باغ و بہار (کتاب)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
باغ و بہار
مصنفمیرامن
صنفداستان
ناشرہندوستانی پریس، کلکتہ (اب، کولکاتا)
ریختہ ای بکسبرقی کتاب

باغ و بہار میر امن دہلوی کی تصنیف کردہ ایک داستان ہے جو اُنھوں نے فورٹ ولیم کالج میں جان گلکرسٹ کی فرمائش پر لکھی۔ عام خیال ہے کہ باغ و بہار[1] کو میر امن نے امیر خسرو کی فارسی داستان قصہ چہار درویش سے اردو میں ترجمہ کیا ہے لیکن یہ خیال پایہ استناد کو نہیں پہنچتا۔ حافظ محمود شیرانی نے تحقیق سے یہ ثابت کیا ہے کہ اس قصے کا امیر خسرو سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ان کے مطابق یہ قصہ محمد علی معصوم کی تصنیف ہے باغ و بہار فورٹ ولیم کالج کی دین ہے جو انگریزوں کو مقامی زبانوں سے آشنا کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا اور یہیں میر امن نے باغ و بہار کو جان گل کرائسٹ کی فرمائش پر میر حسین عطا تحسین کی نو طرز مرصع سے استفادہ کرکے تصنیف کیا۔[2] اس طرح یہ داستان اردو نثر میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے اور اسے بجا طور پر جدید اردو نثر کا پہلا صحیفہ قرار دیا گیا ہے۔[3] اس داستان کی اشاعت کے بعد اردو نثر میں پہلی مرتبہ سلیس زبان اور آسان عبارت آرائی کا رواج ہوا اور آگے چل کر غالب کی نثر نے اسے کمال تک پہنچا دیا۔ اسی بنا پر مولوی عبدالحق کا کہنا ہے کہ اردو نثر کی ان چند کتابوں میں باغ و بہار کو شمار کیا جاتا ہے جو ہمیشہ زندہ رہنے والی ہیں اور شوق سے پڑھی جائیں گی۔ بقول سید محمد، "میر امن نے باغ و بہار میں ایسی سحر کاری کی ہے کہ جب تک اردو زبان زندہ ہے مقبول رہے گی اور اس کی قدر و قیمت میں مرورِ ایام کے ساتھ کوئی کمی نہ ہوگی۔" نیز سید وقار عظیم کے الفاظ میں "داستانوں میں جو قبول عام باغ و بہار کے حصے میں آیا ہے وہ اردو کی کسی اور داستان کو نصیب نہیں ہوا"۔

اشاعت[ترمیم]

یہ ترجمہ جان گلکرسٹ کی فرمائش پر میر امن نے کیا[4] اور پہلی بار اشاعت ہندوستانی پریس، کلکتہ سے ہوئی، کتاب کے دیباچے میں جان گلکرسٹ نے کتاب کو امیر خسرو کے قصہ چہار درویش کا ترجمہ قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ امیر خسرو کے قصے کے کا ترجمہ پہلے عطا حسین خان نے نو طرز مرصع کے عنوان سے کیا تھا، لیکن عربی و فارسی استعارے اور محاورے برقرار رکھے، اس نقص کو دور کرنے کے لیے، میر امن نے سادہ سہل زبان اور ریختہ کے محاورے میں منتقل کیا۔

اس پہلی اردو اشاعت میں 269 اردو کے اور 4 صفحات انگریوی کے تھے اور 19 صفحوں پر غلط نامہ (کتابت کی غلطیوں کی نشان دہی)، کتاب میں اکثر مقامات پر اعراب کا استعمال کیا گیا ہے۔

1813ء میں میر غلام اکبر نے کیپٹن طامس روبک کی زیرنگرانی اس پر نظر ثانی کی۔نظر ثانی شدہ نسخہ ہندوستانی پریس کلکتہ سے شائع ہوا۔اس نسخہ میں کیپٹن طامس روبک کا ایک مبسوط مقدمہ بھی شامل تھا۔یہ مطبوعہ نسخہ برٹش لائبریری لندن میں موجود ہے جبکہ اس کا قلمی یا خطی نسخہ ڈاکٹر محمد عارف علوی (پنجاب ،پاکستان)کے پاس موجود ہے۔پاکستان کی لاہورگیریژن یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے سکالرمحمد اقبال ناصر نے اس خطی نسخہ کی تدوین و ترتیب اپنے پی ایچ ڈی کے مقالہ کے طور پرنہایت جانفشانی کے ساتھ ڈاکٹرمحمد اشرف خاں کی زیر نگرانی کی ہے۔ پہلی اور دوسری دونوں اشاعتوں کا انتساب بنگال انجینئرز کے جیمز مؤات (Mouat) کے نام ہے۔ جو فورٹ ولیم کالج میں اردو کے سبق استاد تھے۔

اسلوب[ترمیم]

داستانوں میں جو قبول عام باغ و بہار کے حصے میں آیا ہے وہ اردو کی کسی اور داستان کو نصیب نہیں ہوا۔ عوام اور خواص دونوں میں یہ داستان آج بھی اتنی ہی مقبول ہے جتنی آج سے پونے دو سو برس پہلے تھی۔ اس کی غیر معمولی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ اس کا دلکش اسلوب اور دلنشین انداز بیان ہے جو اسے اردو زبان میں ممتاز مقام عطا کرتے ہیں۔

باغ و بہار کے مُصنّف میرامن دہلوی چونکہ فورٹ ولیم کالج سے متعلق تھے، اس لیے اس کی تصانیف بھی کالج کے متعینہ مقاصد کے تحت لکھی گئیں اور ان میں وہ تقاضے بالخصوص پیشِ نظر رہے جن کی نشان دہی ڈاکٹر جان گل کرائسٹ نے کی تھی۔ فورٹ ولیم کالج کے لیے جتنی کتابیں تالیف ہوئیں ان میں لکھنے والوں نے سب سے زیادہ توجہ اس بات پر دی کہ کتاب کی زبان سادہ اور سلیس ہو اور بول چال کی زبان اور روزمرہ محاورہ کا خیال رکھا جائے۔ چونکہ اس سے مقصود انگریز نو واردوں کو مقامی زبان و بیان اور تہذیب و معاشرت سے آشنا کرنا تھا۔ اس لیے فورٹ ولیم کالج کے لکھے گئے قصوں میں زبان و بیان پر خاص توجہ دی گئی ہے۔ باغ وبہار کو مِنجملہ دوسری خوبیوں کے زبان و بیان کے لحاظ سے بھی فورٹ وِلیم کالج کی دوسری کتابوں پر فوقیت حاصل ہے۔ باغ و بہار کی اس فوقیت کی پیش نظرسرسید کا یہ قول بہت مشہور ہوا کہ میر امن کا اردو نثر میں وہی مرتبہ ہے جو میر کا غزل گوئی میں۔

دہلی کی زبان[ترمیم]

باغ و بہار اپنے وقت کی نہایت فصیح اور سلیس زبان میں لکھی گئی ہے۔ میر امن دہلی کے رہنے والے ہیں اور اُن کی زبان ٹھیٹھ دہلی کی زبان ہے۔ میر امن صرف دہلی کی زبان کو ہی مستند سمجھتے ہیں چنانچہ اس کو انھوں نے ہزار رعنائیوں کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ باغ و بہار کے دیباچے میں میر امن نے اپنے کو دلی کا روڑا اور پشتوں سے دلی میں رہائش کرنے اور دلی کے انقلاب کو دیکھنے کے ناطے خود کو زبان کا شناسا بتایا ہے اور اپنی زبان کو دلی کی مستند بولی کہا ہے۔ اردو کی پرانی کتابوں میں کوئی کتاب زبان کی فصاحت اور سلاست کے لحاظ سے باغ و بہار کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اگرچہ زبان میں کئی تبدیلیاں ہو چکی ہیں، الفاظ و محاورات اور فقرات و تراکیب میں مختلف النوع تغیرات آ گئے ہیں اس وقت کی زبان اور آج کی زبان میں بڑا فرق ہے لیکن باغ و بہار اب بھی اپنی دلچسپی برقرار رکھے ہوئے ہے یہ دلکش اعجاز میر امّن کے طرزِ بیان اور اسلوبِ تحریر کا حصہ ہے۔ میر امن ہر کیفیت اور واردات کا نقشہ ایسی خوبی سے کھینچتے اور ایسے موزوں الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ کمال انشا پردازی کی داد دینا پڑتی ہے۔ نہ بے جا طول ہے نہ فضول لفاظی ہے۔

سادہ زبان[ترمیم]

باغ و بہار کی عبارت کی سادگی اور روانی جہاں بجائے خود ایک طرح کا حسن و لطافت ہے اس میں اس اندیشہ کا امکان بھی کسی وقت نہیں ہوتا کہ یہ سادگی عبارت کو سپاٹ بنا دے اور سادگی کا یہ ہموار تسلسل پڑھنے والے کے لیے اکتاہٹ یا تھکاوٹ کا باعث بن جائے۔ میر امن کی سادگی کی سب سے بڑی خصوصیت یہی ہے کہ وہ پڑھنے والے کے ذہن پر کسی جگہ بھی اکتاہٹ اور تھکاوٹ کا بوجھ نہیں ڈالتی بقول کلیم الدین احمد، "باغ و بہار کی سادگی سپاٹ نہیں اس میں ناگوار نیرنگی نہیں یہاں سادگی و پرکاری بیک وقت جمع ہیں"۔

سادگی بیان میں ایک اور خطرہ یہ ہے جس چیز کو سادگی سمجھا گیا ہے اس کا دامن کبھی کبھی عامیانہ پن کے کانٹوں میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔ زبان کو سادگی کے دائرے میں رکھنے والے کو ہر وقت یہ خطرہ لاحق رہتا ہے کہ اس کی سادگی پر عمومیت اور بعض صورتوں میں عامیانہ پن کا سایہ نہ پڑ جائے۔ ہمارے سادہ نگاروں میں بیشتر اس لغزش کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سید وقار عظیم ”ہماری داستان“ میں لکھتے ہیں، "میر امن کے طرز بیان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اُن کی سادگی ہمیشہ عمومیت اور ابتذال کے داغوں سے پاک رہی ہے اس سادگی کی ایک تہذیبی سطح ہے اور میر امن کبھی اس تہذیبی سطح سے نیچے نہیں اترتے۔"

الفاظ کا بر محل استعمال[ترمیم]

لفظ کو اس کے صحیح مفہوم میں موقع و محل کی مناسبت سے استعمال کرنا اصل انشا پردازی ہے اور یہی میر امن کا فن ہے۔ ڈاکٹر ممتاز لکھتے ہیں، "میر امن کے ہاں ہر ایک بیان نہایت کامیاب ہے اس کے پاس الفاظ کا وسیع ذخیرہ بھی موجود ہے اور پھر اس کے استعمال پر یہ قدرت کہ جو لفظ جہاں استعمال کر دیا وہ عبارت کا جزو ناگزیر بن گیا جو صفت کسی موصوف کے لیے استعمال کی وہ اس کا ایسا حصہ بن کر رہ گئی کہ گویا صرف اسی کے لیے وضع ہوئی تھی"۔

اعتدال کی روش[ترمیم]

اردو زبان میں فارسی الفاظ و تراکیب اور تشبیہات و استعارات کو بڑا دخل حاصل ہے۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ فارسی زبان کے اثرات سے بچ کر اردو لکھنا بہت دشوار ہے۔ لیکن میر امن نے اپنی تحریروں میں اعتدال کی روش کو اپنایا ہے۔ ان کی زبان کا تجزیہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ اس میں عربی فارسی کے الفاظ کم اور ٹھیٹھ اردو کے الفاظ زیادہ ہیں۔ میر امن بدیسی لفظوں اور چیزوں کی شان و شوکت سے مرعوب ہو کر اپنے مقامی رنگ کو نہیں بھول جاتے۔ قدیم فارسی تشبیہوں اور استعاروں کے ساتھ ساتھ اپنے بے تکلف اور لطیف استعارات اور تشبیہات سے بھی انھیں محبت ہے۔ اس لیے انھوں نے بہت سے اشعار برج بھاشا کے بھی نقل کیے ہیں۔ اور کچھ الفاظ ہریانی کے بھی استعمال کیے ہیں۔ مثلاً، کبھو، کدھو، کسو، گزرایاں وغیرہ۔ مقامی الفاظ کے بے تکلف اور لطیف استعمال نے میر امن کے یہاں اخلاقیات کو ادب کا جزو بنا دیا ہے۔ وہ حکمت و دانش کی باتیں اور پند و نصیحت کی باتیں بھی اس خوبصورتی سے بیان کر جاتے ہیں کہ کانوں کی راہ سے سیدھا دل پر اثر کر جاتی ہیں۔ بقول سید وقار عظیم، "میر امن کو لفظوں کے صرف پر قدرت ہے وہ آسان ہندوستانی لفظوں سے مرکبات بنا کر اور ہندوستانی کے معمولی الفاظ استعمال کرکے اپنی بات کا وزن اتنا بڑھا دیتے ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے"۔

روزمرہ محاورہ[ترمیم]

کامیاب روزمرہ اور محاورے کا استعمال عبارت کی رفعتوں میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ میر امن نے اپنی زبان میں روزمرہ اور محاورے کا پورا پورا خیال رکھا ہے۔ بول چال کے انداز کو تحریری اور گرائمر کی زبان پر ہر جگہ ترجیح دی ہے۔ اگرچہ میر امن ایک فرمائش کی تعمیل میں اپنی عبارت کو محاوروں سے مزین کر رہے تھے۔ لیکن کمال یہ ہے کہ ان کی بامحاورہ زبان اچھی داستان گوئی کے فطری عمل کی تابع معلوم ہوتی ہے۔ کہانی کی صورت حال اور افرادِ قصہ کی کیفیت کے اظہار سے محاورہ اس طرح پھب کر آتا ہے گویا متقضائے فطرت یہی تھا، اسی وجہ سے باغ و بہار میں اکثر یہ کیفیت نظر آتی ہے کہ محاورہ آپ ہی اپنی شرح بھی ہوتا ہے اور عبارت کو سمجھنے کے لیے کسی وسیلہ کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بقول پرفیسر حمید احمد خان، "اردو نثر روزمرہ کی روانی اور ٹھیٹھ محاورے کے لطف سے پہلی مرتبہ باغ و بہار میں آشنا ہوئی"۔

اردو کے ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ[ترمیم]

میر امن ماہر زبان دان تھے، انھوں نے اردو کو مالا مال کرنے کے لیے نہ صرف مقامی اور عوامی بول چال کے الفاظ کھپائے بلکہ کتنے ہی الفاظ اور محاورے تخلیق کر دیے۔ بہت سے الفاظ اور محاورے باغ و بہار کے علاوہ اور کہیں دیکھنے میں نہیں آتے۔ اگر کوئی شخص ایک نیا لفظ یا ایک محاورہ وضع کر دے تو اس کے لیے باعثِ فخر ہوتا ہے اور یہاں میر امنؔ نے تو نئے الفاظ کا گراں قدر سرمایہ زبان کو عطا کیا ہے۔ ممکن ہے کہ ان میں سے بعض دلی کے محلوں میں بول چال میں رائج رہے ہوں لیکن بھر بھی میر امن کا یہ احسان تو ہے کہ انھوں ان الفاظ اور محاوروں کو ادب میں محفوظ کرکے ہم تک پہنچایا ہے۔

تفردات[ترمیم]

میر امن نے زبان کو موثر بنانے کے لیے قواعد زبان، لفظوں کی ساخت اور جملوں کی ترتیب میں تفردات سے گریز نہیں کیا۔ وہ کبھی کبھی لفظوں کی جمع کے استعمال میں بھی تفرد کرتے ہیں۔ مثلاً امرا کی جگہ امراؤں، سلاطین کی جگہ سلاطینوں وغیرہ۔ میر امن کے ان تفردات کے متعلق سید وقار عظیم لکھتے ہیں، "وہ قواعد کے جس اصول سے انحراف کرتے ہیں اس سے عبارت کا آہنگ بھی درست ہو جاتا ہے۔ اور بدلی ہوئی صورت میں لفظ اپنے آس پاس کے لفظوں میں پوری طرح گھل مل جاتا ہے"۔

میرامن کی عبارت میں متروکات بہت ہیں لیکن پھر بھی ان کی عبارت کی روانی اور اُس کا آہنگ گھٹنے کی بجائے بڑھتا ہے اور اس کا مجموعی تاثر ہمیشہ خوشگوار ہوتا ہے۔

تاثر و دلکشی[ترمیم]

میر امن کو اس چیز کا بہت صحیح اندازہ ہے کہ کس موقع پر کون سی بات کس حد تک پھیلا کر اور کس حد تک مختصر کرکے بیان کی جائے کہ وہ تصویر کشی، واقعہ نگاری، کردار اور سیرت کی مصوری اور افسانوں میں دلچسپی کے مطالبات پورے کر سکے اور اس لیے جہاں اُن کی داستان میں ہمیں واقعات کی تفصیلات ملتی ہیں، ایسے موقع بھی بے شمار ہیں کہ انھوں نے اپنی بات کو سمیٹ کر تھوڑے سے لفظوں میں بیان کر دیا ہے۔ میر امن کہانی بناتے وقت یہ بات کبھی نہیں بھولتے کہ بات کتنے لفظوں میں کہنی چاہیے تاکہ بات کا تاثر اور دلکشی برقرار رہ سکے۔ بقول وقار عظیم، "میر امن کی عبارت میں ناظر یا سامع کو اپنے اندر جذب کر لینے کی جو خصوصیت ہے اس میں اور بہت سی چیزوں کے ساتھ اس بات کو بھی اہمیت حاصل ہے کہ ہر بات اتنے ہی لفظوں میں کہی جاتی ہے جتنے اُسے موثر اور دل کش بنانے کے لیے ضروری ہے"۔

میر امن تصویروں کو متحرک اور زندہ تصویریں بناتے ہوئے اپنے قارئین کی ذہنی سطح کو ملحوظ رکھتے ہیں اس میں فکری گہرائیوں کی بجائے فوری پن پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاکہ ہر آدمی اس سے لطف اٹھا سکے۔ وہ اس مقصد کے پیش نظر ایسی سادہ تشبیہوں کا استعمال کرتے ہیں جو روزمرہ زندگی سے متعلق ہیں اور اس کے باجود اپنے اندر بڑی ندرت رکھتی ہیں۔ میر امن تشبیہوں کے علاوہ تمثیلوں سے بھی کام لیتے ہیں۔ باغ و بہار چونکہ دہلی کی نمائندہ کتاب ہے اور دہلی کی فطرت میں ایک ملال پایا جاتا ہے اس لیے باغ و بہار کی نثر نے بھی یہ رنگ قبول کیا ہے۔ کتاب کا کوئی بھی صفحہ پڑھنا شروع کریں تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی دل میں آہستہ آہستہ نشتر چھبو رہا ہے۔ لیکن اس سے جو درد پیدا ہوتا ہے اس میں کچھ ایسی مٹھاس اور لذت ہوتی ہے کہ نہ اُسے بیان کرنے کو جی چاہتا ہے اور نہ اس کا بیان ممکن ہے بقول ڈاکٹر سہیل بخاری، "باغ و بہار کی انشاء میں ایسا سوز و گداز رچ گیا ہے جو پڑھنے والے کے کلیجے کو گرما دیتا ہے"۔

مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو باغ و بہار ان چند کتابوں میں سے ہے جن کی زبان اور طرز بیان ان کے نفس مضمون سے زیادہ اہم ہے یہ ایک ایسے اسلوب کی نمائندہ ہے جس کی کوئی تقلید نہ کر سکا۔ پھر بھی باغ و بہار کے باغ پر ہمیشہ بہار رہی ہے اور رہے گی۔ باغ و بہار کی ان خصوصیات کے پیش نظر پروفیسر حمید احمد خان لکھتے ہیں، "میر امن کی باغ و بہار پاکیزہ اور شفاف اردو کا ابلتا ہوا چشمہ ہے"۔

اور اس کی زبان کے مولوی عبد الحق بھی ہمیشہ گن گاتے رہے اور یہاں تک کہہ گئے کہ، "میں جب اردو بھولنے لگتا ہوں تو باغ و بہار پڑھتا ہوں"۔

معاشرت کی عکاسی[ترمیم]

باغ و بہار کے مصنف میرامن دہلوی تہذیب سے وابستہ دہلی کے رہنے والے تھے۔ باغ و بہار کے دیباچے میں انھوں نے خود کو دلی کا روڑا بتایا ہے۔ انھیں دہلی والا ہونے پر بڑا فخر ہے۔ اس لیے میر امن کی باغ و بہار میں دہلوی تہذیب اور معاشرت کی مرقع نگاری اس خوبصورت اور دلکش پیرائے میں کی گئی ہے کہ اس کے آئینے میں اُس کا دور نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ اس میں اس عہد کی دلی کے اشخاص اور افراد کی چلتی پھرتی اور بولتی چالتی تصویریں دکھائی دیتی ہیں۔ بقول ڈاکٹر سید عبد اللہ، "باغ و بہار میں دلی کی تہذیب بول رہی ہے اس کی تصویر یں گردش کر رہی ہیں، گویا یہ ایک زندگی کا نقشہ ہے"۔

میرامن کا عہد محمد شاہی روشوں کا عہد تھا۔ دلی کی معاشرت خوش حال، خوش پوش اور خوش وقت معاشرت تھی۔ تکلف و اہتمام اور آرائش و زیبائش اس معاشرے کے تہذیبی امتیاز میں شامل تھی۔ مہان داریوں اور تقاریب کی اس تہذیب میں ایک خاص وقعت و اہمیت تھی۔ شاہی محلات اور درباروں میں بزم آرائیوں کے تذکر ے رہتے تھے۔

محفلیں جمتیں اور محفلیں سجتیں یہ سب چیزیں ثروت و دولت مندی کی پیداوار ہوا کرتی ہیں اور ظاہر ہے کہ اس زمانے میں ان چیزوں کی کثرت وافر تھی۔ شاہی درباروں اور نوابوں کی حویلیوں میں کئی قسم کی اشیاءموجود تھیں اور کسی شے کی کمی نہ تھی۔ باغ و بہار سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو، ” ایک دلان میں اس نے لے جا کر بٹھایا اور گرم پانی منگو ا کر ہاتھ پاؤں دھلوائے اور دستر خوان بچھوا کر مجھ تن تنہا کو روبرو بکاولی سے ایک تورے کا تورہ چن دیا۔ چار مشقاب، ایک میں یخنی پلائو، دوسرے میں قورمہ پلائو، تیسرے میں متجن پلائو اور چوتھے میں کوکو پلائو اور ایک تاب زردے کی اور کئی طرح کے ق لیے دوپیازہ، نرگسی، بادامی، روغن جوش اور روٹیاں کئی قسم کی۔ “

دلی کی تہذیبی زندگی کے تمام لوازمات اپنی جزئیات و تفصیلات کے ساتھ میرامن نے موثر انداز میں پیش کیے ہیں۔ دلی کی ضیافتیں، محفلیں اپنے تمام تر ساز و سامان اور آرائش و زیبائش کے ساتھ باغ و بہار کے صفحات میں قدم قدم پر چلتی ہیں۔ مردانہ، زنانہ، لباسوں کی تفصیل، رہن سہن کے طور طریقے موسموں اور میلوں کی تفصیلات، بزم نشاط اور محفل راگ رنگ کے نقشے سازو سامان و آواز کی جزئیات اور کئی دیگر رسم و رواج ہیں جو دلی کی تہذیب و تمدن اور طرز معاشرت کی خوبصورت اور صاف نقش گری کرتے ہیں۔ ڈاکٹر گیان چند اپنے مقالے میں لکھتے ہیں کہ،
” معاشر ت کی مرقع نگاری باغ و بہار کا طر ہ امتیاز ہے۔ ۔۔۔۔ میرامن نے جس شے کا ذکر کیا ہے تفصیل کے انبار لگا دیے ہیں۔ انھوں نے شعور ی طور پر اپنی تصنیف میں دلی کی معاشرت کے نقوش کو جا بجا محفوظ کر لیا ہے۔

باغ و بہار میں دلی کی معاشرت کی بڑی بھرپور تصویریں ملتی ہیں۔ قصوں کی منظر فارس و عجم اور ملک فرہنگ کے ہیں لیکن ان کی معاشرت دلی کے مغل دربا ر کی ہے۔ بقول مولوی عبد الحق، ” میرامن قصہ روم و شام چین و ایران لکھتے ہیں لیکن جب موقع آتا ہے تو ہمارے مرثیہ گو شاعروں کی طرح آداب و رسوم اپنے ہی دیس کے بیان کرتے ہیں۔ “

باغ و بہار نہ صرف دلی کی معاشر ت کی آئینہ دار ہے بلکہ اس میں دہلوی ذہن بھی اجاگر نظرآتا ہے باغ و بہار کے محاورے دلی والوں کے ذہنی میلانات کے کامیاب عکاس ہیں۔ ڈاکٹر سید عبد اللہ اپنے مضمون ”باغ و بہار کی زندہ نثر“ میں رقمطراز ہیں، ” باغ وبہار ایک تہذیب کی آواز ہے یہ اس زمانے کے ذہنی رجحانات کی آئے نہ دار بھی ہے زمانے کے یہ رجحانات باغ و بہار کے محاورات میں اپنا عکس دکھا رہے ہیں۔ “

معنوی طور پر میرامن کی داستان نویسی نے اردو ادب میں بعض قابل ذکر اضافے کیے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں واقعیت نگاری کا وہ عنصر ہے جس سے باغ وبہار کی عبارت بھری پڑی ہے۔ جزئیات سے میرامن کو ایک سچے فنکار کی طر ح محبت ہے۔ وہ جزئیات کی مد د سے اپنی تصویروں میں زندگی کا رنگ بھرتے ہیں۔

اس سے یہ فائدہ ہوا ہے کہ قصہ چہار درویش ہماری قومی معاشرت کے دور ِ آخر کا جیتا جاگتا مرقع بن گیا ہے۔ یہاں شاہ و گدا، امیر و وزیراورسوداگر اصل بازار میں ہمارے ہزار سالہ معاشرتی پس منظر کے سامنے اٹھتے بیٹھتے اور چلتے پھرتے نظرآتے ہیں۔

باغ و بہار کے یوں تو ایک ایک لفظ میں دہلویت جلوہ افروز نظر آتی ہے لیکن بعض گوشے ایسے ہیں جہاں یہ رنگ بہت واضح نظرآتا ہے۔ خصوصاً پہلے درویش کے قصے میں دہلویت کا رنگ اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ موجود ہے۔

باغ و بہار تہذیبی اور تاریخی نقطہ نظر سے بڑی اہم اور دلچسپ کتاب ہے۔ اس کے صفحات پر پھیلا ہوا رنگ ِ معاشرت محض تخیل کی نادرہ کاری نہیں بلکہ حقیقت و واقعیت کی خوش بیانی ہے۔ بقول ممتاز حسین، ” قوت متخیلہ حقیقت پر ایک رنگین فانوس چڑھاتی ہے نہ کہ کوئی شے عدم محض سے وجود میں لاتی ہے۔ “

باغ و بہار کے خوبصورت محل رنگین محفلیں عظیم الشان دعوتیں رنگ برنگے مختلف قسم کے کھانے، طرح طرح کے لباس وغے رہ خواہ تخیل کے رنگین فانوس چڑھے ہوئے ہوں لیکن وہ صاف بتاتے ہیں کہ اُن کاتعلق ہندوستان کی تہذیب اور معاشرت سے ہے۔

میرامن نے باغ و بہار میں جن بزم آرائیوں کی تصویر کشی کی ہے۔ ان میں اُس دور کی گہماگہمی اور ہماہمی کے علاو ہ شرفائے دہلی کے اخلاق و کردار کے مرتبے بھی پیش کیے ہیں۔ گفتگو میں شریفانہ لب و لہجہ، حفظ مراتب نکتہ آفرینی اور رکھ رکھائو یہ سب اس عہد کی دلی کے وہ نقوش ہیں جو باغ و بہار میں نمایاں طور پر نظرآتے ہیں باغ و بہار میں جہاں ہمیں اس زمانے کی دہلوی تہذیب کی صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے۔ وہاں ہمیں اس دور کے عقائد و میلانات، افکار، توہمات کے ساتھ ساتھ ذہنی رجحانات و جذباتی کیفیات کے نقوش بھی آشکار ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر سید عبد اللہ ” باغ و بہار اردو نثر کی پہلی زندہ کتاب ہے۔ کیونکہ اس میں مصنف کی ذات اور اُس کے زمانے کا عکس واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔ “

باغ و بہار کا مطالعہ تہذیبی اور تاریخی نقطہ نظر سے بھی بڑی اہمیت و دلچسپی کا حامل ہے۔ ظاہر ہے اس کتاب کے مصنف میرامن کا خاندان پشتوں سے مغلیہ دربار سے وابستہ آ رہا تھا۔ جس لیے وہ شاہی خاندان، امراءوزراءاور وہاں کی عام زندگی سے بھی پوری طرح آگاہی رکھتاتھا۔ اور مجلسی زندگی اور سماجی تقریبوں سے بھی اسے مکمل طور پر واقفیت حاصل تھی۔ باغ و بہار کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس میں میرامن نے صرف اونچے اور اعلیٰ طبقے کی زندگی کی ہی عکاسی نہیں کی بلکہ اس دور کے عام انسانوں کے کرداروں اور اجتماعی رویوں کی جھلک بھی موجود ہے۔

یعنی باغ و بہار محض میرامن کی ہی نادرہ کاری کا نتیجہ نہیں بلکہ اس میں حقیقت و واقعیت کی خوش بیانی بھی پائی جاتی ہے۔

باغ وبہار، محمد شاہ رنگیلے کے جانشین فرمانرئوں کے اس معاشرے کا عکس ہے جس میں آل تیمور غرق مئے ناب ہو چکی تھی اور امراءزادیاں بھی مردوں کی طرح حمام میں نہانے جاتی تھیں۔ یہ کوئی فرضی داستان نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ کہ مغل فرمانروا خود اپنی ایک محبوبہ کے ساتھ حمام میں نہانے گیا اور دونوں ایک ہی جگہ نہائے کیونکہ اس کے ہاں نرینہ اولاد نہ تھی۔ اور مشہور تھا کہ اس حمام میں ایک ساتھ ننگے نہانے سے اولاد نرینہ ہوتی ہے۔

اس قسم کے معاشرے کی بھرپور جھلک باغ و بہار میں دیکھنے کو ملتی ہے جو حقیقت و واقعیت پر مبنی ہے۔

یوں تو با غ و بہار ایک داستا ن ہے اس کی حیثیت اردو کے افسانوی ادب میں ایک سنگ میل کی سی ہے۔ اور اسے زبان و ادب کے ایک شاہکار کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ یہ اپنے زمانے کی اجتماعی زندگی کی ایک مکمل دستاویز ہے۔ یہ اپنے عہد کے معاشرے اور تہذیبی احوال و آثار و واقعات و کوائف کا مستند تاریخی ریکاڈ ہے۔ بقول عبد الحق "مختصر طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ میرامن دہلوی نے اگرچہ باغ و بہار کو ایک داستان کے طور پر پیش کیا ہے۔ جس میں بہت سا حصہ فرضی کرداروں پر مشتمل ہے۔ لیکن اس پوری داستان میں وہ دہلی شہر اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ جھلکتا دکھائی دے رہا ہے۔ جو خود میرامن کے دل میں موجو دتھا۔

اس قصے کا تمام تر ماحول بھی دلی کا ہے اگر میرامن غیر ممالک کا بیان بھی کرتے ہیں توو ہاں کی تصویر کشی اس انداز سے ہوتی ہے گویا دلی کے کسی محلے کا بیان ہو رہا ہو قصے کے تمام کردار بھی دہلوی دکھائی دیتے ہیں اور یوں اس پوری داستان میں ہمیں جگہ جگہ دلی کی معاشرت کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔ بقول گارساں دتاسی ” باغ و بہار کے ہر صفحے ہر ایک وہی خصوصیات ملیں گی جو ہمیں اصل ہندوستانی اور خاص کر اسلامی ہندوستانی کو سمجھنے میں بہت کارآمد ہوگی۔ “

کردار نگاری[ترمیم]

باغ و بہار کے کرداروں پر نظر ڈالی جائے تو یہاں ہمیں دو قسم کے کردار ملتے ہیں، مرد کردار اور نسوانی کردار۔ بہت سے ناقدین کا خیال ہے کہ مردانہ کرداروں کی کردار نگاری کرتے وقت میر امن کسی فنکارانہ چابک دستی کا مظاہرہ نہیں کر سکے۔ سب سے پہلے ہم داستان کے مرد کرداروں کا جائزہ لیں گے جن میں چاروں درویشوں کے علاوہ آزاد بخت اور خواجہ سگ پرست بھی شامل ہیں۔ چاروں درویش جو کہانی کے ہیرو ہیں اُن کے بارے میں گیان چند لکھتے ہیں، "ان میں شہزادگی کی کوئی علامت نظر نہیں آتی۔ ان کے عشق میں کوئی عظمت، کوئی بلندی اور وقار نہیں"۔

پہلا درویش[ترمیم]

پہلا درویش یمن کے ملک التجار کا بیٹا تھا۔ چودہ سال کی عمر میں یتیم ہو گیا۔l اور پھر اپنی نادانیوں کی وجہ سے اپنی دولت سے ہاتھ دھو بیٹھا اور اس کے دل سے احساس خودی اور اعتماد عمل جاتا رہتا ہے اور اپنی بہن کے ٹکڑوں پر پلتا ہے۔ غیرت دلانے پر دمشق روانہ ہوتا ہے، وہاں اسے ایک زخمی شہزادی ملتی ہے جس کا علاج وہ بڑی محنت سے کرتا ہے اور اس کا ہر حکم بجا لاتا ہے لیکن شہزادی اس کی پروا نہیں کرتی مگر وہ خوشامد کرتا رہتا ہے۔ دراصل خوشامد اس کی عادت بن چکی ہے۔ اس کے عشق میں چھچھورا پن ہے۔ اس کے علاوہ درویش مستقل مزاجی کی صفت سے بھی محروم ہے اس لیے یوسف سوداگر سے بہت جلد متاثر ہو جاتا ہے۔

مختصراً یہ کہ پہلے درویش کے کردار میں مردانگی نام کی چیز نہیں۔ یہ ایک مجہول اور بودا کردار ہے جو فرماں برداری، خوشامدی فطرت، عجز و انکسار کے باوجود دوسروں کو متاثر کرنے کی صلاحیت سے عاری ہے۔ منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہونے والا یہ تاجر زادہ کسی مرحلے پر بھی شخصی وقار، انا پسندی یا خود داری کا مظاہرہ نہیں کرتا۔ اس کوتاہ بین، کم کوش اور نکمے شخص کی شادی شہزادی سے ہو جانا ایک اتفاق ہے اور جنگل میں اُس کو کھو دینا اس کی بے تدبیری، عاقبت نا اندیشی اور بد نصیبی کا ثبوت ہے۔

دوسرا دویش[ترمیم]

دوسرا دویش فارس کا شہزادہ ہے، چودہ سال کی عمر میں حاتم طائی اس کا اسوہ بن جاتا ہے اور وہ زندہ جاوید رہنے کے لیے حاتم طائی کی پیروی شروع کر دیتا ہے۔ شہزادہ مذہبی ذہن رکھتا ہے اور سخاوت اس کے نزدیک روحانی ترقی کا ذریعہ تھی۔ پھر جب ایک فقیر سے بصرے کی شہزادی کا ذکر سنتا ہے تو بصرہ روانہ ہو جاتا ہے اور جب شہزادی کو دیکھ لیتا ہے تو اسے اپنا دل دے بیٹھتا ہے۔ لیکن یہ شہزادہ دوسرے شہزادوں کے مقابلے میں اتنا خوشامدی نہیں اور وہ شہزادی کی خطرناک شرط کو بھی فوراً قبول کر لیتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بہادر، عالی ہمت اور مہم جوئی سے نہیں گھبراتا۔ شہزادہ نیم روز کا راز معلوم کرنے کے بعد اس کے درد کا درماں ڈھونڈنے نکل پڑتا ہے۔ بقول زہرا معین، "غم جاناں سے غم ہائے دگر تک کا سفر یہ درویش کی آدمیت و انسانیت، اس کے دل کی گداختگی، ایثار و قربانی بحیثیت مجموعی اس کے کردار کی بلندی پر دلالت کرتا ہے۔ اس کے کردار میں بڑی استقامت ہے۔ وہ اپنی دھن کا پکا ہے"۔

تیسرا دویش[ترمیم]

ملک [عجم] کا شہزادہ ہے۔ اپنے والدین کی اکلوتی اور لاڈلی اولاد ہے۔ عاشق زار ہے اور عشق کا زخم خوردہ ہے۔ دوسرے درویشوں کی طرح یہ بھی خوشامدی ہے۔ کہیں کہیں جرات اور ذہانت کا مظاہرہ بھی کرتا ہے مگر عشق کے میدان میں کوئی معرکہ سر کرنے کی اہلیت سے عاری ہے۔ اکیلا ہی جب ہرن کا پیچھا کرتا ہے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ ایک مہم جو اور نڈر اور پر از اعتماد نوجوان ہے۔ اس کے علاوہ درویش سے جس طرح وہ فرنگ کی شہزادی کا حال معلوم کرتا ہے وہ درویش کی متجسّس طبیعت کی عکاسی کرتا ہے۔ شہزادی اور اور بہزاد خان جب ڈوبنے لگتے ہیں تو وہ انھیں کنارے پر کھڑا دیکھتا رہتا ہے۔ اس لیے درویش عشق کے معاملے میں پھسڈی ہے۔ اس کی محبت میں کوئی وقار نہیں۔ بقول زہر معین، "اس کا کردار کمزور ہے، بے جان اور ڈھیلا ہے۔ ابتدا میں وہ بڑا مہم جو، متجسس اور بے خطر نظر آتا ہے۔ مگر عشق کی مہم میں اس سے کم ہی کوئی ایسا کارنامہ سرزد ہوتا ہے جس کی بنیاد پر اسے عاشقوں کے زمرے میں شامل کیا جائے"۔

چوتھا درویش[ترمیم]

چین کے بادشاہ کا ولی عہد ہے۔ ناز سے پرورش پائی اور اچھی تربیت ہوئی۔ لیکن بیگمات اور خواصوں کی صحبت میں رہنے کی وجہ سے عقل و شعور سے عاری ہے اور بے باکی اور جوانمردی نام کی کوئی شے اس کے اندر نہیں ملتی۔ بلکہ کم ظرفی اور بے وقوفی کے آثار نمایاں ہیں۔ عملی دنیا سے زیادہ خیالی دنیا کا باسی ہے۔ مبارک نامی حبشی غلام پر اسے بے حد اعتبار ہے۔ ہر کڑے وقت اور مشکل مرحلے پر شہزادہ کسی جرات یا استقلال کا مظاہرہ کرنے کی بجائے مبارک حبشی سے رجوع کرتا ہے۔

شہزادہ شکی مزاج بھی ہے اور اپنے جاں نثار غلام پر بھی شک کرنے سے دریغ نہیں کرتا۔ شہزادے کی عاقبت نا اندیشی اس وقت انتہا کو پہنچ جاتی ہے جب وہ ملک صادق جیسے طاقتور جن اور اپنے باپ کے مخلص دوست کے ساتھ جنگ آزما ہو کر شکست سے دوچار ہوتا ہے۔ مختصر یہ کہ چوتھے درویش کی نکیل مبارک حبشی کے ہاتھ میں ہے جو اس کا عقل کل ہے اور جو اس کا واحد سایہ اور سہارا ہے۔

بادشاہ آزاد بخت[ترمیم]

آزاد بخت روم کی سلطنت کا تنہا وارث ہے۔ اسے دنیا کی ہر آسائش اور سہولت میسر ہے، وہ نیک ہے، عبادت گزار ہے اور سخی ہے۔ ان سب کے باوجود وہ اولاد کی نعمت سے محروم ہونے کی وجہ سے اکثر پریشان رہتا ہے۔ اور چالیس سال کی عمر تک پہنچ کر وہ اقتدار و اختیار سے لا تعلق ہو کر گوشہ نشینی اختیار کر لیتا ہے اور اولاد کے لیے جب وہ کسی خانقاہ میں جاتا ہے تو وہاں اُس کی ملاقات درویشوں سے ہوتی ہے جو باری باری ان کو اپنی کہانی سناتے ہیں۔

طبیعت میں عجلت پرست واقع ہوا ہے۔ اس لیے بغیر جرم ثابت ہوئے اپنے وفادار وزیر کی موت کا حکم دیتا ہے۔ اور بوڑھے سگ پرست سے کم سن شہزادی کی شادی کروانا اگر ایک طرف رحمدلی کا مظہر ہے تو دوسری طرف کم سن شہزادی کے ساتھ جبر و زیادتی کا بھی آئینہ دار ہے۔ آزاد بخت کی داستان میں دوسرے درویشوں کی طرح عشق کا عنصر شامل نہیں ہے۔ اس کی مہم جوئی کی جہت دوسرے درویش کے برعکس مختلف ہے۔ آزاد بخت کا کردار مرکزی اور بنیادی ہے اور قاری کی دلچسپی کا باعث، زندگی کے زیادہ قریب اور بھر پور ہے۔ بقول سہیل بخاری: "باغ و بہار کا یہ کردار زندہ جاوید ہے"۔

خواجہ سگ پرست[ترمیم]

یہ کردار بہت شریف اور بے وقوف ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں دنیا داری اور عقل بالکل نہیں ہے۔ اپنے بھائیوں سے دغا پر دغا کھاتا ہے مگر پھر بھی انھیں اپنا خیر خواہ سمجھتا ہے۔ اس کے بھائی شیطان صفت ہیں۔ اپنے بھائیوں سے دھوکا کھانے کے باوجود بار بار نیکی کرنا اس کی نیکی و شرافت اور برداشت کی نشانی ہے۔ بھائیوں سے شدید محبت ہے لیکن جب وہ بدلہ لینے پر آتا ہے تو ایسی سزا دیتا ہے جو کسی نے نہ دیکھی اور نہ سنی۔ اس کے ساتھ ساتھ قصے کے چار درویشوں کی مانند خواجہ سگ پرست خوشامدی بھی ہے اور زیر باد اور سراندیپ کی شہزادی کے سامنے جہاں تہاں خوشامد کرتا اور گڑگڑاتا ہے۔ دوسرے درویشوں کی طرح جنس اس کی سب سے بڑی کمزوری ہے اس لیے بوڑھا ہونے کے باوجود کم سن شہزادی سے شادی کے لیے بے تاب ہے۔ لیکن مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اپنی بہت سی خامیوں کے باوجود چاروں درویشوں سے یہ کردار مختلف اور منفرد ہے۔

نسوانی کردار[ترمیم]

میر امن کے کرداروں کے ضمن میں عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ ان کے مردانہ کرداروں کے مقابلہ میں نسوانی کردار زیادہ جان دار ہیں۔ سید وقار عظیم میر امن کے نسوانی کرداروں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ، "کردارنگاری کے معاملہ میں میر امن نے جو توجہ ہر داستان میں ہیروئن پر صرف کی ہے، اس سے مردوں کے کردار ر محروم رہے ہیں"۔

باغ و بہار کے نسوانی کرداروں میں ماہ رو، وزیر زادی، سراندیپ کی شہزادی اور بصرے کی شہزادی کے کرداروں کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔

ماہ رو[ترمیم]

ماہ رو پہلے درویش کے قصے کی ہیروئن ہے۔ جسے میرامن نے نہایت خوبصورت، پری پیکر اور جاہ وحشم پر نازاں دکھایا ہے۔ احساس برتری کے باعث اس میں تمکنت اور رکھ رکھاؤ ہے لیکن آخر وہ جذبہ عشق کے ہاتھوں مغلوب ہوجاتی ہے۔ تو اس میں قدرے نرمی اور ملائمت پیدا ہو جاتی ہے۔ جونہی وہ عشق میں ناکام ہوتی ہے تو پھر سے بپھری ہوئی شیرنی بن جاتی ہے۔ اس کے مزاج میں تضاد پایا جاتا ہے۔ وہ بیک وقت رحمدل بھی ہے اور قاہر بھی، عشق بھی کرتی ہے اور بدنامی سے بھی خوفزدہ ہے، وہ دانشمند بھی ہے اور جذبہ دل کے ہاتھوں مغلوب بھی۔ وہ مذہب پر یقین بھی رکھتی ہے اور عملی طور پر مذہبی احکام سے انحراف بھی کرتی ہے۔

وزیر زادی[ترمیم]

وزیر زادی خواجہ سگ پرست کے قصے کی ہیروئن ہے۔ یہ قصہ بادشاہ آزاد بخت کی زبانی بیان ہوا ہے۔ وزیر زادی کی شادی خواجہ سگ پرست سے اس وقت ہوتی ہے جب اس کے گڑیا کھیلنے کے دن تھے اور خواجہ سگ پرست کی عمر پچاس سال تھی، لیکن وزیر زادی بادشاہ کا حکم بجا لاتے ہوئے شادی کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔ وزیر زادی خواجہ سگ پرست کے مقابلہ میں ایک کمسن لڑکی ہے جس کی شادی خواجہ سگ پرست سے کر دی جاتی ہے اور وہ اس شادی کو اپنی تقدیر سمجھ کر قبول کر لیتی ہے اور اف تک نہیں کرتی۔ بقول عابدہ حسین، "عورتوں میں وزیر زادی نے کم عمری میں قربانی اور محبت کی جو مثال پیش کر دی، اس کا جواب نہیں۔ خواجہ سگ پرست سے شادی کرنا بھی، قربانی کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے"

سراندیپ کی شہزادی[ترمیم]

سراندیپ کی شہزادی خواجہ سگ پرست کے قصے کا کردار ہے جسے میر امن نے خالص ہندوستانی مزاج کی حامل ہندو راجکماری کے روپ میں دکھایا ہے۔ وہ کھلے ماحول کی پروردہ ہے جہاں پردہ کرنے کا رواج نہیں۔ وہ مردوں کی طرح آزادانہ جنگلوں میں گھومتی اور شکار کرتی پھرتی ہے۔ میرامن نے اس کا تذکرہ یوں کیا ہے:

وہاں کے بادشاہ کی ایک بیٹی تھی، نہایت خوبصورت ،صاحب جمال، اکثر بادشاہ اور شہزادے اس کے عشق میں خراب تھے۔ وہاں رسم حجاب نہ تھی، اس لیے وہ لڑکی تمام دن ہمجولیوں کے ساتھ سیر و شکار کرتی پھرتی۔

بصرے کی شہزادی[ترمیم]

بصرے کی شہزادی دوسرے درویش (شہزادہ فارس) کی محبوبہ ہے جو آخر میں اس کی بیوی بن جاتی ہے۔ شہزادی کی چھ بہنیں تھیں۔ ایک روز بادشاہ نے انھیں کہا کہ خدا کا شکر کرو کہ تم شہزادیاں ہو۔ اگر میں بادشاہ نہ ہوتا تو تم بھی شہزادیاں نہ ہوتیں۔ یہ سارا کرو فر میرے ہی طفیل ہے۔ ان میں سے ایک (زیر تذکرہ) شہزادی، جو مذہب پر پورا یقین رکھتی ہے اس بات کی قائل تھی کہ جو کچھ ہوتا ہے تقدیر کے تابع ہوتا ہے۔ اس نے اپنے باپ (بادشاہ) کی اس بات کو مسترد کر دیا اور سب کچھ تقدیر اور اللہ کی دَین قرار دیا۔ اس کی پاداش میں شہزادی کو جنگل میں چھوڑ دیا گیا جہاں وہ صبر و شکر کرتی اور مصروف عبادت رہتی۔ اس نے ایک دن مرد بزرگ کی جھونپڑی بنانے کے لیے زمین کھودنے کو کہا تو خدا کی قدرت سے ایک مدفون خزانہ مل گیا۔ جس سے اُس نے ایک محل تعمیر کروایا۔ باپ کو معلوم ہوا تو اُس نے توبہ کی اور باپ کے بعد یہی شہزادی جانشین ہوئی۔ میر امن نے اسے نہایت سخی، مہان نواز، سلیقہ شعار، ہوشیار، چالاک، معاملہ فہم، پر تمکنت اور باوقار دکھایا ہے۔ اسی شہزادی کی سخاوت کا شہرہ سن کر پہلا درویش اس کی زیارت کے لیے آیا اور اس کی ایک جھلک دیکھ کر اس پر فریفتہ ہو گیا۔

پہلے درویش کی بہن[ترمیم]

میر امن نے اس کردار میں مکمل طور پر ایک مکمل ہندوستانی عورت کی عکاسی کی ہے جو اپنے بھائی کی محبت سے سرشار ہے، اُس کی ہر ممکن مدد کرتی ہے اور جب پہلا درویش سب کچھ لٹا کر اپنی بہن کے پاس آتا ہے تو وہ خوش دلی سے اُس کا استقبال کرتی ہے اور اس کا ہر لحاظ سے خیال رکھتی ہے۔ بعد میں اُس کی بہن اُس کو غیرت بھی دلاتی ہے اور اُسے عمل کی طرف مائل کرتی ہے کہ وہ کب تک ایسے ہی بہن کے ٹکڑوں پر پڑا رہے گا۔ اُسے کچھ کرنا چاہیے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ کردار ہندوستانی بہن کی ایک مکمل اور خوبصورت تصویر ہے۔

کٹنی کا کردار[ترمیم]

ضمنی کردار ہونے کے باوجود میر امن نے کٹنی کے کردار میں کمال کر دکھایا ہے اور ہمارے سامنے ”بی جمالو“ قسم کی تصویر آنکھوں میں آجاتی ہے۔ اس کردار کی تصویر کشی کرنے میں میر امن نے نہایت چابکدستی سے کام لیا ہے۔ کٹنی کی زبان دلی والی عورتوں کی زبان ہے۔ فقیرنیاں لوگوں کے دل میں کس طرح اپنے لیے ہمدردی پیدا کرتی ہیں اور کیا کیا دعائیں دیتی ہیں ملاحظہ فرمائیے:

ایک بڑھیا، شیطان کی خالہ (اس کا خدا کرے منہ کالا) ہاتھ میں تسبیح لٹکائے، برقع اوڑھے، دروازہ کھلا پا کر بے دھڑک چلی آئی اور سامنے کھڑے ہو کر، ہاتھ اٹھا کر دعا دینے لگی، کہ اہی تیری نتھ جوڑی سہاگ کی سلامت رہے اور کماؤ کی پگڑی رہے۔

مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو میر امن کے نسوانی کردار زیادہ بہتر اور خوبصورت ہیں۔ انھوں نے خوشی اور غم کے موقع پر عورتوں کا لب و لہجہ اختیار کیا ہے کہ وہ کیسے دعائیں دیتی ہیں اور کیسے غصہ کا اظہار کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے عورتوں کی مکالمہ نگاری پر بھی خوب توجہ دی ہے۔ اس لیے مردوں کے مقابلہ میں عورتوں کے مکالمے زیادہ کامیاب ہیں۔ میر امن نے خالص ہندوستانی لہجہ میں بہت جاندار مکالمے لکھے ہیں۔

ترجمہ[ترمیم]

میر امن کی روایت کے مطابق یہ کہانی اصلاً فارسی زبان میں امیر خسرو نے "قصہ چہار درویش" کے نام سے لکھی تھی (لیکن محققین نے امیر خسرو کی جانب کہانی کی نسبت کو غلط قرار دیا ہے)۔ اس کہانی کو سب سے پہلے اردو میں میر حسین عطا تحسین نے "نو طرز مرصع" کے نام سے ترجمہ کیا لیکن اس کی زبان نہایت دقیق اور پیچیدہ تھی جس سے معمولی استعداد کے قارئین مستفید نہیں ہو پاتے۔ 1801ء میں فورٹ ولیم کالج، کلکتہ میں ہندوستانی ادب کے ترجمہ کا ایک منصوبہ شروع کیا گیا اور اسی کے تحت ادب کے مشہور اسکالر جان گلکرسٹ نے میر امن کو اسے سہل اردو میں منتقل کرنے کا مشورہ دیا۔ میر امن اس وقت کالج میں ملازم تھے۔ چنانچہ میر امن نے تحسین کے نو طرز مرصع کو بنیاد بنا اور ساتھ میں قصہ چہار درویش کے کسی فارسی نسخے کو سامنے رکھ کر اسے اردو کی محاوراتی اور عام بول چال کی زبان میں منتقل کیا اور اس کا نام باغ و بہار رکھا۔ 1857ء میں ڈنکن فوربس نے اسے انگریزی میں ترجمہ کیا۔[5]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "باغ و بہار - قصۂ چہار درویش - مکمل متن"۔ اردو گاہ 
  2. Encyclopaedia of Indian Literature: A-Devo edited by Amaresh Datta, Page No.893
  3. باغ و بہار، مرتبہ رشید حسن خاں، صفحہ 110
  4. ’باغ وبہار‘ کی ادبی اہمیت ⋆ مضامین ڈاٹ کام[مردہ ربط]
  5. فوربس کا ترجمہ اس ربط پر دیکھا جا سکتا ہے۔

بیرونی ربط[ترمیم]