بھارت میں قحبہ گری کا نظام

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ایک امریکی جواں سال آدمی بہ غرض تفریح بھارت کے کولکاتا شہر کے ایک قحبہ خانے میں عورتوں کے ساتھ موجود ہے۔ یہ تصویر 1945ء کی ہے۔

بھارت میں قحبہ گری قانونًا ناجائز نہیں ہے۔ تاہم بھارت میں قحبہ گری کو قانونی تحفظ بھی حاصل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ مخرب اخلاق بازارکاری (immoral trafficking) جیسے کچھ قوانیں کو بہ روئے کار لاتے ہوئے کئی بار اس پیشے میں شامل عورتوں، بچولیوں اور گاہکوں پر قانونی شکنجہ کسا جا سکتا ہے۔ حالانکہ ایک وسیع ملک میں پھیلے پیشے کا مکمل احاطہ نہیں کیا گیا ہے، تاہم ذیل میں چند اہم قحبہ گری کے رواج کو لکھا گیا ہے:

دیوداسی[ترمیم]

دیوداسی کا لفظی مطلب خدا کی باندی ہے۔ قدیم زمانے میں جوان عورتوں کو مقامی دیوتاؤں سے بیاہا جاتا تھا۔ یہ لوگ مندر کی پوجا کے علاوہ رقص و سرود میں مہارت رکھتی تھیں۔ اس وجہ سے کچھ داسیوں کو راجا، مہاراجا، حتی کہ ادنٰی سطح پر رجواڑوں سے بیاہا جاتا یا انھیں ان لوگوں کے حرم میں جگہ ملتی اور آرام و آسائش سے زندگی گزرتی۔ انگریزوں کی آمد کے بعد چونکہ ملکی حکمرانوں کا وجود رہا ہی نہیں یا مفقود ہو گیا، اس لیے یہ عورتیں بھی قحبہ گری پر مجبور ہو گئیں۔ 1988ء میں اس نظام کی مسدودی کے باوجود بھی آندھرا پردیش، تمل ناڈو، کرناٹک اور تمل ناڈو میں ہزا رہا خواتین اسی نظام میں پھسیں ہیں۔

بچارا قبیلہ[ترمیم]

مغربی مدھیہ پردیش کے اس قبیلے میں جسمانی فروخت کا کاروبار عام ہے۔ اس قبیلے میں بہ طور خاص خاندان کی سب سے بڑی لڑکی کو بچپن سے قحبہ گری کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ اس رواج کو اس درجہ عام کیا گیا ہے کہ قبیلے پر کئی ڈاکیومنٹری فلمیں بن چکی ہیں۔ 2004ء میں میسٹیل برابے نے ہائی وے کارٹیسن (شاہ راہ کی رقاصائیں) نامی ایک ڈاکیومنٹری تیار کیا تھا۔ یہ عنوان در حقیقت اس اس پس منظر سے متاثر ہے کہ ماضی میں کبھی یہاں کی عورتیں درباری رقاصائیں تھیں جو اب محض قحبائیں رہ گئی ہیں۔ یہ ڈاکیومنٹری اسی قبیلے کی لڑکی گُڈو کی جد و جہد پر مبنی ہے جو دس سالہ کش مکش کے بعد اس ناگفتہ بہ نظام سے اوپر آ گئی تھی۔ یہ کہانی اس قبیلے کا شاذ و نادر واقعہ رہا ہے۔

نٹ پوروا[ترمیم]

یہ شمالی ہند کی ریاست اتر پردیش کے ہردوئی ضلع کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ یہ ایک بے حد غریب گاؤں ہے اور زیادہ تر دیہاتی نٹ قب لیے سے ہیں جو رسی پر چلنے اور دیگر کربت بازیوں سے روزی روٹی کماتے ہیں۔ 1871ء میں برطانوی ہند کے دور میں مجرمانہ قبائل قانون منظور ہوا۔ نٹ برادری کو بھی مجرم قرار دیا گیا۔ انھیں پیٹا گیا، قید و بند کیا گیا اور یہ بربریت یوں ہی جاری رہی۔ اس سے قبیلے کے روزگار کے روایتی ذرائع ختم ہو گئے اور عورتوں کے پاس کمائی کے ذرائع نہیں تھے۔ وہ قحبہ گری کا سہارا لینے لگیں۔ موجودہ دور میں یہ حال ہے کہ ایک جواں سال اس پیشے میں کود پڑی تھی، صحافیوں کو بتاتی ہے کہ اس کی دادی نے اسے تعلیم دی کہ تمھیں شرمانے کی کوئی ضرورت نہیں کیوں کہ تمھاری عمر کی تقریبًا یہاں کی سبھی عورتیں اس پیشے میں شامل ہو چکی ہیں۔

واڈیا گاؤں[ترمیم]

شمالی گجرات: یہ گاؤں پورے بھارت میں قحبہ گری کے میدان میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ یہاں گھر میں کسی لڑکی کی پیدائش پر جشن منایا جاتا ہے کیوں کہ اسے خاندان کے لیے ایک اور ذریعۂ روزگار تصور کیا گیا جاتا ہے۔ مقامی لوگ لڑکیوں کو قحبہ گری کی زندگی کے لیے تیار کرتے ہیں۔ کچھ لڑکیاں بارہ برس کی عمر میں ہی کاروبار کا حصہ بنتی ہیں۔ لڑکے دلالوں اور بچولیوں کا کام انجام دیتے ہیں۔ مرد گاہک واڈیا کو احمد آباد، راجستھان، ممبئی اور پاکستان سے ہم بستری کی تلاش میں آتے ہیں اور یہاں پر ایک بار کا نِرخ پانچ سو سے دس ہزار کے بیچ ہوتا ہے۔[1]

مزید دیکھیے[ترمیم]

کتابیات[ترمیم]

  • History of Prostitution in India، by S. N. Sinha. Published by Bengal Social Hygiene Association, 1933.
  • Reporting on Prostitution: The Media, Women and Prostitution in India, Malaysia and the Philippines، by Lois Grjebine, UNESCO. Published by Unesco, 1985.
  • Prostitution in India، by Santosh Kumar Mukherji, Biswanath Joardar. Published by Inter-India Publications, 1986. آئی ایس بی این 81-210-0054-8۔
  • The Castaway of Indian Society: History of Prostitution in India Since Vedic Times, Based on Sanskrit, Pāli, Prākrit, and Bengali Sources، by Sures Chandra Banerji, Ramala Banerji. Published by Punthi Pustak, 1989. آئی ایس بی این 81-85094-25-X۔
  • Child Prostitution in India، by Joseph Anthony Gathia, Centre of Concern for Child Labour. Published by Concept Pub. Co.، 1999. آئی ایس بی این 81-7022-771-2۔
  • Immoral Traffic – Prostitution in India، by V. Sithannan. Published by JEYWIN Publications. آئی ایس بی این 81-905975-0-7۔
  • Broken Lives: Dalit Women and Girls in Prostitution in India، by M. Rita Rozario. Published by Ambedkar Resource Centre, Rural Education for Development Society, 2000. آئی ایس بی این 81-87367-02-4۔
  • Gomare et al. 2002. Adopting strategic approach for reaching out to inaccessible population viz Abstract WePeF6707F abstract, The XIV International AIDS Conference.
  • Trafficking in Women and Children in India، by P. M. Nair, Sankar Sen, Institute of Social Sciences, New Delhi, India. National Human Rights Commission, UNIFEM South Asia Regional Office, New Delhi. Published by Orient Blackswan, 2005. آئی ایس بی این 81-250-2845-5۔
  • INDIA & Southeast Asia to 1875, Beck, Sanderson. آئی ایس بی این 0-9762210-0-4
  • Mayank Austen Soofi (2013)۔ Nobody Can Love You More: Life in Delhi's Red Light District۔ Penguin Group۔ ISBN 978-0-670-08414-2۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 مارچ 2018 

حوالہ جات[ترمیم]

بیرونی روابط[ترمیم]