اسحاق بن راہویہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
اسحاق بن راہویہ
(عربی میں: إسحاق بن راهويه ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 778ء[1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مرو  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 29 جنوری 853ء (74–75 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نیشاپور  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت عباسیہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ محمد بن ادریس شافعی،  حسین بن علی الجعفی،  عبد الرحمن بن مہدی  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص محمد بن اسماعیل بخاری،  مسلم بن حجاج،  ابو عیسیٰ محمد ترمذی،  احمد بن شعیب النسائی رضوان،  ابن قتیبہ دینوری  ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ محدث  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل علم حدیث  ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں مسند اسحاق بن راہویہ  ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

اسحاق بن راہویہ (پیدائش: 161ھ/ 778ء– وفات: اتوار 15 شعبان 238ھ/ 29 جنوری 853ء) إسحاق بن إبراہيم بن مخلد حنظلی تميمی مروزی، ابو يعقوب ابن راہویہ: خراسان اور اپنے وقت کے بہت بڑے عالم تھے۔خاندان خنظلہ، جو بنی تمیم کی شاخ ہے، سے تعلق تھا امام احمد بن حنبل امام بخاری امام مسلم امام ترمذي اور نسائی وغيرہم۔ کے اساتذہ میں سے تھے۔ آپ كبار حفاظ حدیث میں سے ایک ہیں۔بہت زیادہ شہروں کے سفر کیے اور حدیث کو اکٹھا کیا ان میں عراق، حجاز، شام اور يمن کے سفر بھی ہیں۔ مرو کے رہنے والے تھے جو خراسان کے مضافات میں سے تھا ان کے راہویہ لقب کی وجہ یہ ہے کہ ان کے والدین مکہ جا رہے تھے کہ یہ راستے میں پیدا ہوئے جس سے راہویہ کہلاتے ہیں۔

امام اسحٰق بن راہویہ[ترمیم]

تابعین کے فیضِ تربیت سے جولوگ بہرہ ور ہوئے اور ان کے بعد علومِ دینیہ کی اشاعت وترویج کی انہی میں امام المسلمین اسحاق بن راہویہ رضی اللہ عنہ بھی ہیں، ان کا شمار ان اساطینِ اُمت میں ہوتا ہے جنھوں نے دینی علوم خصوصاً تفسیر وحدیث کی بے بہا خدمات انجام دی ہیں اور اپنی تحریری یادگاریں بھی چھوڑی ہیں۔

نام ونسب[ترمیم]

نام اسحاق اور ابویعقوب کنیت تھی والد کا نام ابراہیم تھا؛ مگرراہویہ کے نام سے مشہور تھے (عبد اللہ بن طاہر امیرخراسان نے ایک بار ان سے دریافت کیا کہ آپ ابنِ راہویہ کے نام سے کیوں مشہور ہیں؟ اس نام سے آپ کومخاطب کیا جائے توآپ برا نہیں مانیں گے؟ بولے کہ میرے والد کی ولادت رات میں ہوئی تھی، جس کی وجہ سے اہلِ مرو اُن کوراہوی کہنے لگے؛ یہی راہوی عربی میں آکر راہویہ ہو گیا، میرے والد اس لفظ کواپنے لیے پسند نہیں کرتے تھے؛ لیکن مجھے پسند ہے۔ [2] عام طور پرارباب رجال ان کا پورا سلسلۂ نسب بیان نہیں کرتے، ودلابی نے ان کا پورا سلسلۂ نسب بیان کیا ہے، جس کوصاحب تہذیب نے جلد:1، صفحہ:218 پرنقل کیا ہے۔ ان کا اصلی وطن مرو (ایران) تھا؛ کشی وجہ سے قیام نیشاپور میں تھا۔ [3]

تعلیم و تربیت[ترمیم]

سنہ161ھ یاسنہ163ھ میں ولادت ہوئی (سنہ وفات میں اختلاف ہے، اس اختلاف کی وجہ سے ان کی تاریخِ ولادت میں بھی اختلاف ہو گیا ہے؛ مگرصحیح یہ ہے کہ سنہ161ھ میں ولادت ہوئی اور سنہ238ھ میں وفات پائی) ابتدائی تعلیم کے بعد حدیث کی طرف توجہ کی سب سے پہلے امام وقت عبد اللہ بن مبارک کی خدمت میں گئے؛ مگراس کی کم سنی استفادہ میں مانع بنی؛ پھردوسرے شیوخ حدیث کی مجالسِ درس میں شریک ہوئے اور ان سے استفادہ کیا، اس وقت ممالکِ اسلامیہ میں دینی علوم کے جتنے مراکز تھے وہ سب ایک دوسرے سے ہزاروں میل دور تھے؛ مگرابنِ راہویہ نے اِن تمام مقامات کا سفر کیا اور وہاں کے تمام ممتاز محدثین و علما سے استفادہ کیا، خطیب بغدادی نے اس سلسلہ میں عراق، حجاز، یمن، مکہ اور شام وغیرہ کا نام لیا ہے؛ مگران مقامات کی حیثیت محض ایک شہر کی نہیں تھی؛ بلکہ یہ مملکتِ اسلام کے بڑے بڑے صوبے یاعلاقے تھے، جن میں سینکڑوں علمی مراکم تھے اور بیشمار جگہوں پرفقہ وحدیث کی مجلسیں برپا تھیں، اس لیے ان مرکزی مقامات کی نہ جانے کتنے بستیوں کی خاک چھانی ہوگی، ان کے اساتذہ کے چند نام یہ ہیں: سفیان بن عیینہ مکہ، جریر بن عبد الحمید راموی، اسماعیل بن عیلہ بصرہ، وکیع بن جراح، یحییٰ بن آدم، ابومعاویہ، ابوآسامہ کوفہ، عبد الرزاق بن ہمام، عبد اللہ بن وہب، عبد اللہ بن مبارک خراسان، یہ ان کے چند مشاہیراساتذہ کے نام دیے گئے ہیں؛ ورنہ یہ تعداد اس سے بہت زیادہ ہے۔

تفسیر[ترمیم]

ان کوابتدا ہی سے علم حدیث سے شغف تھا اور اسی کے حصول میں انھوں نے سب سے زیادہ محنت وکوشش کی؛ مگرتفسیر وفقہ وغیرہ میں بھی ان کو دسترس تھی، خطیب نے لکھا ہے کہ وہ حدیث وفقہ کے جامع تھے، جب وہ قرآن کی تفسیر بیان کرتے تھے تواس میں بھی سند کا تذکرہ کرتے تھے، ابوحاتم اس بارے میں کہتے ہیں کہ حدیث کے سلسلہ روایت اور الفاظ کا یاد کرنا تفسیر کے مقابلہ میں آسان ہے، ابنِ راہویہ میں یہ کمال ہے کہ وہ تفسیر کے سلسلہ سند کوبھی یاد کرلیتے ہیں۔ [4]

قوتِ حافظہ اور حدیث سے شغف واعتماد[ترمیم]

اس کدوکاوش کے ساتھ خدا نے قوتِ حافظہ بھی غیر معمولی دیا تھا، بے شمار احادیث زبانی یاد تھیں، کئی کئی ہزار احادیث تلامذہ کووہ اپنی یادداشت سے لھا دیا کرتے تھے اور کبھی کتاب دیکھنے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی؛ خود کہتے تھے کہ میں جوکچھ سنتا ہوں اسے یاد کرلیتا ہوں اور جوکچھ یاد کرلیتا ہوں؛ پھرنہیں بھولتا، فرماتے تھے: سترہزار حدیثیں ہروقت میری نظروں کے سامنے رہتی ہیں، ابوذرعہ مشہور محدث کہتے تھے کہ ان کے جیسا قوتِ حفظ رکھنے والا نہیں دیکھا گیا۔ [5] ان سے ایک بار کہا گیا کہ لوگوں کا خیال ہے کہ آپ کوایک لاکھ حدیثیں زبانی یاد ہیں، فرمایا کہ میں ایک دولاکھ کچھ نہیں جانتا مگر میں نے آج تک جتنی حدیثیں سنی ہیں وہ سب یاد ہیں، ابوداؤد خفاف جوان کے تلامذہ میں ہں کہتے تھے کہ ایک بار گیارہ ہزار حدیثیں انھوں نے املا کرائیں اور پھران کودوبارہ دہرایا توایک حرف کا فرق نہیں تھا۔ [6]

حدیث سے شغف کا نتیجہ[ترمیم]

خداداد استعداد وصلاحیت اور قوتِ حافظہ کے ساتھ حدیث سے ان کے شغف واہنماک نے جلد ہی ان کوتبع تابعین کے زمرہ میں ایک ممتاز حیثیت کا مالک بنادیا، بڑے بڑے ائمہ حدیث ان کے فضل وکمال کے معترف اور ان کے جلالت علم کے قائل ہو گئے، ابنِ خزیمہ کہتے تھے کہ اگروہ تابعین کے زمانہ میں ہوتے تواپنے علم و فضل کی بنا پراس زمرہ میں بھی ایک ممتاز حیثیت حاصل کرتے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے سامنے جب کوئی شخص ابنِ راہویہ کہتا تھاتوان کوبرا معلوم ہوتا تھا، وہ کہتے تھے کہ خراسان کے علاقہ میں ان کے زمانہ میں ان کے جیسا صاحب علم آدمی نہیں پیدا ہوا؛ گوہمارے اور ان کے درمیان بہت سے مسائل میں اختلاف تھا؛ مگریہ کوئی نئی بات نہیں ہے، اختلاف توہرزمانہ کے اہلِ علم میں ہوا ہے؛ مقصد یہ تھا کہ اختلاف کی بنا پرکسی کے فضل کا اعتراف نہ کرنا صحیح نہیں ہے؛ یحییٰ بن یحییٰ ایک ممتاز محدث تھے، ان کے پاس جب ابنِ راہویہ آتے تھے تووہ ان کا اس قدر احترام کرتے تھے کہ ان کے قریب کے لوگوں کوتعجب ہوتا تھا، کسی نے ان سے پوچھا کہ وہ توآپ سے عمر میں بھی چھوٹے ہیں، ان کی اتنی عزت افزائی کیوں کرتے ہیں؛ انھوں نے کہا کہ: إِسْحَاقُ أَكْثَرُ عِلْماً مِنِّي، وَأَنَا أَسَنُّ مِنْهُ۔ [7] ترجمہ: اسحاق علم میں مجھ سے بڑے ہیں اور میں عمر میں اُن سے بڑا ہوں۔ انہی کا قول ہے کہ اسحاق کے پاس علم کا ایک خزانہ ہے۔ [8] محمد بن یحییٰ الذہلی بیان کرتے ہیں کہ ایک بار سنہ199ھ میں اسحاق بن راہویہ کے ساتھ رصافہ گیا؛ یہاں پرتمام معاصر ائمہ حدیث مثلاً احمد بن حنبل یحییٰ، ابن معین وغیرہ جمع تھے؛ مگراس مجلس کے صدر نشین اسحاق بن راہویہ بنائے گئے۔ [9]

درس وتدریس[ترمیم]

اس بارے میں اہلِ تذکرہ کچھ زیادہ معلومات نہیں فراہم کرتے؛ مگرجستہ جستہ واقعات سے اس پرکچھ روشنی پڑتی ہے، تحصیلِ علم اور سماعِ حدیث کے بعد ان کا قیام زیادہ ترنیشاپور میں رہتا تھا؛ گویہ یہ جگہ اسلامی مملکت کے مرکزی مقامات سے بہت دور تھی؛ پھراس زمانہ میں سفر کی دقتیں بھی وہاں تک پہنچنے میں مانع تھیں؛ مگراس کے باوجود صدہاتشنگانِ علوم اس چشمہ علم سے سیراب ہوئے، خصوصیت سے خراسان کے علاسہ میں ان کا علم کافی پھیلا، خطب کا بیان ہے کہ ان کا علم خراسانیوں میں خوب پھیلا، ہب ابن جریر کا بیان ہے کہ مشرق میں جن لوگوں نے سنت کوزندہ کیا ان میں اسحاق بن راہویہ بھی ہیں۔ [10] ان سے جن لوگوں نے اکتساب فیض کیا ان میں امام بخاری، امام مسلم، امام ترمذی، ابوداؤد، نسائی اور امام احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین رحمہم اللہ وغیرہ کا نام بھی لیا جاتا ہے، ان تمام ائمہ نے اپنی اپنی کتابوں میں اسحاق ابن راہویہ کی مرویات نقل کی ہیں، امام ذہبی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ان کبار ائمہ کے علاوہ خلقِ کثیر نے ان سے روایت کی ہے، یحییٰ بن آدم ان کے شیوخ میں ہیں؛ مگرانہوں نے ان سے تقریباً دوہزار روایتیں نقل کی تھیں۔

طریقۂ درس[ترمیم]

عام طور پرائمہ حدیث کا طریقہ درس یہ ہوتا تھا کہ جوکچھ انھیں املا کراتا ہوتا تھا اسے وہ پہلے سے لکھ کرلے جاتے تھے؛ مگربہت سے ائمہ حدیث کواپنے حفظ پراتنا اعتماد ہوتا تھا کہ وہ زبانی املا کراتے تھے، ان ہی لوگوں میں اسحاق بن راہویہ بھی تھے، اوپر ذکر آچکا ہے کہ بسااوقات وہ کئی کئی ہزار روایتیں ایک مجلس میں زبانی املا کرادیتے تھے۔

تنقید حدیث[ترمیم]

کہتے تھے کہ (جوذخیرۂ حدیث میرے پاس ہے ان میں) ایک لاکھ حدیثوں کے موقع ومحل سے اس طرح واقف ہوں کہ وہ گویا میری آنکھوں کے سامنے ہیں، ان میں سے سترہزار تومجھے مع معانی حفظ ہیں اور چارہزار مزوّرہ حدیثیں اور مجھے یاد ہیں، لوگوں نے پوچھا کہ مزوّرہ حدیثوں سے آپ کی کیا مراد ہے؟انھوں نے کہا کہ وہ جھوٹی اور موضوع روایتیں جنھیں میں نے اس لیے یاد کر لیا ہے کہ جب وہ روایتیں صحیح احادیث کے ساتھ مختلط ہوکر میرے سامنے آئیں توان میں جتنا حصہ کذب اور وضع کا ہو اسے الگ کردوں اور صحیح حدیث کا جتنا حصہ ہے اس کوعلیحدہ کردوں۔ ان کی اس خدمت کی اہمیت کا اندازہ پورے طور پر اسی وقت ہو سکتا ہے کہ جب دوسری صدی کے اس فتنہ کی تاریخ کوسامنے رکھا جائے، جس کے ذریعہ ہزاروں بے سروپا روایتیں احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے لوگوں میں رواج پاگئی تھیں اور نہ جانے کتنی موضوع روایتیں زبان زد خاص وعام ہو گئی تھیں، اس فتنہ کے مقابلہ کے لیے ائمہ حدیث نے جوکدوکاوش اور جدوجہد کی اور اس کے لیے دکھ سہے اس کا صحیح اندازہ تویحییٰ بن معین، عبد الرحمن مہدی، ابن المدینی، احمد بن حنبل وغیرہ کے حالات سے ہوگا؛ مگراس صدی کے دوسرے ائمہ کے سوانح حیات میں بھی اس قسم کی کوششوں کی کوئی نہ کوئی جھلک ملتی ہے؛ اسی طرح کی کوشش حضرت اسحاق بن راہویہ نے بھی کی تھی۔

اہلِ علم سے مذاکرات[ترمیم]

اجتہادی مسائل میں ارباب علم کے درمین ہمیشہ مذاکرہ ومباحثہ ہوتا رہا ہے، امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ یہ دونوں بزرگ اسحاق بن راہویہ کے معاصر تھے، اس لیے ان میں بھی بعض دینی مسائل میں مذاکرے ہوئے ہیں، ان میں سے اہلِ تذکرہ نے خصوصیت سے دومسئلوں کا ذکر کیا ہے۔ ایک مسئلہ یہ تھا کہ مکہ کے اندر جومکانات ہیں ان پران کے رہنے والوں کا حق ملکیت بھی ہے یانہیں؛ اگر ہے تووہ ان کوکرایہ وغیرہ پراُٹھاسکتے ہیں یانہیں اور اگرنہیں ہے تو پھران کوبیع کرنے یاکرایہ پردینے کا اختیار ہے یانہیں امام شافی ملکیت کے قائل تھے اور اسحاق بن راہویہ مکہ کی سرزمین پرکسی کی ملکیت تسلیم نہیں کرتے تھے، اتفاق سے ایک بار مکہ میں ان دونوں بزرگوں کا اجتماع ہو گیا، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ بھی موجود تھے، اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ بھی یہ چونکہ اس مسئلہ میں بہت سخت تھے، اس لی انھوں نے امام شافعی کے سامنے اپنے خیال کا اظہار کیا، امام شافعی رحمہ اللہ نے اس سے اختلاف کیا اور اپنے اس اجتہاد پرقرآن کی اس آیت سے استدلال کیا: لِلْفُقَرَاء الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيارِهِمْ۔ [11] ترجمہ:ان فقیر مہاجرین کے لیے جن کوان کے گھروں سے نکالا گیا۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ اس آیت میں دیار کی نسبت ان کے مالکوں کی طرف کی گئی ہے؛ پھرحدیث سے انھوں نے حجت قائم کی، وہ یہ کہ فتح مکہ کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جوانپے گھر کا دروازہ بند کرلے وہ مامون ہے؛ پھرفرمایا کہ ابوسفیان کے مکان میں داخل ہوجائے اُس کوامن ہے.... پھرفرمایا کہ عقیل نے توہمارے لیے کوئی مکان نہیں چھوڑا (جس میں ہم ٹھہرسکیں) (حضرت عقیل رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چھوٹے بھائی تھے، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ مکہ سے ہجرت کرگئے توحضرت عقیل رضی اللہ عنہ نے اپنا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مکان فروخت کرڈالا، یہ اسی طرف اشارہ ہے) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اُسوہ سے استدلال کرتے ہوئے امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ انھوں نے جیل خانے کے لیے کچھ لوگوں سے ان کے مکانات خریدلیے تھے، اسحاق بن راہویہ نے یہ دلائل سن کرفرمایا کہ مگربعض تابعین میرے خیال کی تائید کرتے ہیں، اس پرامام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میں تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول پیش کرتا ہوں اور آپ تابعین کی رائے سے استدلال کرتے ہیں، اسحاق بن راہویہ نے پھرقرآن کی اس آیت کواستدلال میں پیش کیا: سَوَاء الْعَاكِفُ فِيهِ وَالْبَادِ۔ [12] ترجمہ:اس میں مقیم ومسافردونوں برابر ہیں۔ اس کے جواب میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہ تومسجدِ حرام کے بارے میں ہے، مکہ کی عام زمین اس سے مراد نہیں ہے، اسی طرح ایک اور مسئلہ میں بھی مذاکرہ ہوا، وہ مسئلہ یہ تھا کہ مردہ جانور کی کھال دباغت سے پاک ہوجاتی ہے یانہیں؟ امام شافعی پاکی کے قائل تھے اور اسحاق بن راہویہ عدمِ جواز کے۔ [13]

عادات واخلاق[ترمیم]

عادات واخلاق اور زہد وتقویٰ کے اعتبار سے بھی وہ ممتاز تھے، تمام اہلِ تذکرہ لکھتے ہیں کہ وہ صدق وصفا ورع وتقویٰ میں ممتاز تھے، ان کے تقویٰ اور خشیتِ الہٰی کے بارے میں یہ آیت مثال کے طور پرپیش کی جاتی تھی: إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاء۔ [14] ترجمہ:خدا کے بندوں میں اس سے اس کو جاننے والے ہی ڈرتے ہیں۔ ایک بار امیرخراسان علی بن طاہر کے پاس گئے، ہاتھ میں کچھ کھجوریں تھیں، وہ کھاتے ہوئے اس کے سامنے بیٹھ گئے، اس نے ان کی اس بے نیازی اور سادگی کودیکھ کر کہا اگرتم نے یہ کسی ریا کی وجہ سے نہیں کیا ہے تودنیا میں تم سے زیادہ بے ریا میں نے نہیں دیکھا۔ [15] اس سادگی کے باوجود زندگی زیادہ ترعشرت ہی میں بسر ہوتی تھی، وہ ہمیشہ مقروض رہتے تھے، ایک بار تیس ہزار درہم ان پرقرض ہو گئے، یحییٰ نے جوان کے علم و فضل کے قائل تھے، علی بن طاہر امیرخراسان کوایک رقعہ لکھا کہ ان کا قرض ادا کر دیا جائے؛ چنانچہ اس نے ان کا قرض ادا کر دیا۔ [16] وہب بن جریر فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اسحاق بن راہویہ صدقہ اور یعمر کوجزائے خیر دے کہ انھوں نے مشرق میں سنت کوزندہ کیا۔ [17] ابن حبان کہتے ہیں کہ اسحاق بن راہویہ نے سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی ترویج کی جھوٹی روایتوں کواحادیثِ نبوی سے الگ کیا اور جن لوگوں نے سنت کی مخالفت کی ان کا پورا مقابلہ کیا۔

تصنیف[ترمیم]

انھوں نے اپنی تحریری یادگاریں بھی چھوڑی ہیں اس وقت ان کے موجود ہونے کا کوئی علم نہیں ہے، ابن حبان نے توصرف اتنا لکھا ہے: وصنّف الکتب (ترجمہ:انھوں نے بہت سی کتابیں تصنیف کی ہیں) مگر اس کی کوئی تفصیل نہیں بیان کی، ابنِ ندیم نے البتہ ان کی دوتصنیفات کا تذکرہ کیا ہے: (1)کتاب السنن فی الفقہ (2)کتاب التفسیر۔ امام سیوطی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ تابعین کے بعد جن لوگوں نے فن تفسیر کوزندہ کیا ان میں اسحاق رحمہ اللہ بھی ہیں۔

وفات[ترمیم]

77/برس کی عمر میں سنہ238ھ میں وفات پائی، ان کی قبر آج بھی زیارت گاہ خلائق ہے، ابن حجر نے لکھا ہے کہ ان کی قبر مشہور ہے اور لوگ اس کی زیارت کوجاتے ہیں۔

یہ صاحب مذہب تھے[ترمیم]

حافظ ابنِ کثیرؒ نے لکھا ہے کہ یہ فقہ میں ایک مسلک کے بانی تھے، جسے اسحاقیہ کے نام سے پکارا جاتا تھا، ان کے الفاظ یہ ہیں: إسحاق بن راهويه قد كان إماماً متبعاً له طائفةٌ يقلدونه ويجتهدون على مسلكه۔ [18] ترجمہ: اسحاق بن رہویہ امام وقت تھے، ایک گروہ ان کی تقلید کرتا تھا اور ان کے مسلک کے مطابق مسائل کا استنباط اور اجتہاد کرتا تھا۔ اس بات کا علم نہیں ہو سکا کہ یہ مسلک کہاں پروان چڑھا، کتنے دنوں تک زندہ رہا اور کب فنا ہو گیا۔

علما کی رائے[ترمیم]

امام ذہبی انھیں امام الکبیر، شیخ المشرق، سید الحفاظ لکھتے ہیں [19] اسحاق بن راہویہ ثقہ محدثین میں شمار ہوتے ہیں امام دارمی کہتے ہیں "اسحاق بن راہویہ اہل مشرق و مغرب کے صداقت فی الحدیث میں سردار ہیں " جبکہ خطيب بغدادی کہتے ہیں : "ان کی ذات حديث، فقہ، حفظ، صداقت، ورع اورزهد سب کی جامع تھی" ان کی مشہور تصنيف، "مسنداسحاق بن راہویہ" ہے ان کا وطن نيشاپورتھا اوروفات بھی اسی جگہ پائی .[20][21]

تصانیف[ترمیم]

ابن راہویہ نے قرآن (تفسیر)، حدیث اور فقہ کے موضوع پر کئی کتابیں لکھیں :

  • المسند
  • الجامع الكبير
  • الجامع الصغير
  • المصنف
  • العلم
  • التفسير الكبير: گم شدہ یا تباہ شدہ

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/102508062 — اخذ شدہ بتاریخ: 14 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: CC0
  2. (تاریخِ بغداد:2/275)
  3. (تہذیب التہذیب:2/216)
  4. (تہذیب التہذیب:10/218)
  5. (تاریخ بغداد:2)
  6. (تاریخ بغداد:2)
  7. (تاریخ دمشق، ابن عساکر:8/127، شاملہ،ملفات وورد من على ملتقى أهل الحديث)
  8. (تاریخ بغداد)
  9. (تاریخِ بغداد)
  10. (تاریخ بغداد:376)
  11. (الحشر:8)
  12. (الحج:25)
  13. (طبقات الشافعیہ:1/336)
  14. (فاطر:28)
  15. (طبقات الشافعیہ:1/334)
  16. (طبقات الشافعیہ:1/334)
  17. (ابن عساکر:2/414)
  18. (الباعث الحثيث في اختصار علوم الحديث:1/35، شاملہ، موقع الوراق۔ اختصار علوم الحدیث:89)
  19. سير اعلام النبلاء،شمس الدين ابو عبد الله محمد بن احمد الذَہبی
  20. موسوعۃ الفقہیہ جلد1، صفحہ449، اسلامی فقہ اکیڈمی، دہلی، انڈیا
  21. الاعلام، جلد 1، صفحہ 292، خير الدين زركلی الدمشقی