افتخار امام صدیقی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
افتخار امام صدیقی
مقامی نامافتخار امام
پیدائش1947ء
آگرہ
پیشہمدیر، شاعر (رسالہ)، خود بھی ایک شاعر، نغمہ نگار اور مصنف
زباناردو زبان
قومیتبھارت
شریک حیات(شادی نہیں کی)

افتخار امام صدیقی شاعر رسالے کے مدیر ہیں۔ یہ ادارت کی ذمے داری انھوں نے اپنے والد اعجاز صدیقی کے انتقال کے بعد اپنے سر لی۔ رسالۂ شاعر کو افتخار کے دادا سیماب اکبرآبادی نے 1930ء میں شروع کیا تھا۔ یہ رسالہ ممبئی سے شائع ہوتا ہے اور بھارت کے اردو ادب میں اس رسالے کافی اہم مقام ہے۔ افتخار 19 نومبر 1947ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے،

خاندان کے مشکلات[ترمیم]

جب افتخار امام کم عمر تھے، تب ان کے دادا سیماب اکبرآبادی تقسیم ہند کے بعد قرآن کے منظوم ترجمے کو شائع کرنے کے لیے پاکستان گئے تھے۔ وہ وہیں انتقال کر گئے۔ چونکہ موت پاکستان میں ہوئی، اس لیے قوانین کی رو سے افتخار کی خاندانی جائداد ضبط کر لی گئی۔ بد حالی کے اس دور میں 1951ء میں افتخار اپنے والد اعجاز صدیقی کے ہم راہ آگرہ سے ممبئی آئے، جسے اس وقت بمبئی کہا جاتا تھا۔ اسی کے ساتھ رسالہ شاعر کا اشاعتی مرکز آگرہ سے بمبئی منتقل ہوا اور ادبی سرگرمیاں چلتی رہیں۔[1]

جسمانی معذوری[ترمیم]

11 مارچ 2002ء کو افتخار ممبئی کی ایک مقامی ٹرین کے نیچے گر گئے۔ اس سے صحت کو مستقل نقصان ہو گیا۔ طبیعت کی اس قدر مجبوری تھی کہ آنا جانا وہیل چیئر کے سہارے ہی ہونے لگا۔ ایسے میں ان کے ایک بھائی ناظر کا ساتھ انھیں مل گیا۔ مگر ان کے بھائی بھی ایک پاؤں سے معذور ہیں اور ذاتی زندگی میں دکھی بھی، کیونکہ ناظر کا ایک بیٹا تھا، جو کم عمری میں فوت کر گیا۔ افتخار نے زندگی میں شادی نہیں کی، اس طرح انھیں اپنے بھائی کا ساتھ مل گیا تھا اور وہ ان مشکلات کے باوجود بھی اپنی ادبی جستجو جاری رکھے ہوئے ہیں۔[1]

شہرت[ترمیم]

شاعر کے ہر شمارے کے ساتھ ساتھ خود افتخار کے کلام کو بھی کافی شہرت ملی ہے۔ اس کو جگجیت سنگھ، چترا سنگھ، پنکج ادھاس اور سدھا ملہوتر جیسے گلوکاروں نے گایا ہے۔ انھوں نے ندا فاضلی اور بشیر بدر کو بالی وڈ سے متعارف کروایا۔ اس کے علاوہ افتخار کو کرشن چندر، مہندر ناتھ، راجندر سنگھ بیدی اور خواجہ احمد عباس سے قربت حاصل رہی۔[1]

نمونہ کلام[ترمیم]

  • وہ خواب تھا بکھر گیا خیال تھا ملا نہیں

مگر یہ دل کو کیا ہوا کیوں بجھ گیا پتا نہیں

ہر ایک دن اداس دن تمام شب اداسیاں

کسی سے کیا بچھڑ گئے کہ جیسے کچھ بچا نہیں

وہ ساتھ تھا تو منزلیں نظر نظر چراغ تھیں

قدم قدم سفر میں اب کوئی بھی لبِ دعا نہیں

ہم اپنے اس مزاج میں کہیں بھی گھر نہ ہو سکے

کسی سے ہم ملے نہیں کسی سے دل ملا نہیں

ہے شور سا طرف طرف کہ سرحدوں کی جنگ میں

زمیں پہ آدمی نہیں فلک پہ کیا خدا نہیں

══━━━━✥•••✺◈✺•••✥━━━━══

تو نہیں تو زندگی میں اور کیا رہ جائے گا

دور تک تنہائیوں کا سلسلہ رہ جائے گا

کیجئے کیا گفتگو کیا ان سے مل کر سوچئے

دل شکستہ خواہشوں کا ذائقہ رہ جائے گا

درد کی ساری تہیں اور سارے گذرے حادثے

سب دھواں ہو جائیں گے اک واقعہ رہ جائے گا

یہ بھی ہوگا وہ مجھے دل سے بھلا دے گا مگر

یوں بھی ہوگا خود اسی میں اک خلا رہ جائے گا

دائرے انکار کے اقرار کی سرگوشیاں

یہ اگر ٹوٹے کبھی تو فاصلہ رہ جائے گا

●━─┄━─┄═•✺❀✺•═┄─━─━━

بکھر ہی جاؤں گا میں بھی ہوا اداسی ہے

فنا نصیب ہر اک سلسلہ اداسی ہے

بچھڑ نہ جائے کہیں تو سفر اندھیروں میں

ترے بغیر ہر اک راستا اداسی ہے

بتا رہا ہے جو رستہ زمیں دشاؤں کو

ہمارے گھر کا وہ روشن دیا اداسی ہے

اداس لمحوں نے کچھ اور کر دیا ہے اداس

ترے بغیر تو ساری فضا اداسی ہے

کہیں ضرور خدا کو مری ضرورت ہے

جو آ رہی ہے فلک سے صدا اداسی ہے


مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]