آصف فرخی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
آصف فرخی
 

معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش 16 ستمبر 1959ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 1 جون 2020ء (61 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات غذائی زہریت  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی ہارورڈ یونیورسٹی
سینٹ پیٹرک اسکول  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مترجم،  مصنف  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان انگریزی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
باب ادب

ڈاکٹر آصف اسلم فرخی ایک پاکستانی اردو افسانہ نگار، صحافی، مترجم اور محقق تھے۔

ولادت[ترمیم]

16 ستمبر 1959ء کو کراچی میں نامور ادیب اسلم فرخی کے گھر پیدا ہوئے، آصف کی والدہ ڈپٹی نذیر احمد کی پڑپوتی اور شاہد احمد دہلوی کی بھتیجی ہیں۔[2]

عملی زندگی[ترمیم]

ڈاؤ میڈیکل کالج کراچی سے ایم بی بی ایس کیا، ہارورڈ یونیورسٹی امریکا سے ماسٹرز کی ڈگری لی، آغا خان یونیورسٹی کراچی، اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف اور حبیب یونیورسٹی کراچی میں عملی زندگی کی جدوجہد میں حصہ لیا، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس والوں کے لیے ادبی میلوں کا اہتمام کیا، ملکی و غیر ملکی کانفرنسوں میں شرکت کی، ادبی جریدے ’’دنیا زاد ‘‘ کی ادارت اور ایک اشاعتی ادارے’’ شہر زاد ‘‘ کی انتظامی ذمہ داریوں کو بہ خوبی نبھایا اور ساتھ ہی ساتھ افسانے لکھے، تراجم کیے، تنقید کی، اخبارات میں کالم لکھے، حتیٰ کہ شاعری بھی کی،[3][4]

ادبی خدمات[ترمیم]

آتش فشاں پر کھِلے گلاب‘‘، ’’اِسم اعظم کی تلاش‘‘، ’’چیزیں اور لوگ‘‘، ’’شہربیتی‘‘، ’’شہر ماجرا‘‘، ’’میں شاخ سے کیوں ٹوٹا‘‘، ’’اِیک آدمی کی کمی اور’’میرے دِن گذر رہے ہیں‘‘ آصف فرخی کے افسانوں نے مجموعے ہیں اور ’’عالم ایجاد‘‘ اور ’’نگاہ آئینہ سازمیں‘‘ تنقیدی مضامین کی کتب۔ انھوں نے نہ صرف آئن رینڈ ، ہرمن ہیس ، گریش کرناڈ ، ستیہ جیت رائے ، اگنارزیو سلونے ، ساتو کی زاکی ، ارنستو سباتو ، عمر ریوابیلا ، نجیب محفوظ ، ارون دھتی رائے ، رفیق شامی اور کئی دوسرے اہم لکھنے والوں کے انگریزی متون ترجمہ کرکے اُردو میں منتقل کیے، انگریزی میں بھی مسلسل لکھا ہے۔ انھوں نے اپنے ہاں کے ادب کے کئی اہم موضوعاتی انتخاب مرتب کیے ہیں۔ ممتاز شیریں کے تنقیدی مضامین ’’منٹو نوری نہ ناری‘ فسادات کے افسانوں پر مشتمل کتاب‘ ’’ظلمتِ نیم روز‘‘ اور’’ منٹو کا آدمی نامہ ‘ ‘ کے علاوہ دیگر متعدد کتب، ان کے اسی باب میں قابل رشک ادبی کارنامے ہیں[5]

تصانیف[ترمیم]

  1. اسم اعظم کی تلاش میں
  2. آتش فشاں پر کھلے گلاب
  3. چیزوں کی کہانیاں
  4. چیزیں اور لوگ
  5. عالم ایجاد
  6. میرے دن گذر رہے ہیں

وفات[ترمیم]

1 جون 2020ء کو کراچی میں فوت و دفن ہوئے۔[6]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. https://www.rekhta.org/authors/asif-farrukhi
  2. https://www.bbc.com/urdu/pakistan-52884076
  3. "آرکائیو کاپی"۔ 13 اگست 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 جون 2020 
  4. https://www.dawnnews.tv/news/1132985
  5. "آرکائیو کاپی"۔ 13 اگست 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 جون 2020 
  6. https://urdu.arynews.tv/