جنوب مشرقی ایشیا میں سزائے موت

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
بھانسی کا پھندا

جنوب مشرقی ایشیا میں سزائے موت بیش تر ممالک میں رائج ہے، حالانکہ کچھ تنظیمیں ان پر روک لگانے کے لیے سرگرم ہیں۔

انڈونیشیا[ترمیم]

انڈونیشیا کئی مجرمین، بالخصوص منشیات کے تاجرین اور دہشت گردوں کو سزائے موت دے چکا ہے۔ ان میں سے کچھ انڈونیشیائی ہی تھے، جب کہ کچھ غیر ملکی افراد بھی تھے۔[1]

ملائیشیا[ترمیم]

ملائیشیا میں کسی مقدمے کی سماعت کے لیے دو قانون چنے جا سکتے ہیں۔ ان میں ایک یہاں کا ملکی قانون ہے اور ایک شرعی قانون ہے۔ ملائیشیا میں سزائے موت کے لیے پھانسی دی جاتی ہے۔ ملک میں کسی قانون شکنی کے مرتکب کی جانب سے قتل کے لیے دھماکو اصلٰحہ کا استعمال کیا جانا یا اسی طرح کی حرکت کا گرفتاری یا قانونی حراست سے بچنے کے لیے ہونا ملزم کو سزائے موت تک پہنچانے کا کام کر سکتی ہے۔[1]

سنگاپور[ترمیم]

سنگاپور میں منشیات کے لیے سزائے موت کا قانونی جواز موجود ہے۔ تاہم کسی بھی شخص کو سزائے موت اس وقت نہیں دی جا سکتی ہے جب ضبط منشیات کی مقدار 20 گرام سے کم ہو اور اس شخص کو منشیات کے کاروبار سے بری الذمہ ثابت کیا جا سکتا ہو۔ ملک میں ایک ضابطہ ہے جس کے تحت سزائے موت پر عمل آوری پھانسی دے کر انجام دی جا سکتی ہے۔ یہ ضابطہ تعزیرات کی دفعہ 316 میں کہا گیا گیا ہے کہ[1]:

جب کسی شخص کو سزائے موت دی جائے، تو یہ سزا اس طرح انجام دی جائے کہ وہ گردن سے لٹکایا جائے جب تک کہ وہ مر نہ جائے مگر افشا نہیں ہو گا کہ وہ مقام یا وقت کب ہو گا جب یہ سزا پر عمل آوری ہوگی۔

تھائی لینڈ[ترمیم]

تھائی لینڈ میں سزائے موت کی اپنی ایک لمبی تاریخ ہے کیوں کہ ملک میں ملوکیت آج بھی رائج ہے۔ سابق میں رتن کوسین کے دور میں تھائی لینڈ “تین مہروں کے قانون” کے تحت تھا۔ یہ نظام کا ضابطہ 1805ء میں انجام پایا جب راما اول کے دور حکومت میں ملوکیت تمام اختیارات رکھتی تھی۔ 1932ء کے انقلاب کی وجہ سے تھائی لینڈ دستوری ملوکیت میں تبدیل ہوا۔ تین مہروں کے قانون کے تحت 21 مختلف قسم کی سزائے موت تسلیم شدہ تھیں؛ جیسے کہ غداری کے الزام میں سزائے موت پانے والوں کو تیل میں گیلا کیے گئے کپڑے میں لپٹایا جاتا تھا اور اس کے بعد انھیں جلایا جاتا تھا۔ بعد کے دوروں میں سزائے موت کے طریقوں میں کئی تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں؛ مثلًا 1938ء میں مجرمین کو واحد خودکار رائفل سے نشانہ بنایا جاتا تھا، 2001ء میں پانچ مجرمین کو گولی بار دستے کی جانب سے سرعام سزا دی گئی، تاہم بالآخر 2003ء میں زہریلے انجکشن کو سزائے موت کا سرکاری طریقہ تسلیم کیا گیا ہے۔[1]

ویت نام[ترمیم]

ویت نام کی تعزیرات میں کسی دور میں کئی جرائم کو سزائے موت کا مستحق تسلیم کیا جاتا تھا۔ تاہم 2009ء کی ترمیم کے بعد یہ فہرست 22 جرائم تک محدود ہے۔ ملک کا ضابطہ 29 جرائم کا جائزہ لیتا ہے جہاں تعزیرات کی دفعات کے تحت سزائے موت طے کی جا سکتی ہے۔ پہلے پہل سزا کے لیے گولی بار دستوں کو بروئے کار لایا جاتا تھا، جسے بعد میں زہریلے انجکشن سے بدل دیا گیا تھا جب مجرمانہ فیصلوں کی تعمیل کے قانون (Law on Execution of Criminal Judgments) کی دفعہ 59 (1) کو قومی اسمبلی کی جانب سے نومبر 2011ء میں بدل دیا گیا تھا۔ نومبر 2015ء میں سات جرائم کے تحت سزائے موت کے نفاذ کو ہٹا دیا گیا جیسے کہ؛ دشمن کے آگے سپردگی، نظم کی مخالفت، قومی صیانتی اہمیت کے حامل منصوبوں کی تباہی، ڈکیتی، منشیات کا پاس رکھنا، منشیات لینا اور جعلی اغذیہ کی تیاری اور ان کی فرخت۔[1]

میانمار[ترمیم]

میانمار میں کئی قانونی ترامیم سزائے موت سے تعلق رکھتی ہیں۔ 1993ء میں منشیات کی تجارت کو سزائے موت کے دائرے میں شامل کیا۔ 2005ء میں انسانی تجارت کو اس میں شامل کیا گیا۔ سزائے موت کو ملک کے 2008ء کے میانمار کے دستور کی دفعات 353 اور 373 میں سمجھایا گیا ہے۔ اس کی رو سے کسی شخص کو زندگی سے محروم نہیں کیا جا سکتا سوائے اس قانون کی عمل آوری کی صورت میں جو جرم کے ارتکاب کے وقت نافذ ہو۔ مگر یہ قانون دستور کی دفعہ 382 کی وجہ سے کم زور ہو چکی ہے جو ایسی قانون سازی کی اجازت دیتی ہے بنیادی حقوق کو کچھ حالات میں ہٹا دے دیے جائیں۔ میانمار میں دہشت گردی سے متعلقہ جرائم سزائے موت کے دائرے میں نہیں آتے کیوں کہ حکومت دہشت گردی کو غداری سمجھتی ہے، جس کی سزا موت ہے۔[1]

برونائی دار السلام[ترمیم]

برونائی دار السلام کے قانون میں سزائے موت کا ذکر موجود ہے۔ تاہم جدید دور میں اس پر عمل آوری نہیں ہو رہی ہے۔ برونائی دار السلام میں آخری سزائے موت 1957ء میں دی گئی تھی۔[1]

لاؤس[ترمیم]

لاؤس کے قانون میں سزائے موت کا ذکر موجود ہے۔ تاہم جدید دور میں اس پر عمل آوری نہیں ہو رہی ہے۔ لاؤس میں آخری سزائے موت 1989ء میں دی گئی تھی۔[1]

فلپائن[ترمیم]

فلپائن کے قانون سے سزائے موت کی گنجائش ہٹا دی گئی ہے۔ اس ملک کی تاریخ میں سزائے موت کئی ترامیم کے مرحلوں سے گذر چکی ہے۔ یہ ترامیم کا آغاز 1946ء سے شروع ہوا یہ سلسلہ 1986ء تک جاری رہا۔ ملک میں موت برقی کرسی سے دی جاتی تھی، جو قتل، آبروریزی اور غداری جیسے جرائم کے ثابت ہونے پر انجام پاتی تھی۔ 1987ء کے دستور سزائے موت ممنوع قرار دی گئی۔ تاہم یہ گنجائش رکھی گئی کہ کانگریس کی سنگین جرائم کے انسداد کے لیے بازمامور کر سکتی ہے۔ اس سے یہ بات آشکارا ہوتی ہے کہ سزائے موت اب بھی قابل نفاذ ہے جب تک کہ وہ سنگین جرائم کی تعریف میں آ سکتی ہے۔ 2006ء تک کوئی سزائے موت کو قانونِ جمہوریہ نمبر 9346 کے تحت صدر جمہوریہ کی دستخط سے معطل کیا جاتا تھا، جو اس وقت گلوریا ماکاپاگل ارویو تھے۔ بالآخر، صدر جمہوریہ نے کئی قیدیوں کو اپنے صدارتی دور میں معاف کر دیے اور قلپائن قانون سے سزائے موت کی گنجائش ہٹا دی گئی۔[1]

کمبوڈیا[ترمیم]

کمبوڈیا کے قانون سے سزائے موت کی گنجائش ہٹا دی گئی ہے۔[1]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ "Learning About the Differences of Capital Punishment in Southeast Asian Countries"۔ 05 دسمبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 نومبر 2017