ابن ابی ذئب

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حضرت ابن ابی ذئبؒ
معلومات شخصیت
پیدائش محرم 80ھ
مدینہ منورہ
عملی زندگی
پیشہ محدث  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

حضرت ابن ابی ذئبؒ کا شمار تبع تابعین میں ہوتا ہے۔

نام ونسب[ترمیم]

ابو حارث کنیت اورنام محمد تھا [1] نسب کے اعتبار سے خاندانِ قریش سے تعلق رکھتے تھے [2] اسی بنا پر قریشی اورمدنی کہلاتے ہیں، ان کا نام اگرچہ محمد تھا،لیکن جدِ امجد کی نسبت سے ابن ابی ذئب کے نام سے مشہور ہوئے۔

ولادت اورنشو ونما[ترمیم]

محرم 80ھ میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اس سال مکہ میں بہت ہی ہولناک سیلاب آیا تھا،جن میں بڑی تعداد میں انسان وحیوان غرق آب ہو گئے،بیان کیا جاتا ہے کہ پانی کی سطح اس حد تک بلند ہو گئی تھی کہ کعبہ مقدسہ کے ڈوب جانے کا خطرہ ہو گیا تھا؛چونکہ یہ سیلاب ہرچیز کو بہالے گیا تھا،اس لیے اسے سیلِ حجاف کہتے ہیں اوراس سال کا نام عام حجاف پڑ گیا۔ [3] ابن ابی ذئب نے زندگی کی بیشتر بہاریں اپنے مولد مدینہ طیبہ ہی میں گزاریں،خوش قسمتی سے انھوں نے وہ مبارک زمانہ پایا جب تابعین عظام کی مسندِ علم و فضل آراستہ تھی اوران کے انوار کمال سے ایک عالم منور تھا،ابن ابی ذئب کو ایسے جلیل المرتبت تابعین سے اکتساب فیض کی سعادت حاصل ہوئی جن کی نظیر زمرۂ اتباعِ تابعین میں اگر نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔

حدیث[ترمیم]

انھوں نے بکثرت علما سے حدیث وفقہ کی تحصیل کی جن میں عکرمہ،نافع،عبد اللہ ابن سائب ابن یزید،عجلان،صالح،سعید المقبری،اسحاق بن یزید،جبیر بن ابی صالح عبد الرحمن ابن عطا محمد بن المکندر،شعبہ،محمد بن قیس وغیر ہم داخل ہیں۔[4] ابن ابی ذئب کو امام مالک کی ہم درسی کا شرف بھی حاصل تھا،ابنِ خلکان رقمطراز ہیں کہ:کانت بینھما الفۃ کبیدۃ ومودۃ صحیحۃ۔[5]ان دونوں (امام مالک اور ابن ابی ذئب) میں غایت درجہ مودت وانسیت تھی۔

فقہ[ترمیم]

حدیثِ رسولﷺ میں امتیاز کے ساتھ انھیں فقہ میں بھی خصوصی درک حاصل تھا،مدینہ اور کوفہ میں عرصہ تک افتاء کی خدمات بھی انجام دیتے رہے، بغدادی نے ان کے ورع وصلاح کے ساتھ،ان کے تفقہ کا بھی اعتراف کیاہے اور تصریح کی ہے کہ وہ اپنے شہر میں مفتی کے فرائض بھی انجام دیتے تھے [6] مصعب الزبیری اورابنِ حبان انھیں مدینہ کے فقہا اورعبادت گزاروں میں شمار کرتے تھے۔ [7]

تلامذہ[ترمیم]

درس وتحدیث کے لیے مدینہ سے باہر شاذ و نادر ہی گئے خطیب کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک بار ایام حج میں خلیفہ مہدی جب مدینہ گیا تو وہاں ابن ابی ذئب کے علم و فضل سے اتنا متاثر ہوا کہ انھیں اپنے ہمراہ بغداد لیتا آیا،جہاں انھوں نے کچھ عرصہ تک حدیث کا در س دیا[8] لیکن سفر سے اجتناب کے باوجود ان کے تلامذہ کا حلقہ بہت وسیع تھا۔ ان سے شرفِ تلمذ رکھنے والوں میں حسبِ ذیل ائمہ وفضلاء خاص طور سے قابلِ ذکر ہیں،سفیان ثوری،معمر،سعد بن ابراہیم،ولید بن مسلم،عبد اللہ بن مبارک ،حجاج بن محمد،شبابہ بن سوار، محمد بن اسماعیل بن ابی فدیک،یحییٰ بن سعید القطان،محمد بن ابراہیم بن دینار،محمد بن عمرالواقدی،عبد اللہ بن وہب،معن بن عیسیٰ،اسحاق بن محمد الفردی،آدم بن ابی ایاس،ابو عاصم،ابو نعیم[9]

فضل وکمال[ترمیم]

علمی اعتبار سے ابن ابی ذئب بلند اتباعِ تابعین میں تھے،انھوں نے کثیر التعداد تابعین سے استفادہ کیا تھا، اس لیے حدیث وفقہ میں کامل الفن بن کر نکلے،امام احمد سے دریافت کیا گیا کہ کیا اپنے ملک میں ابن ابی ذئب علم و فضل کے اعتبار سے کوئی ہمسر رکھتے تھے، فرمایا نہ صرف اپنے ملک میں ؛بلکہ دیگر ممالک میں بھی ان کی نظیر مفقود تھی[10]امام شافعیؒ بایں ہمہ جلالتِ شان اکثر بڑی حسرت کے ساتھ فرمایا کرتے تھے: مافاتنی احد فاسفت علیہ ما اسفت علی اللیث وابن ابی ذئب[11] مجھے کسی اورامام سے مستفید نہ ہونے کا اتنا افسوس نہیں جتنا اس بات کا رنج اورافسوس ہے کہ مجھے لیث بن سعد اورابن ابی ذئب سے کسب فیض کی سعادت نصیب نہ ہو سکی۔ حافظ ابن حجر نے امام احمد کا یہ قول بروایت ابی داؤد نقل کیا ہے کہ ابن ابی ذئب اپنے علم و فضل میں شہرہ آفاق تابعی سعید بن المسیب سے مشابہ تھے۔[12] بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بار امام مالک خلیفہ منصور کے پاس گئے تو اس نے دریافت کیا "مدینہ میں اس وقت کون کون اساتذہ علم وفن ہیں" فرمایا "امیر المومنین!وہاں ابن ابی ذئب ،ابن ابی سلمہ اورابن ابی سبرہ جیسے یکتا ئے روزگار شیوخ ہیں [13]امام احمد انھیں علم و فضل کے اعتبار سے امام مالک سے افضل قرار دیتے تھے،سوائے اس کے کہ امام مالک رجال کی تحقیق میں نسبتاً زیادہ سخت تھے۔ [14]

قوتِ حافظہ[ترمیم]

جمیع اتباع تابعین کے حالات زندگی پر نظر ڈالنے سے ایک چیز ان میں قدر مشترک کے طور پر نظرآتی ہے وہ ان کی غیر معمولی قوتِ حافظہ ہے،اس کا سبب دراصل طہارتِ اخلاق اور کبائر ومعاصی سے کلی اجتناب ہے،امامِ وکیع اپنے تلامذہ کو برابر اس کی تلقین فرمایا کرتے تھے کہ اگر قوتِ حافظہ بڑھانا ہو تو معاصی سے پرہیز کرو اورظاہر ہے کہ اتباعِ تابعین سے زیادہ پاک وصاف زندگی کس کی ہو سکتی ہے،اس لیے ان کے دوسرے مناقب کے ساتھ ذہانت وفطانت اور حفظ وضبط بھی ان کے صحیفہ کمال کے درخشاں ابواب ہیں۔ چنانچہ ابن ابی ذئب کو بھی مبداء فیض سے ذہانت وفطانت کا وافر حصہ نصیب ہوا تھا؛بلاشبہ ان کے علم و فضل میں مشاہیر شیوخ کے فیضِ صحبت کے ساتھ ان کی طبعی ذہانت اورفطری استعداد کو بھی بڑا دخل تھا،خود ان کے بھائی کا بیان ہے کہ ان کے پاس کتاب نہیں تھی وہ حدیث یاد کر لیا کرتے تھے [15]واقدی نے بھی یہی لکھا ہے کہ: وکان یحفظ حدیثہ لم یکن لہ کتاب ولا شے ینظرفیہ[16] وہ اس طرح حدیث یاد کرتے تھے کہ نہ تو ان کے پاس کوئی کتاب ہوتی اورنہ کوئی اورہی چیز جس میں دیکھ سکیں۔

ثقاہت وعدالت[ترمیم]

ابن ابی ذئب کی ثقاہت وعدالت پر ائمہ اورماہرین فن متفق ہیں، ابن حبان نے کتاب الثقات میں نمایاں طور پر ان کا ذکر کیا ہے، علامہ ذہبی لکھتے ہیں: احد الاعلام الثقات متفق علیٰ عدالتہ[17] وہ ثقۃ کبار ائمہ میں سے تھے، ان کی عدالت پر اتفاق ہے۔ امام نسائی،یعقوب بن شیبہ اورامام احمد نے بتصریح ان کی توثیق کی ہے،یحییٰ بن معین کا قول ہے: ابن ابی ذئب مدنی ثقۃ[18] ابن ابی ذئب مدنی ثقۃ ہیں۔ ابوجابر بیاضی کے علاوہ ابن ابی ذئب کے تمام شیوخ بھی ثقۃ اورصدوق تھے،بیاضی کی عدالت میں کلام کیا گیا ہے؛چنانچہ احمد بن صالح اوریحییٰ بن معین کا بیان ہے کہ : شیوخ ابن ابی ذئب کلھم ثقات الاباجابر البیاضی[19] ابن ابی ذئب کے شیوخ ثقہ ہیں،صرف ابو جابر بیاضی کے بارے میں کلام ہے۔ ان کی ثقاہت کا ایک اورثبوت یہ بھی ہے کہ امام بخاری اورمسلم نے صحیحین میں ان کی روایت نقل کی ہے۔[20]

قدری ہونے کا الزام[ترمیم]

بعض لوگ ان پر قدری ہونے کا الزام بھی عائد کرتے ہیں،فرقہ قدریہ کا عقیدہ یہ تھا کہ انسان تمام کام اپنے ارادہ واختیار سے کرتا ہے،خدا کے ارادہ کو ا س میں کوئی دخل نہیں ہوتا،لیکن مورخین نے اس کی پر زور تردید کی ہے۔ [21] اس میں الزام کی حقیقت پر سب سے زیادہ وضاحت سے واقدی نے روشنی ڈالی ہے وہ رقمطراز ہے: ما كان قدرياً لقد كان ينفى قولهم ويعيبه ولكنه كان رجلاً كريماً يجلس إليه كل أحد ويغشاه فلا يطرده ولا يقول له شيئاً وإن هو مرض عاده فكانوا يتهمونه بالقدر لهذا وشبه[22] وہ قدری نہیں تھے ؛بلکہ وہ تو اہل قدر کو اور ان کی باتوں کو ناپسند کرتے تھے، بات یہ ہے کہ وہ شریف انسان تھے،ہر قسم کے اشخاص ان کے پاس بیٹھتے اورجمع ہوجاتے وہ فرطِ شرافت میں اس کو کچھ بھی نہیں کہتے ؛بلکہ اگر وہ بیمار ہوجاتا تو اس کی عیادت کو بھی جاتے اسی بنا پر لوگ ان پر قدری ہونے کا الزام لگانے لگے۔ ایک دفعہ احمد بن علی الابار نے شیخ وقت مصعب الزبیری سے دریافت کیا کہ کچھ لوگ ابن ابی ذئب پر قدری ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں،اس کی حقیقت کیا ہے؟فرمایا خدا کی پناہ اس الزام کے تار وپود صرف اس واقعہ سے تیار کیے گئے ہیں کہ خلیفہ مہدی کے زمانہ میں کچھ اہل قدر (فرقہ قدریہ کے لوگ)مدینہ آئے،کچھ مقامی لوگوں نے پکڑ کر انھیں مارنا شروع کر دیا، اسی دوران مضروبین میں سے کچھ لوگ بھاگ کر ابن ابی ذئب کے پاس جا بیٹھے تاکہ مار سے محفوظ رہیں،بس کل اتنی سی بات تھی جس میں افسانہ کی رنگ آمیز کرکے کہا گیا کہ وہ لوگ ابن ابی ذئب کے پاس اس لیے بیٹھے کہ وہ عقیدہ قدر کے قائل تھے [23] اس کے بعد مصعب الزہری کہتے ہیں مجھے معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اگرچہ قدر ین مار کے ڈر سے ابن ابی ذئب کی پناہ میں جاکر بیٹھ گئے،تاہم شیخ نے ان سے گفتگو بالکل نہیں کی۔ [24]

ائمہ کا اعتراف[ترمیم]

بیشتر علما وائمہ نے ابن ابی ذئب کے گوناگوں کمالات کو خراج تحسین پیش کیا ہے،امام شافعی کا یہ پُر حسرت قول اُوپر گذرچکا کہ مجھے زندگی بھر اس کا غم رہے گا کہ ابن ابی ذئب سے استفادہ نہ کرسکا،امام احمد سے دریافت کیا گیا کہ آپ ابن عجلان اورابن ابی ذئب میں سے کس کو زیادہ پسند کرتے ہیں؟ فرمایا "دونوں ہی ثقہ ہیں" حماد بن ابی خالد کا بیان ہے کہ خصائل وکمالات میں ابن ابی ذئب اپنے زمانہ کے سعید بن المسیب تھے وہ ثقہ،صدوق اورصالح تھے۔

حق گوئی اور بے باکی[ترمیم]

ابن ابی ذئب کے صحیفہ کمال کا سب سے درخشاں باب جو انھیں بہت سے دوسرے ائمہ سے ممتاز کرتا ہے ان کی جرأت حق گوئی اوربیباکی ہے انھوں نے حق بات کہنے میں کبھی بھی اُمراء اوراعیان سلطنت کا لحاظ نہیں کیا۔ اس معاملہ میں وہ بسا اوقات اتنی شدت سے کام لیتے تھے کہ ان کے عقید تمندوں کو تشویش پیدا ہوجاتی تھی،مگر انھوں نے اس آئینِ جوانمردی میں کبھی فرق نہیں آنے دیا ان کی اس خصوصیت کا ذکر تمام ائمہ محققین نے کیا ہے ؛چنانچہ ابن حبا ن لکھتے ہیں: کان من اقول اھل زمانہ للحق اپنے زمانہ میں وہ سب سے بڑے حق گو تھے۔ واقدی کا بیان ہے، وہ مردِ حق گو تھے [25] امام احمد کا قول ہے: ابن ابی ذئب اقوم بالحق من مالک عند السلاطین[26] ابن ابی ذئب سلاطین کے سامنے امام مالک سے کہیں زیادہ حق گو ثابت ہوتے تھے۔ ان کی جرأت وبے باکی کے متعدد واقعات ملتے ہیں،جن میں سے نمونہ کے طور پر دو ایک یہاں ذکر کیے جاتے ہیں: محمد بن القاسم بن خلاد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ زمانہ حج میں خلیفہ مہدی مسجد نبوی (علیٰ صاحبہ الف الف تحیۃ وسلام)میں داخل ہوا تو تمام حاضرین نے دو رویہ کھڑے ہوکر اس کا استقبال کیا، اتفاق سے ابن ابی ذئب بھی وہاں موجود تھے مگر وہ حسب سابق بیٹھے رہے،مسیب بن زہیر نے جب ان سے کہا کھڑے ہوجائیے،امیر المومنین آئے ہیں تو بڑے پرسکون اورطمانیت کے ساتھ فرمایا: انما یقوم الناس لرب العالمین صرف پروردگارِ عالم کے لیے لوگ کھڑے ہوتے ہیں۔ شاہانہ تمکنت کے خلاف یہ جواب سُن کر مقربین کی پیشانیاں شکن آلود ہوگئیں،لیکن صورتِ حال کی نزاکت کا خیال کرکے فوراً ہی مہدی نے کہا چھوڑ وچھوڑجانے دو ۔ [27] اس طرح کا ایک دوسرا واقعہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ خلیفہ ابو جعفر منصور کے پاس جا کر بہت سخت الفاظ میں ظلم وجور سے باز رہنے کی تلقین کرنے لگے، منصورنے سب کچھ سُن لینے کے بعد گردن جھکالی اورپھر محمد بن ابراہیم سے کہا کہ ھنا الشیخ خیر اھل الحجاز [28] ایک مرتبہ خلیفہ منصور نے اُن سے پوچھا کہ میرے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے پہلے تو کچھ کہنے سے انکار کرتے رہے،پھر جب اس نے قسم دلا کر پوچھا تو فرمایا: اللھم لا اعلمک الا ظالماً وجائزاً بخدا میں تجھے محض ظالم اورجابر خیال کرتا ہوں

عسرت[ترمیم]

ابن ابی ذئب نے پوری زندگی نہایت تنگدستی اورعسرت کے عالم میں گذاردی،اعیانِ سلطنت ہزاروں دینار دینا چاہتے تھے،مگر ان کی شانِ استغناء اسے قبول نہ کرنے دیتی،آخر عمر میں بصد اصرار ایک ہزار دینار اس شرط پر قبول کیے کہ انھیں اپنے استعمال میں نہ لائیں گے ؛بلکہ مستحقین میں تقسیم کر دیں گے۔ یحییٰ بن سعید بیان کرتے ہیں کہ ابن ابی ذئب تنگدست تھے، واقدی بھی ان کی مالی حالت حد درجہ سقیم بتاتے ہیں،صرف روغن زیتون اورروٹی ان کی مستقل خوراک تھی،ان کے پاس صرف ایک چادر اورایک کرتا تھا،جاڑے اورگرمی دونوں میں اسی کو استعمال کرتے تھے۔ [29]

عبادت وریاضت[ترمیم]

وہ اپنے زمانہ کے بہت عابد اورصاحب تقویٰ بزرگ تھے ہر وقت خشیت الہیٰ سے لرزاں رہتے،تمام رات نماز پڑھتے رہتے تھے،ابن سعد کا بیان ہے ابن ابی ذئب کی کثرتِ عبادت کا یہ عالم تھا کہ اگر ان سے کہہ دیا جاتا کہ کل قیامت ہوگی تو اس کے لیے انھیں کسی تیاری کی ضرورت نہ تھی [30] بغدادی نے ان کے بھائی کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ ابن ابی ذئب نے ایک زمانہ تک صوم داؤدی کو معمول بنائے رکھا،ایک روز روزہ رکھتے اورایک روز ناغہ کرتے ،پھر آخر عمر میں مسلسل روزہ رکھنے لگے۔ [31]

ورع وتقویٰ[ترمیم]

اس کے ساتھ وہ تقویٰ اورپرہیز گاری کا بھی بہترین نمونہ تھے،ابنِ سعد نے لکھا ہے کہ کان من اورع الناس وافضلھم[32] وہ لوگوں میں سب سے زیادہ متقی اور افضل تھے۔

وفات[ترمیم]

رحلت سے چند سال قبل خلیفہ مہدی انھیں اپنے ہمراہ مدینہ سے بغداد لے آیا تھا،جہاں وہ کچھ عرصہ تک حدیث کا درس دیتے رہے اور 158 ھ میں وفات ہو گئی، کوفہ ہی میں تدفین عمل میں آئی، اس وقت 79 سال تھی [33]یہ ابن ابی فدیک کی روایت ہے لیکن ابو نعیم کا بیان ہے کہ 159 ھ میں وفات پائی [34]ابن عماد حنبلی اور یافعی وغیرہ نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے۔ [35]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (تاریخ بغداد:2/297)
  2. (تاریخ ابن خلکان:2/227)
  3. (البدایہ والنہایہ لابن کثیر :9/31)
  4. (تہذیب التہذیب:9/304،تاریخ بغداد:2/296،وتذکرۃ الحفاظ:1/172)
  5. (ابن خلکان :2/227)
  6. (تاریخ بغداد:2/305)
  7. (تہذیب التہذیب:2/206)
  8. (تاریخ بغداد:2/296)
  9. (تہذیب التہذیب:9/34)
  10. (تذکرۃ الحفاظ:1/172)
  11. (تاریخ بغداد:2/301)
  12. (تہذیب التہذیب:9/304)
  13. (وفیات الاعیان :2/227)
  14. (تذکرۃ الحفاظ:1/172)
  15. (شذرات الذہب:1/345)
  16. (تاریخ بغداد:2/303)
  17. (میزان الاعتدال:1/90)
  18. (تاریخ بغداد:2/303)
  19. (تہذیب التہذیب:9/305)
  20. (خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال)
  21. (میزان الاعتدال:1/90)
  22. (تاریخ بغداد:2/301)
  23. (تہذیب التہذیب:9/305)
  24. (تاریخ بغداد:2/301)
  25. (تہذیب التہذیب:9/306)
  26. (خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال)
  27. (تاریخ بغداد:2/227)
  28. (مراۃ الجنان :1/340)
  29. (تاریخ بغداد:2/304)
  30. (مراۃ الجنان:1/340،وشذرات الذہب:1/345)
  31. (تاریخ بغداد:2/301)
  32. (تہذیب التہذیب:9/305)
  33. (تاریخ بغداد:2/305)
  34. (تہذیب التہذیب:9/304)
  35. (شذرات الذہب :1/345 ومراۃ الجنان :1/340)