بیس سال سے کم عمر میں حمل

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
نیروبی، کینیا، میں ایک علامتی مجسمہ جس میں ایک حاملہ کم عمر کی لڑکی کو صلیب پر چڑھایا جا رہا ہے۔ یہ دراصل ان مصائب کی نمائندگی کرتا ہے جو کم عمر مائیں جھیلتی ہیں۔ اس مجسمے کو کینیا ہی میں منعقد ورلڈ سوشیل فورم کے اجلاس کے دوران پیش کیا گیا تھا۔ یہ نہ صرف مرکز توجہ بلکہ کافی حد موضوع بحث بھی رہا۔

بیس سال سے کم عمر میں حمل جسے نوعمری میں حمل بھی کہتے ہیں، ایک ایسی صورت حال ہے جس میں لڑکیاں بیس سال سے کم عمر میں ہی حاملہ ہو جاتی ہیں۔ کوئی بھی لڑکی جنسی ہم بستری سے حاملہ ہو سکتی ہے جب اسے بیضہ ریزی شروع ہو۔ یہ پہلے ماہواری کے دور سے پہلے بھی ممکن ہے، مگر عمومًا یہ ماہواریوں کے سلسلوں شروع ہونے کے بعد ممکن ہے۔ اچھی غذا پانے والیوں لڑکیوں میں پہلی بار بیضہ ریزی اور ماہواری 12 یا 13 سال کی عمر میں ممکن ہے۔

کم عمر حاملہ لڑکیاں حمل سے متعلق وہی معاملوں سے گزرتی ہیں جیسے کہ دیگر عورتیں گزرتی ہیں۔ تاہم 15 سال سے کم عمر کی لڑکیوں میں کچھ مسائل مزید پریشان کن ہو سکتے ہیں کیوں کہ وہ جسمانی طور پر اتنی تیار نہیں ہوتی ہیں کہ ایک صحت مند حمل کو برداشت کر سکیں یا بچے کو پیدا کریں۔ 15–19 سالہ لڑکیوں میں عمر کے حیاتیاتی اثرات سے کہیں زیادہ سماجی و معاشی خطرات سے جوجتی ہیں۔ کم پیدائشی وزن، قبل از وقت درد زہ، خون کی کمی اور قبل از وقت ارتِعاج حیاتیاتی عمر سے جڑے خطرات ہیں، جو بیس سے کم عمر کی پیدائشوں میں دیکھی جاتی ہیں جب دیگر خطرے کے عوامل قابو پالیا جاتا ہے (جیسا کہ قبل از ولادت دیکھ ریکھ، وغیرہ)۔

ترقی یافتہ ممالک میں بیس سال سے کم عمر میں حمل کے واقعات سماجی معاملوں سے جڑے ہیں، جن میں کم تعلیمی سطح، غربت اور دیگر منفی زندگی کے نتائج جو اس عمر کی ماؤں کے بچوں سے جڑے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک ممالک میں کم عمری میں حمل عمومًا شادی کے دائرے سے باہر ہوتا ہے اور یہ کئی برادریوں اور تہذیبوں میں بدنما داغ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ترقی پزیر ممالک میں کم عمر والدین عمومًا شادی شدہ ہوتے ہیں اور اس حمل کا خاندان اور سماج کی جانب سے خیر مقدم ہوتا ہے۔ تاہم ان سماجوں میں اس طرح کا قبل از وقت حمل قلت تغذیہ اور ناقص صحت کی دیکھ ریکھ کے ساتھ ہو سکتا ہے جس سے طبی مسائل رونما ہو سکتے ہیں۔

اگر مشترکہ طور پر کیا جائے، تعلیمی فروغ اور ضبط حمل بیس سال سے کم عمر کے غیر ارادی حمل کو روک سکتے ہیں۔ ترقی پزیر ممالک میں 7.3 ملین لڑکیاں ہر سال 18 سال کم عمر میں بچوں کو جنم دیتی ہیں۔ اگر بھی حمل کے معاملوں کو شامل کیا جائے، تو ابتدائی سن بلوغ میں حمل کے واقعات کافی زیادہ ہیں۔

تعریف[ترمیم]

ْٓماں کی عمر کا تعین آسانی تصدیق شدہ تاریخ سے ہوتا ہے جب حمل ختم ہو، نہ کہ استقرار حمل کی تخمینی تاریخ سے۔ اس کے نتیجے میں شماریات سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کتنے حمل اس وقت شروع ہوئے جب عورتیں 19 سال کی رہی ہوں گی، اگر یہ ختم ایسے وقت پر ہو رہے ہوں جب عورتوں کی عمریں یا تو 20ویں سالگرہ پر یا اس کے بعد ہو رہی ہوں۔ اسی طرح، ماں کے شادی شدہ موقف سے متعلق شماریات کا تعین اس بات سے ہوتا ہے کہ حمل کے اختتام پر وہ شادی شدہ ہے کہ نہیں، نہ کہ استقرار حمل کے وقت۔

اثرات[ترمیم]

اقوام متحدہ کے آبادی فنڈ کے مطابق، "18 سال سے کم عمر کی لڑکیوں میں حمل کے واقعات ناقابل اصلاح نتائج رکھتے ہیں۔ یہ لڑکیوں کے حقوق کی پامالی کرتے ہیں، جس میں زندگی کو خطرے میں ڈالنے والے جنسی اور تولیدی صحت کے عواقب ہوتے ہیں اور سماج پر کئی ترقیاتی اخراجات عائد ہوتے ہیں، بالخصوص غربت کے دائرہ وسیع کرنے کے معاملے میں۔" صحت کے عواقب میں جسمانی طور پر حمل اور بچے کی ولادت کے موضوع پر عدم تیاری ہو سکتی ہے، جس سے پیچیدگیاں اور قلت تغذیہ ممکن ہے کیوں کہ بالغات کی اکثریت نچلی آمدنی کے گھرانوں سے ہوتی ہے۔ لڑکیوں میں ماں کی موت کا خطرہ 15 سال سے کم عمر لڑکیوں نچلی اور اوسط آمدنی کی لڑکیوں میں کم ہے، تاہم یہ بیس یا اس سے زائد کی عورتوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ کم عمر میں حمل لڑکیوں کی تعلیم اور آمدنی کے مواقع کو بھی متاثر کرتے ہیں کیوں کہ ان میں سے کئی جبرًاسکول چھوڑنے پر مجبور ہیں جو بالآخر مستقبل کے مواقع اور معاشی بہتری کے لیے خطرہ ہے۔

کئی مطالعوں میں سماجی و معاشی، طبی اور نفیسیاتی اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے جو کم عمروں میں حمل اور مادریت کی شکل میں چھوڑتے ہیں۔ زندگی کی نتیجہ خیزی کم عمر ماؤں اور ان کے بچوں کے لیے مختلف ہے؛ دیگر عوامل، جیسے کہ غربت یا سماجی حمایت، کئی بار ماں کی عمر سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ ایسے کئی طریقے تجویز کیے گئے ہیں تاکہ منفی شواہد کا مقابلہ کیا جا سکے۔ ایسے کم عمر والدین جو خاندان اور برادری کی حمایت، سماجی خدمات اور بچوں کی دیکھ ریکھ کا سہارا لیتے ہیں، وہ اغلب ہے کہ اپنی تعلیم جاری رکھیں اور فارغ التحصیل ہونے کے بعد زیادہ اجرت والی ملازمت پر فائز ہوں۔

ایک ہمہ پہلو رویے کی ضرورت ہے تاکہ کم عمری کے حمل کے مسئلے کو سلجھایا جاسکے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لڑکیوں کے طور طریقوں پر مرکوز ہونے کی بجائے اس طرح کے حمل کے پس پردہ غربت، نابرابری، سماجی دباؤ اور جبروزیادہ کا مقابلہ کیا جائے۔ اس طرز میں یہ بھی شامل ہونا چاہیے کہ عمر کی مناسبت سے جنسیات کی تعلیم سبھی جوان لوگوں کو دی جانی چاہیے، لڑکیوں کی تعلیم کی سرمایہ کاری ہونا چاہیے، کم سنی کی شادی کو روکنا چاہیے، جنسی تشدد اور جبروزیادتی سے بچنا چاہیے، جنس مساوی سماجوں کی تشکیل ہونا چاہیے، لڑکیوں کو بااختیار بنانا چاہیے اور لڑکوں پر مردوں کو اس بات پر آمادہ کرنا چاہیے کہ وہ ان معاملات کو یقینی بنائیں۔ اس کے ساتھ ہی جوان لوگوں کو جنسی اور تولیدی صحت سے متعلق معلومات فراہم ہونا چاہیے اور متصلًا ایسی خدمات جاری ہونا چاہیے جو ان کا خیرمقدم کرتی ہیں اور ان کی ترجیحات کے لیے سہولت فراہم کرتی ہیں۔

ریاستہائے متحدہ میں ہائی اسکول جانے والے طلبہ کی ایک تہائی تعداد جنسی طور پر فعال پائی گئی ہے۔ 2011-2013 میں 79% لڑکیوں نے اطلاع دی کہ وہ ضبط حمل سے استفادہ کرتی ہیں۔ کم عمری میں حمل جوان عورتوں کو صحت، معیشت، سماج اور مالیہ کے معاملوں میں مختلف خطرات سے روشناس کرتا ہے۔

ماں[ترمیم]

ترقی پزیر دنیا میں جوان ماں ہونے کا مطلب تعلیم کو متاثر کرنا ہے۔ بیس سال سے کم عمر کی مائیں تعلیمی اداروں سے الگ ہو جاتی ہیں۔ تاہم حالیہ مطالعات سے پتہ چلا ہے کہ یہ مائیں اسکولوں کو حاملہ بننے سے قبل ہی خیرباد کہ چکی ہیں اور جو حمل کے دوران پڑھ بھی رہی تھیں، وہ اغلب تھا کہ اپنی ہم جماعتوں کے ساتھ تعلیم کو مکمل کریں۔ 2001ء کے ایک مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ نوعمری میں بچوں کو جنم دینے والی عورتیں ثانوی سطح کی تعلیم 10–12% مکمل کرتی ہیں اور ثانوی سے آگے کی تعلیم 14–29% جاری رکھتی ہیں جیسے کہ وہ عورتیں جو 30 سال کی عمر تک مادریت کا انتظار کرتی ہیں۔ صنتی ملک میں جواں سالی کی ممتا ملازمت اور سماجی طبقے کو متاثر کر سکتی ہے۔ ایک تہائی سے کم کم عمر مائیں کسی بھی قسم کے بچے کی حمایت پاتی ہیں، جس میں زیادہ تر وہ حکومت سے امداد کے لیے رجوع ہوتی ہیں۔ قبل از وقت بچے کی پرورش اور ہائی اسکول کی تکمیل میں ناکامی کیریئر کے امکانات کو جواں سال عورتوں کے لیے مدھم کردیتے ہیں۔ ایک مطالعے سے پتہ چلا ہے 1988ء میں 60% کم عمر مائیں غربت میں مبتلا تھیں۔ مزید تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ سبھی بالغ ماؤں میں سے 50% نے اپنے بچے کی زندگی کے پہلے پانچ سال کے دوران سماجی حمایت کا سہارا لیا۔ مملکت متحدہ کی 100 ماؤں کے ایک مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ ان میں صرف 11% کو تنخواہ ملی ہے، جبکہ 89% بے روزگار رہی ہیں۔ زیادہ تر برطانوی مائیں غربت میں رہتی ہیں، جس میں آدھی آمدنی کی تقسیم کے نچلے پانچویں حصے میں رہتی ہیں۔ کم عمر عورتیں جو حاملہ ہوں یا مائیں ہو، وہ دیگر کم عمر لوگوں کے مقابلے خودکشی کا سات گنا زیادہ رجحان رکھتی ہیں۔ اسیکس یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف سوشیل اینڈ اکنامک ریسرچ کے پروفیسر جان ایرمیش اور ساؤتھیمپٹن یونیورسٹی کے سینٹر فار سیکسوئیل ہیلتھ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر راجر اِنگہام یہ دریافت کیا کہ کم عمر ماؤں کا دیگر لڑکیوں سے موازنہ کر کے بتایا کہ مساوی طور سماجی و معاشی محرومی، خراب اسکولی تجربے اور کم تر تعلیمی جستجو رکھنے والی لڑکیوں کی زندگی کے مواقع میں فرق برائے نام ہے۔

کچھ تحقیقوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کم عمر مائیں کفایت شعاری کا ہنر سیکھتی ہیں۔ مثلًا ڈیوک یونیورسٹی کے ماہر معاشیات وی جوزف ہوٹز اور ان ہم کاروں طویل مدتی مطالعوں میں جو پایا تھا اسے 2005ء میں شائع کیا گیا۔ اس کے مطابق 35 سال کی عمر تک سابقہ کم عمر مائیں زیادہ آمدنی کماتی ہیں اور زیادہ محاصل دیتی ہیں۔ اس بات کے بہت ہی موہوم امکانات تھے کہ وہ غربت میں رہتیں اور کم تر عوامی حمایت بچوں کی پرورش کے لیے پاتی تھیں بمقابلہ ان عورتوں کے جو 20 سے زیادہ عمر میں بچوں کو جنم دیتی تھیں۔ کم عمری میں بچوں کو پیدا کرنے والی مائیں 20 اور 30 سال سے زائد عمر میں بچوں کی پرورش کی ذمے داریوں سے فارغ ہوتی تھیں اور ملازمت پر توجہ مرکوز کرتی تھیں۔ اس کے بر خلاف غریب تر عورتیں جو مائیں بننے کا انتظار کرتی تھیں، گھر ہی میں پھنس کر اپنے بچوں کی دیکھ ریکھ میں لگی تھیں۔ یہ ثانی الذکر عورتیں رفاہی پیسے کے حصول سے کہیں زیادہ محاصل ادا کرتی تھیں۔ اس رپورٹ کی اشاعت کے آٹھ سال بعد وفاقی طور پر مامورکردہ رپورٹ جس کا انگریزی عنوان "Kids Having Kids" تھا، بھی یہی دریافت پیش کر رہی تھی، حالانکہ اسے دبا دیا گیا: "نوعمر بالغ مائیں بعد کی عمر والی ماؤں کے مقابلے من حیث الجموع بہبودگی کے معاملوں میں آگے ہوتی ہیں۔"

بیس سال سے کم عمر میں حمل کو روکنے کی قومی مہم کے مطابق، تقریبًا ہر چار میں سے ایک کم عمر ماں پہلے بچے کے بعد دو سال کے اندر ایک اور حمل کا تجربہ کرتی ہے۔ حمل اور زچگی کافی اہمیت سے ان ماؤں کے ہائی اسکول چھوڑنے کے امکانات کو بڑھا دیتی ہیں۔ کئی کم عمر والدین کے پاس نہ تو دانشورانہ اور نہ ہی جذباتی شعور ہوتا ہے جو کسی نئی زندگی کے لیے درکار ہوتا ہے۔ اکثر یہ حمل کی خبر کئی مہینوں تک چھپا کر رکھی جاتی ہے، جس سے زچکی سے پہلے کی دیکھ ریکھ متاثر ہوتی ہے۔ ایسے عوامل جو یہ طے کرتے ہیں کہ کون سی مائیں کم سے کم فاصلے سے دوبارہ زچگی کے مرحلے سے گزریں گی، میں شادی اور تعلیم شامل ہیں۔ امکانات موہوم ہوتے ہیں اگر جوان عورت کی تعلیمی سطح آگے بڑھے – یا اس کے والدین کے – اور بڑھ سکتے ہیں اگر وہ شادی کے رشتے سے جڑ جائے۔

نوزائیدہ بچے[ترمیم]

کم عمری میں مادریت اطفال کی نفسیاتی اور سماجی ترقی کو بری طرح سے متاثر کر سکتا ہے۔ بیس سال سے کم عمر میں ماں کا درجہ پانے والی لڑکیوں میں اس بات کے کافی قوی امکانات ہیں کہ ایسے نوزائیدہ بچوں کو جنم دیں جو قبل از وقت ہوں اور وزن بہت کم رکھتے ہوں، جس کی وجہ سے وہ زندگی بھر قائم رہنے والی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔ کم عمر ماؤں کے بچے دیر سے ذہن سازی، زبان گوئی اور سماجی جذبات سے روشناس ہوتے ہیں۔ ترقیاتی معذوری اور رویہ جات کے معاملات کم عمر ماؤں کے بچوں میں بہ کثرت دیکھے جاتے ہیں۔ ایک مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ نوعمر ماؤں میں اس بات کے امکانات بے حد کم ہیں کہ وہ شفقت بھرے رویے جیسے کہ ملامست، مسکراہٹ، لفظی روابط یا حساسیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے بچوں سے رجوع ہوں۔ ایک اور مطالعے سے یہ بھی بات آشکارا ہوئی کہ جنہیں زیادہ سماجی حمایت حاصل ہوتی ہے وہ اپنے بچوں کے آگے غصے کا کم سے کم مظاہرہ کریں گی یا سزا کا ہی سہارا لیں گی۔

کم عمر ماؤں کے بچوں میں ناقص تعلیمی مظاہرہ بھی دیکھا گیا ہے، جس میں کئی بچے ایک سطح پیچھے رہا کرتے ہیں۔ ایسے بچے معیاری طور پر قائم ہونے والے امتحانات میں کم تر درجات پاتے ہیں اور/یا ثانوی اسکول سے فارغ التحصیل ہی نہیں ہوتے۔ کم عمر ماؤں کو پیدا ہونے والی لڑکیاں خود آگے چل کر اپنی بیسویں سال گرہ سے پہلے ماں بننے کا رجحان رکھتی ہیں۔ کم عمر ماؤں کے لڑکوں میں قیدخانوں میں وقت گزارنے کا رجحان تین گنا زیادہ پایا گیا ہے۔

طبی پہلو[ترمیم]

زچگی اور قبل از ولادت صحت بیس سال سے کم عمر کی ماؤں کے بیچ خصوصی توجہ کا موضوع، خصوصًا ان لڑکیوں کے لیے جو حاملہ ہوں یا ماں کے فرائض انجام دے رہی ہوں۔ مغربی بنگال کے ایک دیہی اسپتال میں کم عمر مائیں جو 15 اور 19 سال کے بیچ رہی ہوں، ان میں خون کی کمی، قبل از وقت زچگی اور ایسے بچوں کو جنم دینا جس کا وزن پیدائش کے وقت خلاف توقع کم ہو، پایا گیا ہے۔ یہ صورت حال ان ماؤں سے مختلف ہے جو 20 سے 24 سال کے بیچ زچگی سے فراغت پاتی ہیں۔

دوران حمل ناکافی تغذیہ ترقی پزیر ممالک کی کم عمر ماؤں اور بھی نشان زدہ مسئلہ ہے۔ دوران حمل رونما ہونے والی پیچیدگیاں تخمینًا 70,000 کم عمر لڑکیوں کو ترقی پزیر ممالک میں ہلاک کر دیتی ہیں۔ کم عمر مائیں اور ان کی اولاد ایچ آئی وی سے متاثر ہونے کا زیادہ خطرہ رکھتی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کا اندازہ ہے کہ حمل سے ہونے والی موت کا خطرہ 15–19 کی عمر میں 20–24 کی عمر سے دو گنا زیادہ ہوتا ہے۔ ماں کی موت کی شرح 10–14 کی عمر میں 20–24 کی عمر کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ ہونے کا امکان ہے۔ غیر قانونی اسقاط حمل بھی کم عمر لڑکیوں کے لیے کئی خطرات کا باعث ہیں جیسا کہ ذیلی صحرائے افریقہ میں دیکھا گیا ہے۔

15 سال سے کم عمر کی لڑکیوں میں طبی پیچیدگیوں کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایسا نافچہ رکھتی ہیں جو پوری طرح سے تیار نہیں ہوا ہوتا ہے اور یہی زچگی میں مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔ درد زہ کا مفقود ہونا ترقی یافتہ ممالک میں آپریشن کے ذریعے ولادت کی وجہ بن سکتا ہے۔ مگر ترقی پزیر ممالک میں جہاں طبی سہولتیں عدم دستیاب یا کم دستیاب ہوں، یہ ارتِعاج یا پھر دبر میں چھید کی شکل میں رونما ہو سکتا ہے جو بے روک ٹوک پیشاب یا غیر ارادی پاخانوں کی شکل اختیار کر سکتا ہے یا اس سے دوران حمل موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ پندرہ سال سے بڑی عمر والی ماؤں کے لیے عمریں اپنے آپ میں خطرے کا باعث نہیں ہوتی ہیں اور سماجی و معاشی عوامل سے ناقص نتائج جڑے ہوتے ہیں نہ کہ حیاتیات کی رو سے ۔

اہم خطرناک پہلوؤں کا جائزہ[ترمیم]

ثقافت[ترمیم]

بیس سال سے کم عمر میں حمل کی شرحیں ان سماجوں میں زیادہ ہیں جہاں یہ روایت ہے کہ لڑکیاں کم عمری میں شادی کریں اور انھیں اس بات کو حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ حمل و ولادت کے مرحلے سے فوری طور پر گزریں جب بھی وہ اس کے قابل ہوں۔ مثلًا ذیلی صحرائے افریقہ کے ممالک میں کم عمری میں حمل کو عمومًا ایک برکت والی بات سمجھی جاتی ہے کیوں کہ یہ ایک عورت کے قابل حمل ہونے کا سب سے بین ثبوت ہے۔ کم عمری کی شادی جن ممالک میں عام ہے، وہاں کم عمری میں حمل کے واقعات بھی بہ کثرت دیکھے جاتے ہیں۔ بھارت کے بر اعظم میں نوخیز عمر میں شادی اور حمل روایتی طور پر دیہی سماجوں میں شہری سماج کے مقابلے زیادہ عام ہے۔ محفوظ ہم بستری کی تعلیم کا فقدان، چاہے وہ والدین کی جانب سے ہو، اسکول سے یا کوئی اور وجہ سے ہو، شہری سماج کے مسائل کی ایک اہم وجہ ہے۔ کئی کم عمر لوگوں کو ضبط حمل کے طریقوں کی تعلیم نہیں دی گئی ہے اور وہ یہ نہیں جانتے ہیں کہ کس طرح اپنے ہم کاروں کے دباؤ سے جوجیں جو ان سے ہم بستری پر دباؤ ڈالتے ہیں، اس قبل کہ وہ اس کے لیے تیار ہوں۔ کئی کم عمر مائیں جنسیات کے کلیدی حقائق سے بھی ناواقف ہیں۔

معاشی محرکات بھی بچوں کے جلد ہونے کا سبب بنتے ہیں۔ ان سماجوں میں جہاں بچوں کو کم عمری میں کام پر لگایا جاتا ہے، وہاں زیادہ بچوں کا ہونا لازمی بات ہے۔

ایسے سماجوں میں جہاں کم عمری شادی زیادہ عام نہیں ہیں، جیسا کہ ترقی یافتہ ممالک کا معاملہ ہے، وہاں جواں سالی میں پہلی ہم بستری اور ضبط حمل کے طریقوں کا عدم استعمال (یا ان غیر مستقل اور/یا نادرست استعمال؛ ایسے طریقے کا استعمال جس میں ناکامی کی شرح زیادہ ہے اور غالبًا یہ ازخود بیس سال سے کم عمر میں حمل کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی کم عمر میں حمل کے واقعات غیر منصوبہ بند ہیں۔ کئی مغربی ممالک میں باضابطہ جنسی تعلیم کے پروگرام رائج ہیں، جن کا سب سے اہم مقصد غیر منصوبہ بند حمل کو روکنا اور جنسی طور معتدی امراض کا انسداد ہے۔ کم عمروں میں کم تر شرح پیدائش والے ممالک کم عمروں کے درمیان جنسی رشتوں کو قبول کرتے ہیں اور وہ جامع اور متوازن جنسیات سے متعلق معلومات فراہم کرتے ہیں۔

دیگر ارکان خاندان[ترمیم]

بیس سال سے کم عمر میں حمل اور ماریت دیگر کم عمر بھائی بہن کو متاثر کر سکتا ہے۔ ایک مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ کم عمر ماؤں کی بہنیں کم ہی تعلیم اور ملازمت کی اہمیت کو بتا سکتے ہیں۔ ان میں انسانی جنسی رویہ، والدین کے فرض نبھانے اور کم عمر کی شادیوں کو قبول کرنے کا رجحان ہوتا ہے؛ کم عمر بھائی غیر ازدواجیت اور قبل از وقت پیدائشوں کو قبول کرنے تیار رہتے ہیں، جس کے ساتھ مزید یہ وہ اعلٰی خطرے کے رویے کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ اگر کم عمر والدین سے عمر میں کم سال رکھنے والی بہنیں بچوں کی دیکھ ریکھ کے فرائض انجام دینے لگیں، ان میں خود حاملہ بننے کا خطرہ شامل ہوتا ہے۔ جب ایک بڑی عمر کی لڑکی کسی بچے جو جنم دیتی ہے، والدین اگثر حالات اور ماحول کو گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ قبول کرنے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ اپنے سے کم عمر والی بہن کا خود کی خود کی کم عمری میں حاملہ بننا پانچ میں ایک سے بڑھ کر پانچ میں سے دو ہو جاتا ہے اگر بڑی عمر والی بہن خود کم عمری میں ماں بن جائے۔

جنسیت[ترمیم]

بیش تر ممالک میں لڑکے اپنی بیسویں سالکرہ سے پہلے پہلی ہم بستری کا تجربہ کر چکے ہوتے ہیں۔ مغربی ترقی یافتہ ممالک میں لڑکے پہلی بار ہم بستری غیر ترقی یافتہ اور تہذیبی قدامت پسند ممالک جیسے کہ ذیلی صحرائے افریقہ اور بیش تر افریقہ سے پہلے کر چکے۔ ہوتے ہیں۔

2005ء میں قیصر فیملی فاؤنڈیشن نے ریاستہائے متحدہ میں بیس سال سے کم عمر والوں کا ایک مطالعہ کیا۔ ان میں 29% کم عمروں نے ہم بستری کے لیے دباؤ کے ہونے کی بات کہی۔ جنسی طور پر فعال لوگوں میں 33% نے رپورٹ پیش کی کہ وہ "ایک ایسے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں جہاں وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہم بستری سے چیزیں تیزی سے بدل رہی ہیں"۔ اس کے علاوہ 24% نے بتایا کہ وہ "کچھ ایساجنسی طور پر کیے تھے جو وہ کرنا نہیں چاہتے تھے۔" کئی رائے شماریوں سے پتہ چلا ہے کہ ساتھیوں کا دباؤ ایک عنصر ہوتا ہے جس کے تحت لڑکے اور لڑکیاں ہم بستری کرتی ہیں۔ نوبالغوں میں جنسی حرکات کا بڑھنا اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ کم عمر لڑکیاں تیزی سے حاملہ ہو جاتی ہیں اور جنسی طور متعدی امراض پھیل رہے ہیں۔

منشیات اور شراب کے بڑھتے اثرات[ترمیم]

شرمساری کو گھٹانے والی منشیات اور شراب ممکنہ طور پر غیر ارادی جنسی حرکات کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی اس کا بات کا کوئی علم نہیں ہے منشیات از خود بیس سال سے کم عمر کے لڑکوں اور لڑکیوں کو خطروں سے بھرے رویے میں پڑنے کے لیے آمادہ کرتے ہیں یا پھر کم عمر لوگ جو منشیات استعمال کرتے ہیں بہ طور رجحان ہم بستری میں زیادہ مبتلا ہوتے ہیں۔ کسی نسبت کا ہونا توجیہ کا اشارہ نہیں کرتا۔ شراب، کنابیس اور ایکسٹسی جیسی منشیات کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ کم عمروں میں اضافی حمل کے ثبوت سے جڑی ہیں۔ ایسی منشیات جو قبل از وقت حمل سے جڑنے کا سب سے کم ثبوت رکھتی ہیں وہ اوہیوآئیڈ، جیسے کہ ہیروئین، مارفین اور آکسیکوڈون ہیں۔ ان سب کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ شہوانیت کی سطحوں کو کم کرتی ہیں۔ یہ بات آشکارا ہوئی ہے کہ کم عمری میں اوہیوآئیڈ کا استعمال کرنے والے استقرار حمل کے کم تر واقعات بیان کرتے ہیں۔ اس کے بر عکس اس غیر مستعملین اور شراب، ایکسٹسی، کنابیس اور ایمفیٹامائن استعمال کرنے والوں حمل کی شرحیں کافی زیادہ ہیں۔

قبل از وقت جوانی[ترمیم]

ایسی لڑکیاں جو قبل از وقت جوان ہوتی ہیں، ان میں بیس سال سے کم عمر میں حمل پائے جانا کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

ضبط حمل تدابیر کی کمی[ترمیم]

بیس سال سے کم عمر لڑکوں اور لڑکیوں میں یا تو معلومات کی کمی ہو سکتی پے یا رسائی کی کمی ہو سکتی ہے کہ وہ حمل سے بچنے کی تدبیروں کا استعمال کر سکیں کیوں کہ وہ ہو سکتا ہے شرمساری کا شکار ہوں یا ایسی معلومات حاصل کرنے سے گھبراتے ہیں۔ کم عمر کے لیے ضبط حمل تدابیر مطبی ماہریں کے لیے ایک عظیم آزمائش سے کم نہیں ہے۔ 1998ء میں برطانیہ نے ایک ہدف طے کیا تھا کہ 2010ء تک زیر 18 حمل کے واقعات کو آدھے کم کیا جائے گا۔ حالانکہ اس زمرے میں حمل کی شرحیں گھٹتی جا رہی ہیں، پھر بھی یہ 2007 کم حد تک بڑھ کر 41.7 فی 1000 خواتین ہوا۔ جوان عورتیں اکثر ضبط حمل کو یا تو ایک گولی یا کونڈوم سمجھتی ہیں اور دیگر طور طریقوں کا انھیں بہت کم علم ہے۔ وہ اکثر اپنے دوستوں اور ذرائع ابلاغ کی منفی، باسی کہانیوں سے متاثر ہو جاتی ہیں جو ضبط حمل کے بارے میں ہوتی ہیں۔ تعصبات سے اوپر اٹھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ مضر اثرات کی ضرورت سے زیادہ فکر، جیساکہ وزن بڑھنے یا جھریوں کی فکر، اکثر ترجیحات پر حاوی ہوتی ہیں۔ ایک مہینے میں تین بار تک گولی لینا بھولنا ایک عام بات ہے۔ اس عمر کے زمرے میں اس کی شرح زیادہ ہو سکتی ہے۔ گولیوں کے استعمال کے بغیر ہفتے کے بعد پھر سے گولیاں لینا، گولیوں کو چھپانے کی ضرورت، منشیات کا استعمال اور دوبارہ نسخہ حاضل میں دقت محسوس کرنا طور طریقوں کی ناکامی کا سبب بنتے ہیں۔

ریاستہائے متحدہ میں 2002ء کے خاندانوں کی افزائش کے سروے سے پتہ چلا ہے کہ نوبالغہ عورتوں میں حمل سے بچنے کے لیے مانع حمل تدابیر کا استعمال سن رسیدہ عورتوں کے مقابلے کم ہے۔ (18% 15–19 سالہ لڑکیاں کوئی ضبط حمل کی تدبیر کا استعمال ہی نہیں کرتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں 15–44 سالہ عورتوں کی شرح 10.7% تھی)۔ 80% سے زائد کم عمری میں حمل کے واقعات غیر ارادی ہوتے ہیں۔ آدھی سے زیادہ غیر ارادی حمل ان عورتوں میں پائے گئے جو ضبط حمل کی تدبیر کا استعمال ہی نہیں کرتی تھیں۔ 23% جنسی طور پر فعال عورتیں 1996ء کی سیوینٹین میگزین کی رائے شماری میں یہ اعتراف کر چکی ہیں کہ وہ اپنے ساتھ کے ساتھ غیر محفوظ ہم بستری کر چکی ہیں، جس میں کونڈوم استعمال نہیں کیا گیا، جبکہ 70% لڑکیاں 1997ء کی پریڈ میگزین کی رائے شماری میں یہ دعوٰی کیا کہ یہ شرمساری کا باعث تھا کہ وہ ضبط حمل کی اشیاء خریدتیں یا کسی ڈاکٹر ہی سے معلومات حاصل کرتیں۔

2012ء میں ایک سروے کیا گیا جس میں ایک ہزار لڑکیوں نے حصہ لیا۔ سروے کا مقصد یہ جاننا تھا کہ ضبط حمل نہیں اپنانے کی وجوہ کیا ہیں۔ جن لوگوں کا سروے کیا گیا ان میں سے تقریبًا آدھی گذشتہ تین مہینوں میں غیر محفوظ ہم بستری کا حصہ رہ چکی تھیں۔ ان خواتین نے تین وجوہ بیان کیے تھے کہ وہ کیوں ضبط حمل پر عمل پیرا نہیں تھیں: ضبط حمل حاصل کرنے میں دشواری (سب سے عام وجہ)، ہم بستری کے ارادے کا فقدان اور غلط تصور کہ وہ "حاملہ نہیں بن سکتی ہیں۔"

دی گٹ میاچر انسٹی ٹیوٹ کے لیے کیے گئے ایک مطالعے میں محققین نے پتہ کیا ہے تقابلی تناظر میں کم عمری کے حمل کی شرحیں ریاستہائے متحدہ میں اتنے پریشان کن نہیں ہیں جتنے کہ بتائے جاتے ہیں۔ “چونکہ مقررہ وقت، جنسی اعمال کی سطح عمومًا ایک جیسی ہے (سویڈن، فرانس، کینیڈا، برطانیہ عظمٰی اور ریاستہائے متحدہ میں)، ریاستہائے متحدہ امریکا کی شرحیں بڑھتی ہیں جس کی وجہ کم یا ممکنہ طور کم مؤثر ضبط حمل کا جنسی طور پر فعال کم عمروالوں کی جانب سے استعمال ہے۔“ لہٰذا کم عمری میں حمل کی شرحوں کا فرق ضبط حمل معاملوں سے جڑا ہے۔

مملکت متحدہ میں اسقاط حمل کی خواہش مند لڑکیوں کے ایک مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ ضبط حمل کا استعمال ان تقریبًا اتنا ہی ہے جتنا کہ بڑی عمر کی عورتوں میں ہے۔

کچھ دوسرے معاملوں میں پتہ چلا ہے کہ ضبط حمل کا استعمال کیا تو گیا تھا، مگر وہ ناکافی تھا۔ ناتجربہ کار نوبالغین کونڈوم کا نادرست استعمال کر سکتے ہیں، ضبط حمل کی گولیاں لینا بھول سکتے ہیں یا اسی ضبط حمل ترکیب کا دوبارہ استعمال کرنا بھول سکتے ہیں جسے انھوں نے پہلے کیا تھا۔ ضبط حمل کی ناقص کارکردگی دیکھی گئی ہے، بالخصوص غریب نوبالغوں میں جب کہ بڑی عمر کے لوگوں میں یہ کافی مؤثر ہے۔ دیرپا ضبط حمل جیسے کہ بین فرج آلات، جلد کے لمس کو روکنے والے آلات اور ضبط حمل کے انجکشن (جیسے کہ ڈیسپو پروویرا جس میں ضبط حمل دوا بھر دی گئی ہو)، جو حمل کو مہینوں یا سالہاسال روک دیتے ہیں، ان عورتوں کے لیے زیادہ مؤثر ہوتے ہیں جو مانع حمل خوراک یا استقرارحمل کے دیگر طریقوں کو لگاتار بھول جاتے ہیں۔

جنسی استحصال[ترمیم]

جنوبی افریقا کے مطالعات سے پتہ چلا ہے کہ بیس سال سے کم عمر میں حمل کے واقعات کے پیچھے 11–20% معاملوں میں یہ آبروریزی کا سیدھا نتیجہ ہوتا ہے۔ جب کہ 60% معاملوں میں کم عمر مائیں حمل سے پہلے ناچاقی جنسی تجربے کے مرحلے سے گذر چکی ہیں۔ 15 سال کی عمر سے پہلے لڑکیوں میں زیادہ تر پہلے جنسی تجربے غیر رضاکارانہ بتائے گئے ہیں۔ دی گٹ میاچر انسٹی ٹیوٹ نے پتہ لگایا ہے کہ 60% لڑکیاں جو 15 سال کی عمر سے پہلے ہم بستری کے مرحلے سے گذری ہیں وہ لڑکیوں کی زیادتی کا شکار ہوئی ہیں جو اوسطًا عمر میں اس سے چھ سال آگے تھے۔ ہر پانچ میں سے ایک کم عمر باپوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ لڑکیوں کو خود کے ساتھ ہم بستر ہونے کے لیے مجبور کیا۔

متعدد مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ ابتدائی جنسی استحصال اور اسی متصلہ کم عمری میں کے بیچ صنعتی طور پر عروج پا چکے ممالک میں گہرا تعلق ہے۔ 70 فی صد عورتیں جو اپنی کم عمری میں زچگی کے مرحلوں سے گذر چکی ہیں، وہ جوان لڑکیوں کے طور پر اپنی جوان میں ہراسانی کے مرحلوں سے گذر چکی ہیں؛ اس کے بالکل بر عکس 25% عورتیں ایسی بھی رہی ہیں جو کم عمری میں زچگی کے مرحلے سے نہیں گذری ہیں مگر وہ بھی جنسی ہراسانی کا شکار رہی ہیں۔

کچھ ممالک میں کسی نابالغ اور بالغ کے بیچ جنسی مجامعت باہمی رضامندی سے قانونًا نہیں سمجھی جاتی ہے کیوں کہ ایک نابالغ کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ شعور نہیں رکھتی کہ معلومات پر مبنی کوئی فیصلہ لے کہ کلی طور پر ایک بالغ سے رضامندی سے ہم بستری کر سکے۔ ان ممالک میں نابالغ سے ہم بستری کو لہٰذا فانونًا آبروریزی سمجھا جاتا ہے۔ اس کے بر عکس بیش تر یورپی ممالک میں جب بھی ایک بالغ سن شعور یا رضامندی کی عمر کو پہنچتی ہے وہ قانونًا بالغوں سے جنسی تعلقات قائم کر سکتی ہے کیوں کہ یہ عمومًا طے شدہ ہے (حالاں کہ کچھ تحدیدات رو بہ عمل ہیں) کہ رضامندی کی عمر کو پہنچنے کے ساتھ ہی وہ رضامندی سے کسی بھی ساتھی کے ساتھ ہم بستری کر سکتی ہے جو خود رضامندی کی عمر کو پہنچ چکا ہو۔ لہٰذا، قانونی آبروریزی کی تعریف صرف اس شخص سے ہم بستری تک محدود ہے جو اقل ترین رضامندی کی عمر کو نہیں پہنچی ہو۔ قانونی آبروریزی کا اطلاق کس پر ہوتا ہے، یہ ہر قانون کے دائرہ عمل میں مختلف ہے (دیکھیے: رضامندی کی عمر)

ڈیٹینگ تشدد[ترمیم]


کئی مطالعات سے پتہ چلا ہے کہ نوبالغ لڑکیاں عمومًا استحصالی رشتوں سے گزرکر استقرار حمل کو پہنچتی ہیں۔ ان لوگوں نے یہ بھی اطلاع دی ہے کہ ان کے حمل کی اطلاع اکثر تشدد کو مزید تقویت پہنچاتی ہے اور ان کے دوست لڑکے زیربار کرنے والے رویوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ 18 سال سے کم عمر لڑکیوں کے اپنے بچوں کے باپ کی جانب سے پٹنے کا امکان ان لڑکیوں سے دگنا ہے جو 18 سال کی عمر کو پار کر چکی ہیں۔ مملکت متحدہ کے ایک مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ 70% عورتوں نے جنھوں نے کم عمری میں بچے کو جنم دیا تھا، وہ خانگی تشدد کا شکار ہوئی ہیں۔ اسی طرح کے نتائج ان مطالعات میں پائے گئے ہیں جو ریاستہائے متحدہ میں کیے گئے تھے۔ واشنگٹن کے ایک ریاستی مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ 70% کم عمر مائیں اپنے دوست لڑکوں کے ہاتھوں پٹ چکی ہیں، 51% نے گذشتہ ایک سال کے اندر ضبط حمل سبوتاژ کی کوششوں کو محسوس کیا تھا اور 21% نے اسکول یا گھر میں سبوتاژ محسوس کیا تھا۔

379 حاملہ یا بچوں کی پرورش کرنے والی لڑکیوں اور 95 بچوں کے بِنا لڑکیوں کے ایک مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ 11–15 عمر کی 62% لڑکیاں اور 56% لڑکیاں جو 16–19 کی عمر کے زمرے میں رہیں، وہ اپنے ساتھیوں کے ہاتھوں گھریلو تشدد کا شکار رہی ہیں۔ اس کے علاوہ کم از کم 51% لڑکیوں نے بتایا کہ ان کے دوست لڑکوں نے کم از کم ایک واقعے کے دوران ضبط حمل کی ان کوششوں سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے۔

سماجی و معاشی عوامل[ترمیم]

بیس سال سے کم عمر میں حمل کی تعریف تحقیقی حلقے کے طور پر وسیع تر سماجی مسئلے کے طور پر سماجی ایجنسیوں کی جانب سے کی گئی ہے۔ غربت کو کم عمروں میں حمل کے واقعات میں اضافے سے جوڑکر دیکھا گیا ہے۔ معاشی طور پر غریب ممالک جیسے کہ نائجیریا اور بنگلہ دیش میں معاشی طور پر خوش حال ممالک جیسے کہ جاپان اور سویٹزرلینڈ سے کہیں زیادہ کم عمر مائیں ہیں۔

مملکت متحدہ میں تقریبًا 18 سے کم عمر میں ہونے والے حمل کے آدھے سے زیادہ واقعات 30% غیر متمول آبادی میں دیکھے گئے ہیں۔ اس کے بر عکس ملک میں صرف 14% واقعات سب سے متمول لوگوں میں دیکھے گئے ہیں۔ اسی کی ایک مثال اطالیہ بھی ہے جہاں خوش حال مرکزی خطے میں کم عمر حمل ہر 1000 میں ایک پایا گیا ہے۔ ماہر عمرانیات مائک اے میلز کے مطابق ریاستہائے متحدہ میں تناست 3.3 فی ہزار ہے جب کہ اسی ملک کے میزوگیور، کیلی فورنیا میں کم عمر میں حمل غربت کی مناسبت سے کہیں زیادہ ہے۔

کاؤنتی غربت کی شرح پیدائش کی شرح*
مارین کاؤنٹی 5% 5
ٹولیری کاؤنٹی (قفقازی) 18% 50
ٹولیری کاؤنٹی (ہسپانوی) 40% 100

* فی 1000 خواتین جو 15–19 کی عمر کے بیچ ہوں

کم عمری میں حمل ریاستہائے متحدہ پر $9.1 اخراجات 2004ء میں خرچ ہوئے، جس میں $1.9 صحت کی دیکھ ریکھ، $2.3 بلین بچوں کی بہبودگی پر، $2.1 بلین قیدوبند کے معاملات کو سلجھانے اور $2.9 بلین کم تر محصول کے مالیے پر خرچ ہوئے۔

اس زبان زد عام بات کو ماننے کے کم تر شواہد موجود ہیں کہ کم عمر مائیں حاملہ اس وجہ سے ہوتی ہیں کہ وہ فوائد، بہبودگی اور کونسل کی جانب سے گھر کی فراہمی حاصل کر سکیں۔ اکثر گھروں کی سہولت یا مالی امداد کے بارے میں کم ہی جانتی تھیں اور جو وہ باتیں ان کے علم میں تھیں، وہ غلط تھیں۔

بچپن کا ماحول[ترمیم]

استحصال کا شکار عورتیں، گھریلو تشدد، خاندان کے جھگڑے جو عمومًا لڑکیاں خود اپنی ماؤں کے ساتھ ہوتے ہوئے اپنے بچپن میں دیکھتی ہیں، یہ ان لڑکیوں کو آگے چل کر خود بیس سال سے کم عمر میں حاملہ بننے پر آمادہ کر سکتا ہے۔ کم عمر میں حاملہ بننے کا خطرہ ناخوش گوار بچپن کے تجربوں سے بڑھ سکتا ہے۔ 2001ء کے ایک مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ کم عمری میں ایک تہائی کے قریب حمل کے واقعات شاید روکے جا سکتے تھے اگر استحصال کا شکار بننا، تشدد اور خاندان جھگڑوں پر قابو پا لیا جاتا۔ محققین نے یہ لکھا ہے کہ "خاندان کا انتشار دیرپا اور ناخوشگوار صحت پر اثراندازی کرتا ہے جو عورتوں کی نوبالغی کے سالوں کو متاثر کرتے ہیں، حمل برداری کے ایام کے متاثر کرتے ہیں اور اس کے آگے بھی مضرتیں رکھتے ہیں۔ جب خاندان کا ماحول منفی بچپن کے تجربے نہیں رکھتا ہے، نوبالغ کے طور پر حاملہ بننا لمبے عرصے کے سماجی اور نفسیاتی نتائج اپنے ساتھ نہیں لاتا۔ مطالعات سے پتہ چلا ہے کہ وہ لڑکے جو ایسے گھروں میں پرورش پاتے ہیں جہاں جسمانی تشدد کی شکار مائیں رہتی ہیں، وہ خود کسی لڑکی کو حاملہ بنانے کے زیادہ امکانات رکھتے ہیں۔

مطالعات سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ ایسی لڑکیاں جن کے باپوں نے خاندانوں کو ان کی زندگی کے اوائل میں ہی چھوڑ دیا تھا، وہ ابتدائی اور نوبالغی کی زندگی میں جنسی فعالیت کی زیادہ شرحیں رکھتی ہیں۔ ایسی لڑکیاں جن کے باپوں نے انھیں آگے کی عمر میں کبھی چھوڑ دیا تھا، ابتدائی جنسی فعالیت کی کم تر شرحیں رکھتی ہیں۔ اسے بھی کم تر شرحیں ان لڑکیوں میں پائی گئی ہیں جن کے باپوں نے پورے بچپن میں ان کا ساتھ دیا۔ جب محققین نے کئی دیگر عوامل کو خاطر میں لیا جو جنسی فعالیت اور حمل منتج ہو سکتے ہیں، جیسے کہ رویوں کے مسائل اور زندگی کی ناہمواری، تب بھی باپوں کی شفقت سے محروم لڑکیاں ریاستہائے متحدہ میں پانچ گنا زیادہ اور نیو زی لینڈ میں تین گنا زیادہ نوبالغی میں حاملہ بننے کا خطرہ تھا بہ مقابلہ ان لڑکیوں کے جن کے باپ ان کے ساتھ رہتے تھے۔

کم تر تعلیمی توقعات کو ایک خطرے کے عنصر کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ایک لڑکی کے کم عمری میں حاملہ بننے کا خطرہ اور زیادہ ہو جاتا ہے اگر اس کی ماں یا اس کی بڑی بہنیں ان کی جوانی میں بچوں کو جنم دیے ہوں۔ 1988ء میں جوائنٹ سینٹر فار پولیٹیکل اینڈ اکنامک اسٹڈیز کے ایک سروے سے پتہ چلا ہے کہ پیش تر جواب دینے والی لڑکیوں نے نوبالغی کے حمل کو ماں باپ اور اولاد کے بیچ روابط و گفتگو کا نہ ہونا اور ناکافی والدین کی نگہداشت بتائی گئی ہے۔

متبنٰی ماحول میں پرورش پانے والا نوجوانوں میں اپنے معاصرین کے مقابلے میں کم عمری میں حاملہ بننے کا امکان کہیں زیادہ ہے۔ دی نیشنل کاسے ایلمنی اسٹڈی، جس نے ریاستہائے متحدہ کی 23 برادریوں میں متبنٰی گریجویٹوں کا سروے کیا، یہ پتہ کیا کہ متبنٰی ماحول سے پرورش پا چکی لڑکیاں اپنے معاصرین دو گنا زیادہ حاملہ بننے یا ماں بننے کا امکان رکھتی ہیں۔ یونیورسٹی آف شکاگو کے مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ ایلیانوئیس، آئیوا اور ویسکانسن سے فارغ التحصیل ہونے والی تقریبًا آدھی لڑکیاں 19 سال کی عمر تک حاملہ بن سکتی ہیں۔ اُٹاہ کے ڈپارٹمنٹ آف ہیومن سرویسیز نے بتایا کہ متبنٰی دیکھ ریکھ سے نکلنے والی 1999ء اور 2004ء کی لڑکیوں میں کوئی جنم دینے کی شرح عام آبادی سے تین گنا زیادہ ہے۔

ذرائع ابلاغ کا اثر[ترمیم]

2006ء کے ایک مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ نوبالغات جو ذرائع ابلاغ میں جنسی بہلوؤں کو دیکھتی رہی ہیں، وہ خود اپنے میں اس بات کا غالب امکان رکھتی ہیں کہ خود جنسی عمل کا حصہ بنیں۔

ٹائم میگزین کے مطابق، "وہ بیس سال سے کم عمر نوجوان جو ٹیلی ویژن پر زیادہ تر جنسی مواد سے روشناس ہوتے ہیں وہ یہ مواد نہیں دیکھنے والوں جوانوں کے مقابلے دو گنا زیادہ امکان ہے حاملہ بن جائیں۔"

روک تھام[ترمیم]

جامع جنسی تعلیم اور ضبط حمل تک رسائی ظاہری طور پر بیس سال سے کم عمر لوگوں میں غیر منصوبہ بند حمل روکنے میں کامیاب رہے ہیں۔ یہ غیر واضح ہے کہ اس کے پس پردہ کون سی تدبیر سب سے مؤثر ہے۔

ریاستہائے متحدہ میں الٹ دیے سکنے والے لمبے عرصے کا ضبط حمل اور تعلیم کم عمروں میں حمل کو 80% تک کم کر پائی ہے۔ متصلًا اسقاط حمل کے واقعات بھی 75% گھٹ چکے ہیں۔

تعلیم[ترمیم]

بیس سال سے کم عمر میں حمل کو روکنے کا ایک ڈچ طریقۂ کار یہ ہے کہ جو کئی ملکوں میں نمونہ سمجھا جاتا ہے۔ تعلیم کے نصاب میں توجہ اقدار، رویوں، ربط و گفتگو اور مول تول پر ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تولید میں حیاتیاتی توجہ دی جاتی ہے۔ ذرائع ابلاغ میں کھلے مکالمے اور صحت کے نظام پر توجہ دی گئی ہے جو طمانیت دیتا ہے کہ رازداری اور غیر فیصلہ کن انداز میں حسب ضرورت کسی بھی موضوع گفتگو ممکن ہے۔

جنسی اجتناب ہی کی تعلیم[ترمیم]

کچھ اسکولوں میں جنسی اجتناب ہی کی تعلیم پر عمل آوری کی جاتی ہے۔ شواہد سے یہ کوئی مؤثر تدبیر ثابت نہیں ہوتی کیوں کہ ایچ آئی وی کے خطرے کو کم کرنے میں غیر مؤثر ثابت ہوا ہے اور یہ غیر منصوبہ بند حمل کو نہیں روکتا ہے جب کہ مقصد جامع جنسی تعلیم سے ممکن ہے۔ یہ کسی بھی طرح طلبہ و طالبات کے بیچ جنسی کارروائیوں کی شرحوں کو کم نہیں کرتی ہیں، بہ مقابلہ ان تلامذہ جو جامع جنسی تعلیم کی کلاسیں لیتی ہیں۔

عوامی پالیسی[ترمیم]

ریاستہائے متحدہ میں ایک پہل جس کا استعمال مانع حمل تدابیر کے استعمال کو بڑھانے کے لیے کیا جا رہا ہے، وہ 1970ء کے عوامی صحت قانون کا خطاب ایکس: خطاب ایکس کہی جاتی ہے۔ صحت کی خدمات کا قانون خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات نہ صرف ان لوگوں کو فراہم کرتا ہے جو طبی امداد کے لیے موزوں ہوں؛ دیگر کے لیے وہ "ایک نیٹ ورک کی امداد کرتا ہے جن میں عوامی، نجی اور غیر منافع بخش ادارہ جات عند الضرورت پیمانے پر آمدنی پاتے ہیں۔" مطالعات سے پتہ چلا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر کم عمروں میں حمل کی شرحوں میں کمی لانا سیدھے طور پر اس بات پر منحصر ہے کہ خطاب ایکس سے کیا حاصل ہوتا ہے: “نوبہالوں کی کامیابی کے لیے یہ شاید ضروری ہے کہ وہ یہ جانیں کہ وہ کہاں سے معلومات اور خدمات حاصل کرتے ہیں، وہ یہ آسانی سے کر سکتے ہیں اور انھیں اس بات کی طمانیت حاصل ہے کہ اسے رازداری سے، غیر عدالتی پیچیدگی سے، ملے اور یہ کہ یہ خدمات اور مانع حمل سربراہیوں کو مفت یا کم سے کم قیمت سے دیا جائے۔ کم عمر حملوں کی بڑھی ہوئی شرحوں کو جوجنے کے لیے محققین یہ تسلیم کرتے ہیں کہ مسئلے کا مقابلہ حیاتیاتی اور ثقافتی سیاق و سباق سے کیا جانا چاہیے۔

ریاستہائے متحدہ کے اعداد شمار جیسا کہ اپریل 2015ء میں رہے ہیں۔

30 ستمبر 2010ء کو ریاستہائے متحدہ کی محکمۂ صحت و انسانی خدمات نے $155 ملین کو منظور کیا تاکہ یہ رقم "ریاستوں، غیر منافع بخش تنظیموں، اسکولی ضلعوں، جامعات اور دیگر میں تقسیم کی جا سکتی ہے۔ یہ امداد ان مکرر پروگراموں میں صرف ہوتے ہیں جو کم عمروں میں حمل کو روکنے میں مؤثر ثابت ہوئے ہیں۔ تکرار کے لیے سخت پیمانے کی تحقیق اور نئے اور جدت پسندانہ کوششیں کام میں لائے جاتے ہیں جو کم عمر حمل کو روک سکتی ہیں۔" اس کل $155 ملین میں سے $55 کی امداد قابل ادا دیکھ ریکھ قانون (Affordable Care Act) کے تحت شخصی فرائض تعلیمی پروگرام (Personal Responsibility Education Program) کے ذریعے کی گئی، جس کے لیے یہ ضروری ہے کہ امداد پانے والی ریاستیں ان اسباق کو نصاب تعلیم میں داخل کر لیں جن میں جنسی اجتبناب اور مانع حمل شامل ہو۔

ترقی پزیر دنیا میں تولیدی صحت کے پروگرام جو نوجوانوں پر مرکوز ہیں اکثر چھوٹے پیمانے پر ہوتے ہیں اور انھیں مرکزی طور پر مربوط نہیں کیا جاتا ہے، حالاں کہ سری لنکا جیسے کچھ ممالک میں منظم طریقے سے ایک پالیسی فریم ورک تیار کر چکے ہیں تا کہ جنسی تعلیم کو اسکولوں میں پڑھایا جا سکے۔ غیر سرکاری ایجنسیاں جیسے کہ انٹرنیشنل پلاننڈ پیرینٹ ہوڈ فیڈریشن اور میری اسٹوپز انٹرنیشنل دنیا بھر میں عورتوں کو مانع حمل تدابیر کا صلاح و مشورہ فراہم کرتے ہیں۔ کم سنی کی شادی سے متعلق قوانین اس رسم کو گھٹا تو چکے ہیں مگر مٹا نہیں سکے۔ بہتر لڑکیوں کی خواندگی اور تعلیمی مواقع پہلے بچے کی پیدائش کی عمر کو کئی جگہوں پر جیسے کہ ایران، انڈونیشیا اور بھارتی ریاست کیرلا میں بڑھا چکے ہیں۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

3

اسکرپٹ چلانے کے لیے مختص کردہ وقت ختم ہو چکا ہے۔

مزید مطالعات[ترمیم]

  • اسکرپٹ چلانے کے لیے مختص کردہ وقت ختم ہو چکا ہے۔
  • اسکرپٹ چلانے کے لیے مختص کردہ وقت ختم ہو چکا ہے۔
  • اسکرپٹ چلانے کے لیے مختص کردہ وقت ختم ہو چکا ہے۔
  • اسکرپٹ چلانے کے لیے مختص کردہ وقت ختم ہو چکا ہے۔
  • اسکرپٹ چلانے کے لیے مختص کردہ وقت ختم ہو چکا ہے۔
  • اسکرپٹ چلانے کے لیے مختص کردہ وقت ختم ہو چکا ہے۔
  • اسکرپٹ چلانے کے لیے مختص کردہ وقت ختم ہو چکا ہے۔
  • اسکرپٹ چلانے کے لیے مختص کردہ وقت ختم ہو چکا ہے۔
  • اسکرپٹ چلانے کے لیے مختص کردہ وقت ختم ہو چکا ہے۔
  • اسکرپٹ چلانے کے لیے مختص کردہ وقت ختم ہو چکا ہے۔
  • اسکرپٹ چلانے کے لیے مختص کردہ وقت ختم ہو چکا ہے۔

بیرونی روابط[ترمیم]

اسکرپٹ چلانے کے لیے مختص کردہ وقت ختم ہو چکا ہے۔