بھارت میں فحش نگاری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ایک نقشہ کے ذریعے ایشیا بھر میں فحش نگاری کا قانونی درجہ بتایا گیا ہے۔ سرخ نشان (بشمول بھارت) دکھاتا ہے کہ فحش نگاری غیر قانونی ہے۔
  مکمل قانونی، جرم نہیں
  جزوی طور پر قانونی، کچھ پابندیاں، یا قانون غیر واضح
  غیر قانونی
  نا معلوم

بھارت میں فحش نگاری (انگریزی: Pornography in India) غیر قانونی ہے۔[1] فحش تصاویر بڑی تعداد میں مجلوں میں شائع ہوتی ہے مگر اس کا سب سے بڑا ماخذ انٹرنیٹ ہے۔ ملک بھر میں اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ کے عام ہونے سے فحش ویب سائٹوں کا استعمال بھی بڑھنے لگا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ فحش ویب سائٹوں کا استعمال دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے مگر عوامی گفتگو میں اسے موضوع نہیں بنایا جاتا اور نہ ہی اس کے نقصانات پر کوئی سنجیدہ گفتگو ہوتی ہے۔ ملک کے کئی حصوں میں اب بھی اس موضوع پر بولنا رسماً ممنوع سمجھا جاتا ہے۔

اقسام اشاعت[ترمیم]

طباعت[ترمیم]

تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارت میں انٹرنیٹ کے مقابلے میں مطبوعہ فحش مواد کم دستیاب ہے اور ان تک رسائی بھی آسان نہیں ہے۔ ہریانہ میں 96 فحش مواد فروخت کا ایک عام سا سروے کیا گیا جس میں پایا گیا کہ 17 فیصد کھلے عام فحش مواد بیچتے ہیں، 34 فیصد حسب موقع اور 49 فیصد خفیہ طریقے سے فروخت کرتے ہیں۔[2]

انٹرنیٹ[ترمیم]

انٹرنیٹ فحش نگاری بھارت میں بہت عام اور مقبول ہو چلی ہے۔ فحش نگاروں کا کل صرفہ 30 تا 70 فیصد انٹرنیٹ پر ہوتا ہے۔ ٹیلی کوم کمپنیاں فحش نگاری کے ذریعے سب سے زیادہ کماتی ہیں کیونکہ اس کا استعمال بہت زیادہ ہوتا ہے۔[3] ایک مشہور فحش نگاری ویب گاہ نے دہلی کا ڈاٹا پیش کیا کہ کل 40 فیصد انٹرنیٹ ٹریفک فحش ویب گاہ پر ہوتی ہے۔[4]

قانونی حیثیت[ترمیم]

بھارتی عدالت عظمیٰ نے کھودے ڈیسٹلریز لیمیٹیڈ اینڈ او آر ایس بمقابلہ حکومت کرناٹک اند ار آی ایس (1995ء) مقدمہ میں فیصلہ دیا کہ جسم فروشی کی فلموں اور اس سے متعلق ادب کی طباعت اور اشاعت بنیادی حق نہیں ہے۔[5] کملیش واسوانی بمقابلہ یونین آف انڈیا (2013ء) (ڈائری 5917، 2013ء) مقدمہ میں بھارتی عدالت عظمی میں ایک پٹیشن دائر کی گئی تھی جس میں بھارت میں فحش نگاری پر پابندی کی مانگ کی گئی تھی۔[6]

عدالت نے مرکزی حکومت اور سائبر ریگیولیشن ایڈوائزری کمیٹی کو ایک نوٹس جاری کیا اور آئی ٹی ایکٹ دفعہ 88، 2000 کا تذکرہ کرتے ہوئے انٹرنیٹ پر فحاشیت پر لگام لگانے کا حکم دیا۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ وہ اس معاملہ میں سنجیدہ ہے۔[6] 26 جنوری 2016ء کو عدالت عظمی نے حکومت کو ایک تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ “فحش نگاری کے سد باب کے لیے دیگر راستے تلاش کیے جائیں۔ معصوم بچوں کو اس شنیع عمل کا شکار نہیں بنایا جانا چاہیے۔ اور آزادئی گفتار کے نام پر کوئی بھی بلا وجہ اس کا طرح کا بوجھ اٹھانے کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔ ہمیں مجموعی طور پر اس کا جواب دہ ہونا چاہیے۔[7]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Brajesh Rajak (2011) [2011]۔ Pornography Laws: XXX Must not be Tolerated (Paperback ایڈیشن)۔ Delhi: Universal Law Co.۔ صفحہ: 61۔ ISBN 978-81-7534-999-5 
  2. Ravi Shankar, (2012)۔ NU (DE) MEDIA: A PRELIMINARY STUDY INTO THE YOUNG PEOPLES' ACCESS TO PORNOGRAPHY THROUGH THE NEW MEDIA. Indian Streams Research Journal, Vol. II, Issue. IV, DOI : 10.9780/22307850, http://isrj.org/UploadedData/975.pdf
  3. Shauvik Ghosh (4 اگست 2015)۔ "Oops, Indian ISPs, telcos could lose 30-70% of data revenue because of porn ban"۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 نومبر 2016 
  4. Syed Mohammed (7 اپریل 2016)۔ "Indians love 'desi' porn, Delhi tops with 39% traffic – The Economic Times"۔ The Economic Times۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 نومبر 2016 
  5. "Khoday Distilleries Ltd. and Ors. v. State of Karnataka and Ors. - (1995) 1 SCC 574"۔ 1, Law Street۔ Supreme Court of India۔ 19 اکتوبر 1989۔ 22 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 جون 2015 
  6. ^ ا ب Mohit Singh (10 جولائی 2015)۔ "Kamlesh Vaswani v. Union of India & Ors. (Pornography ban matter)"۔ 1, Law Street۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 نومبر 2015  [مردہ ربط]
  7. http://www.supremecourtofindia.nic.in/jonew/ropor/rop/all/484949.pdf