احمد سہیل

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
احمد سہیل

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1953ء (عمر 70–71 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ مصنف  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

احمد سہیل (پیدائش: 2 جولائی 1953ء) امریکا میں مقیم اردو کے ممتاز شاعر، ادبی اور ثقافتی نقاد، ادبی ،محقق، عمرانیاتی نظریہ دان، مقالہ نگار، کہاوت نویس ،مترجم، ماہر عمرانیات اور  ماہر جرمیات ہیں۔

حالات زندگی[ترمیم]

احمد سہیل 2 جولائی 1953ء کو کراچی، پاکستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سہیل احمد خان ہے۔ بی اے (امتیازی) اور ایم اے عمرانیات کی اسناد جامعہ کراچی حاصل کیں۔ جبکہ پی ایچ ڈی (تقابلی ادب) سین اینٹونیو ٹرینیٹی کالج ٹیکساس، امریکا سے حاصل کی۔

تمام ادبی تنقیدی نظریات، امریکی نیگرو شاعری اور لاطینی ادب کے تراجم، ادبی عمرانیات ،نئے مرکوز تخلیقی اور فکری تصورات و نظریات: پس رد تشکیل، ایبانک تنقید سابقہ نو آبادیاتی نیوکلیائی مخاطبہ، نئی نئی ساختیات، نو آبادیات، پس بالائی ساختیات۔

’’احمد سہیل کا انتقادی نظریہ اُردو کے دیگر ناقدین سے مختلف اور منفرد ہے وہ تنقید نگاری میں مناجیاتی تکنیک ضروری تصور کرتے ہیں۔ ان کی تنقید کا سفر جز سے کل اور کل سے جز کی سمتوں میں سفر کرتا ہے اور ایک امتزاجی نکتے پر تخلیقی تنقید خلق کرتا ہے۔ احمد سہیل نے امریکا میں اپنے عہد کے مشہور ماہر عمرانیات کے نظریہ دانوں اور ناقدین کی زیر نگرانی ’’نظریات‘‘ کا مطالعہ کیا۔ ان کی ادبی و نظریاتی تنقید میں عملیات اور نئی عقل پسندی کے محفوص فکری نظامیانے کا عمل دخل نظر آتا ہے۔ ان کی تنقید میں تجربی، تجزیاتی، تقابلی اور عملی تنقید کے نمونے نظر آتے ہیں۔ جس میں عمرانیاتی اور بشریاتی آگہی کی جہات حاوی ہے۔ ان کی مناجیاتی رسائی تنقید کی نئی فکری استدلالیت کو دریافت کرتی ہے۔ احمد سہیل پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، آسٹریلیا، کنیڈا، اسپین، امریکا کے ادبی جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ کئی بین الاقوامی کانفرنسوں اور سمیناروں میں بھی شرکت کی ہے۔ ان کی شاعری کا سلسلہ شاہ نصیر، حیدر علی آتش، داغ دہلوی، سیماب اکبرآبادی اور صبا متھراوی سے ہوتا ہوا ان تک آیا ہے۔

احمد سہیل کی شاعری اپنی جدید تر شعری حسیّات  اور اداسی میں لتھٹری ہوئی یاسیت اوررجائی رموزیات سے بھری  ہوئی ہے۔   جس میں تجربات، مشاہدات، تشکیک، استخراق، تمثالیت شعرانہ کلام میں نثری معنویت اور منفرد شعریات بھی خلق ہوتی ہے۔   ان کا شاعرانہ تجربہ نقطہ زمان سے تجربے اور جذبات کا وفور بہت حساس اور نازک ہے۔   ان کا شعری فہم  تخیّل کا "عنصر فائق" ہے۔   اس میں  علت ومعمول اور ذات کی واردات ان کی تخلیقیت  کے حاوی فکری اور جمالیاتی  مرکبات ہیں۔   احمد سہیل کے شعری وجدان کی کیفیت معاشرتی مزاحمت، تاریخ کی مشکوکیت، تہذیب اور ثقافتی بحران سے بے چینی کی کیفیت کی  تاثر پذیری بھی ہے۔   احمد ہمیش نے لکھا ہے ۔۔۔ " احمد سہیل کی نثری نظمیں اپنی موضوعی توسیع میں معروضی اسباب کی الٹی ہوئی بساط ظاہر کرتی ہیں۔ یہ بیک وقت ایک استہرئیہ بھی ہے۔ " (" تشکیل"، کراچی، صفحہ 181،  جنوری 93 تا جون 94)

" یادداشتیں تاریخ کا گمان ہیں

   جو وہم کی صورت میں لکھی جاتی ہیں

    اپنی محرومی کا گیان ازلی خاموشی ہے

    جلاوطنی کی مفتوح سوچیں

     ایک آدمی خوابوں میں روپوش ہے  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔ میں تمھیں  حفظ نہ  کرسکا

     علم الکلام میں اس کی تفسیر موجود نہیں  ۔۔۔۔۔۔۔۔{" زمین کا داروغہ" }

احمد سہیل نے غزلیں بھی لکھی ہیں :

 ان کے چند  غزلیہ اشعار پیش کیے جاتے ہیں :

1۔ چاند کو روک دیا  میں نے ہواوں میں سہیل

   تم مجھے روک بھی کو جادو یہ دکھاو تم بھی

2۔ گر گئی تاریخ میرے ہاتھوں سے احمد سہیل

   اک نئے انسان کا خاکہ سا زیر غور ہے

3۔ میری مٹھی میں چھپا ہے میرا ایک وقت غروب

    زندگی  تاک میں بیٹھی ہے کہ مجھے دار تو ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

احمد سہیل کی ایک نظم " ہم دنیا میں عدت کے دن گزار رہے ہیں " ۔۔۔ ملا خطہ کریں:

جب لڑکی خاموش ہو جاتی ہے

تو خواب تعبیر سے جدا ہو جاتے ہیں

جب لڑکی مسکراتی ہے

تو ہم سے آزادی چھین کی جاتی ہے

ہم دنیا میں عدت کے دن گزار ر ہے ہیں

مجھے موت دے دو

کہ میں اپنی زندگی میں واپس جانا چاہتا ہوں

موت ایک معما ہے

سایوں کے پیچھے

وہ اپنی تعریف سن کر رو دیتی ہے

الجھے ہوئے اندھیرں میں

زندگی مجرم بنے کھڑی ہے

تم خزاں سے پہلے آجانا

زندگی بیچنے والا سپاہی موت سینے پر سجاتا ہے

موسموں کے بدل جانے سے

پیڑوں سے پتے جدا ہو جاتے ہیں

مگر جدائی کا کوئی موسم نہیں ہوتا

جتنی دیر میں یہ نظم پوری ہو

تم لوٹ آنا

جاڈوں سے پہلے تم مجھے آزاد کردو

یہ اس شہر کی کہانی ہے

جب شہر سر شام سو گیا تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان کے اب تک کوئی سات سو مقالات مختلف جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اردو کے نقاد اور محقق ڈاکٹر عامر سہیل نے احمد سہیل کی نظر یاتی تنقید اور ان کے فکری ذہن کے متعلق لکھا ہے:

"ہمارے موجودہ اردو نقاد ادبی تھیوری کے مسائل میں اُلجھے نظر آتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ"ڈور کو سلجھا رہے ہیں اور سرا ملتا نہیں" اس ادبی تھیوری اور ثقافتی تھیوری نے اردو تنقید میں ایسی ہلچل مچائی جس کا حاصل تاحال کنفیوژن کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ڈاکٹر احمد سہیل اس وقت اردو دنیا کے وہ واحد تھیورسٹ ہیں جنھوں نے اس تھیوری کو خالص مغربی تصورات کی روشنی میں پڑھا اور سیکھا نیز ان تمام بنیادی مآخذ تک رسائی حاصل کی جو ادبی تھیوری کی تفہیم میں کلیدی اہمیت کے حامل تھے۔اس حوالے سے ہمارا کوئی ادبی نقاد ان کی ہمسری کا دعوا نہیں کر سکتا۔ڈاکٹر صاحب نے ادبی تھیوری کے خدوخال واضح کرنے کے لیے جہاں سوشل میڈیا اور رسائل کا سہارا لیا وہاں ان کی کچھ مستقل تصانیف بھی اس موضوع کو واضح کرنے میں معاونت کرتی ہیں میرا اشارہ" ساختیات:تاریخ،نظریہ اور تنقید" اور تنقیدی مخاطبہ" کی طرف ہے۔یہ بات میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں اس وقت دنیائے ادب میں فکشن اور تھیوری کے حوالے سے جو مباحث چل رہے ہیں ڈاکٹر صاحب نہ صرف ان کے تاریخی ارتقا و مضمرات سے واقف ہیں بلکہ ان پر ایک مجتہد کی نظر بھی رکھتے ہیں۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "ڈاکٹر احمد سہیل اردو ادب کی تنقید میں معدودے چند نقادوں میں شمار ہوتے ہیں، جنھوں نے امریکا میں بیٹھ کر اردو ادب کی خدمت اور ترقی و ترویج میں حصہ لیا۔ ان کے ابتدائی برس یہیں کراچی میں صرف ہوئے، لیکن اپنے کام کا زیادہ حصہ انھوں نے امریکا میں بیٹھ کر مکمل کیا۔ انھوں نے بلاشبہ اپنے تنقیدی مضامین سے جہاں اردو ادب میں نئی جہات کی تلاش میں مغرب کی تھیوریز کو اردوایا، بلکہ اپنی جدید شاعری (جس میں نثری اور آزاد نظموں کا زیادہ حصہ ہے) میں نئے تجربات کیے۔ وہ بیک وقت اپنی شاعری کے ساتھ دنیا بھر کے ادب، نیگرو اور لاطینی شاعری کو اردو میں منتقل کرتے رہے ہیں، لیکن ان کا اہم کام ان کے وہ تنقیدی مضامین ہیں ، جن پر عصری عہد میں مغرب میں کام ہوا اور انہی ادبی نظریات و تحریکات کو انھوں نے اردو میں رقم کیا اور اپنے عہد کے الگ اور منفرد تنقید نگار کا درجہ حاصل کیا۔احمد سہیل ادبی عمرانی نظریات، ساختیات، جدیدیت اور مابعد جددیت، پس نو آبادیاتی نظریات، ابونک نظریہ، اردو کا قبل از متن نظریہ و دیگر مغربی تھیوریز کو اپنے اردو مضامین اور کتب کے ذریعے قارئین تک پہنچا چکے ہیں اور مسلسل اس پر کام کر تے رہتے ہیں ۔ ان کے مضامین میں عصری نظریات کا تاریک اور روشن پہلو تنقید کی صورت نمایاں رہتا ہے ۔ وہ ایک بے باک تنقید نگار کی حیثیت سے بے لاگ تبصرے کرتے ہیں اور قارئین کو عالمی اور اردو ادب میں ہونے والے نئے تجربات سے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ان کی کئی ایک تصانیف جس میں نمایاں ’’جدید تھیٹر‘‘، ’’ساختیات، تاریخ، نظریہ اور تنقید‘‘ و دیگر کئی ایک کتب یہاں پاکستان اور ہندوستان سے اردو میں شائع ہو چکی ہیں ۔ زیر نظر تصنیف بھی ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انھوں نے منطقی اشاریت و جدید شعری ابہام ، اردو کی کلاسیکی شاعری میں مغائرت، چھٹی دہائی کے بعد اردو غزل، اردو افسانے کا ناسٹیلجیا، اردو افسانے کی مناجیاتی ساخت اور مقولے کا مسٗلہ، امداد امام اثر کا تنقیدی نظریہ، بجنوری محاسنِ کلام غالب اور اس کے نقاد، خارجی اور باطنی آگہی سے دوچار شاعر، ن، م، راشد، میرا جی اور ترجمے کی تجرید جیسے نظریات اور نقد ونظر پر فکر انگیز گفتگو کی ہے۔ ادبی جریدوں کا مطالعہ کرنے والے، سائبر سپیس اور سوشل میڈیا سے تعلق رکھنے والے قارئین اور بیشتر ادیب و شاعرو تنقید نگار انھیں اس بات پر بہت بخوبی جانتے ہیں کہ وہ اکثر اپنی بات کہنے کے لیے اصول ریاضی کے مروج طریق کار کو استعمال کرتے ہوئے باقاعدہ گراف بنا کر قارئین تک اپنی بات پہنچا دیتے ہیں۔" { نعیم بیگ،تنقیدی تحریریں ، از احمد سہیل: تنقیدی دست و گریباں، " ایک روزن" یکم دسمبر 2017}

" احمد سہیل اردو زبان و ادب کے ان نقادوں میں سے ہیں جو جدید تنقیدی نظریات پر دسترس رکھتے ہیں اور کلاسیکی تنقید بی ان کے مزاج میں میں غیر جانبداری رچی بسی ہے اس لیے وہ کسی بھی ادبی گروہ کے ہوکر نہیں رہے۔ بلکہ انھون نے جہان بھی صحیح بات پائی وہاں سے لے لی۔ اور جہاں بھی غلط دیکحا اسے چھوڑ دیا بلکہ کوشش ی کی صحیح اور لط کو اجاگر کرسکیں۔" { شکیل رشید۔ تنقیدی مخاطبہ: ادبی نظریات و تصورات کی تفھیم ۔ اردو نیوز سنڈے ، ایڈیشن ۔ 22 مئی 2017 ممبئی}

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"زبان کی چاشنی ،رواں انداز بیاں ،الفاظ کی درست املا ،الفاظ کا درست استعمال سے سجی تحریر یقینا آپ کو پسند ہو گی۔لیکن کبھی ہم نے سوچا نہیں وہ افراد جو زبان و بیاں کی اصلاح میں زندگیاں گزار دیتے ہیں کس قدر قابل قدر ہیں۔احمد سہیل صاحب اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ اردو میں ادبی تنقیدی نظریے کے قاری کم ہیں۔ اس کی وجہ اس کی پیچیدگیاں، لفظیاتی، کشافی اور اصطلاحات سے خوف آتا ہے۔

اس لیے اس کا ادراک اور اس کی تفہیم کٹھن ہوجاتی ہے۔ اصل میں یہ کوئی پیچیدگی نہیں ہوتی جو قاری نہیں سمجھ پائے۔ اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ قاری ادب کو ”لطیف”اور صحافیانہ”انداز میں پڑھنے کا عادی ہے اور وہ اسے اسی انداز میں ہی سوچتا بھی ہے۔ اس میں قاری کا عدم مطالعہ، کاہلی، سستی، وسیع النظری کا فقدان اور فکری اغماّض ہوتا ہے۔

یہ عوامل سطحیت کو جنم دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ قراتی عمل سے دستبردار ہوکر پسپائیت اختیار کرلیتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ متن کی قرات، اس کی ترجیحات اور قاری کا اپنی ذہنی استعداد اور اہلیت کو جانے بغیر اس میدان میں کود پڑنا بھی ہوتا ہے۔" {اردو ادب کے مشہور تنقید نگار، مححقق اور مترجم" از۔اختر سردار چوہدری۔ اردو پوائنٹ ۔ پیر یکم جولائی 2019}۔

*کینیڈا میں مقیم اردو کے شاعر اور ادیب ولی محمد شاہیں رقمطراز ہیں۔۔۔ "احمد سہیل صاحب اپنے عمیق مطالعے اور افہام و تفہیم کے پیچ و خم سے گزرتے ہوئے بلندی اور پھیلاؤ دونوں انداز میں ادب ، ادب کی تحریکوں، متعلقہ شخصیات اور علوم و فنون سے وابستہ تصورات سے روشناس کراتے ہیں-

وہ اپنی ذات میں ایک متحرک انجمن ہیں جو عمودی اور افقی فاصلے طے کرتی ہے اگرچہ زمین کی گردش کی طرح ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا-"

" سہیل صاحب۔ ایک نیا موضوع ایک انوکھا انداز پڑھنے والوں کے اذہان تک رسائی حاصل کرنے والا ایک دلکش اسلوب اور جدید فلسفیانہ خیالات رکھنے والی شخصیات کے نظریات کی شاندار تشریح۔ ماشاللہ آپ کے وسیع اور گہرے مطالعے کے ساتھ ساتھ آپ کی قلم اور تحریر کے ساتھ فکری اور گہری وابستگی آپ کے ذوق کی بھر پور عکاسی کرتی ہے بہت خوب لاجواب ۔ دعا گو ہوں کہ آپ کی تحریریں يوں ہی ہمیشہ دوسروں کے لیے باعث مسرت رہیں۔امین"

{فقیر گولڑہ شریف امین اللہ خان}

  • "احمد سہیل کی کتاب ’’ساختیات، تاریخ، نظریہ اور تنقید‘‘ ہے مگر پروفیسر ستیہ پال آنند نے صفحہ 12 پر لکھا ہے، ’’یہ تنقید کی کتاب نہیں ہے۔‘‘ اس کے باوجود میں اس کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ شاید اردو زبان میں یہ پہلی مکمل کتاب ’’ساختیات‘‘ کے بارے میں ہے۔ اس میں بھی کم ازکم سو کتابوں کے حوالے مصنف اور کتابوں کی اشاعت کی تاریخیں دی گئی ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ اس پر اب تک ہندوستان میں کہیں بھی تبصرہ نہیں ہواہے گوکہ پروفیسر آنند پروفیسر نارنگ کے ہم نوا ہیں۔ اس میں ترجمے کے ساختیاتی نظریے کو پیش کیا گیا ہے۔ یہ کتاب بارہ ابواب پر مشتمل ہے۔ اس میں بیشتر مفکرین اور اہم شخصیات کی مختصراً تعارفی زندگی بھی لکھی ہوئی ہے۔ یہی نہیں اس میں اردو کے ایک قدیم ڈرامے ’’گل بہ صنوبر چہ کرد‘‘ اور ساختیات کا باب بھی ہے۔ یہ ڈراما 24 فروری 1890ء میں پہلی بار منچ پہ پیش کیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا پلاٹ حاتم طائی سے لیا گیا ہے۔ یہ کتاب اردو قارئین کو ضرور پڑھنا چاہیے۔ { باقر مہدی ، " تین رخی تنقیدی کشمکش "{ آخری قسط} یکم ستمبر 2020۔وائی اے آر۔ الف }

دیگر دلچسپیاں[ترمیم]

ریڈیو ڈرامے، فلم اور اسٹیج پر مضامین، بچوں کی کہانیاں اور نظمیں

مشاغل[ترمیم]

باسکٹ بال، ٹیبل ٹینس، کرکٹ، باکسنگ، باغبانی، نظارہ طیور، شکار، ماہی گیری، سیاحت، کلاسیکل موسیقی۔

تصانیف[ترمیم]

  • جدید تھیٹر، 1985، ثقافت پاکستان، اسلام آباد[1][2]
  • ساختیات، 1999ء تاریخ نظریہ اور تنقید، نئی دہلی بھارت[3]
  • تنقیدی تحریریں، 2004ء، ممبئی، بھارت

تنقیدی مخاطبہ، 2017ء، ممبئی بھارت [4]

حوالہ جات[ترمیم]

http://ahmedsohail.writernetwork.com/index.htmlhttp://ahmedsohail.writernetwork.com/index.html http://www.punjnud.com/ArticleList.aspx?[مردہ ربط] https://www.facebook.com/احمد-سہیل-34718317207