تفسیر جلالین

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
تفسیر جلالین
مصنفجلال الدین سیوطی
زبانعربی زبان
موضوعتفسیر قرآن
ناشرمکتبۃ لبنان ناشرون، بیروت، لبنان
تاریخ اشاعت
1424ھ/ 2003ء
صفحات664

تفسیر جلالین عربی زبان میں نہایت مختصرتفسیر قرآن ہے جسے دو مشہور مفسرین امام جلال الدین محلی (791ھ864ھ) اور جلال الدین سیوطی (849ھ911ھ) نے تصنیف کیا ہے۔ تقریباً پانچ صدیوں سے تفسیر جلالین متداول و مقبول ہے۔ امام جلال الدین سیوطی کی شاہکار تصانیف میں تفسیر جلالین کو نمایاں اور خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ یہ تفسیر اِختصار و جامعیت، صحت و مفہوم اور توضیح مطالب کی وجہ سے علما و طلبہ کی مرکزِ توجہ رہی ہے۔ علما اور اہل علم کو استحضارِ مضامین کی خاطر اِس سے خاص اعتناء ہے اور کثرت سے اِس کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ دیگر تفاسیر کی نسبت یہ قرآن کریم کی مختصر تفسیر اور مختصر ترجمہ ہے۔تفسیرِجلالین وہ عظیم الشان عربی تفسیر ہے جو عرصۂ دراز سے درسِ نظامی(عالم کورس)کے نِصاب (Syllabus) میں شامل ہے۔اس تفسیر میں صحیح ترین قول ذِکْر کرنے کااہتمام کیا گیاہے جیساکہ اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن  فرماتے ہیں:مطلبِ اَصَح جس کے مطالَعَہ کوجلالین کہ اَصَحُّ الْاَقْوال پر اِقْتِصار کا جن کو اِلْتِزام ہے سرِدَسْت بس ہے، ہاتھ سے نہ جائے۔(فتاویٰ رضویہ،ج26،ص457)تفسیرِ جلالین کس نے لکھی؟ تفسیرِ جلالین دوبزرگوں کی کاوش کانتیجہ ہے۔جمہور(یعنی اکثر علما) کے قول کے مطابق سورۂ بَقَرَہ سے لے کر سورہ اِسْراء (یعنی سورۂ  بنی اسرائیل)کے آخر تک حضرت سیِّدُناامام جلال الدین عبد الرحمن سیوطی شافعی  عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی (متوفی 911ھ) نے جبکہ سورۂ کہف سے لیکرسورۂ ناس تک بَشمول سورہ ٔفاتحہ کی تفسیرحضرت سیدنا امام جلال الدّین محمد محلی شافعی عَلَیْہِ  رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی  (متوفی864ھ) نے تحریر فرمائی۔اس قول کی تائید میں تین عبارات پیشِ خدمت ہیں:(1)تفسیرِ جلالین پرتحریرکردہ حاشیۂ جَمل میں ہے:واَمّا الفاتِحةُ ففَسَّرَهاالمَحَلّي فجَعَلَهاالسُّيوطِي في آخِرِ تفسيرِ المَحَلّي لِتَكُونَ مُنضَمّةً لِتفسيرِهِ وابتَدَاَ هو مِن اَوّلِ الْبَقَرة یعنی سورۂ فاتحہ کی تفسیر امام جلال الدین محلی نے تحریر فرمائی۔ امام جلال الدین سیوطی نے اِسے امام محلی کی تفسیر کے آخر میں رکھا تاکہ ان کی تحریر کردہ تفسیر ایک ساتھ رہے اور خود امام سیوطی نے سورۂ بقرہ کی ابتدا سے تفسیر کا آغاز فرمایا۔(حاشیہ جمل،ج1،ص10) (2)اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: جلال سیوطی(رَحْمَۃُاللّٰہِ عَلَیْہ) سجدۂ آدم میں فرماتے ہیں: وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ سُجُوْدَ تَحِیّۃٍ بِالْاِنْحِنَاءِ (فتاویٰ رضویہ،ج22،ص522) مذکورہ عبارت تفسیرِ جلالین میں دوجگہ یعنی سورۂ بقرہ (پارہ 1)اور سورۂ اسراء (پارہ15) میں ہے، معلوم ہوا کہ ان دونوں سورتوں کی تفسیر حضرت سیدنا امام جلال الدین سیوطی شافعی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی نے تحریر فرمائی ہے۔ (3)اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:جلال محلی (رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ) سورۂ کہف میں فرماتے ہیں: وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ   سُجُوْدَ انحناءٍ لا وضع جَبھۃٍ (فتاویٰ رضویہ،ج22،ص522) اس عبارت سے معلوم ہوا کہ سورۂ کہف (پارہ15) کی تفسیرحضرت سیدنا امام جلال الدین محلی شافعی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِ ی  نے تحریر فرمائی ہے۔مذکورہ تینوں عبارات اور ان کے علاوہ دیگر کثیر دلائل سے تفسیرِ جلالین کی تصنیف سے متعلق جمہور علما کے قول کی تائید ہوتی ہے۔ذکرِ جلالین:٭حضرت سیدنا امام جلال الدین محمدبن احمد محلی شافعی  عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی 791ھ میں مصر میں پیداہوئے اور864ھ میں وِصال فرمایا۔آ پ حق بات کرنے میں کسی کی رعایت نہیں فرماتے تھے،آپ کو  قَاضِی الۡقُضَاۃ (چیف جسٹس)کے عہدے کی پیشکش بھی ہوئی لیکن اسے قبول نہ فرمایا۔کثیر کتابیں تصنیف فرمائیں جن میں سے تفسیرِ جلالین زیادہ مشہور ہے ٭حضرت سیدنا امام جلال الدین  عبد الرحمن سیوطی شافعی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی  کی ولادت849ھ جبکہ وصال911ھ میں ہوا۔آپ نے تقریباً بائیس(22)سال کی عمر میں فقط چالیس دن یعنی یکم رَمَضان المبارک سے لے کر دس شوال المکرم (870ھ) تک کی مدت میں لگ بھگ پندرہ(15) پاروں کی یہ عظیم الشان تفسیر مکمل فرمائی۔(حاشیہ جمل،ج4،ص380)تفسیرِ جلالین پر حواشی: کثیر علمائے کرام نے اس پر تعْلِیقات اور حواشی تحریر فرمائے جن میں سے حاشیہ جَمَل، حاشیہ صاوی اورحضرت علامہ علی بن سلطان محمد قاری عَلَیْہِ رَحمَۃ اللّٰہ ِالْبَارِی  کاحاشیہ جَمَالَیْن بالخصوص قابلِ ذکر ہیں۔

تفسیر جلالین شریف ایک اہم شرح ”ترویح الرواح“ کے نام سے اخوندزادہ روح اللہ گانگلزٸی المعروف ”کاکا صاحب “ نے بھی عربی زبان میں 1895 میں لکھی ہے۔ یہ بہت ہی اہم تفسیر ہے جو اس دور میں ہندوستان اور افغانستان کے بڑے بڑے مدارس میں پڑھاٸی جاتی تھی۔ کاکا صاحب کا تعلق بلوچستان کے ضلع پشین سے تھا اور اپنے دور کے بزرگ صوفی تھے۔

تفسیر جلالین کے اولین مطبوعہ نسخہ کا صفحہ اول– 1278ھ/ 1862ء، قاہرہ، مصر

وجہ تالیف[ترمیم]

مصنف جلال الدین سیوطی کے تفسیر کے مقدمہ میں اِس کی وجہ تصنیف و تالیف یوں بیان کردی ہے کہ:

ھذا ما اشتدت الیہ حاجۃ الراغبین فی تکملۃ تفسیر القرآن الکریم الذی الفہ الامام العلامۃ المحقق جلال الدین محمد بن احمد المحلی الشافعی رحمۃ اللہ و تتمیم ما فاتہ وھو من اول سورۃ البقرۃ الی آخر سورۃ الاسراء بتتمۃ علی نمطہ من ذکر ما یفھم بہ کلام اللہ تعالی والاعتماد علی ارجح الاقوال و اعراب ما یحتاج الیہ و تنبیہ علی القراءات المختلفۃ المشہورۃ علی وجہ لطیف و تعبیر وجیز و ترک التطویل بذکر اقوال غیر مرضیۃ و اعاریب محلھا کتب العربیۃ واسال اللہ النفع بہ فی الدنیا و احسن الجزاءِ علیہ فی العُقبیٰ بِمَنّہ و کَرَمِہ۔[1]

بعد از حمد و صلٰوۃ و سلام کے، یہ ایک کتاب ہے کہ امام علامہ، محقق مدقق جلال الدین محمد بن احمد محلی الشافعی کی کتاب تفسیر القرآن کا تکملہ ہے جو تفسیر اُن سے باقی رہ گئی تھی، اُس کی تتمیم ہے جس کی شدید ضرورت ہے۔ جو اول سورہ بقرہ سے شروع ہوکر آخر سورہ الاسراء تک ہے اور علامہ محلی کے طرز پر مندرجہ ذیل خصوصیات کی حامل ہے:

  • اِس میں ایسی چیزوں کا ذِکر ہے جن سے کلامِ الہی سمجھنے میں مدد ملے۔
  • تمام اقوال میں سب سے زیادہ راجح قول پر اعتماد کیا گیا ہے۔
  • ضروری اعراب اور مختلف و مشہور قراءات پر لطیف طریقہ اور مختصر عبارت کے ساتھ تنبیہ کی گئی ہے۔
  • ناپسندیدہ اقوال اور (غیر ضروری) اعراب کو ذِکر کرکے جن کا اصل محل علوم عربیہ کی کتابیں ہیں، تطویل نہیں کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میری درخواست یہ ہے کہ دنیا میں اِس کتاب سے نفع پہنچائے اور آخرت میں بہترین بدلہ مرحمت فرمائے۔[2]

تاریخ تصنیف[ترمیم]

دوسری تفاسیر کی نسبت تفسیر جلالین کا نصفِ ثانی پہلے لکھا گیا ہے جبکہ نصفِ اول بعد میں ترتیب دیا گیا ہے۔ امام جلال الدین محلی (متوفی 864ھ/ 1459ء) نے پہلے سورہ الکہف سے سورہ الناس تک تفسیر لکھی تھی۔ غالباً امام موصوف نے یہ حصہ اِس لیے پہلے مرتب کیا یہ حصہ نصفِ اول کی بہ نسبت زیادہ آسان ہے، اِس کے بعد نصفِ اول کی تفسیر لکھنے کا آغاز کیا تھا اور محض سورہ الفاتحہ کی تفسیر ہی لکھی تھی کہ 15 رمضان 864ھ/ 5 جولائی 1460ء کو انتقال کر گئے اور یہ تفسیر نامکمل رہ گئی۔

امام جلال الدین محلی کی وفات کے بعد اِس نامکمل تفسیر کو امام جلال الدین سیوطی نے مکمل کرنے کا ارادہ کیا اور صرف 40 دن کی قلیل مدت میں اِس مختصر تفسیر کو مکمل کر لیا۔ خود مصنف نے اِس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ: الفقۃ فی مدۃ میعاد الکلیم میں نے اِس کو مدتِ میعادِ کلیم (یعنی 40 روز) میں مرتب کیا ہے۔ تفسیر سے فراغت کی جو تاریخ ہے، وہ خود مصنف نے تحریر کی ہے کہ: فرغ من تالیفہ یوم الاحد عاشر شوال سنۃ سبعین و ثمانمائۃ و (کان) الابتداء فیہ یوم الاربعاء مستھل رمضان من السنۃ المذکورہ و فرغ من تبیضیۃ یوم الاربعاء سادس صفر سنۃ احدی و سبعین و ثمانمائۃ۔[3]

میں اِس کی تالیف سے بروز اتوار 10 شوال 870ھ کو فارغ ہوا اور اِس کا آغاز بروز بدھ یکم رمضان سالِ مذکورہ کو ہوا اور اِس مسودہ کو بدھ 6 صفر 871ھ کو صاف کیا۔

امام جلال الدین سیوطی کے اِس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس تفسیر کا آغاز بروز بدھ یکم رمضان 870ھ/ 16 اپریل 1466ء کو ہوا اور 40 روز کی مدت کے بعد بروز اتوار 10 شوال 870ھ/ 25 مئی 1466ء کو یہ تفسیر مکمل ہو گئی۔ اُس وقت امام جلال الدین سیوطی کی عمر محض 21 سال 3 ماہ بحسابِ قمری تھی اور یہ تکملہ تفسیر امام جلال الدین محلی کی وفات کے تقریباً 6 سال بعد مکمل ہوا۔۔ تکمیل کے بعد اِس تفسیر پر نظر ثانی کرتے رہے اور اِس نظر ثانی سے بروز بدھ 6 صفر 871ھ/ 17 ستمبر 1466ء کو فراغت پائی۔

مواد[ترمیم]

عموماً تفسیر جلالین کو تفسیر قرآن سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہ تفسیر کم اور مختصر عربی ترجمہ زیادہ ہے۔ جابجاء تفسیری کلمات آیاتِ قرآنی کے کلمات کے برابر ہیں، کہیں کہیں چند الفاظ یا جملے زائد ہیں۔ سورہ المزمل تک آیات قرآنی کے ساتھ تفسیری کلمات کی یہ تطبیق قائم ہے جبکہ سورہ المدثر سے تفسیری کلمات آیاتِ قرآنی کے کلمات سے بڑھتے چلے گئے ہیں جس سے یہ تفسیری تطبیق سورہ الناس تک مختلف نوعیت کی ہے۔ حاجی خلیفہ کاتب چلبی (متوفی 26 ستمبر 1657ء) نے کشف الظنون میں لکھا ہے کہ:

قال بعض علما الیمن عددت حروف القرآن و تفسیرہ للجلالین فوجدتھما متساویین الی سورۃ المزمل، ومن سورۃ المدثر، التفسیر زائد علی القرآن فعلی ھذا لا یجوز حملہ بغیر الوضوء۔[4]

بعض علما یمن کا بیان ہے کہ میں نے قرآن اور تفسیر جلالین کے حروف کو شمار تو دونوں کے حروف کو سورہ مزمل تک برابر پایا اور سورہ مدثر سے تفسیر کے حروف قرآن کے حروف سے بڑھ گئے، اِس وجہ سے اِس کا بغیر وضو کے چھونا ناجائز ہے۔[5]

جامعیت و شہرت[ترمیم]

حاجی خلیفہ کاتب چلبی (متوفی 26 ستمبر 1657ء) نے اِس تفسیر کی جامعیت سے متعلق لکھا ہے کہ: وھو مع کونہ صغیر الحجم، کبیر المعنی لانہ لب لباب التفاسیر۔(تفسیر جلالین حجم کے اعتبار سے چھوٹی ہے لیکن معانی و مطالب کے اعتبار سے بہت اہم ہے کیونکہ یہ تفاسیر کا لب لباب ہے)۔[5]

مشہور محقق عالم نواب صدیق حسن خان (متوفی 26 مئی 1890ء) نے تفسیر جلالین کے متعلق لکھا ہے کہ: شہرت و قبول اِین تفسیر مبارک مستغنی است از بیان فضائل و شرح فواضل دے، نزد علما ہند در کتب درسیہ است، و مصداق این مثل سائر است کہ ہر کہ بقامت کہتر بقیمت بہتر۔[6]

اِس مبارک تفسیر کی شہرت و قبولیت اِس کے فضائل بیان کرنے اور اِس کی خوبیان بتانے سے مستغنی ہے،  یہ ہند کے علما کے یہاں نصابی کتب میں داخل ہے اور مشہور مثل کا مصداق ہے کہ جو قامت (ضخامت) میں چھوٹی ہوتی ہے، وہ قیمت میں بہتر ہوتی ہے۔

حواشی و شروحات[ترمیم]

تفسیر جلالین کے متعدد حواشی اور شروح لکھی گئی ہیں جن میں مشہور یہ ہیں:

  • قبس النیرین علی تفسیر الجلالین:  شیخ شمس الدین محمد بن ابراہیم علقمی مصری الشافعی (متوفی 963ھ/1556ء
  • مجمع البحرین و مطلع البدرین:  بدر الدین محمد بن محمد الکرخی البکری (متوفی 1006ھ/ 1598ء
  • جمالین حاشیۃ تفسیر الجلالین: نور الدین علی بن سلطان محمد القاری المعروف بہ ملا علی قاری (متوفی 1014ھ/ 1605ء)
  • الکوکبین النیرین فی حل الالفاظ الجلالین: الشیخ عطیہ بن عطیہ اجہوری الشافعی (متوفی 1190ھ/ 1776ء
  • الفتوحات الالھیۃ بتوضیح تفسیر الجلالین الدقائق الخفیہ:  شیخ سلیمان بن عمر عجیلی الشافعی  (متوفی 1204ھ/ 1790ء)
  • حاشیۃ الصاوی علی تفسیر الجلالین: شیخ احمد الصاوی المالکی (1175ھ/1761ء1241ھ/1825ء)
  • قرۃ العین و تنزیہہ الفواد: شیخ عبد اللہ بن محمد البزاوی الشافعی
  • ضوء النیرین لفھم القرآن: شیخ علی شبینی الشافعی الاشعری
  • فتوح الرحمن بتوضیح القرآن: شیخ مصطفیٰ بن شعبان
  • کشف المحجوبین عن خدی تفسیر الجلالین: شیخ سعد اللہ قندھاری
  • کمالین علیٰ تفسیر الجلالین: شیخ سلام اللہ بن شیخ الاسلام محمد دہلوی (متوفی 1229ھ/ 1814ء
  • نامعلوم الاسم حاشیہ: مولانا فیض الحسن سہارنپوری (متوفی 1302ھ/1885ء
  • شرح ترویح الرواح: اخوند زادہ روح اللہ گانگلزٸی المعروف کاکا صاحب (1813ء-1896ء)
  • زلالین حاشیۃ تفسیر الجلالین: ۔۔۔۔۔ حاشیہ جلالین ‘ ‘ کس سنی عالم کا ہے ؟ تحقیق : عبدالمصطفی افتخاراحمد عطاری ، کراچی بلاشبہ علمائے اہل سنت و جماعت رحم اللہ تعالی نے دین متین کی خوب خدمت کی ہے لیکن ان سب کے نام تاریخ میں نہیں ملتے خصوصا علمائے پاک و ہند کے ۔ ان گم نام علما میں سے بعض وہ بھی ہیں جن کا نام قصد ا چھپایا گیا ؛ کیونکہ دین دشمن ، بد مذ ہبوں کا یہ وتیرہ ہے کہ علمائے اہل سنت کی تحریرات وتصنیفات سے ان کے نام حذف کر کے ، نیز ان میں حسب منشا تحریفات کر کے چھاپ رہے ہیں اور خوب پیسا کما کر اپنا کاروبار چمکار ہے ہیں اور اس پر طرہ یہ کہ سنیوں کو جملے کستے ہیں کہ : ’ ’ درسیات میں تم نے کیا کام کیا ہے ؟ ‘ ‘ اگر چہ اس طرح کی وارداتیں بے شمار ہیں ، مگر اس مضمون میں صرف حاشیہ’جلالین کلاں ‘ کا تذکر مقصود ہے ۔ یہ حاشیہ ایک سنی عالم مولا ناریاست علی خان صاحب شاہجہانپوری رحمۃ اللہ علیہ ( متوفی 1349 ھ ) کا تحریر کردہ ہے ، جن کا تذکرہ فتاوی رضویہ میں متعد دجگہ موجود ہے ۔ ( 1 ) آپ علیہ الرحمہ حضرت علامہ مولانا ارشادحسین رامپوری رحمہ اللہ تعالی علیہ ( متوفی :( 1311 ھ ) کے شاگرد تھے ۔ ( 2 ) جیسا کہ انھوں نے اپنے حاشیہ میں جگہ جگہ اپنے استاذ گرامی کے نام کی صراحت کی ہے ۔ ان مقامات میں سے بعض یہ ہیں : ( 1 ) قال سیدي وشيخي إمام الأولياء والأتقياء مولانا محمد إرشاد حسین قدس سرہ . جلالین کلاں ص : 8 ، حاشیہ : 18 ( ٢ ) وهذا الجواب الأخير سمعتُ أيضا عن أستاذي وسيدي مولوی محمد ارشاد حسین دام مجده . ص : 110 ، حاشیہ : 8 ( 3 ) وإن شئت تفصيله فطالع " انتصار الحق " لسيدي وأستاذي . ص : 128 ، حاشیہ ،9 : مولا ناریاست علی خان صاحب شاہجہانپوری رحمۃ اللہ علیہ نے،، زلالین ،، کے نام سے جلالین پر حواشی لکھے تھے ، جیسا کہ ان کے سوانح میں بھی مرقوم ہے ۔ ( 3 ) حاشیہ کا آغاز یوں ہے : بسم الـلـه الـرحـمن الرحيم . الحمد لله الذي تفرد بجماله وتؤحد بجلاله ، والصلوة والسلام على من اصطفى بكماله محمد وعلى آله وأصحابه أجمعين . أما بعد فيقول المعتصم بالله القوى محمد ریاست على حنفي كان الله له من كل خفى وجلى لما كان تفسير الجلالين أشهر الكتب .... إلخ ، لیکن افسوس کہ ’ زلالین ‘ ‘ کی یہ عبارت چھوڑ کر دیگر حواشی’جلالین کلاں ‘ ‘ میں درج کر دیے گئے اوراپنی خیانت کو چھپانے کے لیے بعض مقامات پر کچھ حواشی کا اضافہ کر دیا گیا، ممکن ہے وہ بھی حسب سابق کسی مظلوم مصنف کے رشحات قلم ہوں ۔ مکتبہ منشی نولکشور لکھنؤ سے مطبوع جلالین کے سرورق پر مولانار یاست علی خان صاحب کا نام درج تھا ، نیز اس پر زلالین بھی جلی الفاظ میں لکھا تھا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (1) کـفـل الفقیہ الفاہم کے آخر میں آپ کی تصدیق بھی مذکور ہے ۔ نیز فتاوی رضویہ میں بعض مقامات پر آپ کے استفتاء بھی موجود ہیں ۔ دیکھیے فتاوی رضویہ مخرجہ 445/12 اور 134/15 اور 503/17 (2 ) آپ کی مشہور کتب " ارشاد الصرف " اور " انتصارالحق " ہیں ۔ ارشادالصرف عرصۂ دراز سے مدارس میں پڑھائی جارہی ہے ، بد مذ ہب اسے مصنف کے نام کے بغیر چھاپ رہے ہیں ۔ فتاوی رضویہ اور ملفوظات اعلی حضرت میں آپ کا تذکر ہ متعد دجگہوں پر موجود ہے ۔ کفل الفقیہ کے آخر میں اعلی حضرت آپ کا تذکرہ یوں کرتے ہیں : " و افتـى عـلـيـه ناس من كبار علما الهند ، كالفاضل الكامل محمد إرشاد حسين الرامفوري رحمه الله تعالى وغيــره فتاوی رضویہ مخرجہ ، جلد 17 ص : 445 ، رضا فاؤنڈیشن ، جامعہ نظامیہ رضویہ ، لاہور ۔ نیز مفتی نظام الدین رضوی صاحب مدظلہ نے بھی تصریح کی ہے کہ یہ حاشیہ مولانا ارشادحسین کے شاگر دکا ہے ۔ دیکھیے مقدمہ تفسیر جلالین مطبوعہ مکتبہ غوثیہ ، کراچی ( 3 ) نزهة الخواطر ، جلد : 8 ص : 154 مطبوعہ نورمحمد اصح المطابع ، کراچی ۔ تذکر محدث سورتی ص 325 از خواجہ رضی حیدر، مطبوعہ سورتی اکیڈمی ، کراچی، محمد جعفر علی نوری سنی حنفی، دربھنگوی
  • ترویح الارواح شرح تفسیر الجلالین: روح اللہ حنفی نقشبندی (متوفی 1314ھ/1896ء)
  • تحشیۃ الہلالین تفسیر الجزء عم یتساء لون: مولانا تراب علی لکھنوی (متوفی 1281ھ/1864ء
  • تيسير الجلالين شرح تفسير الجلالين (28 مجلدات)  : فضيلة الشيخ عبد الرحمن باوا المليباري الشافعي

اشاعت[ترمیم]

تفسیر جلالین کلکتہ سے پہلی بار 1257ھ/ 1841ء میں، بمبئی اور لکھنؤ سے 1286ھ/1869ء میں، دہلی سے 1301ھ/ 1884ء میں، بولاق، مصر سے 1280ھ/1864ء میں، قاہرہ، مصر سے 1300ھ/1883ء، 1301ھ/1884ء (مطبعہ البہیۃ)، 1305ھ/1888ء، 1308ھ/1891ء، 1313ھ/1896ء (مطبعہ المیمنیۃ)، 1328ھ/1910ء میں شائع ہوئی۔[7]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. جلال الدین سیوطی: تفسیر الجلالین، مقدمہ۔
  2. مولانا محمد نعیم دیوبندی: کمالین ترجمہ و شرح تفسیر جلالین، جلد 1، صفحہ 28/29، مطبوعہ کراچی 1429ھ/ 2008ء۔
  3. عبد العزیز بن ابراہیم ابن قاسم:  الدلیل الی المتون العلمیۃ،  صفحہ 99، مطبوعہ دار الصمیعی، ریاض، سعودی عرب۔
  4. حاجی خلیفہ کاتب چلبی: کشف الظنون فی اسامی الکتب الفنون، جلد 1، صفحہ 445، تذکرہ تحت حرف التاء، تفسیر الجلالین۔ مکتبہ داراحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان۔
  5. ^ ا ب حاجی خلیفہ کاتب چلبی: کشف الظنون فی اسامی الکتب الفنون، جلد 1، صفحہ 445، تذکرہ تحت حرف التاء، تفسیر الجلالین۔ مکتبہ داراحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان۔ مطبوعہ استنبول، 1360ھ/ 1942ء
  6. نواب صدیق حسن خان: الاکسیر فی اصول التفسیر، صفحہ 58، مطبع نظامی، کانپور، ہند۔ 1290ھ/ 1874ء
  7. دائرۃ المعارف الاسلامیہ: جلد 11، صفحہ 538۔ مقالہ: جلال الدین سیوطی۔ مطبوعہ لاہور 1375ھ/ 1975ء