ابی بن کعب

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ابی بن کعب انصاری
سید القراء، سیدالانصار اور سید المسلمین
ابی بن کعب
معلومات شخصیت
پیدائش 1 ہزاریہ  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 649ء (48–49 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت خلافت راشدہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ کاتب،  فقیہ  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل تفسیر قرآن،  فقہ،  قرأت  ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں غزوۂ بدر،  غزوہ احد،  غزوہ خندق  ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابی بن کعب رضی اللہ عنہ (17ق.ھ / 32ھ) کا شمار تاریخ اسلام کی ان شخصیات میں ہوتا ہے جن کو دربار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں نہایت ممتاز درجہ حاصل تھا او رجن کی جلالت قدر اورتبحر علمی پر مسلمانوں کے سبھی مکاتب فکر کا کامل اتفاق ہے۔ حضرت اُبیؓ کا تعلق انصار کی نہایت معزز شاخ نجار (خزرج) کے خاندانی بنی جدیلہ سے تھا۔ حضرت اُبیؓ بن کعب کے لڑکپن اور جوانی کے حالات کتب سیر میں نہیں ملتے۔ البتہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اوائل عمر میں ہی لکھنا پڑھنا سیکھ گئے تھے اور ان کاشمار انصار کے تعلیم یافتہ لوگوں میں ہوتا تھا۔ غالباً حضرت اُبیؓ اسلام سے پہلے توراۃ پڑھ چکے تھے اور اسی کا اثر تھا کہ اسلام کی آواز نے انھیں بہت جلد اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ حضرت انسؓ بن مالک سے روایت ہے کہ حضرت اُبیؓ عہد شباب میں دُخت رز کا شوق بھی کرتے تھے اوران کے سوتیلے باپ ابو طلحہؓ کی محافل ناؤنوش کے سرگرم رکن تھے۔ (قبول اسلام کے بعد دونوں کا شمار جلیل القدر صحابہ میں ہوا۔حضرت ابو طلحہؓ زید بن سہل انصاری ، حضرت اُبیؓ بن کعب کے ماموں زاد بھائی تھے اور رزم و بزم میں ان کے ساتھی تھے) حضرت اُبیؓ کے سعادت اندوز اسلام ہونے کے بارے میں مشہور روایت یہ ہے کہ انھوں نے بیعت عقبہ ثانیہ میں مکہ جاکر رحمت عالم کے دست مبارک پر بیعت کی۔ لیکن تاریخ و سیر کی اکثر کتابوں میں اصحاب عقبہ ثانی کی جو فہرست دی گئی ہے۔ اس میں حضرت ابیؓ بن کعب کا نام نہیں ہے۔ اس سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وہ بیعت عقبہ سے پہلے ہی مشرف بہ اسلام ہو چکے تھے۔ رہی یہ بات کہ وہ بیعت عقبہ میں شریک ہوئے یا نہیں اس میں اختلاف ہے۔ بہر صورت ہجرت نبویؐ سے پہلے ان کا شرف ایمان سے بہر ور ہونا سب کے نزدیک مسلّم ہے۔ ہجرت کے بعد سیدالانام نے مدینہ منورہ میں نزول اجلال فرمایا تو انصار میں سے حضرت ابیؓ بن کعب کو سب سے پہلے وحی لکھنے کا شرف حاصل ہوا۔ اس لحاظ سے ان کو انصاری کاتبین وحی میں امتیازی درجہ حاصل ہے۔ ہجرت کے چند ماہ بعد حضورؐ نے مہاجرین اور انصار کے مابین مواخاۃ قائم کرائی تو حضرت اُبیؓ کو جلیل القدر صحابی (یکے از عشرہ مبشرہ ) حضرت سعید بن زید کا اسلامی بھائی بنایا۔ غزوات کا سلسلہ شروع ہوا تو حضرت اُبیؓ بدر سے لے کر طائف تک تمام غزوات میں رحمت عالم ﷺ کے ہمرکاب رہے۔ حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ حضرت اُبیؓ کو غزوہ اُحد میں ایک تیر ہفت اندام میں لگا جس سے وہ شدید زخمی ہو گئے۔ سرور عالم کو اطلاع ملی تو آپؐ نے ان کے علاج کے لیے ایک طبیب بھیجا جس نے رگ کو کاٹ دیا۔ حضورؐ نے اس رگ کو اپنے ہاتھ سے داغ دیا اور حضرت اُبیؓ کا زخم جلد ہی مند مل ہو گیا۔ میں رحمت عالم ﷺ نے حضرت اُبیؓ کو قبائل بلی، عذرہ اور بنو سعد میں عامل صدقات بناکر بھیجا۔ انھوں نے اپنے فرائض نہایت دیانت اور جفا کشی کے ساتھ انجام دیے۔ ایک دفعہ کسی گاؤں میں گئے تو ایک شخص نے اپنے تمام جانور ان کے سامنے لاکر کھڑے کر دیے کہ ان میں سے آپ جو چاہیں چن لیں۔انھوں نے اونٹ کاایک دو سالہ بچہ لے لیا۔ جانوروں کے مالک نے کہا: یہ بچہ آپ کے کس کام کا، یہ جوان اور فربہ اونٹنی لے جائیں۔ حضرت اُبیؓ نے کہا: نہیں نہیں یہ رسول اللہ ﷺ کے حکم کے خلاف ہے بہتر یہ ہے کہ تم میرے ساتھ مدینہ منورہ حضورؐ کی خدمت میں چلو، آپؐ جو حکم دیں گے اس کی تعمیل کرنا۔ جانوروں کے مالک بڑے مخلص مسلمان تھے وہ حضرت ابیؓ بن کعب کے ساتھ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور وہی اونٹنی حضورؐ کی خدمت میں پیش کی۔ آپؐ نے فرمایا: اگر تم یہی اونٹنی بخوشی دیناچاہتے ہو تو دے دو۔ اللہ تعالیٰ تمھیں اس کا اجر دے گا۔ انھوں نے برضا و رغبت یہ اونٹنی صدقہ میں دے دی اور خوش خوش اپنے گاؤں کو مراجعت کی۔ رحمت عالم۔ﷺ کے وصال کے بعد خلافت کا مسئلہ پیدا ہوا تو حضرت اُبیؓ بن کعب ان چند صحابہ میں سے تھے جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو خلافت کا مستحق سمجھتے تھے تاہم جب جمہور مسلمانوں کی رائے کے مطابق ابوبکرؓ مسند آرائے خلافت ہوئے تو حضرت اُبیؓ نے خوشدلی سے ان کی بیعت کرلی۔ صدیق اکبرؓ حضرت ابیؓ کابے حد احترام کرتے تھے۔جب انھوں نے قرآن حکیم کی ترتیب و تدوین کا کام اہل علم صحابہ کرام کی ایک جماعت کے سپرد کیا تو حضرت اُبیؓ اس جماعت کاامیر مقرر کیا۔ وہ قرآن کے الفاظ بولتے جاتے تھے اور لوگ ان کو لکھتے جاتے تھے اگرکسی آیت کی تقدیم و تاخیر کے بارے میں اختلاف ہو جاتا تو سب اس کو مل کر طے کرتے تھے۔ صدیق اکبرؓ کے بعد حضرت عمر فاروقؓ منصب خلافت پر فائز ہوئے تو انھوں نے حضرت اُبیؓ کو مجلس شوریٰ کا رکن نامزد کیا۔ وہ حضرت اُبیؓ کی جلالت علمی اور اصابت رائے کے بے حد معتقد تھے او ران کاغیر معمولی اعزاز و اکرام کرتے تھے اور اہم ملکی اور دینی معاملات میں ان کی رائے کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔ حضرت عثمانؓ ذوالنورینؓ بھی حضرت اُبیؓ کے تبحر علمی کے معترف تھے۔ انھوں نے اپنے دور خلافت میں محسوس کیا کہ بعض صحابہ کی قرأت میں اختلاف ہے۔چنانچہ انھوں نے پختہ ارادہ کر لیا کہ تمام مسلمانوں کو ایک قرأت پر جمع کروں گا۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے انصار اور مہاجرین میں سے بارہ ایسے صحابہ منتخب کیے جن کو قرآن پر پورا عبور تھا اور پھر انھیں یہ کام سونا کہ باہمی مشورہ سے قرأت کا اختلاف دور کریں۔ اس مجلس کے امیر حضرت ابیؓ مقرر ہوئے۔ وہ بولتے جاتے تھے اور حضرت زید بن ثابتؓ لکھتے جاتے تھے۔ جہاں اختلاف پیدا ہوتا سب آپس میں مشورہ کر کے اس کو دور کرلیتے۔ کنزالعمال میں ہے کہ اس کے بعد قرآن حکیم کے تمام نسخے حضرت اُبیؓ کی قرأت کے مطابق ہو گئے۔ لیکن بعض روایتوں میں ہے کہ حضرت اُبیؓ، حضرت عمر فاروقؓ کے عہد خلافت میں (19 یا 20 یا 22ہجری) میں وفات پاچکے تھے۔ سب سے مشہور روایت یہ ہے کہ انھوں نے بزمانہ حضرت عثمان 32 ہجری میں وفات پائی۔

نام و نسب اور ابتدائی حالات[ترمیم]

ابی نام، ابوالمنذر و ابوالطفیل کنیت، سید القراء، سیدالانصار اور سید المسلمین القاب ہیں، قبیلہ نجار(خزرج) کے خاندان معاویہ سے تھے جو بنی حدیلہ کے نام سے مشہور تھا (حدیلہ معاویہ کی ماں کا نام تھا جو جشم بن خزرج کی اولاد میں تھی سلسلہ نسب یہ ہے : ابی بن کعب بن قیس بن عبید بن زیاد بن معاویہ بن عمر بن مالک بن نجار، [1] والدہ کا نام صہیلہ تھا جو عدی بن نذر کے سلسلہ سے تعلق رکھتی تھیں اور ابو طلحہ انصاری کی حقیقی پھوپھی تھیں اس بنا پر ابو طلحہ اور ابی پھوپھی زاد بھائی تھے۔ ابی کی دو کنیتیں تھیں، ابوالمنذر اور ابوالطفیل، پہلی کنیت آنحضرت نے رکھی تھی اور دوسری سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے بیٹے طفیل کے نام کی مناسبت سے پسند فرمائی۔حضرت ابی کے ابتدائی حالات بہت کم معلوم ہیں، حضرت انس بن مالکؓ کی زبانی اتنا معلوم ہوتا ہے کہ اسلام سے پہلے مے نوشی ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی فطرت ثانیہ بن گئی تھی اور حضرت ابو طلحہ ؓ نے ندیموں کا جو حلقہ قائم کیا تھا، حضرت ابی بن کعبؓ اس کے ایک ضروری رکن تھے۔ [2]

اسلام[ترمیم]

مدینہ میں یہود کا کافی مذہبی اقتدار تھا، غالباً وہ اسلام سے پہلے تورات پڑھ چکے تھے ، اسی مذہبی واقفیت نے ان کو اسلام کی آواز کی طرف متوجہ کیا ہوگا؛ چنانچہ مدینہ کے جن انصار نے دوسری دفعہ جاکر آنحضرت کے دست مبارک پر عقبہ میں بیعت کی تھی ان میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے اور یہی ان کے اسلام کی تاریخ ہے۔ [3]

مواخات[ترمیم]

ہجرت کے بعد مہاجرین اور انصار میں برادری و مواخات قائم ہوئی تھی، اس میں سعید بن زید بن عمرو بن نفیل سے جو عشرہ مبشرہ میں تھے ان سے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مواخات ہوئی۔ [4]

غزوات اور عام حالات[ترمیم]

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ عہد نبوت کے غزوات میں غزوہ بدر سے لے کر غزوہ طائف تک کے تمام معرکوں میں شریک رہے، غزوۂ احد میں ایک تیر ہفت اندام میں لگا تھا، آنحضرت نے ایک طبیب بھیجا جس نے رگ کاٹ دی، پھر اس رگ کو اپنے ہاتھ سے داغ دیا، [5] حضرت ابیؓ بن کعب نے عہدِ رسالت سے لے کر خلافت عثمانی تک اہم مذہبی اور ملکی خدمات انجام دیں، میں جب زکوٰۃ فرض ہوئی اور آنحضرت نے تحصیل صدقات کے لیے عرب کے صوبہ جات میں عمال روانہ فرمائے، تو حضرت ابی بن کعب بھی خاندان ہائے بلی، عذرہ اور بنی سعد میں عامل صدقہ مقرر ہوکر گئے اور نہایت تدین کے ساتھ یہ خدمت انجام دی، ایک دفعہ ایک گاؤں میں گئے تو ایک شخص نے حسب معمول تمام جانور سامنے لاکر کھڑے کردیے کہ ان میں سے جو کو چاہیں انتخاب کر لیں، حضرت ابی ؓ نے اونٹ سے ایک دو برس کے بچہ کو چھانٹا، صدقہ دینے والے نے کہا اس کے لینے سے کیا فائدہ؟ نہ دودھ دیتی ہے اور نہ سواری کے قابل ہے اگر آپ کو لینا ہے تو یہ اونٹنی حاضر ہے،موٹی تازی بھی ہے اور جوان بھی، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، یہ کبھی نہ ہوگا، رسول اللہ کی ہدایت کے خلاف میں نہیں کرسکتا، اس سے یہ بہتر ہے کہ تم میرے ساتھ چلو، مدینہ یہاں سے کچھ دور نہیں، آنحضرت جو ارشاد فرمائیں اس کی تعمیل کرنا، وہ اس پر راضی ہو گیا اور حضرت ابیؓ بن کعب کے ساتھ اس اونٹنی کو لے کر مدینہ آیا اور آنحضرت کے سامنے تمام قصہ دہرایا، آپ نے فرمایا کہ اگر تمھاری مرضی یہی ہے تو اونٹنی دے دو قبول کرلی جائے گی اورخدا تم کو اس کا اجر دے گا، اس نے منظور کیا اور اونٹنی آپ کے حوالے کرکے اپنے مکان واپس آیا۔ [6]

11ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انتقال فرمایا اور حضرت ابوبکرؓ صدیق خلافت کی مسند پر متمکن ہوئے، ان کے عہد میں قرآن مجید کی ترتیب و تدوین کا اہم کام شروع ہوا، صحابہؓ کی جو جماعت اس خدمت پر مامور کی گئی تھی حضرت ابیؓ بن کعب اس کے سرگروہ تھے وہ قرآن کے الفاظ بولتے تھے اور لوگ ان کو لکھتے جاتے تھے، یہ جماعت چونکہ ارباب علم پر مشتمل تھی، اس لیے کسی کسی آیت پر مذاکرہ ومباحثہ بھی رہتا تھا، چنانچہ سورہ برأۃ کی یہ آیت: "ثُمَّ انْصَرَفُوا صَرَفَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَفْقَهُونَ"[7] لکھی گئی تو لوگوں نے کہا کہ یہ سب سے اخیر میں نازل ہوئی تھی، حضرت ابیؓ نے کہا نہیں اس کے بعد دو آئتیں مجھ کو رسول اللہ نے اور پڑھائی تھیں، سب سے آخیر آیت :" لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ"[8] ہے۔ [9]

خلافت فاروقی میں حضرت ابی بن ؓکعب مدینہ منورہ میں بالا ستقلال مقیم رہے، زیادہ تر درس وتدریس سے کام رہتا تھا، جب مجالس شوریٰ منعقد ہوتیں یا کوئی مہم آ پڑتی تو حضرت عمرؓ ان سے استصواب فرماتے تھے۔ حضرت ابیؓ بن کعب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پورے عہد حکومت میں مسند افتاء پر متمکن رہے اور اس کے سوا حکومت کا کوئی منصب ان کو نہیں ملا، ایک مرتبہ انھوں نے حضرت عمرؓ سے پوچھا کہ آپ مجھے کسی جگہ کا عامل کیوں نہیں مقرر فرماتے، بولے کہ میں آپ کے دین کو دنیا میں ملوث نہیں دیکھنا چاہتا۔ [10] حضرت عمرؓ نے جب اپنے زمانہ خلافت میں نماز تراویح کو باجماعت کیا تو حضرت ابی بن کعبؓ کو امامت کے لیے منتخب فرمایا۔ [11]

حضرت عمرؓ بن خطاب کے بعد حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں قرآن مجید میں لب و لہجہ کا اختلاف تمام ملک میں عام ہو چکا تھا، اس بنا پر آپ نے اس اختلاف کو مٹانا چاہا اور خود اصحاب قرأت کو طلب فرما کر ہر شخص سے جدا جدا قرأت سنی، حضرت ابی بن کعبؓ، حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور معاذ بن جبلؓ، سب کے لہجہ (تلفظ) میں اختلاف نظر آیا، یہ دیکھ کر حضرت عثمانؓ نے فرمایا کہ تمام مسلمانوں کو ایک تلفظ کے قرآن پر جمع کرنا چاہتا ہوں۔ قریش اورانصار میں 12 شخص تھے، جن کو قرائن پر پورا عبور تھا، حضرت عثمان ؓبن عفان نے ان لوگوں کو یہ اہم کام تفویض فرمایا اور حضرت ابی بن کعبؓ کو اس مجلس کا رئیس مقرر کیا، وہ قرآن کے الفاظ بولتے تھے اور زید لکھتے تھے، آج قرآن مجید کے جس قدر نسخے ہیں، وہ حضرت ابیؓ کی قرأت کے مطابق ہیں۔ [12] [13] [14]

کاتب وحی[ترمیم]

آپ مشہور و معروف کاتبینِ وحی میں سے ہیں، دربارِ رسالت مآب میں کتابت کا شرف حاصل کرنے کی صراحت بہت سی کتابوں میں موجود ہے، [15] ایک روایت میں ہے کہ : سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھ کر (مدینہ منورہ) وحی لکھنے والوں میں آپ سب سے اول ہیں [16] عیون الاثر اور تاریخ ابن الاثیر میں بھی آپ کے سب سے پہلے کاتب ہونے کی صراحت موجود ہے [17] تاریخ طبری میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ وحی کی کتابت فرماتے تھے اور اگر وہ موجود نہ ہوتے، تو ابی بن کعب اور زید بن ثابت وحی کی کتابت فرماتے تھے۔ [18]

وفات[ترمیم]

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے 39ھ میں عمر طبعی کو پہنچ کر حضرت عثمانؓ بن عفان کے زمانہ خلافت میں جمعہ کے دن وفات پائی، حضرت عثمانؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور مدینہ منورہ میں دفن گئے گئے۔ [19] [20]

آل و اولاد[ترمیم]

حضرت ابیؓ بن کعب کی اولاد کی صحیح تعداد اگرچہ نامعلوم ہے، لیکن جن کے نام معلوم ہیں وہ یہ ہیں، طفیل، محمد بن عبد اللہ، ربیع، ام عمر، ان میں سے اول الذکر دو بزرگ عہد رسالت میں پیدا ہوئے تھے۔ حضرت ابیؓ بن کعب کی زوجہ کا نام ام الطفیل ہے وہ صحابیہ ہیں اور روایات حدیث کی فہرست میں ان کا نام داخل ہے۔ [21]

حلیہ[ترمیم]

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حلیہ یہ تھا، قد میانہ، رنگ گورا مائل بہ سرخی، بدن دبلا۔

اخلاق و عادات[ترمیم]

مزاج میں تکلف تھا، مکان میں گدوں پر نشست رکھتے تھے، غالباً دیوار میں آئینہ لگایا تھا اور کنگھی کرتے تھے، اسی طرف بیٹھتے تھے، ایام پیری میں جب سر اور داڑھی کے بال سفید ہو گئے تھے، کنیز سر کے بال بناتی تھی۔ حضرت ابیؓ بن کعب نے ایک شخص کو ایک آیت پڑھائی تھی، حضرت عمرؓ نے سنا تو پوچھا، تم نے یہ کس سے سیکھی، اس نے حضرت ابیؓ کا نام لیا، حضرت عمرؓ اس کو ساتھ لے کر ان کے مکان پر تشریف لے گئے اور استفسار کیا، انھوں نے کہا میں نے رسول اللہ کے منہ سے ایسا ہی سیکھا تھا، حضرت عمرؓ نے مزید تحقیق کے لیے پھر پوچھا کیا رسول اللہ کے منہ سے تم نے سیکھا ہے، جواب دیا جی ہاں، حضرت عمرؓ نے اس جملہ کو پھر دہرایا، تیسری مرتبہ حضرت ابی بن ؓکعب کو غصہ آگیا، بولے واللہ یہ آیت خدانے جبریل پر نازل کی تھی اور جبریل نے قلب محمد پر نازل کی، اس میں خطاب اور اس کے بیٹے سے مشورہ نہیں لیا تھا، حضرت عمرؓ بن خطاب کانوں پر ہاتھ رکھ کر ان کے گھر سے تکبیر کہتے ہوئے نکل گئے۔ [22]

اسی طرح ایک مرتبہ ایک آیت کے متعلق اختلاف ہوا، حضرت عمرؓ بن خطاب نے حضرت ابی بن ؓ کعب کو بلاکر ان سے وہ آیت پڑھوائی، انھوں نے پڑھ کر حضرت عمرؓ بن خطاب کی ناک کی طرف انگلی سے اشارہ کیا،حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو دوسری طرح پڑھا اور حضرت ابی بن ؓکعب کی ناک کی طرف اشارہ کیا حضرت نے کہا اب ہم آپ کی متابعت کرتے ہیں۔ [23]

حضرت ابودرداؓ، شامیوں کی ایک بڑی جماعت کو تعلیم قرآن کے لیے مدینہ منورہ لائے ،ان لوگوں نے حضرت ابیؓ بن کعب سے قرآن پڑھا، ایک دن ان میں سے ایک شخص نے حضرت عمرؓ بن خطاب کے سامنے کوئی آیت پڑھی انھوں نے ٹوکا، اس نے کہا مجھ کو ابی بن کعبؓ نے پڑھایا ہے، حضرت عمرؓ نے اس کے ساتھ ایک آدمی کر دیا کہ ابی کو بلا لاؤ، اس وقت حضرت ابیؓ اپنے اونٹ کو چارہ دے رہے تھے، آدمی نے پہنچ کر کہا، آپ کو امیر المومنین بلاتے ہیں، انھوں نے پوچھا کیا کام ہے، انھوں نے واقعہ بیان کیا، حضرت ابیؓ دونوں پر بگڑے اور کہا تم لوگ باز نہیں آتے اور غصہ میں اسی طرح دامن چڑھائے ہاتھ میں چارہ لیے ہوئے حضرت عمرؓ کے پاس پہنچے، انھوں نے ان سے اور زید بن ثابتؓ سے آیت پڑھوائی، دونوں کی قرأت میں اختلاف تھا، حضرت عمرؓ نے زید کی تائید کی، حضرت ابیؓ برہم ہوئے اور کہا خدا کی قسم عمرؓ ! تم خوب جانتے ہو کہ میں رسول اللہ کے پاس اندر ہوتا تھا اور تم لوگ باہر کھڑے رہتے تھے، اب آج میرے ساتھ یہ برتاؤ کیا جاتا ہے، واللہ اگر تم کہو تو میں گھر میں بیٹھ رہوں نہ کسی سے بولوں اور نہ درس قرآن دوں یہاں تک کہ موت میرا خاتمہ کر دے، حضرت عمرؓ نے فرمایا نہیں، جب خدا نے آپ کو علم دیا ہے تو آپ شوق سے پڑھائیے۔ [24]

ابی بن کعب طبعاً نہایت آزاد اور خود دار تھے، ایک مرتبہ حضرت ابن عباسؓ مدینہ منورہ کے کسی کوچہ میں ایک آیت پڑہتے ہوئے جا رہے تھے پیچھے سے آواز آئی، ابن عباسؓ کھڑے رہو، مڑکر دیکھا تو حضرت عمرؓ تھے، فرمایا کہ میرے غلام کو لیتے جاؤ، ابی بن کعبؓ سے پوچھا کہ فلاں آیت انھوں نے اس طرح پڑھی ہے؟ حضرت ابن عباسؓ حضرت ابیؓ کے مکان پہنچے تھے کہ خود حضرت عمرؓ بھی تشریف لے آئے اور اجازت لے کر سب اندر پہنچے حضرت ابیؓ بال بنوا رہے تھے، دیوار کی طرف رخ تھا، حضر ت عمرؓ کو گدے پر بٹھایا گیا، حضرت ابیؓ کی پشت حضرت عمرؓ کی طرف تھی، وہ اسی حالت میں بیٹھے رہے اوران کی طرف متوجہ نہ ہوئے، تھوڑی دیر کے بعد پھر حضرت عمرؓ سے مخاطب ہوکر کہا، مرحبا یا امیر المومنین میری ملاقات کے لیے تشریف لانا ہوایا کوئی اورغرض ہے، حضرت عمرؓ نے فرمایا کام سے آیا ہوں اورایک آیت پڑھ کر کہا یہ تو بہت سخت ہے (یعنی تلفظ میں) حضرت ابیؓ نے کہا میں نے قرآن اس سے سیکھا جس نے جبریل سے سیکھا تھا، وہ تو نہایت نرم اور تر ہے، حضرت عمرؓ بن خطاب نے فرمایا آپ تو احسان جتانا چاہتے ہیں مگر مجھے جواب سے تشفی نہیں ہوئی۔

ایک مرتبہ حضرت عمرؓ کی خلافت کے زمانہ میں دونوں میں ایک باغ کی بابت جھگڑا ہو گیا، حضرت ابیؓ بن کعب رونے لگے اور کہا آپ کے عہد میں یہ باتیں؟ حضرت عمرؓ نے کہا نہیں میری یہ نیت نہ تھی آپ کا جس مسلمان سے جی چاہے فیصلہ کرا لیجئے، میں راضی ہوں، انھوں نے زید بن ثابتؓ کا نام لیا، حضرت عمرؓ بن خطاب راضی ہو گئے اور حضرت زیدؓ کے سامنے مقدمہ پیش ہوا، گو حضرت عمرؓ خلیفہ اسلام تھے، تاہم ایک فریق کے حیثیت سے حضرت زید بن ثابتؓ کے اجلاس میں حاضر ہوئے، حضرت عمرؓ کو ابیؓ بن کعب کے دعویٰ سے انکار تھا، انھوں نے ان سے کہا آپ بھولتے ہیں، سوچ کریاد کیجئے، حضرت ابیؓ کچھ دیر سوچتے رہے پھر کہا کہ مجھے کچھ یاد نہیں آتا تو خود حضرت عمرؓ نے واقعہ کی صورت بیان کی،حضرت زید بن ؓثابت نے حضرت ابیؓ بن کعب سے پوچھا آپ کے پاس ثبوت کیا ہے،انھوں نے کہا کچھ نہیں، بولے تو آپ امیر المومنین سے قسم نہ لیجئے، حضرت عمرؓ نے فرمایا اگر مجھ پر قسم ضروری ہے تو مجھے اس میں تامل نہیں۔ [25]

طبیعت غیور پائی تھی ایک شخص آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا فلاں آدمی اپنے باپ کی عورت (سوتیلی ماں) سے ہمبستر ہوتا ہے، حضرت ابیؓ موجود تھے بولے کہ میں تو ایسے شخص کی گردن مار دیتا، آنحضرت نے تبسم فرمایا اور کہا ابیؓ کس قدر غیرت مند ہیں، لیکن میں ان سے زیادہ غیور ہوں اورخدا مجھ سے زیادہ غیرت والا ہے۔ بڑے مہمان نواز تھے، لیکن تکلف نہ تھا، ایک بار براء بن مالکؓ ملاقات کو آئے، پوچھا کیا کھاؤ گے؟ انھوں نے کہا ستو اور چھوہارے، اندر جا کر ستو لے آئے اور شکم سیر ہوکر کھلایا، براء بن مالکؓ آنحضرت کے پاس گئے اوراس واقعہ کا ذکر آپ سے کیا آپ نے فرمایا یہ تو بڑی عمدہ بات ہے۔ [26]

علم و فضل[ترمیم]

ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حیات سعید کا ایک ایک لمحہ علم کے لیے وقف تھا،عین اس وقت جب مدینہ میں مہاجرین اور انصار سے تجارت اور زراعت کا بازار گرم رہتا تھا، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد نبوی میں نبوت کے علمی جواہر سے اپنے علوم وفنون کی دکان سجاتے تھے، انصار میں ان سے بڑا کوئی عالم نہ تھا،اور قرآن کے سمجھنے اور حفظ و قرأت میں مہاجرین و انصار دونوں میں ان کی فوقیت مسلم تھی،یہاں تک کہ خود رسول اللہ ان سے قرآن مجید پڑھوا کر سنتے تھے۔

علوم اسلامیہ کے علاوہ کتب قدیمہ سے بھی پوری واقفیت رکھتے تھے،تورات ، انجیل کے عالم تھے، آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق ان کتابوں میں جو بشارتیں مذکور ہیں وہ ان کو خاص طور پر معلوم تھیں ، اس علمی جلالت شان کی بنا پر حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کی تعظیم اوران کا لحاظ کرتے تھے اور خود ان کے گھرپر جاکر مسائل پوچھتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ جو اسلام کی تاریخ میں حبر کے لقب سے مشہور ہیں، حضرت ابی ابن کعبؓ کی درسگاہ میں حاضری کو اپنا فخر سمجھتے تھے۔

حضرت ابیؓ بن کعب کا فضل وکمال صرف خرمن نبوت کا خوشہ چین تھا، انھوں نے حاملؓ وحی سے اس قدر سیکھ لیا تھا کہ پھر کسی کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت باقی نہ رہی، صحابہ کرام میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی شخص ایسا نہ تھا، جو آنحضرت کے بعد کسب علم سے بے نیاز رہا ہو، صرف ابیؓ ابن کعب کی شخصیت تھی جو اس سے مستغنی تھی۔ حضرت ابی بن کعبؓ اگرچہ مختلف علوم کے جامع تھے؛ لیکن وہ خاص فن جن میں ان کو امامت اور اجتہاد کا منصب حاصل تھا، قرآن، تفسیر، شان نزول، ناسخ و منسوخ، حدیث وفقہ تھے اور ہم انہی علوم میں اپنی بساط کے مطابق ان کے کمالات دکھائیں گے۔ [27]

قرآن مجید[ترمیم]

سب سے پہلے ہمیں قرآن مجید کا ذکر کرنا ہے اور یہ دکھانا ہے کہ حضرت ابی ؓ اس کو کس نظر سے دیکھتے تھے، حضرت ابی مجتہد تھے، وہ قرآن مجید پر مجتہدانہ انداز سے غور کرتے تھے، ایک دن رسول اللہ نے ان سے دریافت فرمایا کہ قرآن میں کون سی نہایت معظم آیت ہے، حضرت ابیؓ بن کعب نے کہا آیۃ الکرسی، آنحضرت نہایت مسرور ہوئے اور فرمایا ! ابی تمھیں یہ علم مسرور کرے۔ اس واقعہ سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ وہ قرآن کی آیتوں میں کیسا غور وخوض کرتے تھے، اب خود ان کی زبان سے قرآن کی حقیقت سنو، ایک شخص نے ان سے درخواست کی کہ مجھے نصیحت کیجئے، فرمایا: قرآن کو دلیل راہ نہ بناؤ،اس کے فیصلوں اور حکموں پر راضی رہو، رسول اللہ نے یہی چیز تمھارے لیے چھوڑی ہے اس میں تمھارا اور تمھارے قبل والوں کا اور جو کچھ زمانہ بعد میں ہوگا سب حال درج ہے:
حضرت ابیؓ بن کعب نے اس رائے میں حسب ذیل خیالات کا اظہار کیا ہے:

(1)قرآن مجید اسلام کا مکمل قانون ہے۔
(2)مسلمانوں کا بہترین دستور العمل ہے۔
(3)اس کے قصص وحکایات نتیجہ خیز ہیں جو عمل اور عبرت کے لیے ہیں، گرمی محفل کے لیے نہیں۔
(4)اس میں تمام قوموں کا نہایت کافی تذکرہ ہے۔
غورکرو!جو شخص ان حیثیتوں سے قرآن کریم کو دیکھتا ہوگا، اس کی وسعت معلومات اوردقت نظر میں کیا کلام ہو سکتا ہے۔ حضرت ابی بن ؓکعب نے ابتدا ہی سے قرآن مجید کے ساتھ غیر معمولی شغف ظاہر کیا تھا؛چنانچہ رسول اللہ مدینہ منورہ میں ورود فرما ہوئے تو سب سے پہلے جس نے وحی لکھنے کا شرف حاصل کیا وہ حضرت ابیؓ بن کعب تھے۔

قرآن مجید حفظ کرنے کا خیال بھی اسی زمانہ سے پیدا ہوا، جس قدر آیتیں نازل ہوئیں وہ حفظ کرلیتے تھے،یہاں تک کہ رسول اللہ کی زندگی میں پورا قرآن یاد کر لیا، صحابہؓ میں پانچ بزرگ تھے، جنھوں نے آنحضرت کے عہد مقدس میں پورا قرآن یاد کیا تھا، لیکن حضرت ابیؓ بن کعب ان سب میں ممتاز تھے، خود آنحضرت اس باب میں ان کی مدح کرتے تھے۔ حضرت ابیؓ نے قرآن کا ایک ایک حرف رسول اللہ کے دہن مبارک سے سن کر یاد کر لیا تھا،آنحضرت بھی ان کے شوق کو دیکھ کر ان کی تعلیم کی طرف توجہ مبذول فرماتے تھے،نبوت کا رعب بڑے بڑے صحابہ کو سوال کرنے سے مانع ہوتا تھا، لیکن حضرت ابیؓ بن کعب بے جھجھک جو چاہتے تھے، سوال کرتے تھے، ان کے شوق کو دیکھ کر بعض اوقات آنحضرت خود ابتدا فرماتے تھے اور بغیر پوچھے بتاتے تھے، ایک مرتبہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ میں تمھیں ایک ایسی سورۃ بتاتا ہوں جس کی نظیر نہ تورات و انجیل میں ہے اور نہ قرآن میں یہ کہہ کر باتوں میں مصروف ہو گئے، حضرت ابیؓ کہتے ہیں، میرا خیال تھا کہ رسول اللہ بیان فرمائیں گے، اس لیے جب آپ گھر جانے کے لیے اٹھے تو میں بھی ساتھ ہولیا، آپ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑ کر باتیں شروع کر دیں اور گھر کے دروازہ تک اسی طرح چلے آئے، میں نے عرض کیا وہ سورۃ بتا دیجئے، آپ نے سنا دی، [28] ایک مرتبہ آنحضرت نے نماز فجر پڑھائی اس میں ایک ا ٓیت پڑھنا بھول گئے، حضرت ابیؓ نماز میں شروع سے شریک نہ تھے بیچ میں شریک ہوئے تھے، نماز ختم کرکے آنحضرت نے لوگوں سے پوچھا کہ کسی نے میری قرأت پر خیال کیا تھا؟ تمام لوگ خاموش رہے، پھر پوچھا، ابی بنؓ کعب ہیں؟ حضرت ابیؓ بن کعب نماز ختم کر چکے تھے، بولے کہ آپ نے فلاں آیت نہیں پڑھی کیا منسوخ ہو گئی یا آپ پڑھنا بھول گئے؟ آنحضرت نے فرمایا"نہیں میں پڑھنا بھول گیا" اس کے بعد فرمایا میں جانتا تھا کہ تمھارے سوا اورکسی کو ادھر خیال نہیں ہوا ہوگا۔

ان باتوں کا یہ اثر تھا کہ جب کوئی مسئلہ ابیؓ بن کعب کی سمجھ میں نہ آتا تو وہ اور صحابہؓ کی طرح خاموش نہیں رہتے تھے؛بلکہ آنحضرت سے دیر تک مذاکرہ جاری رکھتے اور جب سمجھ میں آ جاتا تب اٹھتے، مسجد نبوی ﷺ میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے ایک آیت پڑھی ؛چونکہ وہ قبیلہ ہذیل سے تھے ، ان کی قرأت علاحدہ تھی، حضرت ابی بن کعبؓ نے سنا تو کہا آپ نے یہ آیت کس سے پڑھی؟ میں نے تو رسول اللہ سے اس طرح پڑھی ہے، انھوں نے کہا مجھ کو بھی رسول اللہ نے پڑھایا ہے، حضرت ابیؓ کہتے ہیں اس وقت میرے دل میں خیالات فاسدہ کا غلبہ ہوا اور عجیب عجیب باتیں ذہن میں آئیں میں حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ کو لے کر آنحضرت کی خدمت میں آیا اور کہا میرے اور ان کے درمیان میں قرأت میں اختلاف ہو گیا ہے،

آنحضرت نے مجھ سے یہ آیت پڑھوائی اور فرمایا تم ٹھیک پڑہتے ہو، پھر حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ سے پڑھوائی اور فرمایا تم بھی ٹھیک پڑہتے ہو، پھر میں نے ہاتھ کے اشارہ سے کہا یا رسول اللہ ﷺ دونوں ٹھیک ٹھاک پڑہتے ہیں یہ کیونکر؟ اس قدر کدوکاوش پر حضرت ابیؓ بن کعب پسینہ پسینہ ہو گئے تھے، آنحضرت نے ان کی گھبراہٹ دیکھی تو ان کے سینہ پر دست مبارک رکھ کر فرمایا الہی ابی کاشک دور کر! دستِ مبارک کی تاثیر، تسلی بن کر قلب میں اتر گئی اور ان کو کامل تشفی ہو گئی۔ حضرت ابی بن کعب کا خاص فن قرأت ہے اس فن میں ان کو اتنا کمال تھا کہ خود آنحضرت نے ان کی تعریف کی تھی صحابہ میں چند بزرگ تھے جن کے کمالات کی حامل وحی نے تعیین کردی تھی ان میں حضرت ابی بن کعبؓ کی نسبت آنحضرت نے یہ جملہ ارشاد فرمایا تھا" و اقراہم ابی بن کعب "یعنی صحابہ میں سب سے بڑے قاری ابیؓ بن کعب ہیں۔

رسول اللہ کے بعد حضرت عمرؓ نے اس جملہ کی یاد کو کئی مرتبہ تازہ کیا ایک مرتبہ مسجد نبوی کے منبر پر کہا کہ سب سے بڑے قاری ابی بن کعب ہیں،شام کے مشہور سفر میں مقام جابیہ کے خطبہ میں فرمایا :"من ارادالقرآن فلیات ابیا" یعنی جس کو قرآن کاذوق ہو وہ ابی کے پاس آئے۔ [29] فن قرأت میں حضرت ابیؓ بن کعب کو جو دخل تھا، اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ خود حامل نبوت ان سے قرآن کا دورہ فرمایا کرتے تھے؛چنانچہ جس سال آپ نے وفات پائی حضرت ابیؓ کو قرآن سنایا اور فرمایا مجھ سے جبریلؑ نے کہا تھا کہ ابی کو قرآن سنادیجئے۔ جو سورۃ نازل ہوتی اس کو آنحضرت حضرت ابیؓ کو سناتے اور یاد کراتے تھے، "سورہ لم یکن" نازل ہوئی تو فرمایا کہ خدانے تم کو قرآن سنانے کا حکم مجھے کیا ہے، انھوں نے عرض کیا خدانے میرا نام لیا ہے؟ رسول اللہ نے فرمایا ہاں، حضرت ابیؓ بن کعب یہ سن کر فرط مسرت میں بے اختیار روپڑے۔

عبد الرحمن بن ابی ابزی حضرت ابی بن کعبؓ کے شاگرد تھے، ان کو استاد کا یہ واقعہ معلوم ہوا تو پوچھا! یا ابالمنذر (حضرت ابی کی کنیت) اس وقت آپ کو خاص مسرت ہوئی ہوگی، فرمایا کیوں نہیں، خدا وند تعالی خود فرماتا ہے: "قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ" [30] اسی قرأت دانی کا نتیجہ تھا کہ ایک قرأت خاص طور پر ان کی جانب منسوب ہوئی جس کا نام قرات ابی بن کعب تھا ، اہل دمشق اسی قرأت میں قرآن مجید پڑہتے تھے۔ حضرت ابیؓ کی قرأت کو ان کے رتبہ کے لحاظ سے عالمگیر ہونا چاہیے تھا؛ لیکن اس وقت تک زیادہ رواج نہ پاس کی، اس کا بڑا سبب یہ تھا کہ بہت سی آیتیں جو منسوخ ہو چکی تھیں اس میں موجود تھیں، حضرت عمرؓ نے بار بار کہا کہ ابی ؓ ہم میں سب سے زیادہ قرآن کے جاننے والے ہیں، لیکن ہم کو بعض مواقع پر ان سے اختلاف کرنا پڑا ہے، ان کو اصرار ہے کہ انھوں نے جو کچھ سیکھا رسول اللہ سے سیکھا ہے، یہ سچ ہے لیکن جب بہت سی آیتیں منسوخ ہو چکی ہیں اور ان کو اس کا علم نہیں ہوا تو پھر ہم ان کی قرأت پر کیونکر قائم رہ سکتے ہیں۔ [31]

لیکن بعد میں اس کی اصلاح ہو گئی، حضرت عثمانؓ کے عہد مبارک میں جب قرآن مجید کو جمع کیا گیا تو اس میں منسوخ شدہ آیتوں کا خاص خیال رکھا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت جلد ان کی قرأت نے قبول عام کی سند حاصل کرلی اور تمام ممالک اسلامیہ جن کی وسعت مغرب سے مشرق تک تھی حضرت ابیؓ بن کعب کی قرأت پر مجتمع ہو گئے۔ حضرت ابی بن کعب نے انتقال کے بعد اس فن میں اپنے دو جانشین چھوڑے جو اپنے عہد میں مرجع انام تھے، حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ۔ قراء سبعہ میں سے نافع بن عبد الرحمن، ابو رویم مدنی، حضرت ابوہریرہؓ کے سلسلہ سے اور عبداللہ بن کثیر مکی، حضرت عبداللہ بن عباس کے واسطہ سے حضرت ابی بن کعب کے سلسلہ میں داخل ہوتے ہیں۔ [32]

درس و تدریس[ترمیم]

حضرت ابی بن ؓ کعب کا مدرسۂ قرأت اس وقت ایک مرکزی حیثیت رکھتا تھا، عرب وعجم، روم و شام اوردیگر صوبہ جات اسلامیہ سے طلبہ مدینہ منورہ کا رخ کرتے اور ان کی درس گاہ قرأت سے فیض یاب ہوتے تھے۔ طلبہ کے علاوہ بعض اکابر صحابہ دور دراز مقامات سے شائقین کو لے کر مدینہ منورہ تشریف لاتے اور حضرت ابیؓ سے استفادہ کرتے تھے، حضرت عمرؓ کے عہدِ خلافت میں حضرت ابودردا انصاری شام میں تعلیم قرآن کے لیے بھیجے گئے تھے وہ اس درجہ کے تھے کہ آنحضرت کے زمانہ میں جن 5 بزرگوں نے پورا قرآن حفظ کیا تھا ان میں ایک وہ بھی تھے ؛لیکن بایں ہمہ وہ حضرت ابی کی قرأت سے مستغنی نہ تھے، حضرت عمرؓ کے عہد مقدس میں شامیوں کا ایک مجمع ساتھ لے کر حضرت ابیؓ بن کعب کی خدمت میں آئے، خود قرآن پڑھا اور دوسرے لوگوں کو بھی پڑھوایا۔

حضرت ابیؓ بن کعب اگرچہ تلامذۃ کی تعلیم سے خاص دلچسپی لیتے تھے، لیکن مزاج تیز تھا اس لیے بہت جلد ان کا حلم و تحمل غیظ و غضب میں بدل جاتا تھا، اس لیے تلامذہ خاص کوئی سوال کرتے تو خوف لگا رہتا کہ کہیں غصہ میں جھنجھلا نہ اُٹھیں، زرین حبیش جو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے شاگرد رشید تھے اور جن کو حضرت ابیؓ کے تلمذ کا بھی شرف حاصل تھا، کوئی بات پوچھنا چاہتے تھے مگر ہمت نہ پڑتی تھی ایک دن ایک سوال کیا تو پہلے اس طرح عرض کیاکہ مجھ پر نظر عنایت فرمائیے میں آپ سے علم سیکھنا چاہتا ہوں، حضرت ابیؓ نے کہا ہاں شاید یہ ارادہ ہوگا کہ قرآن مجید کی کوئی آیت پوچھنے سے باقی نہ رہ جائے۔ اسی وجہ سے ان کی مجلس لایعنی سوالات سے پاک ہوتی تھی، وہ قبل از وقت باتوں کا جواب نہیں دیتے تھے؛بلکہ ناراض ہوتے تھے، مسروق نے ایک دن ایک سوال کیا، حضرت ابیؓ نے کہا کہ ایسا بھی ہے؟ انھوں نے کہا نہیں فرمایا ابھی ٹھہریے جب ایسا واقعہ پیش آئے گا تو آپ کے لیے اجتہاد کی تکلیف کی جائے گی۔

حضرت ابی بن کعب لیکن معقول سوالات سے خوش ہوتے تھے اور جواب مرحمت فرماتے تھے، زیاد انصاری نے پوچھا، آنحضرت کی تمام بیویاں قضا کر جاتیں تو آپ نکاح کر سکتے تھے یا نہیں؟ انھوں نے کہا کرسکتے تھے، زیاد نے کہا پھر اس آیت کے کیا معنی لایحل لک النساء من بعد حضرت ابیؓ بن کعب نے کہا کہ آنحضرت کے لیے عورتوں کی ایک قسم حلال تھی۔ [33] حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی بڑی پر تکلف اور باوقار تھی، اس کا اثرا ن کے حلقۂ درس میں نظر آتا تھا، گھر اور مجلس دونوں جگہوں میں ان کی نشست گدے پر ہوتی تھی اور تلامذہ عام صف میں بیٹھتے تھے۔

نشست و برخاست میں تلامذہ ان کی تعظیم کے لیے سر و قد کھڑے ہوتے تھے اس زمانہ میں یہ دستور بالکل نیا تھا، ایک مرتبہ سلیم بن حنظلہ حضرت ابیؓ کی خدمت میں مسئلہ پوچھنے آئے جب وہ اُٹھے تو شاگردوں کا پورا مجمع پیچھے پیچھے ساتھ ہو گیا، حضرت عمرؓ نے دیکھا تو ان کو یہ روش ناپسند ہوئی، حضرت ابیؓ سے فرمایا کہ یہ آپ کے لیے فتنہ اور ان لوگوں کے لیے ذلت ہے۔ تلامذہ سے تحائف و ہدایا قبول کرلیتے تھے اور اس میں کچھ مضائقہ نہ جانتے تھے، آنحضرتﷺ کے عہد مقدس میں انھوں نے طفیل بن عمرو دوسی کو قرآن پڑھایا تھا، انھوں نے ایک کمان ہدیۃً پیش کی، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کو لگا کر رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ نے پوچھا یہ کہاں سے لائے، انھوں نے کہا ایک شاگرد کا ہدیہ ہے، آپ نے فرمایا اس کو واپس کر دو اور آیندہ ایسے ہدیہ سے پرہیز کرنا۔

اسی طرح ایک شاگرد نے کپڑا ہدیہ میں پیش کیا، اس میں بھی یہی صورت پیش آئی، اس لیے بعد میں ان باتوں سے اجتناب کلی کر لیا تھا؛چنانچہ ملک شام کے لوگ جب آپ سے قرآن مجید پڑھنے مدینہ آئے تو مدینہ منورہ کے کاتبوں سے اس کو لکھواتے بھی تھے اور کتابت کا معاوضہ اس طرح ادا ہوتا تھا کہ شامی اپنے ساتھ کاتبوں کو کھانے میں شریک کرلیتے تھے،لیکن حضرت ابیؓ بن کعب ایک وقت بھی ان کی دعوت منظور نہ کرتے تھے، حضرت عمرؓ نے ایک دن ان سے دریافت کیا، ملک شام کا کھانا کیسا ہوتا ہے؟ حضرت ابیؓ بن کعب نے کہا میں ان کے ہاں کھانا نہیں کھاتا۔

قرات پڑھاتے وقت حروف مخارج سے ادا کرنے کی کوشش کرتے تھے، مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے باشندوں کے ساتھ تو چنداں دشواری پیش نہ آتی تھی؛ لیکن اعراب اور بدوؤں یادیگر ملکوں کے باشندوں کو جن سے حروف صاف صاف ادا نہ ہو سکتے تھے ان کا پڑھانا نہایت مشکل کام تھا، لیکن حضرت ابیؓ بن کعب اس مشکل کو بھی آسان کر لیتے تھے۔ آنحضرت کے زمانہ مبارک میں حضرت ابیؓ ایک ایرانی کو قرآن پڑھاتے تھے جب اس کو یہ آیت پڑھائی "إِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّومِ، طَعَامُ الْأَثِيمِ" تو اس سے "أَثِيمِ" نکلتا نہ تھا، وہ یتیم کہتا تھا، حضرت ابیؓ نہایت پریشان تھے، آنحضرت وہاں سے گذرے اوران کی حیرانی دیکھ کر خود ان کے شریک ہو گئے تھے اور ایرانی میں فرمایا کہو "طعام الظالم" اس نے اس کو صاف طور سے ادا کر دیا، آپ نے حضرت ابیؓ سے فرمایا کہ اس کی زبان درست کرو اور اس سے حرف نکلواؤ، خدا تمھیں اس کا اجر دے گا۔ [34]

مصحف ابی بن کعبؓ[ترمیم]

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ آنحضرت سے جس قدر قرآت پڑہتے تھے گھر پر اس کو قلمبند کرتے جاتے تھے، یہی قرآن ہے جو فن تاریخ قرأت میں "مصحف ابیؓ" کے نام سے مشہور ہے، یہ مصحف حضرت عثمانؓ بن عفان کے عہد تک موجود تھا، اس مصحف کی شہرت دور تک تھی، حضرت ابیؓ بن کعب کی وفات کے بعد ان کے بیٹے کے پاس جن کا نام محمد تھا اور مدینہ ہی میں رہتے تھے، عراق سے کچھ لوگ آئے اور کہا کہ ہم لوگ مصحف کی زیارت کو آئے ہیں انھوں نے کہا وہ تو حضرت عثمانؓ نے لے لیا تھا۔

تفسیر[ترمیم]

حضرت ابیؓ بن کعب مفسرین صحابہ میں ہیں اور ان سے اس فن میں ایک بڑا نسخہ روایت کیا گیا ہے، جس کے راوی امام ابو جعفر رازی ہیں، تین واسطوں سے حضرت ابیؓ بن کعب تک یہ سلسلہ منتہی ہوتا ہے۔ فن تفسیر میں حضرت ابیؓ کے اگرچہ متعدد شاگرد تھے، جن کی روایتیں عموماً تفسیر کی کتابوں میں مندرج ہیں؛ لیکن اس کا بڑا حصہ ابوالعالیہ کے ذریعہ سے ہم تک پہنچا ہے ابو العالیہ کے تلمیذ ربیع بن انسؓ تھے جن پر امام رازی کے سلسلہ روایات کا اختتام ہوتا ہے۔ اس تفسیر کی روایتیں ابن جریر اور ابی حاتم نے کثرت سے نقل کی ہیں، حاکم نے مستدرک میں اور امام احمد نے اپنی مسند میں بھی بعض روایتوں کو درج کیا ہے، حضرت ابیؓ سے اس فن میں دو قسم کی روایتیں ہیں، پہلی قسم میں وہ سوالات داخل ہیں جو انھوں نے رسول اللہ ﷺ کیے تھے اور آنحضرت نے ان کے جوابات عنایت فرمائے تھے دوسری قسم میں وہ تفسیر یں ہیں جو خود حضرت ابیؓ کی طرف منسوب ہیں۔ حضرت ابیؓ کی تفسیر کا پہلا حصہ جو آنحضرت ﷺ سے روایت کیا گیا ہے،ظن وقیاس کے رتبہ سے بلند ہوکر یقین کے درجہ تک پہنچتا ہے کیونکہ حاملِ وحی سے زیادہ قرآن کا مطلب کون سمجھ سکتا ہے۔

دوسرا حصہ حضرت ابیؓ بن کعب کی رائے کا مجموعہ ہے اس میں مختلف حیثیتیں پیش نظر رکھی گئی ہیں، بعض آیتوں میں تفسیر القرآن بالقرآن کا اصول مد نظر ہے، بعض میں خیالات عصریہ کی جھلک ہے کسی میں اسرائیلیات کا رنگ ہے اور کہیں کہیں ان سب سے الگ ہو کر مجتہدانہ روش اختیار کی ہے اور یہی ان کا علم تفسیر میں سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ [35]

شان نزول[ترمیم]

حضرت ابیؓ بن کعب سے شان نزول کے متعدد روایتیں ہیں جو تفسیر کی کتابوں میں مندرج ہیں۔

حدیث[ترمیم]

صحابہ کرامؓ میں جو بزرگ علم حدیث کے ماہر خیال کیے جاتے تھے ان میں ایک حضرت ابی ؓ بن کعب بھی تھے، محدث ذہبی تذکرۃ الحفاظ میں لکھتے ہیں۔ مکان احدہ بن سمع الکثیر یعنی حضرت ابیؓ بن کعب ان بزرگوں میں ہیں جنھوں نے آنحضرت سے احادیث کا بہت بڑا حصہ سنا تھا، یہی وجہ ہے کہ بہت سے علمائے صحابہ جو اپنے مجالس درس میں مسند روایت پر متمکن تھے حضرت ابیؓ بن کعب کے حلقہ تعلیم میں شاگردی کا زانوئے ادب تہ کرتے تھے۔ چنانچہ ان کے حلقہ میں تابعین سے زیادہ صحابہ کا مجمع ہوتا تھا، حضرت عمر بن الخطابؓ حضرت ابو ایوب انصاری،حضرت عبادہ بن صامت، ابو ہریرہ، ابوموسیٰ اشعری، انس بن مالک، عبد اللہ بن عباس، سہل بن سعد، سلیمان بن صرورؓ کہ تمام صحابہ میں انتخاب تھے حضرت ابیؓ بن کعب سے علم حدیث میں استفادہ کرتے تھے۔

حضرت ابیؓ کے اوقات درس اگرچہ متعین تھے ؛تاہم ان وقتوں کے علاوہ بھی باب فیض مسدود نہ ہوتا تھا، چنانچہ جب مسجد نبوی میں نماز کو تشریف لاتے اوراس وقت بھی کسی کو تعلیم کی حاجت ہوتی تو اس کی تشفی فرماتے تھے۔ قیس بن عباد مدینہ میں صحابہ کے دیدار سے مشرف ہونے آئے تھے، ان کا بیان ہے کہ میں نے حضرت ابی بن کعب سے بڑھ کر کسی کو نہ پایا، نماز کا وقت تھا لوگ جمع تھے اور حضرت عمرؓ بھی تشریف رکھتے تھے، کسی چیز کے تعلیم دینے کی ضرورت تھی، نماز ختم ہوئی تو محدث جلیل اٹھا اور رسول اللہ ﷺ کی حدیث لوگوں تک پہنچائی، ذوق وشوق کا یہ عالم تھا کہ تمام لوگ ہمہ تن گوش تھے، قیس پر حضرت ابیؓ کی اس شان عظمت کا بڑا اثر پڑا۔ [36] روایت حدیث میں حضرت ابیؓ حزم واحتیاط سے کام لیتے تھے باوجود اس کے وہ حاملِ نبوت کے مقرب بارگاہ تھے اورزندگی کا بیشتر وقت رسول اللہ ﷺ کے حضور میں صرف کیا تھا باایں ہمہ روایت حدیث میں یہ شدت تھی کہ روایات کی مجموعی تعداد 164 سے متجاوز نہیں ہے۔ [37]

فقہ[ترمیم]

صحابہ کرام میں کئی بزرگ تھے جو اجتہاد کا منصب رکھتے تھے اور استنباط مسائل کرتے تھے، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا بھی ان میں شمار ہوتا تھا اور وہ حامل قرآن کی مقدس زندگی ہی میں مسند افتاء پر جلوہ افروز ہو چکے تھے، حضرت ابوبکرؓ صدیق کے زمانہ خلافت میں بھی اہل الرائے اور اہل فقہ میں شامل رہے اور لوگ انہی سے استفادہ کیا کرتے تھے، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ بن عفان کے دور خلافت میں بھی یہ منصب عظیم ان کو حاصل رہا۔

آفاق عالم سے فتوے آتے تھے جن کے مستفتیوں میں صحابہ کا نام بھی داخل ہوتا تھا، سمرہ بن جندب ؓ بڑے رتبہ کے صحابی تھے، وہ نماز میں تکبیر کہنے اور سورہ پڑھنے کے بعد ذرا توقف کرتے تھے، لوگوں نے ان پر اعتراض کیا، انھوں نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس استفتاء لکھ کر بھیجا کہ مجھ پر حقیقت مجہول ہو گئی ہے، اس کے متعلق تحریر فرمائیے واقعیت کیا ہے؟ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہایت مختصر جواب تحریر کیا اور لکھا کہ آپ کا طریق عمل شرع شریف کے مطابق ہے اور معترضین غلطی پر ہیں۔ [38] استنباط مسائل کا یہ طریقہ تھا کہ پیشتر قرآن مجید میں غور و خوض کرتے تھے پھر احادیث کی تلاش ہوتی تھی اور جب ان دونوں میں کوئی صورت نہ ملتی تو قیاس کرتے تھے۔

حضرت عمرؓ کے پاس ایک عورت آئی اور کہا کہ میرا شوہر مرگیا میں حاملہ تھی، اب وضع حمل ہوا ہے ؛لیکن عدت کے ایام ابھی پورے نہیں ہوئے اس صورت میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ حضرت عمرؓ نے کہا کہ میعاد معین تک رکی رہو وہ حضرت عمرؓ کے پاس سے حضرت ابیؓ کے پاس آئی اور حضرت عمرؓ سے فتویٰ پوچھنے کا حال اور ان کا جواب ان کے گوش گزار کیا، حضرت ابیؓ بن کعب نے کہا کہ جاؤ اور عمرؓ سے کہنا کہ ابی کہتے ہیں کہ عورت حلال ہو گئی، اگر وہ مجھے پوچھیں تو یہیں بیٹھا ہوں آکر بلا لینا،عورت حضرت عمرؓ کے پاس آگئی انھوں نے کہا بلا لاؤ، ابی بن کعب آئے، حضر عمرؓ بن خطاب نے پوچھا آپ نے یہ کہاں سے کہا، انھوں نے جواب دیا قرآن سے اور یہ آیت پڑھی "وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنّ" اس کے بعدکہا کہ جو حاملہ بیوہ ہو گئی ہو وہ بھی اس میں داخل ہے اور میں نے رسول اللہ سے اس کے متعلق حدیث سنی ہے، حضرت عمرؓ نے عورت سے کہا کہ جو یہ کہہ رہے ہیں اس کو سنو۔

حضرت عباسؓ عم رسول اللہ کا گھر مسجد نبوی ﷺ کے متصل تھا، حضرت عمرؓ نے جب مسجد کو وسیع کرنا چاہا تو ان سے کہا کہ اپنا مکان فروخت کردیجئے میں اس کو مسجد میں شامل کروں گا، حضرت عباسؓ نے کہا یہ نہ ہوگا، حضرت عمرؓ بن خطاب نے فرمایا اچھا تو ہبہ کر دیجئے انھوں نے اس سے بھی انکار کیا، حضرت عمرؓ نے فرمایا توآپ خود مسجد کو وسیع کر دیں اور اپنا مکان اس میں داخل کر دیں، وہ اس پر بھی راضی نہ ہوئے، حضرت عمرؓ نے کہا ان تین باتوں میں سے کوئی بات آپ کو ماننا ہوگی، حضرت عباسؓ نے کہا میں ایک بات بھی نہ مانوں گا، آخر دونوں شخصوں نے حضرت ابی بن کعبؓ کو حکم بنایا انھوں نے حضرت عمرؓ سے کہا بلا رضا مندی آپ کو ان کی چیز لینے کا کیا حق ہے؟ حضرت عمرؓ نے پوچھا اس کے متعلق قرآن مجید کی رو سے حکم نکالا ہے یا حدیث سے؟ حضرت ابیؓ بن کعب نے کہا حدیث سے وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمانؓ نے جب بیت المقدس کی عمارت بنوائی تو اس کی ایک دیوار جو کسی دوسرے کی زمین پر بنوائی تھی گر پڑی، حضرت سلیمان ؑ کے پاس وحی آئی کہ اس سے اجازت لے کر بنائے، حضرت عمرؓ خاموش ہو گئے؛ لیکن حضرت عباسؓ کی غیرت اس کو کب گوارا کرسکتی تھی، انھوں نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ میں اس کو مسجد میں شامل کرتا ہوں۔

سوید بن غفلہ، زید بن صوجان اور سلیمان بن ربیعہ کے ہمراہ کسی غزوہ میں گئے تھے، مقام عذیب میں ایک کوڑا پڑا ہوا تھا، سوید نے اٹھا لیا، ان لوگوں نے کہا اسے پھینک دو شاید کسی مسلمان کا ہو، انھوں نے کہا میں ہر گز نہ پھینکوں گا پڑا رہے گا تو بھیڑئیے کی غذا بنے گا اس سے تو بہتر ہے کہ میں اسے کام میں لاؤں، اس کے کچھ دنوں بعد سوید حج کے ارادہ سے روانہ ہوئے، راستہ میں مدینہ طیبہ پڑتا تھا، حضرت ابیؓ کے پاس گئے اور کوڑے والا واقعہ بیان کیا، حضرت ابیؓ بن کعب نے کہا کہ اس قسم کا واقعہ مجھ کو بھی پیش آچکا ہے میں نے آنحضرت ﷺ کے عہد میں 100 دینار (500) روپئے پائے تھے،آنحضرت ﷺ نے حکم دیا تھا کہ سال بھر تک لوگوں کو خبر کرتے ر ہو سال گزرنے کے بعد فرمایا کہ روپئے کی تعداد، تھیلی کا نشان وغیرہ یاد رکھنا اور ایک سال تک اور انتظار دیکھنا اگر کوئی اس نشان کے موافق طلب کرے تو اس کے حوالہ کرنا ورنہ وہ تمھارا ہو چکا۔ [39]

حضرت عمرؓ بن خطاب نے ایک مرتبہ ارادہ کیا کہ حج تمتع سے لوگوں کو روک دیں، حضرت ابیؓ بن کعب نے کہا آپ کو اس کا کوئی اختیار نہیں، پھر ارادہ کیا کہ حیرہ کے حلے پہننے سے منع کر دیں ؛کیونکہ اس کے رنگ میں پیشاب کی آمیزش ہوتی تھی، حضرت ابیؓ بن کعب نے کہا اس کے بھی آپ مجاز نہیں خود رسول اللہ ﷺ نے اس کو پہنا ہے اور ہم لوگوں نے بھی پہنا ہے، [40] یہ فتویٰ عموم بلوی کی بنا پر تھا، طرز استنباط معلوم کرنے کے بعد فقہ ابی کے چند مسائل بھی پڑھ لینا چاہیے۔ [41]

کتاب الصلوٰۃ[ترمیم]

حضرت ابی بن ؓکعب قرأت خلف الامام کے قائل تھے؛ مگر اس کی یہ صورت تھی کہ ظہر اور عصر کی فرض نماز میں امام کے پیچھے قرأت کرتے تھے، عبد اللہ بن ابی ہذیل نے پوچھا کہ آپ قرأت کرتے ہیں فرمایا ہاں۔ [42]

حضرت ابیؓ کا یہ استدلال قرآن مجید کے ظاہری الفاظ کی بنا پر تھا قرآن میں ہے"وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ " یعنی جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو کان لگا کر سنو اور یہ ظاہر ہے کہ قرأت سری میں جو ظہر و عصر میں ہوتی ہے قرآن کو کس طرح سنا جا سکتا ہے، اس لیے یہ بالکل قرین قیاس ہے کہ قرأت سری میں مقتدی قرأت کرے اور جہری میں خاموش کھڑا رہے۔ ایک شخص مسجد میں کسی گم شدہ چیز پر شور کررہا تھا، حضرت ابیؓ نے دیکھا تو غصہ ہوئے، اس نے کہا میں فحش نہیں بکتا، انھوں نے کہا یہ ٹھیک ہے، مگر مسجد کے ادب کے یہ بات منافی ہے۔ [43]

ایک مرتبہ آنحضرت جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے اور سورہ برأت تلاوت فرمائی تھی، یہ سورۃ حضرت ابو درداؓ اور ابوذرؓ غفاری کو معلوم نہ تھی، اثنائے خطبہ میں حضرت ابیؓ بن کعب سے اشارہ سے پوچھا کہ یہ سورۃ کب نامل ہوئی میں نے تو اب تک نہیں سنی تھی، حضرت ابی نے اشارہ سے کہا خاموش رہو، نماز کے بعد جب اپنے اپنے گھر جانے کے لیے اٹھے تو دونوں بزرگوں نے حضرت ابیؓ بن کعب سے کہا کہ تم نے ہمارے سوال کا جواب کیوں نہیں دیا، حضرت ابیؓ بن کعب نے فرمایا:آج تمھاری نماز بیکار ہو گئی اور وہ بھی محض ایک لغو حرکت کی وجہ سے، یہ سن کر لوگ آنحضرت کے پاس پہنچے اور بیان کیا کہ ابیؓ بن کعب ایسا کہتے ہیں، آپ نے فرمایا ابی سچ کہتے ہیں۔ [44] [45]

کتاب الحد[ترمیم]

حضرت ابیؓ زنا کی سزا کے متعلق کہا کرتے تھے کہ تین قسم کے لوگوں کے لیے تین قسم کے حکم ہیں کچھ لوگ سرائے تازیا نہ اورسنگساری دونوں کے مستحق ہیں کچھ فقط سنگساری کے اور کچھ صرف تازیانہ کے، اس کا مطلب یہ ہے کہ بیوی والے بوڑھے کو زنا کرنے کی صورت میں تازیانہ اور رجم دونوں، بیوی والے جوان کو محض رجم اور بے بیوی والے جوان کو فقط کوڑے لگائے جائیں۔ شبیب کے متعلق حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خیال تھا کہ قرآن مجید کی رو سے اس کو کوڑے مارے جائیں اور سنت کے لحاظ سے سنگسار کیا جائے، [46] حضرت علیؓ بن ابی طالب بھی اس خیال کے موید تھے۔ [47]

باب الاشربہ[ترمیم]

نبیذ چھوہاروں کا شربت کی حلت پر عموماً علمائے اسلام متفق ہیں؛ لیکن ابیؓ بن کعب سے اس کے متعلق ایک خاص اثر مروی ہے، ایک شخص نے نبیذ نوشی کے متعلق استفسار کیا، حضرت ابیؓ نے کہا نبیذ میں کیا رکھا ہے، پانی پیو، ستو پیو، دودھ پیو، سائل نے کہا شاید آپ نبیذ نوشی کے موافق نہیں، انھوں نے کہا شراب نوشی کی کیسے موافقت کرسکتا ہوں۔ [48] ان مسائل کو غور سے پڑھو تو معلوم ہوگا کہ فقہائے صحابہ میں اجتہاد ومسائل اور استنباط احکام کی حیثیت سے حضرت ابیؓ کا رتبہ بھی نہایت بلند تھا۔ [49]

لکھنا جانتے تھے[ترمیم]

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھنا بھی جانتے تھے اور یہ اس زمانہ میں نعمت غیر مترقبہ تھی؛چنانچہ وحی کی اکثر آیتیں وہی لکھتے تھے، مدینہ منورہ میں جب آنحضرت ﷺ تشریف لائے تو وحی لکھنے کا سب سے پہلے انہی کو شرف حاصل ہوا۔ اس زمانہ تک کتاب یا قرآن کے اخیر میں کاتب کا نام لکھنے کا دستور نہ تھا، سب سے اول حضرت ابیؓ نے اس کی ابتدا کی بعد میں اور بزرگوں نے بھی اس کی تقلید کی۔

حب رسول[ترمیم]

بدعات سے اجتناب، جرأت اظہا حق، یہ اوصاف حضرت ابیؓ بن کعب میں خاص طور پر موجود تھے، عبادت الہی کا ذوق شوق ایک مرتبہ اس درجہ ترقی کرگیا تھا کہ حضرت ابیؓ تمام علائق ظاہری سے قطع تعلق کرکے زاویۂ روحانیت میں معتکف ہو گئے تھے۔ رات کی ہولناک تاریکی میں جب کہ تمام کائنات بستر راحت پر پر مستِ نشہ خواب ہوتی تھی، وہ اپنے گھر کے ایک گوشہ میں معبود برحق کی عظمت وجلال کے تصور سے سرتا پا عجز ونیاز ہوتے تھے، زبان پر کلام الہہی رواں ہوتا تھا اور آنکھوں کی اشک باری ان کے کشتِ عبادت کو سیراب کرتی تھی۔ قرآن مجید تین راتوں میں ختم کرتے تھے، رات کے ایک حصہ میں درود و سلام کا ورد کرتے تھے۔ محبت رسول ﷺ کا یہ عالم تھا کہ استن حنانہ کو اپنے گھر میں بطور تبرک رکھ لیا تھا اورجب تک دیمک نے چاٹ کر اس کو راکھ نہ کر دیا، حضرت ابیؓ نے اس کو مکان سے علاحدہ نہ کیا۔ [50]

بدعات سے اس قدر اجتناب تھا کہ جو باتیں رسول اللہ ﷺ کے مقدس عہد میں نہ ہوئی تھیں، انکا ارتکاب نہایت قبیح سمجھتے تھے، حضرت عمرؓ اپنے خلافت کے زمانہ میں مسجد نبوی میں آئے تراویح کا وقت تھا لوگ الگ الگ نماز پڑھ رہے تھے، حضرت عمرؓ نے چاہا کہ اس کو باجماعت کر دیں، حضرت ابیؓ سے کہا آپ کو امام بناتا ہوں آپ تراویح پڑھایا کریں، حضرت ابیؓ نے کہا جو بات پہلے نہیں کی ہے اس کو کیسے کرسکتا ہوں؟ حضرت عمرؓ نے کہا میں یہ جانتا ہوں لیکن یہ کوئی بری بات نہیں ہے۔ [51]

ان کا قلبِ مز کا صغائر کی خفیف سی گرد کا بھی متحمل نہ تھا، رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں ایک شخص نے سوال کیا یا رسول اللہ ہم لوگ بیمار ہوتے ہیں یا تکلیفیں اٹھاتے ہیں، اس میں کچھ ثواب ہے؟ آپ نے فرمایا گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے، حضرت ابیؓ موجود تھے پوچھا چھوٹی تکلیفیں بھی گناہ کا کفارہ ہو جاتی ہیں؟ حضورنے فرمایا ایک کانٹا تک کفارہ ہے، حضرت ابیؓ کا جوش ایمان اب اندازہ سے باہر تھا عذاب و ثواب کا تصور آتش زیر پا بناچکا تھا، خدا کی قہاریت وجباریت کی تصویر آنکھوں میں پھر رہی تھی، اسی بے اختیار کے عالم میں زبان سے نکلا! کاش مجھے ہمیشہ تپ چڑھی رہتی، لیکن حج، عمرہ، جہاد اور نماز باجماعت ادا کرنے کے قابل رہتا، دعا قلب صمیم سے نکلی تھی، حریم اجابت تک پہنچی، حرارت کی ایک خفیف مقدار رگ وپے میں سرایت کر گئی ؛چنانچہ جب جسد اطہر پر ہاتھ رکھا جاتا تھا حرارت معلوم ہوتی تھی۔ [52]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. مسند احمد:5/113
  2. خير الدين الزركلي (2002م)۔ الأعلام (PDF)۔ 1 (15 ایڈیشن)۔ بيروت: دار العلم للملايين۔ صفحہ: 82 
  3. علي بن محمد بن الأثير (2012م)۔ أسد الغابة في معرفة الصحابة (PDF) (1 ایڈیشن)۔ دار ابن حزم۔ صفحہ: 17 
  4. الطبقات الكبرى لابن سعد - أُبَيُّ بْنُ كَعْبِ (1) آرکائیو شدہ 2017-03-31 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  5. (مسند جابر بن عبد اللہ:3/303، 304، 315)
  6. (مسند احمد :5/142)
  7. (التوبۃ:127)
  8. (التوبۃ:128)
  9. (مسند احمد:5/134)
  10. (کنزالعمال:2/163)
  11. (بخاری کتاب الصلوٰۃ التراویح)
  12. (کنزالعمال:1/282، 283)
  13. الوسيط في علوم ومصطلح الحديث - أكثر الصحابة علما وفتيا آرکائیو شدہ 2017-10-05 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  14. الطبقات الكبرى لابن سعد - أُبَيُّ بْنُ كَعْبِ (3) آرکائیو شدہ 2017-03-31 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  15. تاریخ طبری 6/179، المصباح المضئی 8/ ب، تجارب الامم 1/291
  16. البدایہ والنہایہ 5/240
  17. التاریخ الکامل 2/13
  18. الطبقات الكبرى لابن سعد - أُبَيُّ بْنُ كَعْبِ (2) آرکائیو شدہ 2017-03-31 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  19. علي بن محمد إبن الأثير (2012م)۔ أسد الغابة في معرفة الصحابة (PDF)۔ دار ابن حزم۔ صفحہ: 18 
  20. {{استشهاد «» بكتاب|عنوان=سير أعلام النبلاء|مؤلف=شمس الدين الذهبي|ناشر=مؤسسة الرسالة|سنة=1982م|المجلد=1|صفحة=402|مسار=https://ia800500.us.archive.org/11/items/FP11950/san01.pdf}}
  21. فتح الباري شرح صحيح البخاري - كتاب فضائل القرآن - حديث رقم: (4713) آرکائیو شدہ 2016-09-19 بذریعہ وے بیک مشین
  22. (کنز العمال:1/287)
  23. (کنزل العمال:1/285)
  24. (کنزل العمال:1/285)
  25. (کنزل العمال:3/184، 181)
  26. تهذيب الكمال للمزي» أبي بن كعب بن قيس بن عبيد بن زيد بن معاوية بن عمرو (2) آرکائیو شدہ 2017-03-31 بذریعہ وے بیک مشین
  27. تهذيب الكمال للمزي» أبي بن كعب بن قيس بن عبيد بن زيد بن معاوية بن عمرو (3) آرکائیو شدہ 2017-03-31 بذریعہ وے بیک مشین
  28. (مسند احمد:5/114)
  29. (مسند احمد:5/123)
  30. (یونس:58)
  31. (مسند :5/13)
  32. سير أعلام النبلاء» الصحابة رضوان الله عليهم» أبي بن كعب آرکائیو شدہ 2017-03-31 بذریعہ وے بیک مشین
  33. (مسند احمد :5/132)
  34. غاية النهاية في طبقات القراء - أبي بن كعب آرکائیو شدہ 2017-09-14 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  35. الطبقات الكبرى لابن سعد - أُبَيُّ بْنُ كَعْبِ (4) آرکائیو شدہ 2017-03-31 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  36. (مسند احمد:5/140)
  37. تهذيب الكمال للمزي» أبي بن كعب بن قيس بن عبيد بن زيد بن معاوية بن عمرو (1) آرکائیو شدہ 2017-03-31 بذریعہ وے بیک مشین
  38. (کنزالعمال:74/251)
  39. (کنزالعمال:4/260)
  40. (مسند احمد:5/143)
  41. أسد الغابة في معرفة الصحابة - أبي بن كعب بن قيس آرکائیو شدہ 2017-03-31 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  42. (کنزل العمال:254)
  43. (کنزل العمال:4/260)
  44. (کنزالعمال:255، مسند احمد:5/143)
  45. الإصابة في تمييز الصحابة - أبي بن كعب آرکائیو شدہ 2017-03-31 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  46. (کنزالعمال:3/91)
  47. تهذيب الكمال للمزي» أبي بن كعب بن قيس بن عبيد بن زيد بن معاوية بن عمرو (4) آرکائیو شدہ 2017-03-31 بذریعہ وے بیک مشین
  48. (کنزالعمال:3/91)
  49. "قيس بن عباد أبي عبد الله القيسي الضبعي البصري"۔ موسوعة الأدب العربي (بزبان عربی)۔ 2022-10-21۔ 9 أبريل 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 اپریل 2023 
  50. (بخاری:2/624)
  51. (کنزالعمال:4/284)
  52. "عبد الله بن فيروز الديلمي - The Hadith Transmitters Encyclopedia"۔ hadithtransmitters.hawramani.com۔ 02 مئی 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 اپریل 2023