تبت میں یورپی سیاح

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

تبت میں یورپی سیاح بہت کم تعداد میں آئے ہیں کیونکہ سلسلہ کوہ ہمالیہ کی گہری وادی میں ہونے کی وجہ سے تبت کا سفر کرنا انتہائی دشوار کام تھا مزید یہ کہ مغربی آبادی کو اس وادی میں آنا سخت منع تھا۔ تبت، چین، بھوٹان، آسام اور شمالی بھارت کی سلطنتوں اور ان کی داخلی سیاست نے تبت میں یورپی سیاحوں اور تاجروں کا آنا دشوار کر دیاتھا۔ اسی وجہ سے 20ویں صدی تک تبت یورپیوں کے لیے ایک راز تھا۔

تاریخ[ترمیم]

1667ء میں
تبتی سطح مرتفع کی جنوبی پٹی اور ہمالیہ۔

12ویں تا 16ویں صدی[ترمیم]

تبت کا ذکر کرنے والے ابتدائی یورپین میں بنيامين التطيلی ہیں جنھوں نے 1160ء میں سرقسطہ، تاج آراگون سے اپنا سفر شروع کیا اور 1173ء میں مملکت ناوار میں قدم رکھا۔ ربی بنیامین کہتے ہیں کہ تبت ‎مشک (خوشبو) کی سرزمین ہے اور سمرقند سے چار دن کی مسافت پر ہے۔و1و 100 سال سے کم عرصے کے بعد ہی 1253ء میں لوئی نہم شاہ فرانس نے قراقرم شہر کے بادشاہ منجو خان کی جانب اپنا سفیر بھیجا۔و2و سفیر ولیم آف روبروک کا کہنا ہے کہ تمام دنیا کے لوگ تبتیوں کو گری ہوئی نگاہ سے دیکھتے ہیں کیونکہ وہ اپنے والدین کی کھوپڑی میں شراب پیتے ہیں۔ ولیم ہی وہ پہلا شخص ہے جس نے تبتی لاما کے لباس کو مفصل بیان کیا ہے۔و3و تاریخی طور پر پہلا یورپی شخص جس نے تبت کا سفر کیا وہ اڈورک تھا جو 1325ء میں تبت سے ہو کر گذرا تھا۔و4و

17ویں صدی[ترمیم]

جولائی یا اگست 1624ء میں یسوعی مشن والوں کا تبت کا سفر کیا۔ اس مشن میں انٹونیو دی اندرانے اور مینویل ماکرویس تھے۔ انھوں اپنا آٹھ ماہ کر مشتمل سفر بھارت کے شہر آگرہ سے شروع کیا۔ انھوں نے نورالدین جہانگیر کے دربار میں حاضری دی اور دہلی کا رخ کیا۔ ان کو شاہی تحفظ حاصل تھا۔ دہلی میں انھوں نے خود کو ہندو تیرتھ یاتری بتایا اور ایک قافلہ کے ہمراہ ہو گئے۔ دریائے گنگا کے ہمراہ وہ سری نگر اور پحر مملکت گڑھوال پہنچے۔ جولائی 1624ء میں ان کا قافلہ بدریناتھ پہنچا۔وہاں انھوں نے قافلہ کو الوداع کہ کر اپنا سفر شروع کیا اور مانا پہنچے۔اس کے بعد تبت کی سرحد شروع ہوتی ہے۔ ان دونوں کا بادشاہ اور مہارانی نے اچھے سے استقبال کیا کیونکہ وہ پہلے یورپی جنھوں نے تبت کا سفر کیا تھا۔1625ء میں دونوں نے بادشاہ کے تعاون سے ساپارنگ کا سفر شروع کیا۔و6و 1627ء میں پرتگیزی سیاحوں نے بھارت سے تبت کا سفر کیا اور 1628ءمیں شینگاتسے میں ان کا زوردار استقبال ہوا۔و7و 1661ء میں دو عیسائیوں نے لہاسا ہوتے ہوئے بیجنگ سے آگرہ کا سفر کیا۔ ان کے پاس شاہی پاسپورٹ تھا۔و10و

حوالہ جات[ترمیم]