اصبغ بن نباتہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
اصبغ بن نباتہ
اصبغ بن نباتہ تمیمی حنظلی مجاشعی
ناماصبغ بن نباتہ
کنیتابو القاسم
مقام پیدائشکوفہ
وفاتدوسری صدی
دوردوسری صدی ہجری
مذہباسلام
والدنباتہ
پیشہعالم
وجہ شہرتعلی بن ابی طالب کے مشہور صحابی
مؤثر شخصیاتعلی بن ابی طالب اور امام حسین

اصبغ بن نباتہ تمیمی حنظلی مجاشعی علی بن ابی طالب کے کوفی اصحاب میں سے تھے۔[1][2]

نام و نسب[ترمیم]

اصبغ بن نباتہ کا نام اصبغ تھا جبکہ ان کے والد کا نام نباتہ تھا۔ ان کی کنیت ابو القاسم تھی۔ ان کا بنو حنظلہ کی شاخ مجاشع بن دارم[مردہ ربط] سے تعلق تھا۔[3]

سوانح[ترمیم]

اصبغ بن نباتہ کوفہ کا تعلق کوفہ سے تھے۔ اور یہ علی بن ابی طالب کے صحابی تھے۔[4] اصبغ کا شمار جنگ صفین کے واقعات نقل کرنے والے راویوں ہوتا ہے۔[5] جنگ جمل کے واقعات بھی ان سے منقول ہیں۔[6] بعض روایات کے مطابق یہ علی بن ابی طالب کے معتبر تابعی تھے۔[7] نصر بن المزاحم کی روایت کے مطابق اصبغ عراق کے جنگجو تھے اور ان کا علی بن ابی طالب کی سپاہ کے سرداروں میں شمار ہوتا تھا۔[8] اصبغ کو جنگ صفین میں شرطۃ الخمیس (جو ہمیشہ علی کے تابع اور گوش بہ فرمان سچے ساتھی تھے اس گروہ کو شرطۃ الخمیس کہا جاتا ہے) کے ایک رکن بلکہ کچھ عرصہ سربراہ تھے۔[9][10] علم اسماء الرجال میں بیشتر اہل سنت کے رجالی مولا علی کے ساتھی ہونے کی وجہ سے انھیں غیر موثق و ضعیف سمجھتے ہیں[11][12][13][14][15][16][17][18] مگر اہل تشیع کے نزدیک بہت معتبر اور با وثوق راوی ہیں اور انھوں نے علی بن ابی طالب کی شہادت کے واقعہ کو نقل بھی کیا تھا۔[19] چند علماء بشمول شیخ طوسی نے انھیں علی بن ابی طالب کے صحابی کی بجائے حسین بن علی کا صحابی بتایا ہے۔ اور انھیں واقعہ کربلا کا راوی لکھا ہے۔[20] اور اصبغ، اسلام کے پہلے مؤلفین میں شمار ہوتے ہیں۔ پہلے مقتل الحسین کے مصنف آپ ہیں یا آپ کے بیٹے قاسم بن اصبغ ہیں۔ گرچہ اس مقتل کی دو روایتیں ہی ہم تک پہنچی ہیں۔ ایک کو طبری نے نقل کیا ہے اور دوسری کو ابوالفرج اصفہانی نے اپنی کتاب اخبار الطالبیین میں نقل کیا ہے۔

روایت حدیث[ترمیم]

استاد[ترمیم]

اصبغ نے حضرت علی کے علاوہ ابو ایوب انصاری، عمار بن یاسر اور عمر بن خطاب سے بھی روایت کی ہے۔[21][22]

شاگرد[ترمیم]

مندرجہ ذیل اصبغ سے روایت کرتے ہیں :

  • سعد بن طریف
  • ابو حمزہ الثمالی۔
  • ابو الصبّاح الکنانی۔
  • خالد النوفلی
  • ابو مریم
  • ابو یحیىٰ
  • سعد الاسکاف
  • عبد اللہ بن جریر العبدی
  • علی الحزوّر الغنوی
  • محمد بن داود الغنوی
  • محمد بن الفرات
  • الحارث بن مغیرہ
  • عبد الحمید الطائی[23]

وفات[ترمیم]

مختلف راویات کے مطابق اصبغ علی بن ابی طالب کی وفات کے بعد کافی عرصہ حیات رہے۔[24] ان کی تاریخ وفات کا کہیں کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔ 100ھ کے بعد ہی وفات ہوئی۔

حواشی[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. آقا بزرگ، الذریعہ۔چاپ : الثالثہ، سال چاپ : 1403–1983 م، ناشر : دار الاضواء۔بیروت، لبنان(سافٹ وئر مکتبہ اہل البیت)
  2. ابن حبان، محمد، المجروحین من المحدثین و الضعفاء و المتروکین، محمود ابراہیم زاید، بیروت، 1396ق۔
  3. انصاری تلمسانی، الجوہرہ، ج1، ص186؛ ابن حزم، جمہرہ انساب العرب، ص231.
  4. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج6، ص225
  5. نصر بن مزاحم، وقعہ صفین، ص 322، 442.
  6. ابن ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج1، ص248، 263.
  7. طوسی، امالی، ج1، ص176.
  8. نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، ص442-443
  9. خلیفہ، تاریخ، ج 1، ص 231.
  10. کشی، معرفۃ الرجال، ص 103؛ خوئی، معجم الرجال الحدیث، ج3، ص222.
  11. یحییٰ بن معین، التاریخ، ج 2، ص 42
  12. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج 6، ص 225
  13. ابن حبان، المجروحین، ج 1، ص 174
  14. ابن عدی، الکامل فی الضعفاء، ج 1، ص298
  15. جوزجانی، احوال الرجال، ص 47
  16. نسایی، الضعاء و المتروکین، ص 156
  17. دارقطنی، الضعفاء المتروکین، ص 67
  18. ابن حجر عسقلانی، تقریب التہذیب، ج 1، ص 81
  19. مفید، امالی، ص351
  20. طوسی، رجال، ص66.
  21. ذہبی، میزان الاعتدال، ج1، ص271
  22. مزی، تہذیب الکمال، ج3، ص308.
  23. الخوئی، ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، ج4، ص135
  24. نجاشی، رجال، ص8

سانچے[ترمیم]