بھارت کی سرکاری زبانیں

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
Every state almost have Sindhi language but we don't have specific state or Union territory but Sindhi is official language of India you can see on Indian currency notes as fifteenth /Last language
بھارت کی ریاستیں اور یونین علاقے، عمومی طور پر اکثریت کے ساتھ بولی جانے والی زبانیں.[1][ا]

بھارت کی کوئی قومی زبان نہیں ہے۔[2] آئین ہند کی دفعہ 17 کے تحت مرکزی حکومت ہند کی سرکاری زبان ہندی ہے۔ اور کام کاج کی زبان انگریزی ہے۔[3][4] دفعہ 343 شق 1 میں درج ہے “یونین کی سرکاری زبان دیوناگری رسم الخط میں ہندی ہوگی، یونین کی سرکاری اغراض کے لیے استعمال کیے جانے والے ہندسوں کی شکل بھارتی ہندسوں کی بین الاقوامی شکل ہوگی۔[4] انگریزی بھارت کی دفتری زبان ہے جیسے عدالت، یونین اور صوبائی حکومتوں کے درمیان میں بات چیت وغیرہ۔ بھارت کی ریاستوں کو اپنی خود کی زبان چننے کا آئینی اختیار ہے۔ سرکاری زبان کے علاوہ آئین میں 22 علاقائی زبانیں بھی ہیں اور اس فہرست میں ہندی تو ہے مگر انگریزی نہیں ہے۔ انھیں فہرست بند زبانیں کہا جاتا ہے۔ ہندی زبان کے بولنے والے آبادی کا کل 25 فیصد ہیں اور تام لہجات کو ملا دیا جائے جسے مرکزی ہندوستانی زبانیں کہا جاتا ہے تو کل تعداد 44 فیصد ہو جائے گی۔ ہندی یا اردو زبان بولنے والوں کی تعداد ان خطوں میں ہے جو اردو بیلٹ کے تحت آتے ہیں۔ دیگر زبانوں کے بولنے والے 10 فیصد یا اس سے کم ہیں۔[5][6]

تاریخ[ترمیم]

برطانوی راج میں سرکاری زبان انگریزی زبان،اردو اور ہندی زبان تھی۔ انگریزی کا استعمال مرکزی حکومت میں زیادہ تھا۔[7] 1950ء میں انگریزی کی جگہ ہندی کو لایا گیا مگر بھارتی پارلیمان کو آئینی اختیار دیا گیا کہ انگریزی کا استعمال برقرار رکھا جائے۔

فہرست بند زبانوں کی فہرست[ترمیم]

زبان[ب] ہند آریائی زبانیں Speakers
(in millions, 2011)[8]
صوبوں کی سرکاری زبان
آسامی مشرقی ہند آریائی 15.3 آسام، اروناچل پردیش
بنگالی مشرقی ہند آریائی 97.2 مغربی بنگال، تریپورہ، آسام، جزائر انڈمان و نکوبار، جھارکھنڈ[9]
بوڑو تبتی برمی 1.48 آسام
ڈوگری ہند آریائی شمار مغربی 2.6 جموں و کشمیر، ہماچل پردیش،
گجراتی ہند آریائی مگربی 55.5 دادرا و نگر حویلی، دمن و دیو، گجرات
ہندی ہند آریائی 528 جزائر انڈمان و نکوبار، بہار، دادرا و نگر حویلی، چھتیس گڑھ، دہلی، گجرات، ہریانہ، ہماچل پردیش، جھارکھنڈ، مدھیہ پردیش، جموں و کشمیر، میزورم، راجستھان، اتر پردیش، اتراکھنڈ اور مغربی بنگال[10][11]
کنڑا دراوڑی زبانیں 43.7 کرناٹک
کشمیری ہند آریائی دادری 6.8 جموں و کشمیر
کوکنی ہند آریائی جنوبی 2.25 مہاراشٹر، گوا، کرناٹک، کیرلا اور کوکن[12][13]
میتھلی ہند آریائی مشرقی 13.6 بہار، جھارکھنڈ[14]
ملیالم دراوڑی زبانیں 34.8 کیرلا، لکشادیپ، پدوچیری (ماہی)
منی پوری تبتی برمی 1.8 منی پور
مراٹھی ہند آریائی جنوبی 83 مہاراشٹر، گوا، دادرا و نگر حویلی، دمن و دیو
نیپالی ہند آریائی شمالی 2.9 سکم اور مغربی بنگال
اڑیہ ہند آریائی شمالی 37.5 اوڈیشا، جھارکھنڈ،[15][16][17] مغربی بنگال[10][11]
پنجابی ہند آریائی شمال مغربی 33.1 چندی گڑھ، دہلی، ہریانہ، پنجاب، مغربی بنگال[10][11]
سنسکرت ہند آریائی 0.02 اتراکھنڈ
سنتالی منڈا زبانیں 7.3 سنتھال قوم، جھارکھنڈ، آسام، بہار، چھتیس گڑھ، میزورم، اوڈیشا، تریپورہ، مغربی بنگال[18]
سندھی ہند آریائی زبانیں، شمال مغربی 2.7 صوبہ سندھ (1936ء–1955ء)، الہاس نگر
تمل دراوڑی زبانیں 69 تمل ناڈو، پدوچیری، جزائر انڈمان و نکوبار
تیلگو دراوڑی زبانیں 81.1 آندھرا پردیش، تلنگانہ اور پدوچیری
اردو ہند آریائی مرکزی 50.7 جموں و کشمیر، آندھرا پردیش، تلنگانہ، جھارکھنڈ، دہلی، بہار، یوپی اور مغربی بنگال[10][11]

یونین کی دفتری زبانیں[ترمیم]

1950ء میں آئین ہند کی رو سے دیوناگری رسم الخط میں ہندی زبان کو دفتری زبان کا درجہ دے دیا گیا اور یہ قرار دیا گیا کہ اس کے بعد 15 سال بعد 26 جنوری 1965ء کو انگریزی زبان کا استعمال کم کیا جائے گا۔ مگر ان علاقوں میں مسائل کا سامنا کرنا پرا جہاں ہندی زیر استعمال نہیں ہے خصوصا دراوڑی زبانوں کے علاقہ میں۔ لہذا بھارتی پارلیمان نے 1963ء میں دفتری زبان ایکٹ، 1963ء[19][20][21][22][23][24]متعارف کرایا جس کی رو سے 1965ء کے بعد انگریزی کو بطور دفتری زبان استعمال کیا جائے گا۔ 1964ء میں انگریزی زبان کے مکمل خاتمے کی کوشش کی گئی مگر ، مہاراشٹر، تمل ناڈو، پنجاب، بھارت، مغربی بنگال، کرناٹک، پدوچیری، ناگالینڈ، میزورم اور آندھرا پردیش میں احتجاج ہونا شروع ہو گیا اور کہیں کہیں یہ احتجاج کشیدگی میں تبدیل ہو گیا اور تشدد کی شکل اختیار کرگیا۔[25] لہذا حکومت کو یہ اقدام روکنا پرا۔[26][27]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "Report of the Commissioner for linguistic minorities: 50th report (جولائی 2012 to جون 2013)" (PDF)۔ Commissioner for Linguistic Minorities, Ministry of Minority Affairs, Government of India۔ 8 جولائی 2016 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 ستمبر 2016 
  2. پریس ٹرسٹ آف انڈیا (25 جنوری 2010)۔ "Hindi, not a national language: Court"۔ دی ہندو۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 نومبر 2018 
  3. "Constitutional Provisions: Official Language Related Part-17 of The Constitution Of India"۔ Department of Official Language, حکومت ہند۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 جولائی 2015 
  4. ^ ا ب "THE OFFICIAL LANGUAGE POLICY OF THE UNION | Department of Official Language | Ministry of Home Affairs | GoI"۔ rajbhasha.nic.in۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 مارچ 2019 
  5. "Scheduled Languages in descending order of speaker's strength – 2001"۔ Ministry of Home Affairs, Government of India۔ 22 فروری 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 جولائی 2015 
  6. "Statement 1 – Abstract of Speakers' Strength of Languages and Mother Tongues – 2001"۔ Government of India۔ 29 اکتوبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 دسمبر 2016 
  7. Sandra Mollin (2006)۔ Euro-English: assessing variety status۔ Gunter Narr Verlag۔ صفحہ: 17۔ ISBN 978-3-8233-6250-0 
  8. "Statement 1 – Abstract of Speakers' Strength of Languages and Mother Tongues – 2011" (PDF)۔ Ministry of Home Affairs, Government of India 
  9. "آرکائیو کاپی"۔ 06 جنوری 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اکتوبر 2019 
  10. ^ ا ب پ ت
  11. ^ ا ب پ ت
  12. "The Origins of the Konkani Language"۔ www.kamat.com۔ 15 اگست 1997 – 15 جنوری 2016 
  13. "Indian Languages: Konkani Language"۔ iloveindia.com 
  14. "آرکائیو کاپی"۔ 21 مارچ 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اکتوبر 2019 
  15. "Oriya gets its due in neighbouring state- Orissa- IBNLive"۔ Ibnlive.in.com۔ 4 ستمبر 2011۔ 04 جولا‎ئی 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 نومبر 2012 
  16. Naresh Chandra Pattanayak (1 ستمبر 2011)۔ "Oriya second language in Jharkhand"۔ Times Of India۔ 07 نومبر 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 نومبر 2012 
  17. "Bengali, Oriya among 12 dialects as 2nd language in Jharkhand"۔ daily.bhaskar.com۔ 31 اگست 2011۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 نومبر 2012 
  18. "Santhali"۔ Ethnologue.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 مئی 2018 
  19. "The Official Languages (Use for Official Purpose of the Union) – Rules 1976 (As Amended, 1987)"۔ 25 مارچ 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 جون 2015 
  20. Commissioner Linguistic Minorities آرکائیو شدہ 8 اکتوبر 2007 بذریعہ وے بیک مشین
  21. Language in India
  22. THE OFFICIAL LANGUAGES ACT, 1963 آرکائیو شدہ 1 جون 2009 بذریعہ وے بیک مشین
  23. National Portal of India: Know India: Profile آرکائیو شدہ 17 اپریل 2007 بذریعہ وے بیک مشین
  24. Committee of Parliament on Official Language report آرکائیو شدہ 20 فروری 2012 بذریعہ وے بیک مشین
  25. Hardgrave, Robert L. (اگست 1965)۔ "The Riots in Tamilnadu: Problems and Prospects of India's Language Crisis"۔ Asian Survey (University of California Press)
  26. "The force of words"، Time، 19 فروری 1965، 24 اگست 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ، اخذ شدہ بتاریخ 5 جون 2007 
  27. Duncan B. Forrester (Spring–Summer 1966)، "The Madras Anti-Hindi Agitation, 1965: Political Protest and its Effects on Language Policy in India"، Pacific Affairs، 39 (1/2): 19–36، doi:10.2307/2755179