ابو اسحاق ابراہیم الفزاری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حضرت ابو اسحاق ابراہیم الفزاریؒ
(عربی میں: إبراهيم بن محمد بن الحارث بن أسماء بن خارجة الفزاري)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائش 8ویں صدی  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کوفہ[1]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات سنہ 804ء (3–4 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ مورخ،  عالم[1]،  محدث[1]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام ونسب[ترمیم]

ابراہیم نام،ابو اسحاق کنیت،مکمل شجرۂ نسب یہ ہے،ابراہیم بن محمد بن ابی حصن الحارث بن اسماء بن خارجہ بن حصن بن حذیفہ بن بدر [2]نام کی بجائے کنیت ہی سے زیادہ مشہور ہیں،قبیلہ بنو فزارہ سے نسبت ولاء رکھنے کی وجہ سے فزاری کہلائے۔ [3] مات ابو اسحاق الفزاری وما علیٰ وجہ الارض افضل منہ [4] ابو اسحاق الفزاری نے وفات پائی تو پورے روئے زمین پر ان سے بڑا فاضل کوئی نہ تھا۔ حافظ ابن کثیر رقمطراز ہیں: ابو اسحاق الفزاری امام اھل الشام بعد الاوزاعی فی المغازی والعلم والعبادۃ [5] امام اوزاعی کے بعد شام میں ابو اسحاق الفزاری مغازی،علم اور عبادت میں درجۂ امامت رکھتے تھے۔ علامہ ابن عساکر دمشقی ؒ لکھتے ہیں: احد ائمۃ المسلمین واعلام الدین [6]

شیوخ وتلامذہ[ترمیم]

جن اساطین علم سے انھوں نے فیض حاصل کیا ان میں امام اعمش،ہشام بن عروہ،ابواسحاق السبیعی،حمید الطویل ،موسیٰ بن عقبہ،یحییٰ بن سعید،مالک بن انس،شعبہ،سفیان ثوری،عطاء بن السائب اور عبید اللہ بن عمر کے اسماء لائق ذکر ہیں۔ اور اسی طرح معاویہ بن عمر،زکریا بن عدی،عبد اللہ بن مبارک،محمد بن کثیر،مسیب بن واضح،محمد بن سلام،عبد اللہ بن عون،محمد بن عبید الرحمن اور علی بن بکاران کے نامور تلامذہ میں ہیں۔

حدیث[ترمیم]

یوں تو وہ جملہ اسلامی علوم میں کمال رکھتے تھے؛ لیکن حدیث نبوی ان کا خاص موضوع تھا،اسانید اوراسماء الرجال کی معرفت میں ان کی نظیر بہت کم ملتی ہے،ایک مرتبہ خلیفۂ وقت ہارون الرشید نے ایک بددین کے قتل کیے جانے کا حکم دیا، اس نے کہا اے امیر المومنین آخر آپ میرے قتل کا حکم کیوں دیتے ہیں،ہارون نے جواب دیا،اللہ کے بندوں کو تیرے فتنے سے بچانے کے لیے، اس پر وہ زندیق بولا،آپ مجھے قتل کرکے کیا کریں گے میں نے جو چار ہزار روایات وضع کرکے عوام میں پھیلادی ہیں،ان کا آپ کے پاس کیا علاج ہے؟ ہارون نے فوراً کہا: این انت یا عدواللہ من ابی اسحاق وعبداللہ ابن مبارک یخلافھا فیخرجا نھا حرفاً حرفاً[7] اے دشمنِ خدا تو ہے کس خیال میں !ابو اسحاق الفزاری اورعبداللہ بن مبارک ان تمام جعلی حدیثوں کو چھلنی میں چھانیں گے اوران کا ایک ایک حرف نکال باہر کریں گے۔ امام جرح و تعدیل عبد الرحمن بن مہدی فرماتے ہیں کہ ہر عالم کسی نہ کسی فن میں درجہ امتیاز رکھتا ہے؛چنانچہ میں نے بصرہ میں حماد بن زید، کوفہ میں زائدہ ومالک بن مغول،حجاز میں مالک بن انس،اورشام میں ابو اسحاق الفزاری واوزاعی سے بڑا حدیث کا نکتہ شناس کسی کو نہیں دیکھا،اگر کوئی راوی ان سے حدیث بیان کرے تو بلا ریب وشک وہ قابل اطمینان ہے؛کیونکہ یہ لوگ سنت کے امام ہیں۔[8]

فقہ[ترمیم]

حدیث کے ساتھ فقہ میں بھی کمال حاصل تھا،علی بن بکار کہتے ہیں کہ میں جن ائمہ علم وفن سے مل سکا ہوں ان میں ابو اسحاق الفزاری سے بڑا فقیہ میری نظر سے نہیں گذرا، [9] عجلی کابیان ہے کہ وہ کثرت حدیث کے ساتھ صاحب فقہ بھی تھے۔ [10]

جرح و تعدیل[ترمیم]

اکثر علما نے ان کی ثقاہت وعدالت کو تسلیم کیا ہے، عجلی بیان کرتے ہیں کہ وہ ثقہ، فاضل اورصاحبِ سنت تھے [11] امام نسائی اور ابو حاتم انھیں امام معتبر قرار دیتے ہیں [12]علاوہ ازیں یحییٰ بن معین اورابنِ حبان وغیرہ نے بھی ان کی توثیق کی ہے [13]امام اوزاعی ان کے شیوخ میں شامل ہیں،لیکن اس کے باوجود ان سے روایت کرتے ہیں،جب ان سے پوچھا جاتا کہ آپ سے یہ روایت کس نے بیان کی ہے تو فرماتے: حدثنی الصادق المصدوق ابو اسحان الفزاری [14] مجھ سے صادق اورمصدوق،ابو اسحاق الفزاری نے یہ حدیث روایت کی ہے۔

سرحد شام کی پاسبانی[ترمیم]

مصیصہ شام کا ایک نہایت خوبصورت شہر ہے جس کی حفاظت ونگرانی کے فرائض علما اسلام کی ایک بڑی جماعت نے انجام دئے ہیں،ابو اسحاق الفزاری بھی اس شرف سے بہرہ ور ہوئے تھے، انھوں نے وہاں نہ صرف اپنے ایک لائق محافظ ہونے کا ثبوت دیا ؛بلکہ اس سرحدی علاقہ کو قال اللہ وقال الرسول کے سرمدی نغموں سے بھی معمور کر دیا،عجلی کا بیان ہے کہ ھوالذی ادب التضر و علمھم بالسنۃ [15] ان ہی نے سرحدی لوگوں کو با ادب بنایا اورانہیں حدیث کی تعلیم دی۔

پاکیز گی عقائد[ترمیم]

عقائد کے بارے میں وہ نہایت متشدد تھے؛چونکہ خود ان کا آئینہ قلب شفاف تھا، اس لیے وہ اسی کا پرتو دوسروں میں بھی دیکھنے کے متمنی رہا کرتے تھے،اہل بدعت سے ملنا تک گوارا نہ فرماتے،ابو مسہر بیان کرتے ہیں کہ ابو اسحاق الفزاری ومشق میں آ ئے تو تشنگان علم گروہ درگروہ ان سے سماع حاصل کرنے کے لیے ٹوٹ پڑے،شیخ نے مجھ سے فرمایا کہ ان لوگوں سے کہہ دو کہ جو شخص قدریہ کے عقائد رکھتا ہو وہ ہماری مجلس میں نہ آئے، جو فلاں فلاں غلط عقائد کا حامل ہو وہ بھی ہماری مجلس میں شریک نہ ہوا، اسی طرح جو شخص حکمرانِ وقت کے یہاں آمد رفت رکھتا ہو وہ ہمارے پاس نہ آئے، راوی کا بیان ہے کہ میں نے حسب الحکم یہ بات لوگوں کے گوش گزار کردی۔[16] مصیصہ ہی کے دورانِ قیام میں ایک دن امام فزاری کو خبر ملی کہ فرقہ قدریہ کا کوئی شخص ان سے ملاقات کا خواہاں ہے،امام صاحب نے کہلا بھیجا کہ وہ فوراً یہاں سے چلا جائے[17] عقائد کے بارے میں ان کی شدت کا اندازہ اس سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ جب انھیں علم ہوتا کہ سرحد میں کوئی بدعتی شخص داخل ہوا ہے فوراً اسے شہر بدرکرادیتے۔[18]

امر بالمعروف ونہی عن المنکر[ترمیم]

دوسرے علما سلف کی طرح امر بالمعروف ونہی عن المنکر ان کا خاص شیوہ تھا اور اس میں وہ کسی کو خاطر میں نہ لاتے تھے،اس تبلیغ ودعوت کے اثر سے اس وقت شہر مصیصہ میں شعائرِ اسلام کا بہت رواج ہو گیا تھا۔

استغناء[ترمیم]

امام فزاری کے پاس اگرچہ مال و دولت کی بڑی فراوانی تھی،لیکن ان کی بے نیازی کا یہ عالم تھا کہ اس میں سے اپنی ذات پر کبھی ایک حبہ بھی صرف نہیں کیا،جو کچھ ملتا وہ یا تو معذور اوراپاہج لوگوں میں تقسیم کردیتے یا اہل طرطوس پر خرچ کردیتے، ایک مرتبہ خلیفہ ہارون الرشید نے ان کو تین ہزار دینار دیے، فرمایا میں اس سے مستغنی ہوں اورکل رقم فوراً ہی خیرات کردی۔ [19]

بشارت[ترمیم]

حضرت فضیل بن عیاض بیان کرتے ہیں کہ ایک شب مجھے عالم ر ویا میں رسول اکرم ﷺ کی زیارت نصیب ہوئی میں نے آپ ﷺکے پہلو میں کافی جگہ دیکھی اور وہاں بیٹھنے کے ارادہ سے آگے بڑھا، رسول اللہ ﷺنے مجھے روک کر ارشاد فرمایا :ھذا مجلس الفزاری [20]یہ ابو اسحاق الفزاری کی نشست گاہ ہے۔

وفات[ترمیم]

185ھ 186ھ یا 188 ھ میں بمقام مصیصہ رحلت فرمائی،علامہ یاقوت حموی نے مؤخرالذکر سالِ وفات کو اصح قرار دیا ہے،لیکن اکثر روایات سے 185ھ کی تائید ہوتی ہے [21]اس وقت ہارون الرشید کی خلافت کا زمانہ تھا،بیان کیا جاتا ہے کہ ان کی وفات کی خبر سُن کر یہوو ونصاریٰ تک فرط رنج والم سے اپنے سروں پر خاک اڑانے لگے،عطا کو جب ان کے انتقال کی اطلاع ملی تو روپڑے اور فرمایا: ما دخل اھل الاسلام من موت احد مادخل علیھم من موت ابی اسحاق [22] ابو اسحاق الفزاری کی موت سے مسلمانوں کے دلوں پر جو کچھ گزرگئی وہ کسی اور کے مرنے سے نہیں گذری۔

تصنیف[ترمیم]

تدریس حدیث کے ساتھ وہ صاحبِ تصنیف بھی تھے،ابن ندیم نے فہرست میں ان کی تصنیف کتاب السیر فی الاخبار والاحداث کا ذکر کیا ہے [23] اس کتاب کے متعلق حمیدی امام شافعی کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ اس کے قبل سیرت میں کسی نے کتاب تصنیف نہیں کی،ابن ندیم نے یہ بھی لکھا ہے کہ ابو اسحاق الفرازی اسلام کی پہلی شخصیت ہیں جنھوں نے آلہ فلکی ایجاد کیا،اس فن میں ان کی تصنیف بھی ہے۔ [24]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ ت مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://archive.org/details/ZIR2002ARAR — مصنف: خیر الدین زرکلی — عنوان : الأعلام —  : اشاعت 15 — جلد: 1 — صفحہ: 59
  2. (تہذیب التہذیب:1/151،وطبقات ابن سعد:7/185)
  3. (اللباب فی تہذیب الانساب :2/213)
  4. (شذرات الذہب:1/130)
  5. (البدایہ والنہایہ:10/186)
  6. (التاریخ الکبیر:2/252)
  7. (معجم الادباء:1/285،وکتاب الموضوعات ملا علی قاری:13)
  8. (التاریخ الکبیر:2/254)
  9. (تذکرۃ الحفاظ:1/249)
  10. (تہذیب التہذیب:1/152)
  11. (طبقات ابن سعد:7/185)
  12. (تہذیب التہذیب:1152)
  13. (تہذیب التہذیب:1/153)
  14. (تہذیب التہذیب:1/153)
  15. (شذرات الذہب:1/ )
  16. (تذکرۃ الحفاظ:1/248)
  17. (التاریخ الکبیر:2/255)
  18. (معجم الادباء:1/284)
  19. (ایضاً:1/286)
  20. (تذکرۃ الحفاظ:1/248)
  21. (طبقاتِ ابن سعد:7/185، شذرات الذہب:1/307)
  22. (تاریخ ابن عساکر:2/255)
  23. (فہرست ابن ندیم:135)
  24. (الفہرست بحوالہ تہذیب التہذیب:1/152)