مینارِ قراردادِ پاکستان ہے۔ یوں تو مسجد اور مینار آمنے سامنے ہیں لیکن ان کے درمیان یہ ذرا سی مسافت جس میں سکھوں کا گردوارہ اور فرنگیوں کا پڑاؤ شامل ہیں تین صدیوں پر محیط ہے۔ میں مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھا ان تین گمشدہ صدیوں کا ماتم کر رہا تھا۔ مسجد کے مینار نے جھک کر میرے کان میں راز کی بات کہہ دی، جب مسجدیں بے رونق اور مدرسے بے چراغ ہو جائیں، جہاد کی جگہ جمود اور حق کی جگہ حکایت کو مل جائے، ملک کی بجائے مفاد اور ملّت کی بجائے مصلحت عزیز ہو اور جب مسلمانوں کو موت سے خوف آئے اور زندگی سے محبت ہو جائے، تو صدیاں یونہی گم ہو جاتی ہیں۔‘‘

اس تاریخی شور اور تجزیے کی جھلک کئی مقامات پر ملتی ہے۔ مثلاً علی گڑھ کالج کا سنگِ بنیاد رکھے جانے کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

’’نصب ہونے والا پتھر یوں تو ایک کالج کا سنگ بنیاد تھا، مگر جس روز یہ نصب ہوا، گویا اس روز مینارِ پاکستان کی بنیادیں بھی بھری گئیں۔ لیجیے ہم علی گڑھ کی بنیادوں میں مینارِ پاکستان کی بنیادوں کو ڈھونڈ رہے تھے اور سپاس نامہ کہتا ہے کہ علی گڑھ کی بنیادیں، تاریخ کے تقاضوں میں ملیں گی۔‘‘

’’آوازِ دوست‘‘ کا عنوان فارسی کے ایک شعر سے مستعار ہے اور اس حقیقت کا عکاس ہے کہ محبوبِ حقیقی ہو یا مجازی، لیلیٰ ہو یا وطن، اس کی آواز بہر طور محب تک پہنچ جاتی ہے اور محب اس پر حیران بھی ہوتا ہے کہ یہ صدا مجھ تک کیسے اور کن ذرائع سے پہنچی۔ مختار مسعود کا محبوب پاکستان تھا۔ یہ کتاب ان کے اپنے دل کی بھی آواز ہے اور ان کے محبوب کی بھی، اس آواز کی تعبیر اور تفسیر اسی وقت ممکن ہے، جب آپ نے بھی کسی سے، وطن سے، محبت کی ہو اور اس محبِ صادق کے جذبہ صادق میں جزوی طور پر ہی سہی شریک ہوں، ورنہ یہ صدا آپ کی بھی سماعت سے ٹکرا کر لوٹ جائے گی اور دل تک نہ پہنچ پائے گی، اسی طرح جس طرح کئی نام نہاد دانش وروں کے لیے اس کی تفہیم ممکن نہیں ہوئی۔

اس کا پہلا مضمون ’’مینارِ پاکستان‘‘ اس قومی نشانِ عظمت کے توسط سے تحریکِ پاکستان کے وہ گوشے روشن کرتا ہے، جن پر تاریخ کی کتابوں میں تو روشنی ڈالی گئی ہے، لیکن ہم پاکستانیوں نے انھیں محبت کی سنہری روشنی میں نہیں دیکھا۔ مختار مسعود اس مضمون میں وہ جادوئی قندیل لے کر کھڑے ہیں، جس کی سنہری روشنی میں پاکستان اور اس کی بنیادوں میں محفوظ صدیوں کا قیمتی تاریخی ورثہ جگمگا رہا ہے۔ کاش ہماری نئی نسل اور نام نہاد پڑھے لکھے سیاست دان بھی اسے پڑھ لیں۔ کتاب کا دوسرا مضمون ’’قحط الرجال‘‘ اس الم ناک حقیقت کا دل سوز احساس دلاتا ہے کہ اب ہم نے بڑے آدمی پیدا کرنے بند کر دیے ہیں، اب ہمارے ہاں بونے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ لکھتے ہیں کہ ’’قحط میں موت ارزاں ہوتی ہے اور قحط الرجال میں زندگی۔‘‘ قحط الرجال کے بارے میں مزید لکھا کہ ’’اس وبا میں آدمی کا یہ حال ہو جاتا ہے کہ مردم شماری ہو تو بے شمار اور مردم شناسی ہو تو نایاب۔‘‘ لیکن کتنی مثالیں پیش کی جائیں اور کس کس صفحے سے کہ ان کے لکھے ہوئے جملوں میں قولِ زرّیں بننے کی یہ خوبی تو اتنی کثرت سے ہے کہ کتابوں کا خاصا حصہ ہی نقل کرنا پڑے گا۔

’’سفر نصیب‘‘ جسے اکثر لوگ غلط طور پر ’’سفرِ نصیب‘‘ پڑھتے اور لکھتے ہیں، یوں اس خوب صورت ترکیب کا مفہوم ہی بگاڑ دیتے ہیں، یہ بھی ایسی ہی کتاب ہے، جو اپنے نام کی طرح یاد رہ جانے والی باتوں سے مملو ہے۔ اس کا بھی نام ایک فارسی مصرعے سے لیا گیا ہے۔ ’’خوش نصیب‘‘ کی طرح کی اس فارسی ترکیب کا مطلب ہے ’’جس کے نصیب میں بہت سفر ہو۔‘‘ اس عنوان کے ذریعے مختار مسعود کہہ رہے ہیں کہ ’’جن کے نصیب میں سفر کثرت سے ہو، ان کے نصیب میں منزل بھی ہوتی ہے یا وہ صرف سفر کی صورت میں بھٹکتے رہتے ہیں؟ اور سفر سے مراد صرف جسمانی سفر ہی نہیں نظریاتی سفر بھی ہے، یہ سفر ذاتی اور انفرادی ہی نہیں اجتماعی اور قومی بھی ہے۔‘‘ اس میں وہ یہ سوال مختلف انداز سے کئی بار پوچھتے ہیں۔ حسبِ دستور مختصراً لکھے گئے دیباچے میں کہتے ہیں کہ ’’اس کتاب کے دو حصے ہیں، ہر حصے میں دو مضمون ہیں، ایک سفری داستان اور ایک شخصی خاکہ۔ داستان جادہ ہے اور خاکہ سنگِ میل --- ہر عمل سفر ہے اور ہر اعمال نامہ ایک سفرنامہ ہے۔‘‘ اور ہمارے قومی سفر نامے یا اعمال نامے پر یوں تبصرہ کرتے ہیں کہ ’’سیاست ہو یا سفر‘‘ اقتدار کی مسند ہو کہ جہاز کی نشست، کرسی کے حصول کے اصول یکساں ہوتے ہیں۔‘‘

مختار مسعود کو 1978ء میں چار سال کے لیے آر سی ڈی، یعنی علاقائی تعاون برائے ترقی کا جنرل سیکریٹری مقرر کیا گیا تھا اور ان کی تعیناتی تہران میں ہوئی تھی، اُس زمانے میں ایران میں شاہ کے خلاف تحریک زوروں پر تھی۔ مختار مسعود، ایران کے اس اسلامی انقلاب کے چشم دید گواہ تھے۔ تاریخ کے اس دیوانے کو خوشی یہ تھی کہ تحریک پاکستان کے بعد ایک بار پھر تاریخ کو بنتے ہوئے دیکھ رہا ہوں، بلکہ خود اس کا حصہ ہوں اور انقلاب کے معنی ایران میں پڑھ یا سن نہیں رہا، بلکہ دیکھ رہا ہوں۔ اُن کی تیسری کتاب’’لوحِ ایام‘‘ انھیں کی روداد ہے۔ شاہ کو ایران سے بھاگنا پڑا اور نئی انقلابی حکوت نے 1979ء میں آر سی ڈی کو تحلیل کر دیا، اس طرح مختار مسعود اس عالمی تنظیم کے آخری سیکریٹری جنرل ٹھہرے، جس کے رکنِ اس خطے میں سینٹو(Cento) کے رکن ممالک یعنی پاکستان، ایران اور ترکی تھے۔

’’لوحِ ایام‘‘ میں مختار مسعود کی دیگر کتابوں کی طرح تاریخی شور بھی ہے، احساسِ قومی بھی، ملتِ اسلامیہ شعور بھی ہے، احساسِ قومی بھی، ملتِ اسلامیہ کا درد بھی۔ یہ کتاب اُردو میں انقلابِ ایران کے اہم مآخذات میں یوں شامل ہے کہ یہ ایک درد مند اور دیانت دار چشم دید گواہ کا بیان ہے، جسے اپنی قومی اور تاریخی ذمے داریوں کا بھی شعور ہے اور تاریخ کو بنتا دیکھنے کی اہمیت کا احساس بھی۔

مختار مسعود کے منفرد اسلوب میں ان کی زبان کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ فارسی اور اُردو ادب سے گہرا لگائو، نپی تلی نثر، جنچے ہوئے جملے، احتیاط سے تراشی ہوئی ترکیبیں اور تاریخ و ادب کے حوالے، اُن کی تحریر کو ایک امتیازی شان عطا کرتے ہیں۔ وہی شان، جو صاحبِ طرز اور صاحبِ اسلوب نثر نگاروں کی پہچان ہوتی ہے، پھر اس پر مستزاد ہے، ان کا مدلل تجزیہ اور بے خوفی سے اسے پیش کرنے کا دو ٹوک انداز، جو اُن کی تحریر کو دلبری کے ساتھ دلیری بھی دیتا ہے۔ افسوس کہ ہم نے اُن کی وہ قدر نہ کی، جو کرنی چاہیے تھی۔ 2003ء میں ملنے والا ستارئہ امتیاز اُن کی امتیازی خصوصیات کا ایک چھوٹا سا اعتراف تھا اور اس اعزاز کے ملنے سے انھیں تو کوئی فرق نہیں پڑا ہو گا، البتہ اس اعزاز کے لیے یہ اعزاز ہے کہ مختار مسعود نے اسے قبول کر لیا۔ مختار مسعود کے محبوب شاعر، اقبال کا یہ مصرع خود اقبال اور مختار مسعود دونوں پر صادق آتا ہے:

اب انھیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر

تصانیف[ترمیم]

وفات[ترمیم]

اُردو کے دلبر اور دلیر ادیب، مختار مسعود 14 اپریل2017ء کو لاہور میں انتقال کر گئے۔ اُن کی وفات، صرف ایک شخصیت کا بچھڑنا نہیں، بلکہ ایک مخلص انسان، ایک دردِ مند شہری، ایک سچا پاکستانی، ایک دیانت دار سرکاری افسر اور اُردو کا ایک صاحبِ طرز ادیب گُم ہو گیا۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ ت https://www.dawn.com/news/1327304
  2. ’’لوحِ ایام‘‘ پر نقش ’’آوازِ دوست‘‘  کا ’’سفرنصیب‘‘ ہوا (ڈاکٹر رؤف پاریکھ) – (روزنامہ جنگ 19 اپریل2017)