اسم معرفہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

اسم معرفہ اسم کی ایک اہم قسم جو کسی مخصوص شخص، جگہ یا چیز کے نام کو ظاہر کرتی ہے۔ اسم معرفہ کی بھی کئی اقسام ہیں، اسم علم، اسم ضمیر، اسم اشارہ اور اسم موصول۔

اسم معرفہ کا مفہوم[ترمیم]

وہ اسم جو کسی مخصوص شخص، جگہ یا چیز کو ظاہر کرے اسم معرفہ یا اسم خاص کہلاتا ہے۔

یا

اسم معرفہ کو اسم خاص بھی کہتے ہیں، ایسا اسم جو کسی مخصوص شخص، جگہ یا چیز کا نام ہو اسے اسم معرفہ کہتے ہیں۔

یا

یا ایسا اسم جو کسی خاص شخص، جگہ یا چیز کے لیے بولا جائے اسم معرفہ کہلاتا ہے۔

اسم معرفہ کی مثالیں[ترمیم]

قائداعظم، تاج محل، مسجد اقصٰی۔ ابن مریم، غارحرا، کراچی، لاہور وغیرہ

شعر کی مثال[ترمیم]

اِک ولولہ تازہ دیا میں نے دلوں کو

لاہور سے تا خاکِ بخارا و سمرقند

اس شعر میں لاہور، بخارا اور سمرقند اسم معرفہ ہیں۔

اسم معرفہ کی اقسام[ترمیم]

اس مدرسہ کی درج ذیل قسمیں معروف ہیں :

  1. اسم علم
  2. اسم ضمیر
  3. اسم اشارہ
  4. اسم موصول

اسم علم[ترمیم]

اسم علم کا مفہوم[ترمیم]

علم کے لغوی معنی علامت اور نشان کے ہیں علم کے ایک اور معنی جاننا کے بھی ہیں لیکن گرائمر کی زبان میں اسم علم سے مراد وہ خاص نام ہیں جو مختلف اشخاص کی پہچان کے لیے بولے جاتے ہیں اور مختلف اشخاص کی پہچان کے لیے علامت کا کام دیتے ہیں۔ یا وہ خاص نام جس سے کوئی شخص جگہ یا چیز پکاری جائے اسم علم کہلاتا ہے۔

اسم علم کی مثالیں[ترمیم]

سید الشہدا، شمس الملعاء، کلیم اللہ، قائداعظم، ابن مریم، حمیرا، اسلام آباد، پنجاب، کلو، کلن وغیرہ

اسم علم کی اقسام[ترمیم]

خطاب، تخلص، لقب، عرف، کنیت

1۔ خطاب[ترمیم]

خطاب کا مفہوم[ترمیم]

خطاب سے مراد وہ نام ہے جو کسی شخص کی عزت بڑھانے کے لیے اُس کی خدمات یا کسی خاص خوبی کی بنا پر قوم یا حکومت کی طرف سے دیا جائے۔

خطاب کی مثالیں[ترمیم]

خطاب کے استعمال کے چند نمونے ملاحظہ فرمائیں :

انِ مثالوں میں شمس العلماء، قائد اعظم، رستمِ الزماں خطاب ہیں۔

اعزازات کی مثالیں[ترمیم]

نشانِ حیدر، ہلال جرات، ستارہ جرات، ستارہ خدمت، ستارہ پاکستان وغیرہ

2۔ تخلص[ترمیم]

تخلص کا مفہوم[ترمیم]

تخلص اُس نام کو کہتے ہیں جو شاعر اپنے اصلی نام کی بجائے شعروں میں استعمال کرتے ہیں۔ یا تخلص ایسا مختصر نام ہوتا ہے جو شاعر اپنے اصلی نام کی جگہ شعروں میں استعمال کرتے ہیں۔

تخلص عموماً آخری شعر میں استعمال ہوتا ہے۔

تخلص کی مثالیں[ترمیم]

اسد اللہ غالب، الطاف حسین حالی، محمد حسین آزاد وغیرہ، اِن مثالوں میں غالب، حالی اور آزاد تخلص ہیں۔

3۔ لقب[ترمیم]

لقب کا مفہوم[ترمیم]

وہ خاص نام جو کسی خاص خوبی کی وجہ سے مشہور ہو جائے اسے لقب کہتے ہیں۔ یا لقب ایسا خاص نام ہوتا ہے جو کسی خاص خوبی یا وصف کی وجہ سے مشہور ہو جائے۔

لقب کی مثالیں[ترمیم]

لقب کے استعمال کے چند نمونے ملاحظہ فرمائیں :

داتا گنج بخش، سید علی ہجویری کا لقب ہے۔

بت شکن، محمود غزنوی کا لقب ہے جس نے ہندوستان میں سترہ حملے کیے اور سومنات کے مندر میں بُتوں کو توڑا۔

4۔ عرف[ترمیم]

عرف کا مفہوم[ترمیم]

وہ نام جو اصلی نام کی جگہ محبت یا حقارت کی وجہ سے مشہور ہو جائے عرف کہلاتا ہے۔ یا ایسا نام جو کسی محبت یا حقارت کی وجہ سے لوگ، اہلِ محلہ یا گھر والے پکارتے ہیں عرف کہلاتا ہے۔

عرف کی مثالیں[ترمیم]

کالے خان کو کلن، غلام محمد کو گاما، معراج دین کو ماجھا، نعمان کو مانی، کاشان کو کاشی، شاہدہ کو شادو وغیرہ

اِن مثالوں میں کلن، گاما، ماجھا، مانی، کاشی، شادو عرف ہیں۔

5۔ کنیت[ترمیم]

کنیت کا مفہوم[ترمیم]

وہ نام جو باپ، ماں، بیٹے، بیٹی یا کسی اور تعلق کی وجہ سے بولا جائے اُسے کنیت کہتے ہیں۔

ایسا نام جو باپ، ماں، بیٹا، بیٹی کی نسبت سے پکارا جائے کنیت کہلاتا ہے۔

کنیت کی مثالیں[ترمیم]

کنیت کے استعمال کے چند نمونے

  1. ام سلمیٰ اور ام حبیبہ بھی کنیت ہیں۔

2۔ اسم ضمیر[ترمیم]

اسم ضمیر کا مفہوم[ترمیم]

ایسے الفاظ جو کسی دوسرے اسم کی جگہ استعمال کیے جائیں اسمائے ضمیر کہلاتے ہیں۔ یا وہ اسم جو کسی چیز شخص یا نام کی بجائے بولا جائے اسم ضمیر کہلاتا ہے۔ یا ایسے تمام الفاظ جو کسی اسم کی جگہ بولے جائیں یا انھیں زبان سے بول کردل میں کسی شخص یا چیز کی طرف اشارہ کیا جائے اسم ضمیر کہلاتے ہیں۔

اسم ضمیر کی مثالیں[ترمیم]

خدا ایک ہے وہ، سب کا مالک ہے۔

اِس مثال میں وہ اسم ضمیر ہے اور خدا مرجع ہے۔

انورایک محنتی لڑکا ہے۔ وہ صبح سویرے اُٹھتاہے۔ اُس نے کبھی غیر حاضری نہیں کی۔ اُسے تمام اساتذہ پیار کرتے ہیں۔

اِس مثال میں وہ، اُس نے، اُسے اسمائے ضمیر ہیں جبکہ انور مرجع ہے۔

مرجع[ترمیم]

اسم ضمیر جس اسم کی بجائے بولا جائے اسے مرجع کہتے ہیں، اوپر دی گئی مثالوں میں خدا اور انور مرجع ہیں۔

ضمیر شخصی[ترمیم]

اسم ضمیر جب کسی شخص کے لیے استعمال ہو تو اسے ضمیر شخصی کہتے ہیں۔ یا وہ اسم ضمیر جو کسی شخص کے لیے بولا جائے ضمیر شخصی کہلاتا ہے۔ یا عرفان آیا اور وہ کرسی پر بیٹھ گیا۔

اس جملے میں وہ کا لفظ ضمیرشخصی ہے۔

ضمیرشخصی کی صورتیں[ترمیم]

ضمیر شخصی کی تین صورتیں ہیں۔

  1. ضمیرغائب
  2. ضمیرحاضریا ضمیر مخاطب
  3. ضمیر متکلم

1۔ ضمیر غائب[ترمیم]

یہ ضمیر اُس شخص کے لیے استعمال ہوتا ہے جو ہمارے سامنے موجود نہ ہو یعنی غائب ہو۔ یا یہ ضمیر ایسے شخص کے لیے بولا جاتا ہے جو ہمارے سامنے حاضر نہ ہو یعنی غائب ہو۔

مثالیں

وہ، اُس، اُن، انھوں وغیرہ

2۔ ضمیر حاضر یا ضمیر مخاطب[ترمیم]

یہ ضمیر اُس شخص کے لیے استعمال ہوتا ہے جس سے بات کی جائے اِس ضمیر میں ہمارا مخاطب ہمارے سامنے موجود ہوتا ہے اِس لیے اِس ضمیر کو ضمیر مخاطب بھی کہتے ہیں۔ یا یہ ضمیر اُس شخص کے لیے استعمال ہوتا ہے جس کے ساتھ بات کی جائے اِس ضمیر میں چونکہ ہم بات کرنے والا مخاطب ہمارے سامنے موجود ہوتا ہے یعنی حاضر ہوتا ہے اِس لیے ا،س ضمیر کو ضمیر حاضر یا ضمیر مخاطب کہتے ہیں۔

مثالیں

تُو، تُم، آپ وغیرہ

3۔ ضمیر متکلم[ترمیم]

یہ ضمیر ہے جس میں بات کرنے والا شخص (متکلم) اپنے لیے استعمال کرتا ہے۔ یا ضمیر متکلم اُس ضمیر کو کہتے ہیں جس میں بات کرے والا شخص یعنی متکلم اپنی ذات کے لیے کرتا ہے۔

مثالیں

میں، ہم وغیرہ

ضمیر شخصی کی حالتیں[ترمیم]

اسم ضمیر شخصی کی مندرجہ ذیل تین شخصی حالتیں ہیں۔

  1. حالتِ فاعلی
  2. حالت مفعولی
  3. حالتِ اضافی

1۔ حالتِ فاعلی[ترمیم]

جب کوئی ضمیر اپنے فاعل کی جگہ استعمال کیا جائے تو ضمیر کی ااِس حالت کو حالتِ فاعلی کہتے ہیں۔

یا

جب کوئی ضمیر اپنے بجائے فاعل کی جگہ پر استعمال ہوتا ہو تو ضمیر کی اِس حالت کو ضمیر کی فاعلی حالت کہتے ہیں۔

مثالیں

وہ، اُس نے، میں، ہم وغیرہ

اکبر کہتا ہے ”میں کراچی جائوں گا“

اِس جملے میں ”میں “ ضمیر کی فاعلی حالت ہے۔

طاہربہت نیک ہے وہ بزرگوں کا ادب کرتا ہے۔

اِس جملے میں ”وہ“ ضمیر کی فاعلی حالت ہے۔

ضمیر کی فاعلی حالت کے صیغے[ترمیم]
واحد غائب جمع غائب واحد حاضر جمع حاضر واحد متکلم جمع متکلم
وہ، اُس وہ، اُن، انھوں نے تو آپ، تُم میں ہم

2۔ حالت مفعولی[ترمیم]

جب کوئی ضمیر اپنے مفعول کی جگہ استعمال ہوتویہ ضمیر کی حالت مفعولی کہلاتی ہے۔

یا

جب کوئی ضمیر مفعول کی جگہ استعمال ہو تو ضمیر کی اِس حالت کو حالتِ مفعولی کہا جاتا ہے۔

مثالیں

اُسے، اُس کو، تمھیں، تُم کو، مجھے، مجھ کو وغیرہ

وسیم بہت اچھا لڑکا ہے، سب اُسے بہت پیار کرتے ہیں۔

میں تمھارا بھائی ہوں، مجھے صحیح بات بتائو۔

اِن جملوں میں ”اُسے “ اور ”مجھے “ ایسے اسمائے ضمیر ہیں جو مفعول کی جگہ پر استعمال ہوئے ہیں۔ اِس لیے انھیں ضمیر کی حالت مفعولی کہتے ہیں۔

ضمیر کی مفعولی حالت کے صیغے[ترمیم]
واحد غائب جمع غائب واحد حاضر جمع حاضر واحد متکلم جمع متکلم
اُسے انھیں تجھے تُمھیں مجھے ہمیں
اُس کو اُن کو تُجھ کو تُم کو، آپ کو مجھ کو ہم کو

3۔ حالتِ اضافی[ترمیم]

جب کوئی کسی اسم کا کسی شخص یا چیزسے تعلق ظاہر کرے اُسے ضمیر کی حالتِ اضافی کہتے ہیں۔

یا

جو ضمیر کسی شخص یا چیز کا تعلق کسی اسم سے ظاہر کرے اُسے ضمیر کی حالِتِ اضافی کہتے ہیں۔

مثالیں ضمیر کی حالت اضافی کے چند نمونے

  • اُس کا، اُس کے، اُس کی، اُن کا۔ اُن کے، میرا، میرے، ہمارے وغیرہ
  • انور نہایت ذہین لڑکا ہے ”اُس کا حافظہ بہترین ہے “
  • علامہ اقبال عام شاعر نہیں تھے ”اُن کے استاد مولوی میر حسن تھے “
  • ارشد نے کہا کہ ”میرا بھائی اسکول گیا ہے “

اِن تینوں مثالوں میں ”اس کا“ ”اُن کے “ ”میرا“ ایسے ضمیر ہیں جو مرجع سے اپنا تعلق ظاہر کر رہے ہیں۔ انھیں ضمیر کی اضافی حالت کہتے ہیں۔

ضمیر کی حالتِ اضافی کے صیغے[ترمیم]
واحد غائب جمع غائب واحد حاضر جمع حاضر واحد متکلم جمع متکلم
اُس کا اُن کا تیرا تمھارا، آپ کا میرا، ہمارا
اُس کے اُن کے تیرے آپ کے میرے ہمارے
اُس کی اُن کی تیری آپ کی میری ہماری

3۔ اسم اشارہ[ترمیم]

اسم اشارہ کا مفہوم[ترمیم]

اسم اشارہ وہ اسم ہے جسے کسی چیز، شخص یا جگہ کی طرف اشارہ کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔

یا

اسم اشارہ اُس اسم کو کہتے ہیں جس کو کسی شخص، جگہ یا چیز کی طرف اشارہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہو۔

یا

اسم اشارہ ایسا اسم ہوتا ہے جس کو کسی چیز، جگہ یا شخص کی طرف اشارہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

اسم اشارہ کی مثالیں[ترمیم]

یہ لڑکا۔ وہ عورت، یہ میرا قلم ہے، وہ کس کی کتاب ہے؟، وہ کرسی ہے، اُس بچے کا باپ کیا کرتا ہے؟

اِن جملوں میں یہ، وہ اور اُس کے الفاظ لڑکا۔ عورت۔ قلم، کتاب، کرسی اور بچے کی طرف اشارہ کرنے کے لیے استعمال ہوئے ہیں اِن الفاظ کو اسم اشارہ کہتے ہیں۔

مشار“ الیہ[ترمیم]

جس چیز کی طرف اشارہ کیا جائے اُسے مشار“ الیہ کہتے ہیں مثلاٌ اوپر کی مثالوں میں لڑکا، عورت۔ قلم، کتاب، کرسی اور بچہ مشار“ الیہ ہیں۔

اسم اشارہ کی اقسام[ترمیم]

اسم اشارہ کی دو قسمیں ہیں۔

1۔ اشارہ قریب

2۔ اشارہ بعید

1۔ اسم اشارہ قریب[ترمیم]

نزدیک کی چیزوں کی طرف اشارہ کرنے کے لیے جو کلمہ استعمال ہوتا ہے اپسے اسم اشارہ قرہب کہتے ہیں۔

یا

وہ کلمہ جو نزدیک کی چیزوں کی طرف اشارہ کرنے کے لیے استعمال ہو اسم اشارہ قریب کہلاتا ہے۔

یا

ایسا کلمہ جو قریب کی چیز، شخص یا جگہ کی طرف اشارہ کرنے کے لیے استعمال ہو اسم اشارہ قریب کہلاتا ہے۔

مثالیں

یہ، اِس، اِن، اِسے وغیرہ

یہ بلی ہے۔ اِسے پھل کہتے ہیں، اِن کا نام اسلم ہے، اِس کو چوزہ کہتے ہیں۔

اِن جملوں میں یہ، اِسے، اِن اور اِس قریب کی چیزوں کی طرف اشارہ کرنے کے لیے استعمال ہوا ہے۔

2۔ اسم اشارہ بعید[ترمیم]

دُور کی چیزوں کی طرف اشارہ کرنے کے لیے جو کلمہ استعمال ہوتا ہے اُسے اسم اشارہ بعید کیتے ہیں۔

یا

وہ کلمہ جو دُور کی چیزوں کی طرف اشارہ کرنے کے لیے استعمال ہو اسم اشارہ بعید کہلاتا ہے۔

یا

ایسا کلمہ جو دُورکی چیز، شخص یا جگہ کی طرف اشارہ کرنے کے لیے استعمال ہو اسم اشارہ بعید کہلاتا ہے۔

مثالیں

وہ، اُس، انھیں وغیرہ

وہ کتاب ہے، اُس کی گاڑی کہاں ہے؟، انھیں عمارات کہتے ہیں۔

اوپر دیے گئے جملوں میں وہ، اُس، انھیں اسم اشارہ بعید ہیں۔

اسم اشارہ اور اسم ضمیر میں فرق[ترمیم]

اسم میں ضمیر اور اسم اشارہ میں ایک باریک سا فرق یہ ہے کہ اسم اشارہ میں کسی شخص یا چیز کی طرف آنکھ یا ہاتھ سے اشارہ کیا جاتا ہے جبکہ اسم ضمیر میں کسی چیز کی طرف دِل سے اشارہ کیا جاتا ہے نیز اسم اشارہ کے بعد اس اسم کا لانا ضروری ہے جس کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہوتاہے۔ اُسے مشار’‘الیہ کہتے ہیں۔ اسم ضمیر کے بعد کوئی اور اسم نہیں آتا بلکہ وہ خود اسم کی جگہ پر استعمال ہوتی ہے۔

4۔ اسم موصول[ترمیم]

اسم موصول کا مفہوم[ترمیم]

اسم موصول وہ اِسم ہے جب تک اُس کے ساتھ کوئی جملہ نہ ملایا جائے تب تک اُس کے پورے معنی سمجھ میں نہیں آتے۔

یا

اسم موصول وہ اسم ہوتا ہے کہ اُس سے بننے والے نامکمل جملے کے ساتھ جب تک دوسرا جملہ نہ ملائیں، جملہ کا مفہوم واضع نہیں ہوتا۔

یا

وہ اسم ہے جب تک اُس کے ساتھ دوسرا جملہ نہ پڑھا جائے جملہ پورے معنی نہیں دیتا۔

اسم موصول کی مثالیں[ترمیم]

جو کچھ، جو کوئی، جس کو، جس نے، جیسے، جس کا، جس کی، جیسا، جن کا، جونسا وغیرہ

مثالیں

اسم موصول کی مثالوں کے چند نمونے ملاحظہ کریں

  • جسے بلائو گے وہ آجائے گا۔
  • جو چوری کرے گا اُس کا خانہ خراب ہوگا۔
  • جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔
  • جونسی کتاب چاہو لے لو
  • جس نے محنت کی کامیاب ہوا۔

اِن مثالوں میں جسے، جو، جیسا، جونسی، جس اسم موصول ہیں۔

صلہ[ترمیم]

اسم موصول کے بعد جو جملہ آتا ہے اُسے صلہ کہتے ہیں۔

مثالیں

جو کچھ بوئو گے، وہی کاٹو گے۔

جس نے محنت کی، کامیاب ہوا۔

ان جملوں میں بوئو گے اور محنت کی اور کامیاب ہوا صلہ ہیں۔

جواب صلہ[ترمیم]

اسم موصول اور صلہ کے بعد جو اگلا جملہ بات کو مکمل کرنے کے لیے آتا ہے اُسے جواب صلہ کہتے ہیں۔

مثالیں

جو کچھ بوئو گے، وہی کاٹو گے

جس نے محنت کی، کامیاب ہوا۔

اِن جملوں میں وہی کاٹو گے اور کامیاب ہوا جواب صلہ ہیں۔

حوالہ جات[ترمیم]

[1][2]

  1. آئینہ اردو قواعد و انشاء پردازی
  2. آئینہ اردو