ابو الکلام قاسمی شمسی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مولانا، ڈاکٹر
ابو الکلام قاسمی شمسی
معلومات شخصیت
پیدائش (1951-10-25) 25 اکتوبر 1951 (عمر 72 برس)
موضع دوگھرا، جالے، ضلع دربھنگہ، بہار، بھارت
قومیت  بھارت
مذہب اسلام
اولاد محمد کلیم اختر، محمد جسیم اختر (فرزندان)
طلعت ناہید، فرحت ناہید، نصرت ناہید (دختران)
عملی زندگی
مادر علمی مدرسہ قاسم العلوم حسینیہ، دوگھرا، ضلع دربھنگہ
بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ
بہار سکنڈری ایگزامنیشن بورڈ
مگدھ یونیورسٹی، بودھ گیا
بہار یونیورسٹی، مظفر پور
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
نالندہ اوپن یونیورسٹی
پیشہ عالم ،  مصنف ،  مورخ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں تذکرہ علمائے بہار، تحریک آزادی میں علمائے کرام کا حصہ، بہار کی اردو شاعری میں علما کا حصہ، تسہیل القرآن
تحریک دیوبندی
اعزازات
  • بہار ریاستی گانگریس کمیٹی اعزاز (1994ء)
  • بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ، پٹنہ اعزاز (1997ء)
  • نیشنل ایوارڈ فار ٹیچرس (1999ء)
  • بہار اردو اکادمی اعزاز برائے تصنیف تذکرہ علمائے بہار (2006ء)
  • حسن عسکری اعزاز، بہار اردو اکادمی (2014ء)

ابو الکلام قاسمی شمسی (پیدائش: 25 اکتوبر 1951ء) ایک ہندوستانی عالم، مصنف، مؤرخ، تذکرہ نگار، مقالہ نگار اور مترجم قرآن ہیں۔ تقریباً تیرہ سال تک مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ کے پرنسپل رہ چکے ہیں۔ تذکرہ علمائے بہار، تحریک آزادی میں علمائے کرام کا حصہ، بہار کی اردو شاعری میں علما کا حصہ اور تسہیل القرآن جیسی کتابیں ان کی تصانیف میں شامل ہیں۔

ابتدائی و تعلیمی زندگی[ترمیم]

ابو الکلام بن عبد الستار قاسمی شمسی 25 اکتوبر 1951ء کو دوگھرا، جالے، ضلع دربھنگہ، بہار میں پیدا ہوئے۔[1][2] ابتدائی عربی و فارسی تک کی تعلیم مدرسہ قاسم العلوم حسینیہ، دوگھرا، ضلع دربھنگہ میں ہوئی، وہاں کے اساتذہ میں عبد الحمید قاسمی نیپالی شامل ہیں۔[1]

شمسی نے بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے 1963ء میں وسطانیہ، 1965ء میں فوقانیہ، 1967ء میں مولوی، 1969ء میں عالم، 1971ء میں فاضل (فارسی)، 1982ء میں فاضل (اردو)، 1976ء میں فاضل (حدیث) اور 1972ء میں فاضل (عربی ادب) کے امتحانات فرسٹ ڈویژن کے ساتھ پاس کیے۔ 1970ء میں بہار سکنڈری ایگزامنیشن بورڈ سے میٹرک (پرائیویٹ) اور 1977ء میں مگدھ یونیورسٹی، بودھ گیا سے انٹرمیڈیٹ کے امتحانات فرسٹ ڈویژن سے پاس کیے۔[1]

1981ء میں بہار یونیورسٹی، مظفر پور سے اردو آنرس، 1988ء میں وہیں سے ایم اے اردو اور 1994ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے (عربی) کیا۔[1] 1974ء میں بہار ایگزامنیشن بورڈ، پٹنہ سے ٹیچر ٹریننگ کا امتحان بھی فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا اور 2015ء میں انھوں نے نالندہ اوپن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی۔[3]

تدریسی زندگی[ترمیم]

شمسی 1971ء سے 1972ء تک مدرسہ اسلامیہ رامپور، سیتامڑھی میں مدرس رہے، پھر مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ میں تقرر ہوا اور 1976ء سے 1981ء تک جونئیر سیکشن کے استاذ اور 1981ء سے 1996ء تک سینیئر سیکشن کے استاذ رہے، نیز 1997ء میں اسی طرح 1999ء سے اکتوبر 2011ء تک مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ کے پرنسپل رہ کر سبکدوش ہوئے۔[3]

اعزازات و مناصب[ترمیم]

اعزازات[ترمیم]

شمسی کو ان کی تعلیمی خدمات کے لیے 1995ء میں بہار ریاستی گانگریس کمیٹی اور 1997ء میں بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ، پٹنہ کی جانب سے اعزاز سے نوازا گیا۔ 1999ء میں قومی اعزاز برائے اساتذہ سے نوازے گئے۔ بہار اردو اکادمی، پٹنہ کی طرف سے 2006ء میں ’’تذکرہ علمائے بہار‘‘ کی تصنیف پر، نیز 2014ء میں حسن عسکری ایوارڈ سے نوازے گئے۔[4]

مناصب[ترمیم]

شمسی 1997ء سے 2011ء تک بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ، پٹنہ کے رکن رہے۔ بہار اردو مشاورتی کمیٹی پٹنہ اور گورنمنٹ اردو لائبریری پٹنہ کے رکن رہ چکے ہیں۔ نیز سوشل ایسوسی ایشن فار ایجوکیشنل اینڈ ڈویلپمنٹ، پٹنہ اور اسلامک پیس فاؤنڈیشن آف انڈیا کے چیئرمین، امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ کے رکنِ مجلسِ شوریٰ اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے مدعو خصوصی ہیں۔[5]

تاثرات[ترمیم]

مصنفِ تاریخ اردو ادب وہاب اشرفی لکھتے ہیں‌ کہ ابو الکلام قاسمی کا اسلوب رواں اور شگفتہ ہے۔ انتہائی جاذبیت اور اختصار سے وہ موضوعات کو سمیٹ لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔[6]

ثناء الہدیٰ قاسمی لکھتے ہیں کہ ’’ابو الکلام قاسمی؛ قاسمی اور شمسی دونوں ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ قدیم صالح اور جدید نافع کے جامع ہیں، سیر و تواریخ ان کا پسندیدہ موضوع اور مدارس کے احوال و کوائف، اس کے عروج و زوال کی داستان، نصاب تعلیم اور نظام مدارس ان کے فکر کا محور رہا ہے۔ سرکاری بندشوں کے باوجود ان کا قلم حق کی ترویج میں لگا رہا ہے۔ یہ اپنے آپ میں بڑی بات ہے۔‘‘[7][8]

قلمی خدمات[ترمیم]

شمسی نے دو جلدوں میں تذکرہ علمائے بہار لکھ کر بہت بڑا تاریخی فریضہ و کارنامہ انجام دیا ہے، جس میں 783 شخصیات کا تذکرہ شامل ہے۔[9] نیز تسہیل القرآن کے نام سے اردو ترجمۂ قرآن مع مختصر تفسیر لکھ کر قرآنی خدمت انجام دی ہے۔[10] شمسی کی تصانیف میں مندرجۂ ذیل کتابیں شامل ہیں:[11]

عربی تصانیف
  • الترجمة العربية (1989ء)
  • تسهيل النحو (1989ء)
  • القراءة الجديدة (1990ء؛ پانچ حصے)
اردو تصانیف
  • مکالمہ سنت و بدعت (1974ء)
  • تفسیر سورہ فاتحہ (1974ء)
  • حضرت اویس قرنی (1975ء)
  • ہماری نمازیں (1975ء)
  • جدید اردو قواعد (حصہ دوم؛ 1985ء، حصہ سوم؛ 1986ء)
  • ہمارا دین (1986ء)
  • تذکرہ علمائے بہار (1994ء؛ جلد اول، 2006ء؛ جلد دوم)
  • تین ہفتے امریکا میں (2004ء؛ سفرنامہ)
  • قدیم اردو زبان کی تاریخ (2010ء؛ نالندہ اوپن یونیورسٹی کے نصاب میں شامل)
  • اسلامک اسٹڈیز (ہندی - 2010ء؛ نالندہ اوپن یونیورسٹی کے نصاب میں شامل)
  • مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ سے مولانا مظہر الحق عربی و فارسی یونیورسٹی تک (2011ء)
  • تحریک آزادی میں علمائے کرام کا حصہ (2013ء)
  • تسہیل القرآن – آسان ترجمۂ قرآن (2021ء)
  • بہار کی اردو شاعری میں علمائے کرام کا حصہ (2022ء)[12]
  • تفسیر تسہیل القرآن (زیر طبع)

حوالہ جات[ترمیم]

مآخذ[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ ت ندوی 2020, p. 60.
  2. عبد المنان طرزی (2020ء)۔ "ابو الکلام قاسمی شمسی (مولانا)"۔ دیدہ ورانِ بہار (دوسرا ایڈیشن)۔ دریا گنج، نئی دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس۔ صفحہ: 31 
  3. ^ ا ب ندوی 2020, p. 270.
  4. ندوی 2020, p. 271.
  5. ندوی 2020, p. 271-272.
  6. وہاب اشرفی (2007)۔ "مولانا ابو الکلام قاسمی شمسی"۔ تاریخ ادب اردو (جلد دوم)۔ دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس۔ صفحہ: 1140-1141 
  7. ندوی 2020, p. 12.
  8. نور السلام ندوی (15 جنوری 2021ء)۔ "مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی: نقوش و تاثرات"۔ baseeratonline.com۔ بصیرت آن لائن۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 دسمبر 2022 ء 
  9. ندوی 2020, p. 10.
  10. محمد عالم قاسمی (28 جون 2021ء)۔ "ڈاکٹر مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی تسہیل القرآن کے حوالے سے"۔ qindeelonline.com۔ قندیل آن لائن۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 دسمبر 2022 ء 
  11. ندوی 2020, p. 270-271.
  12. "علماء کے کارنامے ناقابل فراموش"۔ tasdeeque.com۔ روزنامہ تصدیق، پٹنہ۔ 29 مئی 2022ء۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 دسمبر 2022 ء 

کتابیات[ترمیم]