تیسری صلیبی جنگ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
تیسری صلیبی جنگ
سلسلہ صلیبی جنگیں  ویکی ڈیٹا پر (P361) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عمومی معلومات
آغاز 1189  ویکی ڈیٹا پر (P580) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اختتام 1192  ویکی ڈیٹا پر (P582) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مقام مشرق قریب  ویکی ڈیٹا پر (P276) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نقصانات
دوسری صلیبی جنگ  ویکی ڈیٹا پر (P155) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
چوتھی صلیبی جنگ  ویکی ڈیٹا پر (P156) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

تیسری صلیبی جنگ صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں بیت المقدس کی فتح کے بعد اسے بازیاب کرانے کی یورپی کوشش تھی جس میں یورپ کے مسیحیوں کو ناکامی ہوئی۔ یہ جنگ 1189ء سے 1192ء تک جاری رہی۔ اسے بادشاہوں کی صلیبی جنگ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں مسیحی لشکر کی قیادت یورپ کے تین طاقتور ترین بادشاہ انگلستان کے رچرڈ شیر دل، فرانس کے فلپ آگسٹس اور جرمنی کے فریڈرک باربروسا کر رہے تھے۔ اس جنگ میں فتح کے ذریعے صلاح الدین نے ثابت کر دیا کہ وہ دنیا کا طاقتور ترین حکمران ہے

صلیبیوں کی تیاریاں[ترمیم]

جنگ حطین میں شکست اور اس کے بیت المقدس پر مسلمانوں کے قبضے کی خبر یورپ پہنچی تو سارے یورپ میں کہرام مچ گیا۔ ہر طرف لڑائی کی تیاریاں ہونے لگیں۔ جرمنی، اٹلی، فرانس اور انگلستان سے فوجوں پر فوجیں فلسطین روانہ ہونے لگیں۔ انگلستان کا بادشاہ رچرڈ جو اپنی بہادری کی وجہ سے شیر دل مشہور تھا اور فرانس کا بادشاہ فلپ آگسٹس اپنی اپنی فوجیں لے کر فلسطین پہنچے۔ یورپ کی اس متحدہ فوج کی تعداد 6 لاکھ تھی جرمنی کا بادشاہ فریڈرک باربروسا بھی اس مہم میں ان کے ساتھ تھا۔

محاصرہ عکہ[ترمیم]

مسیحی دنیا نے اس قدر لاتعداد فوج ابھی تک فراہم نہ کی تھی۔ یہ عظیم الشان لشکر یورپ سے روانہ ہوا اور عکہ کی بندرگاہ کا محاصرہ کر لیا اگرچہ سلطان صلاح الدین نے تن تنہا عکہ کی حفاظت کے تمام انتظامات مکمل کر لیے تھے لیکن صلیبیوں کو یورپ سے مسلسل کمک پہنچ رہی تھی۔ ایک معرکے میں دس ہزار مسیحی قتل ہوئے مگر صلیبیوں نے محاصرہ جاری رکھا لیکن چونکہ کسی اور اسلامی ملک نے سلطان کی طرف دست تعاون نہ بڑھایا اس لیے صلیبی ناکہ بندی کی وجہ سے اہل شہر اور سلطان کا تعلق ٹوٹ گیا اور سلطان باوجود پوری کوشش کے مسلمانوں کو کمک نہ پہنچا سکا۔ تنگ آکر اہل شہر نے امان کے وعدہ پر شہر کو مسیحیوں کے حوالہ کر دینے پر آمادگی ظاہر کی۔ فریقین کے درمیان معاہدہ طے ہوا جس کے مطابق مسلمانوں نے دو لاکھ اشرفیاں بطور تاوان جنگ ادا کرنے کا وعدہ کیا اور صلیب اعظم اور 500 مسیحی قیدیوں کی واپسی کی شرائط طے کرتے ہوئے مسلمانوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ مسلمانوں کو اجازت دے دی گئی۔ وہ تمام مال اسباب لے کے شہر سے نکل جائیں لیکن رچرڈ نے بدعہدی کی اور محصورین کو قتل کر دیا۔

صلاح الدین کی فتح[ترمیم]

رچرڈ حسرت سے بیت المقدس کی جانب دیکھتے ہوئے

عکہ کے بعد صلیبیوں نے فلسطین کی بندرگاہ عسقلان کا رخ کیا۔ عسقلان پہنچنے تک مسیحیوں کا سلطان کے ساتھ گیارہ بارہ مرتبہ مقابلہ ہوا سب سے اہم معرکہ ارسوف کا تھا۔ سلطان نے جواں مردی اور بہادری کی درخشندہ مثالیں پیش کیں لیکن چونکہ کسی بھی مسلمان حکومت بالخصوص خلیفہ بغداد کی طرف سے کوئی مدد نہ پہنچی۔ لہذا سلطان کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ واپسی پر سلطان نے عسقلان کا شہر خود ہی تباہ کر دیا۔ اور جب صلیبی وہاں پہنچے تو انھیں اینٹوں کے ڈھیر کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔ اس دوران سلطان نے بیت المقدس کی حفاظت کی تیاریاں مکمل کیں کیونکہ اب صلیبیوں کا نشانہ بیت المقدس تھا۔ سلطان نے اپنی مختصر سی فوج کے ساتھ اس قدر عظیم لاؤ لشکر کا بڑی جرات اور حوصلہ سے مقابلہ کیا۔ جب فتح کی کوئی امید باقی نہ رہی تو صلیبیوں نے صلح کی درخواست کی۔ فریقین میں معاہدہ صلح ہوا۔ جس کی رو سے تیسری صلیبی جنگ کا خاتمہ ہوا۔

باربروسا کی موت[ترمیم]

باربروسا کی موت، مصور: گستاف ڈور

اس صلیبی جنگ میں سوائے عکہ شہر کے مسیحیوں کو کچھ بھی حاصل نہ ہوا اور وہ ناکام واپس ہوئے۔ رچرڈ شیر دل، سلطان کی فیاضی اور بہادری سے بہت متاثر ہوا جرمنی کا بادشاہ بھاگتے ہوئے دریا میں ڈوب کر مرگیا اور تقریباً 6 لاکھ مسیحی ان جنگوں میں کام آئے۔

معاہدہ کی شرائط[ترمیم]

مسلم اور مسیحی حکمرانوں کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی شرائط مندرجہ ذیل تھیں:

  1. بیت المقدس بدستور مسلمانوں کے پاس رہے گا۔
  2. ارسوف، حیفہ، یافہ اور عکہ کے شہر صلیبیوں کے قبضہ میں چلے گئے
  3. عسقلان آزاد علاقہ تسلیم کیا گیا۔
  4. زائرین کو آمدورفت کی اجازت دی گئی۔
  5. صلیب اعظم بدستور مسلمانوں کے قبضہ میں رہی۔ تیسری صلیبی جنگ میں سلطان صلاح الدین نے ثابت کر دیا کہ وہ دنیا کا سب سے طاقتور حکمران ہے ۔

متعلقہ مضامین[ترمیم]

صلاح الدین ایوبی

جنگ حطین

صلیبی جنگیں