تقی الدین ہلالی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
تقی الدین ہلالی
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1893ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 22 جون 1987ء (93–94 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دار البیضاء  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت مراکش
عراق  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
فرقہ اہل سنت والجماعت
فقہی مسلک ظاہری
عملی زندگی
مادر علمی یونیورسٹی آف ویلز
جامعہ ہومبولت
جامعہ قرویین
جامعہ الازہر  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
استاذ عبد الرحمن مبارکپوری  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مترجم،  شاعر،  عالم  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت جامعہ بون  ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

محمد تقی الدین ہلالی (ولادت: 1893ء –وفات: 22 جون 1987ء) مشہور مراکشی محدث، ماہر لسانیات، ادیب اور شاعر تھے۔ سلفی اور ظاہری رجحان رکھتے تھے۔ اصلاً مراکش کے رہنے والے تھے اور مراکش میں ابو شعیب دکالی اور محمد بن عربی علوی کے بعد سلفیت کے اولین داعیوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔[1] تقی الدین ہلالی کا نمایاں کارنامہ صحیح بخاری کا انگریزی میں ترجمہ ہے۔ اسی طرح انھوں نے قرآن مجید کا بھی انگریزی زبان میں ترجمہ کیا ہے۔[2] نازی جرمنی کے عہد حکومت میں برلن عرب ریڈیو کے نگران تھے۔[3]

نسب[ترمیم]

محمد تقی بن عبد القادر بن محمد بن عبد القادر بن طیب بن احمد بن عبد القادر بن محمد بن عبد النور بن عبد القادر بن ہلال بن محمد بن ہلال۔ ہلالی نسب ان کے جد امجد ہلال کی طرف ہے۔[4][5]

حالاتِ زندگی[ترمیم]

تقی الدین ہلالی کی پیدائش "فرخ" نامی گاؤں میں ہوئی، اس گاؤں کا نام (عربی) "الفیضۃ القدیمہ" بھی ہے جو ریصانی سے چند میل کے فاصلے پر واقع ہے، یہ مراکش کے شہر "سجلماسہ" جو ان دنوں "تافیلالت" نام سے مشہور ہے کے مضافات میں سے ہے، ہلالی صاحب کی پرورش علمی و فقہی گھرانہ میں ہوئی، ان کے والد اور دادا دونوں فقیہ تھے۔[6]

بارہ سال کی عمر ہی میں اپنے والد کے پاس قرآن مجید حفظ کر لیا تھا، اس کے بعد شیخ تندغی شنقیطی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور "مختصر خلیل" حفظ کرنا شروع کیا، انھیں سے عربی زبان کے علوم اور فقہ مالکی کو پڑھا، یہاں تک کہ شیخ اپنی غیر موجودگی انھیں اپنا نائب بنانے لگے۔

پندرہ ہی سال کی عمر میں ابتدائی تعلیم مکمل کر لی، والد صاحب کی وفات کے بعد قبائل میں منتقل ہو گئے اور "ژیان" میں قیام پزیر ہوئے، وہاں ایک مسجد میں نماز پڑھاتے اور بچوں کو تعلیم دیتے۔[7] پھر وہاں سے محمد بن حبیب شنقیطی سے علم حاصل کرنے چلے گئے، سنہ 1919 میں ان کی وفات کے بعد "وجدہ" چلے گئے اور وہاں ایک مدت تک قاضی احمد سکیرج سے علم حاصل کیا اور لغت، نحو، ادب، فقہ اور تفسیر میں مہارت حاصل کی۔

سنہ 1340 ہجری میں فاس کا سفر کیا اور وہاں کے علما مثلا:شیخ فاطمی شراوی اور شیخ محمد بن عربی علوی کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا اور جامعہ قرویین سے سند حاصل کی۔

شروع میں تیجانی (صوفیت کا ایک فرقہ) صوفی تھے،[8][9][10] پھر مسلک تبدیل کر لیا اور لوگوں کو بھی اس سے دور کرنے لگے، چنانچہ ایک کتاب "الہدیۃ الہادیۃ الی الطریقۃ التجانیہ" ان کے نقد میں لکھی،[11] جس سے وہ لوگ ناراض ہو گئے۔

پھر حسن البنا کے مراکشی ادبا اور مؤلفین کو دعوت کے بعد خفیہ طریقہ سے ڈاک کے ذریعہ اخوان المسلمون کے اخبار کے ساتھ خط کتابت شروع کی، لیکن ان کے کچھ خطوط ہسپانوی حکومت کے ہاتھ لگ گئے، چنانچہ انھوں نے گرفتار کر لیا اور جیل میں قید کر دیا، تین روز تک اسی طرح قید رہے، پھر شہر کے لوگوں نے ان کے حق میں احتجاج کیا اور لندن ریڈیو اسٹیشن نے اس واقعہ اور احتجاج کو مراکشی زبان میں نشر کیا پھر پولیس نے انھیں رہا کر دیا، اس کے بعد فرانسیسی حکومت نے حکومت مخالف سرگرمیوں کے الزام میں انھیں پھانسی کی بھی سزا سنائی۔

علمی اسفار[ترمیم]

انھوں نے طلب علم اور درس و تدریس کے لیے بیشمار ممالک اور مدارس و جامعات کا سفر کیا، کئی ممالک کا کئی مرتبہ سفر کیا، اپنے ذوق کے علوم کے اساتذہ سے استفادہ کیا اور بیشمار طلبہ کو پڑھایا۔

مصر کا سفر[ترمیم]

چھبیس سال کی عمر میں سنہ 1922 میں تقی الدین علم طلب حدیث کے لیے مراکش سے مصر کوچ کر گئے، وہاں جامعہ ازہر کا رخ کیا لیکن وہاں زیادہ قیام نہیں کیا، پھر شیخ محمد رشید رضا کے حلقہ تلامذہ میں شامل ہو گئے، شیخ رشید رضا کی علمی مجالس اور مناقشات میں پورے جذبہ کے ساتھ شریک ہونے لگے، یہی مناقشات و محاضرات ان کی فکری پختگی، تقلید جامد کی بجائے فکر و عقل کے استعمال اور عقلی دلائل سے استدلال اور علما و مشائخ کے بے جا مبالغہ آمیز تقدسات کی بجائے آزادنہ بحث و تحقیق اور ترجیح کا سبب بنے۔[12]

بھارت کا سفر[ترمیم]

حج کے بعد مزید طلب حدیث کے لیے بھارت کا سفر کیا، وہاں کے علما سے استفادہ و افادہ کیا، ان میں سے اہم اور مشہور علامہ عبد الرحمن مبارکپوری (صاحب تحفۃ الاحوذی شرح ترمذی) ہیں، ان سے حدیث کا علم حاصل کیا اور اجازت حدیث لی اور ایک قصیدہ علم حدیث اور ان کی مذکورہ شرح کے پڑھنے کی ترغیب کے لیے لکھا، وہ قصیدہ ہندوستانی نسخہ کی چوتھی جلد میں لکھا ہوا ہے، اسی طرح محمد بن حسین حدیدی انصاری یمانی کی خدمت میں بھی رہے جو ان دنوں بھارت میں مقیم تھے، ان سے صحاح ستہ کے کچھ حصے کو پڑھا اور اجازت حاصل کی، اسی طرح تقی الدین ہلالی نے بھارت کی مشہور دینی درسگاہ دار العلوم ندوۃ العلما لکھنؤ میں صدر شعبہ عربی ادب کی حیثیت سے تدریسی خدمات بھی انجام دی ہے۔

عراق اور سعودیہ کا سفر[ترمیم]

بھارت سے عراق کا سفر کیا، جہاں انھوں نے موریتانی محقق شیخ محمد امین شنقیطی زبیری سے ملاقات کی، ان سے خوب استفادہ کیا اور ان کی بیٹی عائشہ سے ان کا نکاح ہو گیا،[13] سنہ 1934 میں عراقی شہریت حاصل کر لی[14][15]، عراق کے شہر زبیر میں قیام کیا اور وہاں کے "مدرسۃ النجاۃ" میں انگریزی کے استاذ ہوئے، کچھ مدت تک "جامع الذکیر" میں امامت بھی کی،[16] عراق میں سنہ 1924 سے 1959 تک مسلسل 35 سال سکونت پزیر رہے، پھر مصر ہوتے ہوئے سعودیہ کا سفر کیا، مصر میں محمد رشید رضا نے شاہ عبد العزیز آل سعود کی خدمت میں ایک توصیہ انھیں دیا:

محمد تقی الدین ہلالی مراکشی تمام پاس دور دور سے آئے ہوئے دیگر علما سے کہیں بہتر اور افضل ہیں، مجھے امید ہے کہ آپ ان سے استفادہ کریں گے۔

وہاں چند ماہ تک شاہ عبد العزیز کی ضیافت میں رہے، پھر مسجد نبوی میں نگران تعلیم مقرر ہوئے اور دو سال مدینہ میں رہے، پھر مکہ میں مسجد حرام اور معہد العلمی السعودی منتقل ہو گئے اور ایک سال وہاں قیام رہا۔

مسجد نبوی میں امامت کے فرائض بھی انجام دیا، نماز اور قرات خوب لمبی کیا کرتے تھے جس سے لوگ ناگواری کا اظہار کرتے، ان کا کہنا تھا کہ میں لوگوں کی وجہ سے اپنی نماز خراب نہیں کر سکتا، اسی وجہ سے ناراض ہو کر پھر عراق چلے گئے اور وہاں جامعہ بغداد سے منسلک ہو گئے۔

وہیں بغداد میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری رہا، شادی کے بعد بھارت کا سفر کیا اور ندوۃ العلما میں استاذ مقرر ہوئے، ان کے تلامذہ میں سے سید ابو الحسن علی ندوی ہیں، بھارت میں بھی ایک ہندوستانی سے نکاح ہوا۔

جرمنی کا سفر اور پی ایچ ڈی[ترمیم]

شکیب ارسلان (تقی الدین ہلالی کے دوست تھے) نے ان کے لیے جرمنی کی وزارت خارجہ کو ایک توصیہ لکھا، اس میں لکھا:

"میرے پاس ایک مراکشی ادیب نوجوان ہے، اس جیسا شخص پورے جرمنی میں کوئی نہیں ہوگا، وہ آپ کے یہاں کسی یونیورسٹی میں پڑھانا چاہتا ہے، امید ہے مناسب تنخواہ پر ان کے لیے عربی ادب کی تدریس کے لیے مناسب جگہ عطا فرمائیں گے۔"

[17]

چنانچہ جرمنی کا سفر کیا اور وہاں "جامعہ بون" میں لکچرر مقرر ہوئے، پھر لکچرر کے ساتھ ساتھ جامعہ میں دکتوراہ کے طالب علم ہوئے اور سنہ 1940میں "جامعہ برلن" میں دکتوراہ کے لیے درخواست تھی، جہاں عربی ریڈیو کے نگراں تھے، دکتوراہ کا موضوع "ترجمۃ مقدمۃ کتاب الجماہر من الجواہر مع تعلیقات علیہا" تھا، امتحان کے لیے دس اساتذہ کی مجلس منتخب ہوئی اور سب نے بالاتفاق عربی ادب میں دکتوراہ کی سند دینے کا فیصلہ کیا، پھر وہیں ایک جرمنی خاتون سے نکاح بھی کیا۔

علامہ حماد انصاری کہتے ہیں: «عربی زبان میں امام تھے، ظاہری مسلک کے پیروکار تھے، میرے شیخ تھے میں نے ان سے خوب استفادہ کیا ہے، سلفی العقیدہ تھے، اگر آپ ان کی توحید کی کتاب پڑھیں تو آپ کو احساس ہوگا قرآن میں مذکور توحید کو ان جیسا کوئی نہیں سمجھتا تھا»

جرمنی میں وہاں کے ایک لیڈر فوہرر ہٹلر سے رابطہ ہو گیا، تعاطف و مراسم مظبوط ہو گئے تو انھوں نے اس سے عربی ریڈیو قائم کرنے کی درخواست کی، چنانچہ وہ راضی ہو گیا اور ریڈیو کے لیے مواد تیار کرنے کی ذمہ داری تقی الدین ہلالی کو دی گئی اور یونس بحری اس کو نشر کرنے کے ذمہ دار ہوئے، ان کی آواز خاص طور سے "حی العرب" جملہ کافی مشہور اور ممتاز ہوا۔

عراق کا سفر[ترمیم]

دوسری عالمی جنگ کے دوران تقی الدین ہلالی نے مراکش کا سفر کیا اور جنگ ختم ہونے کے بعد سنہ 1947 میں عراق چلے گئے اور بغداد کے "کلیۃ المملکۃ عالیہ" میں تدریسی خدمات انجام دی، یہاں تک کہ عراق میں فوجی انقلاب آیا تب 1959 میں پھر مراکش چلے گئے۔

خاندان اور وطن (مراکش) واپسی اور قیام[ترمیم]

مدینہ منورہ میں بھی ایک شادی کی، اس سے دو لڑکیاں ہوئی، ایک لڑکی سعودیہ کے سب سے لڑکیوں کے اسکول میں معلمہ مقرر ہوئی۔ عراق میں بھی وہاں کی بیوی سے کچھ اولادیں ہوئی۔ لیکن اخیر عمر میں جب مراکش میں پھر سے سکونت پزیر ہوئے تو وہاں ان کی آخری بیوی سے کوئی اولاد نہیں ہوئی، لیکن بیوی بڑی خدمت گزار تھی۔ ہلالی بغداد کے کلیہ میں مدرس تھے، پھر رباط کے جامعہ محمد خامس میں استاذ مقرر ہوئے پھر اس کی شاخ فاس میں، سنہ 1968 میں جامعہ مدینہ منورہ کے رئیس شیخ عبد العزیز بن باز مراکش سے ایک استاذ کی حیثیت سے بلاوا آیا، ہلالی صاحب نے اس دعوت کو قبول کیا اور وہاں سنہ 1974 تک خدمت انجام دی، پھر وہاں سے مراکش کے شہر مکناس چلے آئے۔

مجاہدانہ سرگرمی[ترمیم]

سامراجیت کے خلاف مقابلہ کے لیے مجاہدین کے ساتھ بھی شریک ہوئے اور اس میں فرانس، برطانیہ اور ہسپانیہ کے خلاف ملک کو آزاد کرانے کے لیے خوب کارنامہ انجام دیا، ان کا ایک قول ہے:[18]

"میں جب تک زندہ ہوں فرانس سے لڑتا رہوں گا اور مرنے کے بعد ان سے لڑنے کی وصیت کر جاؤں گا"

وفات[ترمیم]

دوشنبہ کے دن 22 جون سنہ 1987 عیسوی میں انھیں کے گھر شہر "دار البیضاء" میں وفات ہوئی اور "سباتا" میں مدفون ہوئے، جنازہ میں لوگوں کا ایک جم غفیر تھا، خصوصا علما، ادبا اور سیاسی لیڈران کا۔

تصنیفات[ترمیم]

تقی الدین ہلالی کی بیشمار تصنیفات اور تالیفات ہیں، جو مختلف ممالک میں مختلف مواقع سے لکھی گئیں، چند کے نام یہ ہیں:

  • الزند الواری والبدر الساری فی شرح صحیح البخاری [صرف ایک جلد]
  • الالہام والانعام فی تفسیر الانعام
  • مختصر ہدی الخلیل فی العقائد وعبادہ الجلیل
  • الہدیہ الہادیہ للطائفہ التجانیہ
  • القاضی العدل فی حکم البناء على القبور
  • العلم الماثور والعلم المشہور واللواء المنشور فی بدع القبور
  • آل البیت ما لہم وما علیہم
  • حاشیہ على کتاب التوحید لشیخ الاسلام محمد بن عبد الوہّاب
  • حاشیہ على کشف الشبہات لمحمد بن عبد الوہّاب

الحسام الماحق لکل مشرک ومنافق

  • دواء الشاکین وقامع المشککین فی الرد على الملحدین
  • البراہین الانجیلیہ على ان عیسى داخل فی العبودیہ وبریء من الالوہیہ
  • فکاک الاسیر العانی المکبول بالکبل التیجانی
  • فضل الکبیر المتعالی (دیوان شعر)

اسماء اللہ الحسنى (قصیدہ)

  • الصبح السافر فی حکم صلاہ المسافر
  • العقود الدریہ فی منع تحدید الذریہ
  • الثقافہ التی نحتاج الیہا (مقالہ)
  • تعلیم الاناث و تربیتہن (مقالہ)
  • ما وقع فی القرآن بغیر لغہ العرب (مقالہ)
  • اخلاق الشباب المسلم (مقالہ)
  • من وحی الاندلس (قصیدہ)
  • تقویم اللسانین (کتاب)

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تقي الدين الهلالي ... أبو السلفية في المغرب المساء 06 - 06 - 2008، تاريخ الولوج 4 يوليو 2012 آرکائیو شدہ 2017-10-14 بذریعہ وے بیک مشین
  2. خليل محمد : Assessing English Translations of the Qur'an آرکائیو شدہ 16 دسمبر 2008 بذریعہ وے بیک مشین
  3. ليس هناك جهة في أوروبا لم تسمع بالشخصية القيادية الفذة للملك عبدالعزيز الرياض، تاريخ الولوج 17 مارس 2012
  4. "ص316 - كتاب التفسير والمفسرون في غرب أفريقيا - محمد تقي الدين بن عبد القادر الهلالي الحسيني أبو شكيب السجلماسي - المكتبة الشاملة الحديثة"۔ al-maktaba.org۔ 1 جون 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 جون 2019 
  5. محمد تقي الهلالي،سبيل الرشاد في هَدْي خير العباد،تعليق:مشهور بن حسن آل سلمان،ج1،ص92
  6. Biography of Dr. Muhammad Taqi-ud-Din Al-Hilali آرکائیو شدہ 2017-07-08 بذریعہ وے بیک مشین
  7. "محمد تقي الدين الهلالي: اللغوي والرحالة السلفي" [مردہ ربط]
  8. تحفة الإخوان بتراجم بعض الأعيان، المؤلف: عبد العزيز بن باز ص: 69-71
  9. هداية الشيخ تقي الدين الهلالي من الطريقة التيجانية صيد الفوائد، أبو عمر الدوسري، تاريخ الولوج 15 مارس 2012 آرکائیو شدہ 2017-10-24 بذریعہ وے بیک مشین
  10. حول الشيخ تقي الدين الهلالي -ج2- د. محمد بن سعد الشويعر، تاريخ الولوج 15 مارس 2012 آرکائیو شدہ 2016-03-23 بذریعہ وے بیک مشین
  11. صيد الفوائد۔ "شبكة صيد الفوائد زاد كل مسلم"۔ شبكة صيد الفوائد الاسلامية۔ 08 اکتوبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 نومبر 2018 
  12. مجلة "دعوة الحق" مع الدكتور تقي الدين الهلالالي تاریخ الإصدار: 1429/07/26 آرکائیو شدہ 2016-03-04 بذریعہ وے بیک مشین
  13. "المصاهرات بين العلماء والدعاة.. رافد من روافد التلاحم والترابط | موقع المسلم"۔ almoslim.net۔ 16 مارچ 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 اکتوبر 2019 
  14. عبد الغني محمد المؤذن،العلامة تقي الدين الهلالي،إضاءات على جهوده في نشر التوحيد،ص3
  15. سبيل الرشاد في هَدْي خير العباد،تعليق:مشهور بن حسن آل سلمان،ج1 ص96
  16. محمد العسافي،مساجدالزبير،ص54
  17. ترجمة تقي الدين الهلالي، شهادات لبعض العلماء والمشايخ وطلبة العلم عن الشيخ الهلالي، تاريخ الولوج 1 سبتمبر 2011 آرکائیو شدہ 2017-10-14 بذریعہ وے بیک مشین
  18. مجلة "الإخوان المسلمون" عام 1946م