احمد یسوی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
احمد یسوی
معلومات شخصیت
پیدائش 1093
سیرام   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 1166
ترکستان (شہر)   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن مقبرہ خواجہ احمد یسوی   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت خانان قاراخانی   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ خواجہ یوسف ہمدانی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان چغتائی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل تصوف   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

خواجہ احمد یسوی علوی حنفی (عربی: أحمد يسوي، ازبک: Ahmad Yasaviy، Аҳмад Ясавий، ئەحمەد يەسەۋىي; (قازق: Ахмет Ясауи)‏، Axmet Yasawï، احمەت ياساۋئ; آحمِت يَسَویٛ; ترکی زبان: Ahmet Yesevi) سیرام شہر میں 1093 کو پیدا ہوئے اور 1166 میں ترکستان میں فوت ہوئے ؛ یہ دونوں شہر اب قازقستان کا حصہ ہیں ؛آپ ایک ترک الاصل [1]، صاحبِ دیوان صوفی شاعر، مُبلّغِ اسلام اور سلسلہ یسویہ کے بانی تھے۔ آپ ترکوں کی مؤثرشخصیت تھے، آپ ترکستان کے علاقے میں پہلی روحانی شخصیت ہیں جنھوں نے یسوی صوفی سلسلے کی بنیاد رکھی۔۔[2][3][4] احمد یسوی نے پہلے ترک صوفی سلسلے 'یساویہ کی بنیاد رکھی، جو بہت جلد ترک زبان بولنے والے علاقوں میں پھیل گیا۔ آپ اپنے پیشرو یوسف ہمدانی کے حنفی مکتب فکر سے تعلق رکھے تھے۔[5]

ولادت[ترمیم]

ان کی ولادت پانچویں ہجری صدی کے آخر میں تقریباً 1093ء کو سیرام جنوبی قازقستان میں ہوئی

پس منظر[ترمیم]

یساوی کے والد کا نام ابراہیم تھا۔7 سال کی عمر میں آپ یتیم ہو گئے اور یساوی کی پرورش ان کے روحانی والد ارسلان بابا نے کی۔ سات سال کی عمر میں ہی آپ نے ارسلان بابا کی نگرانی میں بہت ساری روحانی منزلیں طے کر لیں۔ نوجوانی مین ہی آپ روحانیت کی اعلیٰ منزل پر پہنچ گئے اور آہستہ آہستہ آپ کا زکر ہونے لگ گیا۔ یساوی کے والد شیخ ابراہیم اس علاقے میں پہلے ہی اپنے روحانی مرتبے کی وجہ سے جانے جاتے تھے اور ان سے کئی کرامات منسوب تھیں۔ احمد یساوی بعد میں بخارا چلے گئے اور یوسف ہمدانی سے روحانی علوم سیکھے [6] یوسف ہمدانی کے انتقال کے بعد، پہلے عبد اللہ بارقی اور پھر حسن اندکی ہمدانی کی خانقاہ کے سربراہ بنے۔[5] 1160ء میں حسن اندکی کے انتقال کے بعد احمد یساوی سلسلہ نقشبندیہ کے مرشد اعلیٰ بنے۔ آپ نے پھر اپنی جگہ عبدالخالق غجدوانی کو، اپنے پیشرو یوسف ہمدانی کی ہدایت کے تحت دے دی اور خود ترکستان میں اسلام کی تبلیغ کے لیے ترکستان (شہر) چلے گئے۔[5]

سلسلہ نسب[ترمیم]

خاندان شیخ ابراهیم کی روایت مطابق اپ کا سلسلہ نسب امام محمد حنفیہ بن علی ابن ابی طالب سے جا ملتاہے:شیخ ابراهیم بن شیخ الیاس بن شیخ محمود بن شیخ محمود بن شیخ محمد بن شیخ افتخار بن شیخ عمر بن شیخ عثمان بن شیخ حسین بن شیخ حسن بن شیخ اسماعیل بن شیخ موسیٰ بن شیخ مؤمن بن شیخ ہارون بن شیخ الشیوخ بحر العرفان جبل الاطمینان قطب ترکستان خواجہ اسحاق باب بن عبد الرحمن بن عبد القہار بن عبد الفتاح بن امام الحنفی بن علی بن ابی طالب ۔

اثر و رسوخ[ترمیم]

خواجہ احمد یسوی نے وسطی ایشیا میں اسلام کی تبلیغ کے لیے گرانقدر کوششیں کیں اور علاقے میں ان کے بہت سارے شاگرد ہو گئے۔ یساوی کی شاعری میں وسطی ایشیا کے ترک ساہت میں مذہبی فوک شاعری کی ایک نئی صنف ایجاد کی اور بعد میں کئی والیوں نے مذہبی فوک شاعری سے اثر پایا۔[7] یساوی نے سباسب كازاخستان کے لوگوں کے لیے یسی شہر کو تعلیم کے بڑے مرکز میں بدل دیا۔ اور پھر آپ نے 63 سال کی عمر میں غور و فکر اور مراقبہ کے لیے عمر وقف کر دی۔ آپ نے ایک زیر زمین ایک کمرہ نما تہ خانہ بنوایا جہاں آپ نے باقی عمر گزاری۔ ترک مفکر حسن بصری لکھتے ہیں کہیہ سلجوقی بادشاہ تھے جو عظیم صوفی شاعر رومی کو قونیہ لے آئے اور سلجوقوں کی سرزمین میں ہی احمد یساوی، ایک دوسرے عظیم صوفی رہے اور تعلیم دی۔ ان دونوں عالموں کا اثر آج تک جاری ہے ۔[8] یساوی کو ایڈورڈ کیمپبیل (ارنیسٹ اسکاٹ سے لکھتے ہیں) نے بھی خواجگان کے رکن کے طور پر یسوی کو لکھا ہے۔[9]

میراث[ترمیم]

خواجہ احمد یسوی کا مقبرہ
خواجہ احمد یسوی کا مقبرہ

خواجہ احمد یسوی کا مقبرہ[10] بعد میں تیموری سلطنت کے بانی امیر تیمور نے ترکستان (شہر) میں بنوایا۔ یساوی طریقت کا سلسلہ تجات، جو آپ نے قایم کیا تھا، اس کا اثر بعد میں کئی صدیوں تک رہا، 19ویں صدی میں امارت بخارا میں سید عطا شیخ کے دربار میں یساوی نمایاں پوزیشن پر تھے۔[11] دوسرے صوفی سلسلوں کے مقابلے میں، یساویہ سلسلہ میں شامانی عنصروں کا بہت اثر ہے۔[12]

پہلی قازق ترک یونیورسٹی احمد یسوی یونیورسٹی[13] کاا نام آپ کے اعزاز میں رکھا گیا ہے۔ نقشبندی ادریس شاہ نے احمد یسوی کا سلسلہ نسب کتاب الکتاب میں لکھا ہے۔[14] یساوی کشمیر میں بھی تھے[15]

یساوی کا مقبرہ تیمور نے تجدید کروایا۔[16]

ديوان حكمت احمد یساوی کی ترک زبان میں لکھی کتاب ہے۔[3] 1895ء سے 1905ء میں یساوی کی نظمیں (دیوان حکمت) قازان (تاتارستان، روسی سلطنت)سے شائع ہوئیں۔[17]

اشعار[ترمیم]

آپ کا مجموعہ اشعار دیوان حکمت کے نام سے معروف ہے اور یہ ترکی زبان میں ہے۔[18]

مناجات نامہ:

الھی قادرا پروردکارا رحم قیل بندنکا ای کردکارا
اجابت سندین و مندین مناجات ای- ای ذوالجلال جملہ حاجات
الھی جاجتیم‌نی سن روا قیل کریم سن لطف ائلہ دردیم دوا قیل
الھی ذات پاکینک حرمتیدینآییرکیل بیزنی شیطان زحمتیدین
منکا توفیق سوییدین سن ایچورکیلکرم بیرلہ گناهیم‌نی کیچورکیل
کہ بیلماس‌دہ گناہ بسیار قیلدیم کونکل‌لارنی بوزوب آزار قیلدیم
کہ ہر عاصی ایرور رحمت‌کا لایق کیل ای احد دعاغہ بول موافق

وفات[ترمیم]

27شوّال 562ھ بمطابق 1166ء کو وصال فرمایا، مزار یسہ (نزدترکستان) جنوبی قازقستان میں ہے۔

مضامین بسلسلہ

تصوف

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Yaacov Ro'i (2000)۔ Islam in the Soviet Union: From the Second World War to Gorbachev۔ C. Hurst & Co. Publishers۔ ISBN 978-1-85065-403-2۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 مارچ 2017  ، page 373
  2. "Encyclopædia Britannica (2007): Related Articles to "Ahmed Yesevi, or Ahmad Yasawi, or Ahmed Yasavi (Turkish author)"، accessed مارچ 18, 2007"۔ Britannica.com۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 اپریل 2013 
  3. ^ ا ب Book of Wisdom۔ World Digital Library۔ Lithographic Printing House of the Kazan Imperial University۔ 1904۔ صفحہ: 366۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  4. "Divan-i Khikmet"۔ Kazakhstan National Commission For UNESCO – natcom.unesco.kz۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  5. ^ ا ب پ The Foundation of the Presidency of Religious Affairs، İslâm Ansiklopedisi، vol. 3, p. 161, İstanbul, 1989.
  6. Y. N. Öztürk: The Eye of the Heart (Redhouse Press Istanbul 1988)، p.49
  7. John L. Esposito, ed.، The Oxford Encyclopedia of the Islamic World, Volume 1, New York: Oxford University Press, 1995, p. 271
  8. "Hasan Basri Çantay, "Chapter 7: Islamic Culture in Turkish Areas"، in Islam — The Straight Path: Islam Interpreted by Muslims by Prof. Kenneth W. Morgan, Published by The Ronald Press Company, New York 1958"۔ Religion-online.org۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 اپریل 2013 
  9. The People of the Secret by Edward Campbell (1983) ISBN 0-86304-038-1
  10. "Yasavi (Shrine of Ahmed Yasavi)، ArchNet Dictionary of Islamic Architecture"۔ Archnet.org۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 اپریل 2013 
  11. Devin Deweese "The Politics of Sacred Lineages in 19th-century Central Asia: Descent groups linked to Khwaja Ahmad Yasavi in Shrine Documents and Genealogical Charters" International Journal of Middle Eastern Studies Vol.31 (1999) pp507-530
  12. "The Sacred Sites of Kyrgyzstan"، Cholpon K. Dyikanova, Taalaibek K. Dyikanov, Jarkyn B. Samanchina (eds.)، Bishkek, 2004–2005, p. 8, citing Demidov, 1988, p. 3 آرکائیو شدہ ستمبر 29, 2007 بذریعہ وے بیک مشین
  13. "Ahmet Yesevi University Official Site"۔ Yesevi.edu.tr۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 اپریل 2013 
  14. Idries Shah (1976)۔ The Book of the Book۔ Octagon Press Ltd۔ ISBN 978-0-900860-12-6۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 مارچ 2017  ، page 9
  15. خزینۃ الاصفیاء جلد سوم، غلام سرور لاہوری، صفحہ 225مکتبہ نبویہ لاہور
  16. "Tamerlane (1336–1405) – The Last Great Nomad Power"۔ Silk Road Foundation۔ 1997–2000۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  17. "Divan-i Khikmet"۔ Kazakhstan National Commission For UNESCO – natcom.unesco.kz۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  18. صوفیان نخستین در ادبیات ترک، محمد فواد کوپریلی، ترجمہ توفیق۔ ہ سبحانی، ص 171
  • John G. Bennett (1995)۔ The Masters of Wisdom۔ Bennett Books۔ ISBN 1-881408-01-9 

بیرونی روابط[ترمیم]