امید فاضلی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
امید فاضلی
پیدائشارشاد احمد فاضلی
17 نومبر 1923(1923-11-17)ء
ڈبائی،بلند شہر، برطانوی ہندوستان
وفاتستمبر 29، 2006(2006-09-29)ء

کراچی، پاکستان
قلمی نامامید فاضلی
پیشہشاعر، سرکاری ملازمت
زباناردو
شہریتپاکستان کا پرچمپاکستانی
تعلیمگریجویشن
مادر علمیعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی
اصنافمرثیہ نگاری ، شاعری
نمایاں کامدریا آخر دریا ( غزلیات کا پہلا مجموعہ )
میرے آقا ( نعتوں کا مجموعہ )
سر نینوا (مرثیوں کا مجموعہ )

امید فاضلی ( 17 نومبر 1923ء۔ 29 ستمبر 2006ء ) کا شمار پاکستان کے نامور شاعروں اور مرثیہ نگاروں میں ہوتا ہے۔

ابتدائی زندگی اور کیرئیر کا آغاز[ترمیم]

ارشاد احمد فاضلی المعروف امید فاضلی 17 نومبر 1923 کو ڈبائی، بلندشہر ضلع، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے[1]۔ والد کا نام سید محمد فاروق حسن فاضلی تھا ۔[2] ڈبائی سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد میرٹھ گئے جہاں سے میٹرک کیا ازاں بعد علی گڑھ محمڈن کالج اور یونیورسٹی سے گریجویشن کیا[3] اور پھر 1940 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔1944 ء میں وہ کنٹرولر آف ملٹری اکاونٹس کے محکمے سے وابستہ ہوئے۔[4] 1952ء میں پاکستان آ گئے اور کراچی میں مستقل قیام کیا۔ ملٹری اکاؤنٹس کے ادارے میں ہی خدمات انجام دینے کے بعد ریٹائرڈ ہوئے۔ اس وقت کراچی کے ایک مجلہ سیپ کے مدیر نسیم درانی صاحب نے جب الفاظ کا اجرا کیا تو ریٹائرڈ شاعر و ادیب امید فاضلی کو اس کی ادارت سونپ دی ۔

سلسلہِ شعر و سخن[ترمیم]

امید فاضلی نے شاعری کی ابتدا 15 برس کی عمر میں کی، پہلے شکیل بدایونی اور پھر نوح ناروی سے شرف تلمذ حاصل رہا۔ ابتدا میں وہ امید ڈبائیوی کے نام سے شاعری کرتے تھے بعد ازاں انھوں نے امید فاضلی کا قلمی نام اختیار کیا۔ امید فاضلی کی ابتدائی شہرت غزل سے ہوئی۔ تاہم بچپن سے مرثیہ خوانی کرنے کے باعث انھوں نے 1949ء سے مرثیہ گوئی کے میدان میں اپنا قلم رواں کیا اور ملک گیر شہرت پائی۔ امید فاضلی نے فنِ شاعری میں ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی۔ غزل، نظم، سلام، نوحہ، حتی کہ گیت بھی لکھے۔ ان کے کئی اشعار ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں۔[3]

امید فاضلی کی مرثیہ گوئی[ترمیم]

بچپن سے مجالس اور مرثیہ خوانی کے باعث امید فاضلی کے ذہن میں اوزان و بحورزچ بس گئے تھے۔ نوح ناروی کی رہنمائی بھی ملی لہذا 1949ء میں 35 بند پر مشتمل پہلا مرثیہ یا رب بحقِ خونِ شہیدانِ کربلا کہا۔ اگرچہ 1949ء سے 1972ء تک وہ ایک غزل گو شاعر کی حیثیت سے ہی پہچانے گئے لیکن 1972ء میں جب انھوں نے دوسرا مرثیہ زبانِ عجز کھلی ہے تو مدعا مانگوں کہا، پھر اس کے بعد مرثیہ کہتے چلے گئے اور مرثیہ گوئی میں وہ مقام پایا کہ پاکستان ٹیلی وژن اور ریڈیو پاکستان پر ہر سال محرم میں ان کا مرثیہ تحت اللفظ پیش کیا جانے لگا۔ ان کے مرثیوں کے مجموعہ سر نینوا پر میر انیس ایوارڈ بھی دیا گیا۔ مشفق خواجہ اور پروفیسر کرار حسین نے ان کی غزلیہ شاعری کو سراہا۔

نمونہَ کلام[ترمیم]

نعتیہ کلام

ان کی مدحت کو قلم تحریر کر سکتا نہیں حرفِ موجِ نور کو زنجیر کر سکتا نہیں
جس کا مسلک پیرویٔ اسوۂ سرکار ﷺہے کوئی اس انسان کو تسخیر کر سکتا نہیں
ذہن و دل کا مرکز ومحور نہ ہو جب تک وہ ذات کوئی اپنی ذات کی تعمیر کر سکتا نہیں
لا سے الا اللہ تک گر مصطفٰی ﷺ رہبر نہ ہوں منزلوں کا فیصلہ راہ گیر کر سکتا نہیں
آپ ﷺہی سے زندگی نے پائے ہیں ایسے چراغکوئی جھونکا جن کو بے تنویر کر سکتا نہیں
معرفت اسمِ محمد ﷺ کی نہ ہو جب تک امید آدمی قرآن کی تفسیر کر سکتا نہیں

مرثیہ کے بند

لب جو کھولوں یہاں عجز ہنر کھلتا ہے منزل آتی ہے تو سامان سفر کھلتا ہے
علم کے در سے اگر میری سفارش ہو جائےکشتِ تخیل پر الفاظ کی بارش ہو جائے
علم کے در سے اگر میری سفارش ہو جائے
کشت تخئیل پر الفاظ کی بارش ہو جائے
علم آیات الہی کی حرا میں تنزیل اس کی آواز ہے داؤد تو لہجہ ہے خلیل
یہی قرآن کا دعویٰ ، یہی دعوے کی دلیل یہ وہ اجمال ہے ، ممکن نہیں جس کی تفصیل
یہ رگ حرف میں خوں بن کے رواں ہوتا ہے
اس کی آغوش میں وجدان جواں ہوتا ہے

٭٭٭

اشعار

جانے کب طوفان بنے اور رستہ رستہ بچھ جائے بند بنا کر سو مت جانا، دریا آخر دریا ہے

٭٭٭

دلوں کو زخم نہ دو حرفِ ناملائم سے یہ تیر وہ ہے کہ جو لوٹ کر بھی آتا ہے

٭٭٭

کل اس کی آنکھ نے کیا زندہ گفتگو کی تھیخیال تک نہ ہوا وہ بچھڑنے والا ہے

٭٭٭

آسمانوں سے فرشتے جو اتارے جائیں وہ بھی اس دور میں سچ بولیں تو مارے جائیں

٭٭٭

جانے یہ کیسا زہر دلوں میں اُتر گیا پرچھائیں زندہ رہ گئی ا نسان مر گیا

٭٭٭

زندگی میں ہی کس نے یا د کیا بعد میں کس کو یا د آ ؤ گے

٭٭٭

تصنیفات[ترمیم]

  1. دریا آخر دریا ( غزلیات کا پہلا مجموعہ ) 1979ء۔۔ اس شعری مجموعے کو آدم جی ادبی انعام بھی ملا ۔
  2. میرے آقا ( نعتوں کا مجموعہ )1984۔ ۔۔ اس نعتیہ مجموعے کو رائٹرز گلڈ کا انعام عطا ہوا تھا
  3. سر نینوا (مرثیوں کا مجموعہ )1982۔۔۔ میر انیس ایوارڈ عطا کیا گیا۔
  4. مناقب (منقبتوں کا مجموعہ )
  5. پاکستان زندہ باد ( قومی شاعری کا مجموعہ)1988
  6. تب و تاب جاودانہ (قومی شاعری کا مجموعہ )1991

جبکہ ان کا آخری مجموعۂ کلام زندہ گفتگو ہنوز تشنہ ٔ طباعت ہے۔

تنقید وآرا[ترمیم]

عاشور کاظمی نے ان کے اسلوبِ مرثیہ کو ان الفاظ سے سراہا ہے ۔

امید فاضلی نے اپنے مراثی میں کلاسیکی انداز کی پابندی نہیں کی ۔ لیکن کہیں یہ اعلان بھی نہیں کیا کہ وہ جدید مرثیئے کے علمبردار پیں ۔ان کے نظریے کے مطابق زبان ارتقا پزیر ہے ، شاعری ارتقا پزیر ہے ، زندگی کا ہتر پہلو ارتقا پزیر ہے ۔شعر کے حوالے سے قدامت و جدت کی بحث انکی نظر میں وقت کا زیاں ہے ۔

وہ مزید لکھتے ہیں :

امید فاضلی محبت کے شاعر ہیں ، فکر کے شاعر ہیں ۔ جب سے انہوں نے مظلومِ کربلا کو اپنی محبت کا مرکز بنا کیا ہے ۔ انہیں چلتی ہوئی تلواروں میں سرمدی نغمے سنائ دیتے ہیں ۔ ان کے مرثیوں کے موضوعات عشق و شعور قرآن اور اہلِ بیت علم و عمل تہذیبِ نفس صبر اور سیدہ زینبؑ اس کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ امید فاضلی کو طلوع کا سراغ مل گیا ہے اور انہوں نے غروب یا غروب ہونے والوں سے ناتا توڑ لیا ہے ۔

وفات[ترمیم]

28 اور29 ستمبر 2005ء کی درمیانی شب اردو کے ممتاز شاعر امید فاضلی کراچی میں وفات پاگئے۔ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔[1]

حوالہ جات[ترمیم]