امیربی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(امیر بی سے رجوع مکرر)

امیر بی (وفات : 1992ء) ایک عظیم سپورٹس ویمن تھیں جنھوں نے پانچ بیٹوں کو جنم دیا، جن میں سے چار (وزیر، حنیف، مشتاق اور صادق) پاکستان کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کھیلے اور پانچویں بیٹے رئیس محمد 1954-55ء میں ڈھاکہ میں ہندوستان کے خلاف ٹیسٹ میں 12ویں کھلاڑی تھے[1] ان کے تین نواسوں شعیب محمد ، آصف محمد شاہد محمد اور پڑنواسے شہراز محمد نے بھی گیند اور بلے سے ناتا جوڑا ان کے میاں شیخ اسماعیل کو بھی کھیلوں سے انسیت تھی

اب آپ ہی باری ہے[ترمیم]

یہ پاکستان بننے سے پہلے کی بات ہے۔ جونا گڑھ ریاست کے لیڈیز کلب کی ایک خاتون ممبر ایک دن گھر میں داخل ہوئیں تو ان کے ہاتھوں میں دو چمکتی ٹرافیاں تھیں جو انھوں نے کیرم بورڈ اور بیڈمنٹن کے مقابلوں میں جیت کر حاصل کی تھیں۔ یہ خاتون دونوں ٹرافیاں اپنے بیٹوں کو دکھاتے ہوئے بڑے فخر سے بولیں ایک عورت ہوتے ہوئے میں نے یہ ٹرافیاں جیتی ہیں، اب آپ لوگوں کی باری ہے اپنے بیٹوں کی ہمت بڑھانے کا اس سے زیادہ مناسب انداز کچھ اور نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ خاتون امیر بی تھیں اور ان کی بات توجہ سے سننے والے بیٹے آنے والے برسوں میں کرکٹ کی دنیا کے مشہور محمد برادران کے طور پر پہچانے گئے۔ دراصل محمد برادران کو کھیلوں سے دلچسپی ورثے میں ملی تھی۔ والدہ امیر بی خود دو کھیلوں کی چیمپئین تھیں جبکہ والد شیخ اسماعیل بھی بہت اچھے کلب کرکٹ کھلاڑی تھے۔

جب وہ حنیف کے 499 پر آوٹ ہونے پر ناراض ہوئیں[ترمیم]

حنیف محمد نے ایک انٹرویو میں اپنی والدہ امیر بی کو واضح طور پر یاد کیا،

"میری والدہ، جو 1992ء میں 85-90 سال کی عمر میں چل بسیں، ہماری کامیابی کے پیچھے اصل محرک قوت تھیں"

"خود ایک کھیل سے محبت کرنے والے ہونے کے ناطے اس نے بیڈمنٹن اور کیرم میں دو فائنل جیتے تھے۔ اسے تاش کھیلنے کا بہت شوق تھا۔ اسے گانے اور غزلیں بہت پسند تھیں۔"

جب میں نے کراچی کی طرف بہاولپور کے خلاف قائد اعظم ٹرافی کے سیمی فائنل 1958-59) میں 400 رنز بنائے تو میری والدہ بہت خوش ہوئیں تاہم بعد میں اپنا 500واں رن لینے کی کوشش کرتے ہوئے آؤٹ ہو گیا تو وہ اس فیلڈر پر ناراض ہو گئیں جس نے مجھے رن آوٹ کروا دیا تھا اور میں 499 رنز پر ڈھیر ہو گیا تھا۔ وہ بھی میری سست رفتار سے واقف تھی اسی طرح (1957/58ء میں برج ٹاؤن میں چھ روزہ ٹیسٹ میں ویسٹ انڈیز کے خلاف 337 رنز بنانے کے دوران 16 گھنٹے سے زیادہ کریز پر رہا)"[2]

ویزلے ہال کی باولنگ پر بیٹے کے لیے فکرمند[ترمیم]

حنیف محمد بتا رہے تھے: "مجھے یہ بھی یاد ہے کہ میری والدہ نے بڑے بھائی وزیر محمد کے ذریعے ممتاز ویسٹ انڈیز باولر ویزلے ہال سے درخواست کی تھی کہ وہ مجھ پر باؤنسر نہ پھینکیں۔ میری والدہ نے 1959ء میں دورہ ویسٹ انڈیز کی ٹیم کے لیے ہمارے گھر میں ڈنر کا اہتمام کیا تھا۔ ویزلے ہال ایک طویل القامت کرکٹ کھلاڑی تھے اور میری والدہ میری حفاظت کے لیے پریشان تھیں کیونکہ اسے ڈر تھا کہ ویزلے ہال مجھ پر باؤنسر پھینک دے گا۔" حنیف کی والدہ کی پریشانی سمجھ میں آتی ہے۔ "وہ بہت ہی مہربان، مذہبی، شائستہ اور زمین پر اترنے والی ایک فرشتہ۔صفت تھیں۔

وفات[ترمیم]

پاکستان کو کرکٹ کی تین نسلیں دینے والی یہ عظیم خاتون 1992ء میں 90-85 سال کے لگ بھگ عمر میں کراچی میں انتقال کر گئیں

حوالہ جات[ترمیم]