ابو سلیمان دارانی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(ابو سلیمان الدارانی سے رجوع مکرر)
أبو سليمان الداراني
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش سنہ 757ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات سنہ 820ء (62–63 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش من دمشق
مذہب أهل السنة
عملی زندگی
دور 140 هـ - 215 هـ
مؤثر سفيان الثوري
متاثر أحمد بن أبي الحواري

اتباع تابعین کے زمرہ میں جہاں اقلیم علم وفن کے بہت سے تاجدار شامل تھے۔ وہیں بکثرت ایسے صاحبِ کمال بزرگ بھی تھے جو علمی اعتبار سے خواہ زیادہ بلند مرتبہ نہ ہوں، لیکن ز ہد واتقا، رشد وہدایت اور بلند روحانی مدارج میں غیر معمولی حیثیت کے مالک تھے،عملِ صالح ان کی شخصیت کا زیور اور عبادت وریاضت ان کا طغرائے امتیاز تھا،ابو سلیمان الدارانی کا شمار ایسے ہی صلحائے امت میں کیا جاتا ہے۔وہ یقیناً علم و فضل میں بھی بلند مرتبہ اورمقامِ عالی رکھتے تھے،لیکن اس سے کہیں زیادہ وہ ایک عظیم المرتبت صوفی شیخِ طریقت اور بزرگ دین کی حیثیت سے شہرت رکھتے ہیں،ان کا سینہ شریعت وطریقت کا مجمع البحرین تھا، انھوں نے اپنی تعلیم و تربیت اور تزکیہ وہدایت سے ایک عالم کو مستفید کیا، ابن عماد حنبلی نے لکھا ہے کہ وہ ان اکابر اولیاء میں تھے، جو اپنے روحانی کمالات کے اعتبار سے اربابِ کشف وشہود خیال کیے جاتے ہیں۔[1]

نام و نسب[ترمیم]

ان کا اصل نام عبد الرحمن تھا؛ لیکن اپنی کنیت ابو سلیمان سے شہرت پائی والد کا اسم گرامی احمد اور دادا کا عطیہ تھا، اصلاً واسط کے رہنے والے تھے،مگر واریا میں مستقل سکونت اختیار کرلی تھی،جو غوطہ (دمشق)کے مغرب میں ایک گاؤں کا نام ہے غوطہ دمشق کا حسین ترین خطہ شمار ہوتا ہے،بعض سیاحوں نے اس کو جنت ارضی سے تعبیر کیا ہے، وہاں نوع بنوع قدرتی مناظر، میووں اور پھولوں سے لدے ہوئے باغات بل کھاتی نہریں اور سر سبزی و شادابی قدم قدم پر دامن دل کو اپنی طرف کھینچتی ہیں،اسی اہمیت کے باعث اس خطہ کے طبعی اور جغرافیائی حالات پر ڈاکٹر صفوح خیر نے "غوطۂ دمشق"کے نام سے ایک مستقل کتاب تالیف کی ہے جس کے آغاز کی درجِ ذیل چند سطور ہیں گویا پوری کتاب کا ماحصل آگیا ہے۔ اجمع الباحثون علیٰ ان غوطۃ دمشق کلھا نزھۃ وعدھاوجنۃ الارض لنصنا رتھا وکثرت میاھما وبساتینھا وحدائقھا فاذا صعدت علیٰ مرتفع تری الاشجار والبساتین تحیط بالمدینۃ من کل جانب احاطۃ الھالۃ بالقمر واذاخرجت من المدینۃ لاتری الاحدائق غناء ومیاھا جاریۃ واشجاراً نامیۃ وحقولا جمیلۃ خضراء [2] محققین کا اتفاق ہے کہ غوطۂ دمشق مکمل شادابی ہے، اس کو اس کی سرسبزی ،کثرت باغات اور چمنستان اور پانی کی زیادتی کے باعث جنت ارضی شمار کیا جاتا ہے،اگر آپ کسی بلندی پر چڑھ کر نظارہ کریں تو آپ کو درخت اور باغات چاند کے ہالہ کی طرح شہر کا احاطہ کیے ہوئے دکھائی پڑیں گے اورجب شہر سے نکلیں گے تو آپ کو گھنے باغات،رواں دواں پانی اور اونچے اونچے درخت اور حسین و سر سبز کھیتیاں نظر آئیں گی۔ ابو سلیمان الدارانی کا مسکن دمشق کے اسی جنت نظیر خطہ میں واقع تھا یاقوت رومی اورعلامہ سمعانی دونوں اس کے بارے میں رقمطراز ہیں: ہی قریۃ کبیرۃ حسنۃ من قری غوطۃ دمشق [3] اس کی طرف جدید و قدیم علما اور محدثین کی ایک بڑی جماعت منسوب ہے (اللباب فی تہذیب الانساب:2/24)جن میں درج ذیل چار شخصیتوں کے نام نہایت ممتاز ہیں۔ (1)مشہور عالم ابو عتبہ، عبد الرحمٰن الازدی جو امام مکحول شامی کے شاگرد عبداللہ بن مبارک کے استاذ اور فقہائے شام کے طبقہ دوم میں شمار ہوتے ہیں۔(2)نامور تابعی ابوبکر سلیمان بن حبیب جو اپنی فقہی مہارت کے باعث دمشق میں حضرت عمر بن عبدالعزیز، یزید بن عبدالملک اور ہشام بن عبدالملک کی جانب سے قاضی تھے، تیس سال تک نہایت شان وشوکت، کمالِ حق گوئی اورعدل گستری کے ساتھ منصبِ قضا کے فرائض انجام دئے، ان کے شیوخ حدیث میں حضرت انسؓ بن مالک، حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت امیر معاویہؓ کے نام قابلِ ذکر ہیں،خود ان کے فیضان علم سے حضرت عمر بن عبد العزیز ،مرو بن سنان اور عثمان بن ابی العاتکہ جیسے نادرۂ روز گار علما مستفید ہوئے۔ حضرت ابو سلیمان الدارانی بھی اسی معدنِ فضل وکمال کے ایک لعل گرانمایہ تھے [4]؛بلکہ داریا کی طرف منسوب اہل علم میں سب سے زیادہ شہرت وعظمت ان ہی کے نصیب میں آئی،ان کا خاندانی تعلق بنوانس سے تھے [5]جو یمن کے مشہور قبیلہ مذحج کی ایک شاخ ہے،جس کے جد امجد عنس بن مالک تھے، اس خاندان میں ممتاز اہل علم، فضلائے روز گار اور کبار عباد وزیاد کثرت سے ہوئے ہیں،جن میں سے چند یہ ہیں: (1)ابو عبد الرحمن عنسی یہ شام کے ایک بڑے عابد وزاہد بزرگ تھے،ان کے بارے میں مشہور تھا کہ خدان کی قسم کو ہمیشہ پوری کرتا تھا۔ (2)جلیل المرتبت تابعی حضرت عمر بن ہانی عنسی انھوں نے تیس صحابۂ کرام کے دیدار سے اپنی چشمِ عقیدت کو روشن کیا تھا، ان کے دامنِ فیض سے جن لوگوں نے استفادہ کیا ان میں امام اوزاعی خاص طور سے قابلِ ذکر ہیں۔ (3)اسماعیل بن عیاش عنسی بھی اسی معدنِ علم کے گوہر شب چراغ تھے [6]ان کے بارے میں ابو زرعہ کا قول ہے کہ شام میں امام اوزاعی کے بعد اسماعیل بن عیاش کے مثل کوئی نہ تھا[7]ہزاروں حدیثیں ان کو ازبر تھیں ،اربابِ تذکرہ ان کی ذہانت وفطانت اورحیرت انگیز قوتِ حافظہ پر متفق اللسان ہیں،بقولِ امام احمد ان کے دماغ کے خزانہ میں تیس ہزار حدیثیں محفوظ تھیں۔[8]

علمی فضل وکمال[ترمیم]

حضرت ابوسلیمان نے حدیث کا علم عراق کے نامور محدثین سے حاصل کیا تھا اور انھیں حضرت سفیان ثوری اور ربیع بن صبیح جیسے منتخب روز گار علما حدیث سے شرف تلمذ حاصل تھا، امام ثوری کی شخصیت زمرہ تبع تابعین کا گلِ سرسید تھی،وہ علم وعمل اورسیرت وکردار دونوں اعتبار سے نہایت بلند پایہ تھے،اس کا کچھ اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ امام ابو حنیفہ انھیں اپنے استاد ابراہیم نخعی پر بھی بایں ہمہ علوے مرتبت وجلالتِ شان فوقیت دیتے تھے [9]اور امام مالک فرمایا کرتے تھے کہ عراق ہم پر درہم و دینار کی بارش کیا کرتا تھا مگر سفیان کے بعد اس نے علم کی بارش شروع کردی [10] اسی طرح شیخ دارانی کے دوسرے قابلِ ذکر استاد ربیع بن صبیح بھی علم وعمل میں یگانہ عہد تھے،ان کا شمار حضرت حسن بصری کے ارشد تلامذہ میں ہوتا ہے،علاوہ ازیں انھوں نے حضرت محمد بن سیرین،محمد بن جبیر اور عطاء بن ابی رباح وغیرہ کے آفتاب کمال سے بھی اکتساب فیض کیا تھا، امام شعبہ کا قول ہے: ان فی الربیع خصالا لا تکون فی الرجل واحدۃ منھا [11] بلاشبہ ربیع بہت سی ایسی خوبیوں کے حامل ہیں، جن میں سے کوئی ایک بھی دوسرے میں نہیں پائی جاتی۔ ان کی عدالت وثقاہت کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ جرح و تعدیل کے مشہور امام عبد الرحمن بن مہدی بھی ان سے روایت کرتے ہیں۔ [12] خود شیخ دارانی کے خرمنِ علم سے خوشہ چینی کرنے والوں میں احمد بن ابی الحواری اور قاسم بن عثمان الجوعی وغیرہ کے نام ملتے ہیں،اول الذکر کو ان سے خاص تلمذ حاصل تھا؛چونکہ ابو سلیمان کے زہد وورع اور عبادت و ریاضت میں فنا ہوجانے کے باعث ان کے علمی کمالات پسِ پشت پڑ گئے تھے،اس لیے اہلِ طبقات نے ان کی علمی حیثیت نمایاں کرنے کی بجائے ان کے سلوک وطریقت کے واقعات قلمبند کیے ہیں،صرف محدث ابن جوزی نے اتنا مزید اضافہ کیا ہے کہ ابو سلیمان کے واسطہ سے مروی تین مسند حدیثیں مجھ تک پہنچی ہیں،جن میں سے پہلی حدیث بروایت حضرت انس یہ ہے۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من صل قبل الظھر اربعا غفر لہ ذنوبہ یومہ ذلک رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس شخص نے ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھیں اس کے اس دن کے گناہ معاف کردئے گئے۔ تیسری حدیث بہت طویل ہے، اس میں ایک شامی وفد کو حضور اکرمﷺ نے بیش قیمت نصائح اور ہدایات سے نوازا ہے۔[13]

اصلاح وتزکیہ[ترمیم]

ان کے صحیفہ زندگی کا زیادہ درخشاں باب سلوک و تصوف سے متعلق ہے بقول حافظ ذہبی وہ روحانیت ومعرفت کے بحرنا پیدا کبار کے ایک کامیاب شناورتھے۔[14] اسی وجہ سے اہل سیر نے ان کے اس روشن پہلو کو بہت ہی شاندار الفاظ میں اجاگر کیا ہے؛چنانچہ ابن خلکان رقمطراز ہیں: احد رجال الطریقۃ کان من جملۃ السادات وارباب الجد فی المجاھدات [15] وہ اہل طریقت میں تھے، ان کا شمار بہت سے اہل سادات اور کثرت سے مجاہدہ کرنے والوں میں ہے۔ علامہ ذہبی لکھتے ہیں: الزاھد القدوۃ احد الابدال [16] وہ بہت بڑے زاہد اورابدال میں سے تھے سمعانی نے لکھا ہے: کان من افاضل اھل زمانہ وعبادھم وخیار اھل الشام وزھادھم وہ اپنے زمانہ کے ایک بڑے فاضل اور عبادت گزار اورشام کے بہترین لوگوں اورزاہدوں میں سے تھے۔ ابن حماد حنبلی فرماتے ہیں کہ زہد وصلاح میں ان کی نظیر نہیں ملتی [17] خطیب بغدادی نے اپنی مشہور تاریخ میں انھیں "احد عباد اللہ الصالحین ومن الزہادوالمتعبدین" لکھ کر خراج عقیدت پیش کیا ہے:

صحتِ عقیدہ[ترمیم]

عقائد کی صفائی اورصحت کے معاملہ میں وہ نہایت متشدد تھے،ابوجعفرمحمد بن احمد الوصلی بیان کرتے ہیں کہ میں نے 203ھ میں ابو سلیمانی الدارانی کو بغداد میں دیکھا، ان کی داڑھی میں خضاب لگا ہوا تھا، وہ مسجد عبد الوہاب الخفاف میں مقیم تھے،ایک دن کسی نے عرض کیا،حضرت عبد الوہاب الخفاف تو قدریہ کے عقائد رکھتے تھے ، یہ معلوم ہوتے ہی شیخ دارانی نے اس میں نماز پڑھنا چھوڑ دیا اور دوسری مسجد میں چلے گئے [18]احمد ابن ابی الحواری ان کا قول نقل کرتے ہیں، قدری کے سوا ہر اہل بدعت کی امامت میں نماز پڑھو، مگر قدری کے پیچھے ہرگز نماز نہ پڑھو، خواہ وہ حاکم ہی کیوں نہ ہو۔[19]

اقوالِ زریں[ترمیم]

ابو سلیمان الدارانی نے اپنے حکمت و بصیرت سے پُر فرمودات میں حقائق ایمانی وقالق احسانی اور اسرارِ حکمتِ ربانی کو بر ملا فاش کیا ہے، ان تمام اقوال کے راوی شیخ کے تلمیذ رشید اورمرشدِ خاص ابن الحواری ہیں، اگر استقصار کرکے تمام ملفوظات کو یکجا کیا جائے تو ایک مستقل دفتر تیار ہوجائے، محدث ابن جوزی نے صفوۃ الصفوۃ،حافظ ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ، خطیب نے تاریخ بغداد،قاضی عبد الجبار الخولانی نے تاریخ دار اور شیخ فرید الدین عطار نے تذکرۃ الاولیاء میں بہت بسط وتفصیل کے ساتھ ان کے ملفوظات نقل کیے ہیں،ذیل میں چند بصیرت آموز اقوال درج کیے جاتے ہیں۔ ایک موقع پر فرمایا کہ بہترین عمل خواہشات نفسانی کی مخالفت کرنا ہے،اولاد دولت اور گھر بار میں سے جو چیز تم کو خدا کی یاد سے غافل کر دے وہ نحوست کا باعث ہے۔ [20] فرمایا میں رات میں محراب میں دعا کرنے میں مصروف تھا، میرے دونوں ہاتھ خدا کے حضور میں پھیلے ہوئے تھے،اس اثناء میں مجھے زیادہ ٹھنڈک معلوم ہوئی، تو میں نے ایک ہاتھ سمیٹ لیا، پھر نیند کا غلبہ ہوا اور میں اس طرح سو گیا،اتنے میں ایک ہاتف غیبی نے آواز دی،اے ابو سلیمان: ہم نے پھیلے ہوئے ہاتھ میں وہ سب کچھ رکھ دیا جو تمھیں مطلوب تھا اور اگر تم دوسرا ہاتھ بھی اسی طرح پھیلائے رکھتے تو اُسے بھی بھردیتے ابو سلیمان فرماتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد میں نے قسم کھائی تھی کہ خواہ کیسی ہی گرمی یا سردی ہو دعا کے وقت دونوں ہاتھ پھیلائے رکھو ں گا۔ احمد بن ابی الحواری بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے استاذ کی زبان سے بار بار یہ ارشاد سُنا ہے کہ دنیا و آخرت میں ہر خیر ونیکی کی جڑ اللہ جل شانہ ،کی خشیت اور اس کا خوف ہے،یاد رکھو کہ دنیا کی کنجی یہ ہے کہ انسان شکم سیر ہوکر زندگی گزارے اور آخرت کی بھوکا رہنا ہے۔[21]آخری مقولہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر انسان آخرت میں کامیابی چاہیے تو اس کو مز خرفاتِ میں نہ پڑنا چاہیے، فقر وفاقہ کے عالم میں خشیت وانابتِ الی اللہ کا غلبہ ہوتا ہے اور فراغت وخوشحالی خدا سے غافل کردیتی ہے) ان ہی سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت ابو سلیمان الدارانی کو گرم گرم روٹی نمک سے کھانے کی خواہش پیدا ہوئی،میں نے ان کو لاکردی،شیخ نے اس میں سے تھوڑا سا ٹکڑا توڑا اور پھر پوری روٹی پھینک دی،اس کے بعد زاروقطار رو نے لگے اورکہتے جاتے: یا ر ب عجلت لی شھوتی:خدا وندا! میری خواہش نفسانی نے مجھ کو مغلوب کر دیا، میں صدق سے اپنی اس لغزش کی توبہ کرتا ہوں۔ راوی کابیان ہے کہ پھر تاحیات انھوں نے نمک نہیں چکھا [22]ابن ابی الحواری ہی کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میں نے شیخ ابو سلیمان کے سامنے یہ آیت پڑھی: "إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ"[23] مگر جو اللہ کے پاس قلب سلیم کے ساتھ آئے۔ تو شیخ نے فرمایا کہ قلبِ سلیم صحیح معنی میں وہ ہے جو اللہ سے اس حال میں ملے کہ اس میں سوائے ذات حق کے غیر کا وجود نہ ہو یہ کہہ کر شیخ ابو الحواری رونے لگے اور فرمایا کہ جب سے میں نے شام میں اقامت اختیار کی ہے دارانی کے اس مقولہ سے بہتر کوئی بات نہیں سُنی اور بلا شبہ حضرت شیخ کی ذات ان ہی خا صانِ خدا میں سے تھی جو اپنے پروردگار سے اس حال میں ملے کہ بجز اللہ جل شانہ کسی کا وجود ان کے قلب میں نہ تھا۔[24] فرمایا بلاشبہ چور کسی ویران مکان میں نقب زنی کرنے نہیں جاتا،حالانکہ وہ اس میں جہاں چاہے جا سکتا ہے،وہ صرف ایسے گھر کا قصد کرتا ہے جو مال و زر سے معمور ہو۔ بعینہ یہی حال ابلیس لعین کا ہے،وہ ان ہی قلوب پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتا ہے جو خشیتِ الہی ،انابت الی اللہ اور ذکر و فکر سے معمور رہتے ہیں۔ فرمایا اللہ کے کچھ برگزیدہ بندے ایسے ہوتے ہیں،جن کے لیے جنت کی نوع بنوع نعمتوں میں بھی کوئی ایسی کشش نہیں ہوتی جو انھیں یادِ الہیٰ سے غافل کر دے، دنیا کی حقیقت اللہ کے نزدیک پرِکاہ کے برابر بھی نہیں ،اس لیے اس میں زہد واتقا کے کوئی معنی نہیں ہیں، ہاں جنت میں رہ کر حوروغلمان کی موجود گی میں خدا کے سوا اس کے دل میں کسی کے لیے کوئی جگہ نہ ہو تو وہی زاہد اورمتقی ہے۔ فرمایا کہ لوگ زیادہ سے زیادہ مال جمع کرکے اہل ثروت بننا چاہتے ہیں؛حالانکہ ان کا یہ خیال بالکل غلط ہے کہ دولت کثرتِ مال کا نام ہے،خوب سمجھ لوکہ اصل غنی (سرمایہ دار ) وہ ہے جو قناعت کی دولت رکھتا ہو، اسی طرح راحت خوش حالی میں نہیں ؛بلکہ تنگی میں ہے،لوگ عام طور پر نرم اور باریک لباس،عمدہ غذا اورآرام دہ مکان میں آسائش تلاش کرتے ہیں؛حالانکہ وہ دراصل اسلام،ایمان اور عملِ صالح اور ذکر اللہ میں پوشیدہ ہے۔ فرمایا:قیامت کے دن خدائے رحمن کی ہم نشینی کا شرف ان لوگوں کو حاصل ہوگا جوکرم،حلم،علم،حکمت،نرم خوئی،رحمدلی،عفوودرگزر،احسان ،نیکی، لطف ومروت اور رافت ومحبت کی صفات سے متصف ہوں گے۔ [25] ابن ابی الحواری کہتے ہیں کہ میرے شیخ برابر فرمایا کرتے تھے: ان النفس اذا جاعت وعطشت صفاالقلب ورق واذا شبعت عمی القلب جب نفس بھوکا پیاسا ہوتا تو دل میں صفائی اور نرمی پیدا ہوتی ہے اورشکم سیری کی حالت میں قلب اندھا ہوجاتا ہے۔ فرمایا جس شخص نے استغنا کے ساتھ اورحلال ذریعہ کے ساتھ دنیا کو طلب کیا تو قیامت کے روز خدا اسے اس عالم میں ملے گا کہ اس کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح درخشاں ہوگا۔ [26] فرمایا ہر چیز کا ایک زیور ہوتا ہے،صدق کی آرائش خشوع ہے،تواضع کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے عمل میں کبرو غرور سے محفوظ رہے،دنیا میں غور و فکر،آخرت کا جواب ہے اور آخرت کے بارے میں تفکر دلوں کی زندگی اور ثمرۂ حکمت ہے،آنکھوں کو رونے اوردل کو آخرت کے بارے میں فکر کرنے کا عادی بنالو۔ [27] فرمایا:جو شخص دن میں نیک عمل کرتا ہے،اس کی دن بھر حفاظت کی جاتی ہے،بہترین سخاوت وہ ہے جو ضرورت کے مطابق ہو،جو شخص اپنی جان کو قیمتی جانے،وہ ہرگز خدمت کی حلاوت نہیں پاسکتا۔ [28]

کشف وکرامات[ترمیم]

حضرت ابو سلیمان الدارانی کی کرامات بھی کثرت سے منقول ہیں،ابو عبدالرحمن السلمی نے اپنی کتاب محن المشائخ میں لکھا ہے کہ ایک بار شیخ دارانی کسی بات پر اہل دمشق سے ناراض ہوکر وہاں سے کسی سرحدی مقام پر چلے گئے،ان کے جانے کے بعد کسی شخص نے عالمِ خواب میں دیکھا کہ اگر شیخ دارانی دمشق واپس نہ آئیں گے تو تمام اہل وطن تباہ وبرباد ہوجائیں گے؛چنانچہ عوام کا ایک جم غفیر ان کی تلاش میں نکلا اوران کے پاس پہنچ کر نہایت عجز وتذلل کے ساتھ واپسی کی درخواست کی یہاں تک کہ شیخ پھر دمشق واپس آگئے۔ [29]

وفات[ترمیم]

باختلافِ روایت 304ھ ، 205ھ اور 235ھ میں علم و عمل کا یہ نیز تاباں غروب ہو گیا (ابن جوزی نے ان سنین وفات میں اول الذکر ہی کو ارجح قرار دیا ہے اور ابن عماد حنبلی، علامہ ذہبی،ابن خلکان اورخطیب بغدادی نے بھی اس کی توثیق کی ہے۔ [30] ان کے انتقال کی خبر سُن کر مروان الطاطری نے کہا: لقد احیب اھل الاسلام کلھم [31] ان کی وفات سے تمام مسلمانوں کو شدید رنج و غم ہوا۔ قریہ داریا میں تدفیق ہوئی اور وہاں ان کا مزار آج بھی مرجع انام ہے،حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ: "ان کے مزار کی عمارت بہت شاندار ہے،امیر ناہض الدین بن عمر النہروانی نے مزار کے ساتھ ایک مسجد بھی تعمیر کرائی ،مزید برآں اس میں قیام کرنے والوں کے مصارف کے لیے کچھ زمین بھی وقف کی جس کی پیدا وار اور آمدنی مسجد پر صرف ہوتی ہے۔ [32] ان کی اولاد میں شیخ سلیمان کا تذکرہ نویسوں نے ذکر کیا ہے وہ بھی اپنے وقت کے مشہور عابد وزاہد تھے، اپنے والد کی طرح انھوں نے بھی ہدایت وارشاد کی مجلس آراستہ کی تھی،اس میں شریک ہوکر بہ کثرت تشنگان معرفت سیراب ہوتے تھے ان کے حقیقت افروز اقوال بھی ابو سلیمان ہی کے مذکورۃ الصدر ملفوظات کے رنگ کے ہوتے تھے،اپنے والد کی وفات کے دو سال ایک ماہ بعد 237ھ میں رحلت فرمائی۔ [33]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (شذرات الذہب:2/14)
  2. (غوطۂ دمشق :15)
  3. (معجم البلدان:2/24،کتاب الانساب جدید ایڈیشن حیدرآباد:5/271)
  4. (معجم البلدان:4/42)
  5. (اخبات الاعیان:1/495)
  6. (کتاب الانساب:2/401، قدیم ایڈیشن)
  7. (میزان الاعتدال:1/113)
  8. (تہذیب التہذیب:1/322)
  9. (تاریخ بغداد:9/169)
  10. (ایضاً)
  11. (میزان الاعتدال:1/234)
  12. (میزان الاعتدال:1/234)
  13. (صفوۃ الصفوۃ:4/104)
  14. (میزان الاعتدال:1/234)
  15. (تاریخ ابن خلکان :1/495)
  16. (شذرات الذہب:2/13)
  17. (تاریخ بغداد:4/248)
  18. (ایضاً:249)
  19. (تاریخ داریا للخولانی:117)
  20. (البدایہ والنہایہ:10/256)
  21. (صفوۃ الصفوۃ:4/
  22. (البدایہ والنہایہ:1/256)
  23. (الشعراء:88،89)
  24. (تاریخ داریا للخولانی:52)
  25. (صفوۃ الصفوۃ:4/102)
  26. (البدایہ والنہایہ:1/258)
  27. (تذکرۃ الاولیاء:2/233)
  28. (ایضاً:235)
  29. (البدایہ والنہایہ:1/258)
  30. (صفوۃ الصفوۃ:4/208)
  31. (شذرات :2/13، العبر :1/347،ابن خلکان:1/495،بغداد:10/24)
  32. (البدایہ والنہایہ :10/259)
  33. (معجم البلدان:4/24)