جان لا (معاشیات دان)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(جوہن لا (معاشیات دان) سے رجوع مکرر)

جوہن لا (معاشیات دان)
John Law, by Casimir Balthazar
پیدائش21 اپریل 1671(1671-04-21)
ایڈنبرگ, مملکت سکاٹ لینڈ
وفات21 مارچ 1729(1729-30-21) (عمر  57 سال)
وینس, جمہوریہ وینس
پیشہEconomist, banker, financier, author, controller-general of finances

دستخط

جان لا (John Law) اسکاٹ لینڈ کا ایک معاشیات دان تھا جو 1671ء کو ایڈنبرا میں پیدا ہوا تھا۔ اس نے 1716ء میں فرانس کے پہلے اور نجی سینٹرل بینک کی بنیاد رکھی۔

ابتدائی زندگی[ترمیم]

جوہن لا کا باپ ویلیم اسکاٹ لینڈ کا ایک نہایت امیر بینکر اور سنار تھا۔ ہائی اسکول سے فارغ ہونے کے بعد 14 سال کی عمر میں اُس نے باپ کے ساتھ بینک میں کام کرنا شروع کر دیا۔ 1688ء میں اس کا باپ مر گیا۔ اس وقت جاہن لا کی عمر صرف 16 سال تھی اور وہ باپ کا بزنس سنبھالنے کے قابل نہ تھا۔
جوہن لا ایک ذہین آدمی تھا اور حساب کتاب کا ماہر تھا۔ وہ تاش کے پتوں کا باآسانی حساب رکھ سکتا تھا اور ایک ماہر جواری تھا۔ باپ کی موت کے بعد وہ لندن چلا گیا لیکن اپنی دولت کا بڑا حصہ جوئے میں گنوا بیٹھا۔
23 سال کی عمر میں جوہن لا کو Edward Wilson نامی ایک شخص نے کسی خاتون کے معاملے پر ڈوئل (duel) لڑنے کا چیلینج دیا۔ 9 اپریل 1694ء کو یہ مقابلہ ہوا جس میں ایڈورڈ ولسن مارا گیا اور جوہن لا کو اُس کے قتل کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا اور سزائے موت سنائی گئی جو بعد میں جرمانے میں تبدیل کر دی گئی۔ لیکن وہ جیل سے بھاگ نکلنے میں کامیاب رہا اور بھاگ کر ایمسٹرڈیم چلا گیا۔

ایمسٹرڈیم میں جوہن لا نے دیکھا کہ کس طرح بینک آف ایمسٹرڈیم ، ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی (VOC) اور اسٹاک مارکیٹ مل کر کام کرتے ہیں اور ملک خوش حال ہے۔ جوہن لا کو بڑی حیرت ہوتی تھی کہ بینک آف ایمسٹرڈیم 1609ء سے قائم ہے اور اپنی شہرت اتنی اچھی ہونے کے باوجود قرضے نہیں دیتا (یعنی فریکشنل ریزرو بینکنگ نہیں کرتا)۔ اسی طرح ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی مزید شیئر جاری کر سکتی تھی مگر نہیں کرتی تھی۔[1]

وہ اسکاٹ لینڈ واپس آیا۔ اس نے 1705ء میں ایک کتاب ( Money and Trade Considered: with a Proposal for Supplying the Nation with Money) لکھی کہ کس طرح کاغذی کرنسی تخلیق کر کے حکومت خوش حال ہو سکتی ہے۔ مگر 1715ء میں اسکاٹ لینڈ میں اس کے مفروضے رد کر دیے گئے۔

مسی سپی کمپنی[ترمیم]

جاہن لا یہ سمجھ چکا تھا کہ اگر حکومت ہی ایک بڑی کمپنی بنائے اور حکومت ہی کا بنایا ہوا ایک سینٹرل بینک کاغذی کرنسی چھاپ کر اُس کمپنی کے بیشتر شیئر (اسٹاک) خرید لے تو عوام پر یہ تاثر پڑے گا کہ کاغذی کرنسی بھی سونے چاندی کی کرنسی کی طرح ارزش رکھتی ہے۔[1]اس طرح ٹیکس بڑھائے بغیر محض کرنسی چھاپ کر حکومت کا بجٹ خسارہ پورا کیا جا سکتا ہے۔
اُس وقت فرانس میں صرف سونے چاندی کے سکے کرنسی کا درجہ رکھتے تھے۔

تاریخ کی سات عظیم ترین کمپنیاں[2]
سن عیسوی کمپنی کا نام آج کی مالیت
1637ء ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی 7900 ارب ڈالر
1720ء مسی سیپی کمپنی۔ فرانس 6500 ارب ڈالر
1720ء ساوتھ سی کمپنی۔ انگلینڈ 4300 ارب ڈالر
2010ء سعودی آرامکو۔ سعودی عرب 4100 ارب ڈالر
2007ء پیٹروچائنا۔ چین 1400 ارب ڈالر
1900ء اسٹینڈرڈ آئل۔ امریکا 1000 ارب ڈالر
1999ء مائکروسوفٹ۔ امریکا 900 ارب ڈالر

جاہن لا نے پہلی کوشش جینوا میں کی کہ اسے Turin میں ایک بینک بنانے کی اجازت مل جائے مگر ناکام رہا۔[3] اس کے بعد وہ فرانس چلا گیا جہاں لوئس چہاردہم کا زمانہ تھا۔ طویل جنگوں کی وجہ سے فرانس بڑا خستہ حال ہو چکا تھا۔ سونے چاندی کے سکوں کی شدید قلت اور حد سے زیادہ قرضوں کی وجہ سے معیشت بالکل بیٹھ چکی تھی۔ سترہ مہینوں بعد لوئس چہاردہم The Sun King کا انتقال ہو گیا[4] اور پانچ سالہ وارث تخت لوئس پانزدہم تخت نشین ہوا اور اس کے چچا زاد بھائی duke Philippe d’Orle ́ans کو حکومت کا نگران مقرر کیا گیا۔ اُس وقت حکومت فرانس کی آمدنی ساڑھے 14 کروڑ لیور تھی جبکہ حکومتی اخراجات کے بعد صرف 30 لاکھ لیور بچتے تھے جو حکومت کے پہلے سے جاری شدہ 3 ارب لیور کے قرضوں (بونڈز) کا سود ادا کرنے کے لیے بالکل ناکافی تھے۔[5] ایسے وقت میں جان لا کی یہ پیشکش کہ وہ حکومتی قرضوں میں کمی لا سکتا ہے، بڑے دھیان سے سنی گئی۔[6]
مئی 1716ء میں حکومت فرانس کی منظوری سے جوہن لا نے Banque Générale Privée ("General Private Bank") کی بنیاد رکھی جو کاغذی کرنسی جاری کرنے والا ایک نجی سینٹرل بینک تھا یعنی فریکشنل ریزرو بینکنگ کرتا تھا اور 20 فیصد ریزرو (سونا چاندی) رکھتا تھا۔ اس وقت تک انگلینڈ، سوئیڈن، ہالینڈ، وینس اور جینوا میں سینٹرل بینک کاغذی کرنسی جاری کرنا شروع کر چکے تھے۔ ڈھائی سال بعد جان لا کی خواہش پر حکومت نے یہ بینک نیشنالائز کر لیا اور اس کا نام Banque Royale رکھ دیا گیا۔[7]
حکومت فرانس نے اپریل 1717ء میں جوہن لا کی چھاپی ہوئی کاغذی کرنسی کو لیگل ٹینڈر قرار دیا یعنی اب حکومت بطور ٹیکس سونے چاندی کی بجائے کاغذی کرنسی قبول کر لے گی۔
بینک بنانے کے بعد جوہن لا اس پوزیشن میں آ گیا کہ ایک بڑی کمپنی بنائے جسے مارکیٹ میں کسی مسابقے کا سامنا نہ کرنا پڑے (یعنی مونوپولی حاصل ہو)۔ جوہن لا نے مسی سپی کمپنی کی بنیاد رکھی جس کے دس کروڑ لیور مالیت کے شیئر جوہن لا ہی کے بینک نے خرید لیے۔ آج تک کی تاریخ میں یہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی کمپنی ثابت ہوئی۔ مسی سپی کمپنی کا نام بعد میں Occident Company رکھ دیا گیا۔ یہ کمپنی شمالی امریکا میں فرانس کے فتح کردہ علاقوں میں آبادکاری سے متعلق تھی۔ فرانس کی حکومت نے اس کمپنی کو 25 سال کے لیے اجارہ داری عطا کی جبکہ کمپنی نے 6000 آبادکاروں اور 3000 غلاموں کو کولونی تک پہنچانے کا کام اپنے ذمہ لیا۔ ان میں سے بیشتر قیدی اور طوائفیں تھیں۔[8] (ان میں سے 80 فیصد ایک سال میں مر گئے) بڑی جلدی اس کمپنی کے اسٹاک کی قیمت 60 گنا بڑھ گئی۔[4] فرانس کے تجارتی بحری جہازوں کی تعداد 16 سے بڑھ کر 300 تک جا پہنچی۔ اگرچہ جوہن لا نے بینک آف انگلینڈ کی نقل کرتے ہوئے فرانس میں سینٹرل بینک بنایا لیکن انگلینڈ نے جوہن لا کی نقل کرتے ہوئے بڑی مقدار میں ساوتھ سی کمپنی کے اضافی شیئر جاری کرنے شروع کر دیے۔
1719ء میں جوہن لا نے فرنچ ایسٹ انڈیا کمپنی اور چند دوسری بڑی کمپنیوں کو اپنی مسسی سپی (آکسیڈینٹ) کمپنی میں شامل کر لیا۔ جوہن لا اب فرانس کے طاقتور ترین چند لوگوں میں سے ایک فرد بن چکا تھا۔ عملاً وہ فرانس کا وزیر اعلیٰ تھا۔[4] جوہن لا نے بڑی مقدار میں مسی سیپی کمپنی کے شیئر جاری کیے۔ شیئر کے خریدار کو 20 فیصد سے بھی کم ادائیگی پر شیئر مل جاتے تھے جبکہ باقی رقم ماہانہ 19 اقساط میں ادا کرنی ہوتی تھیں۔ یوں بینک کریڈٹ کا سلسلہ شروع ہو گیا جو ہر بینک کی بنیادی خواہش ہوتی ہے۔ اس آمدنی سے جوہن لا فرانس کی حکومت کی مالی امداد کرنے کے قابل ہو گیا۔ 1718ء اور 1719ء میں فرانس اور اسپین کی جنگ میں فرانس کو کسی مالی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔[9] لیکن نوٹ (اور شیئر) چھپائی کا وہی نتیجہ ہوا جو ہمیشہ ہوتا ہے یعنی مہنگائی۔ جلد ہی فرانس میں اشیائے خور و نوش کی قیمتیں تیزی سے بڑھنے لگیں۔ لوگ کاغذی کرنسی یا شیئر کے بدلے سونے کے سکے طلب کرنے لگے۔ 27 فروری 1720ء کو جوہن لا نے فرمان جاری کر دیا کہ فرانس کا کوئی شخص 500 لیور سے زیادہ مالیت کے سونے کے سکے نہیں رکھ سکتا تا کہ اضافی سکے بینک میں جمع کرا دیے جائیں اور بینک کے پاس سونے کی مقدار بڑھے۔ شروع میں تو ایسا ہی ہوا[4] مگر جب زیادہ لوگوں نے جوہن لا کے بینک سے کاغذی کرنسی کے بدلے سونے کا سکہ طلب کرنا شروع کر دیا تو جوہن لا نے دس دنوں کے لیے بینک بند کر دیا۔ اس کے بعد بینک دوبارہ کھولا مگر نوٹ بھنوانے کے حد مقرر کر دی گئی۔ حکومت نے سونے کی فروخت پر پابندی لگا دی۔ سونے کا سکہ غیر قانونی قرار دیا گیا۔ جلد ہی یہ قوانین منسوخ کر دیے گئے مگر اس وقت تک 50 لوگ سزائے موت پا چکے تھے۔

مسی سپی ببل 1720ء
سن عیسوی شیئر کی قیمت
جنوری 1719ء 500 لیور
دسمبر 1719ء 10000 لیور
مئی 1720ء 4000 لیور
ستمبر 1720ء 2000 لیور
دسمبر 1720ء 1000 لیور
ستمبر 1721ء 500 لیور

مسی سپی کمپنی کے شیئر کی اسپوٹ قیمت دس ہزار اور فیوچر قیمت پندرہ ہزار تک پہنچ کر پھر گرنا شروع ہوئی۔ مئی 1720ء تک یہ صرف چار ہزار لیور رہ گئی یعنی ایک سال میں 73 فیصد گراوٹ۔ بہت سے لوگوں کی عمر بھر کی جمع پونجی لُٹ گئی۔ فرانس میں فسادات پھوٹ پڑے اور دسمبر 1720ء میں جوہن لا خاموشی سے جان بچا کر بھاگ نکلا۔ اس کی ساری جائداد شیئر ہولڈروں کی قیمت چُکانے میں خرچ ہو گئی۔ نو سال بعد جوہن لا مفلسی کے عالم میں اٹلی میں مر گیا۔
1720ء میں فرانس (Marseille) میں طاعون کی بڑی وبا پھیلی جس میں ایک لاکھ لوگ مر گئے اور 45 سال بعد فرانس کی مردم شماری وبا سے پہلے کے برابر ہوئی۔[10]

حکومت کی قرضوں سے نجات[ترمیم]

عوام کا خواہ کتنا ہی نقصان ہوا ہو مگر جوہن لا کے بینک اور مسی سپی کمپنی نے حکومت فرانس کے قرضوں کے بوجھ میں خاطرخواہ کمی کر دی کیونکہ ان کمپنیوں نے حکومتی قرض کو شیئر میں تبدیل کر دیا تھا۔[1]

رکارڈ کینٹیلون[ترمیم]

رکارڈ کینٹیلون (Richard Cantillon) بھی فرانس کا ایک بینکر تھا جو آئرلینڈ سے تعلق رکھتا تھا اور جوہن لا کے ماتحت تھا۔ اس نے بھی بڑی مقدار میں مسی سپی کمپنی کے شیئر خرید رکھے تھے مگر اسے جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ کیا ہونے والا ہے۔ اس نے جوہن لا سے چُھپا کر وہ شیئر وقت پر لندن میں بیچ دیے اور کروڑ پتی بن گیا۔[11]
جوہن لا کے عتاب سے بچنے کے لیے وہ کچھ عرصے کے لیے وینس چلا گیا اور جب جوہن لا فرانس سے فرار ہوا تو رکارڈ کینٹیلون واپس پیرس آگیا۔

رکارڈ کینٹیلون وہ پہلا آدمی تھا جس نے 300 سال پہلے یہ لکھا کہ کرنسی (اور شیئر) تخلیق کرنے سے دولت تخلیق نہیں ہوتی۔ کرنسی (اور شیئر) تخلیق کرنے سے کسی کی دولت کرنسی (اور شیئر) کے تخلیق کنندہ کو منتقل ہوتی ہے۔[12]

1734ء میں لندن میں اپنے گھر میں اس پر قاتلانہ حملہ ہوا اور رکارڈ کینٹیلون مارا گیا۔ اس کے گھر کو آگ لگا دی گئی۔ غالباً اس کے سابقہ فرانسیسی باورچی نے (جسے تین ہفتوں پہلے نوکری سے نکال دیا گیا تھا) اُسے مارا اور کافی دولت لے کر فرار ہو گیا اور کبھی پکڑا نہیں گیا۔ لیکن خوش قسمتی سے رکارڈ کینٹیلون کی لکھی ہوئی کتاب (Essay on the Nature of Trade in General) کا مسودہ تباہ ہونے سے بچ گیا جو کئی سال بعد 1755ء میں شائع ہوا۔ آدم اسمتھ اور دوسرے مشہور معیشت دانوں نے اسی کتاب سے متاثر ہو کر اپنی کتابیں لکھیں۔[13]

جوہن لا کا راز[ترمیم]

جوہن لا کا بنیادی خیال کہ ایک حکومت، ایک سینٹرل بینک اور ایک (یا چند) اسٹاک مارکیٹ دولت کا انبار اکھٹا کر سکتی ہیں، آج تک زندہ ہے[14] اور دنیا کے سارے سینٹرل بینک اسی اصول پر آج بھی کاغذی کرنسی (کریڈٹ) جاری کر رہے ہیں۔[15]
جوہن لا سمجھ چکا تھا کہ صرف کاغذی کرنسی جاری کرنا آگے چل کر بہت جلد مہنگائی کا سبب بنتا ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ کاغذی کرنسی کی طرح کاغذی اثاثے (شیئرز) بھی جاری کیے جائیں جہاں فالتو کرنسی کھپ جائے۔ زیادہ منافع کی لالچ شیئر مارکیٹ کی اصل جڑ ہوتی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر جوہن لا کا منصوبہ اتنا ہی شاندار تھا کہ تین سو سال بعد بھی زندہ ہے تو جوہن لا کا مسی سپی ببل 1720ء میں صرف ایک سال کے اندر کیوں پھٹ گیا؟

اس کا جواب یہ ہے کہ بینکوں کی ایسی مالیات (کیپیٹل ازم) کے تین اصول ہوتے ہیں۔

  1. حکومت کاغذی کرنسی جاری کرے۔ (اس سے افراط زر (انفلیشن) کا خطرہ بڑھتا ہے۔)
  2. عوام کاغذی کرنسی سے اسٹاک/ شیئر (کاغذی اثاثے) خریدے۔ (اس سے افراط زر کا خطرہ کم ہوتا ہے۔)
  3. کاغذی کرنسی اور اسٹاک/ شیئر کے درمیان ربط طے شدہ نہ ہو جیسا کہ ٹریژری بونڈ یا ٹریژری بل میں طے شدہ ہوتا ہے۔ (یعنی اسٹاک/ شیئر کی قیمت کاغذی کرنسی میں گھٹتی بڑھتی رہے۔ دوسرے الفاظ میں بزنس سائیکل کاغذی کرنسی کا لازمی جُز ہے۔)[16]

اس وقت تک یہ اصول پوری طرح واضح نہیں ہوئے تھے۔ جوہن لا نے غلطی سے یہ تیسرا اصول توڑ دیا تھا۔ جنوری 1720ء میں جب مسی سپی اسٹاک کی قیمتیں زوال پزیر ہونے لگیں تو چند لوگوں نے اسٹاک کے بدلے سونے کے سکے طلب کرنے شروع کر دیے۔ فریکشنل ریزو بینکنگ میں سونے کی مقدار ہمیشہ کم ہوتی ہے۔ جوہن لا نے سونا نہ دینے کے لیے یہ اعلان کر دیا کہ ہر شیئر کے بدلے دس ہزار لیور کا کاغذی نوٹ دیا جائے گا جو اس وقت مارکیٹ میں شیئر کی قیمت تھی۔ اس طرح زیر گردش کرنسی کی مقدار اچانک دُگنی ہو گئی اور مہنگائی کا دور شروع ہو گیا[17] جس کے بعد فسادات یقینی تھے۔
کاغذی کرنسی پر پیدا ہونے والے عدم اعتماد کی وجہ سے فرانس کو اگلی کاغذی کرنسی (ایسگناٹ) جاری کرنے میں 80 سال لگے جب تک پرانی نسل مٹ چکی تھی۔

اقتباس[ترمیم]

  • جب بھی کاغذی کرنسی گرتی ہے مڈل کلاس طبقہ برباد ہوتا ہے۔ حکمران اور اس کے ساتھی بے حد امیر ہو جاتے ہیں۔[12]
  • ٹیکس اور افراط زر ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔
inflation and taxes are, in many ways, simply two sides of the same coin.[18]
  • اپنی انتہا تک پہنچ کر اچھائی خود کو تباہ کر دیتی ہے۔
“I believe that all good things taken to an extreme become self-destructive and that everything must evolve or die. This is now true for capitalism.”[12]
  • آج کی حکومتی بونڈز کی قیمت میں ہیراپھیری دراصل وہی سازش ہے جو جوہن لا نے کی تھی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ فرانس کی حد تک محدود تھا جبکہ آج کی سازش عالمی سطح پر ہے۔
Today’s price support system which rigs government bond prices is exactly the same concept as that deployed by John Law, except it is on a global scale.[19]
I find quite strong parallels between what John Law attempted exactly 300 years ago in Paris by severing the connection between money and gold by printing a lot of money through the central bank and using thآat money to purchase shares in the Mississippi Company. The valuation of the shares of the Mississippi Company rose in proportion to the decline in interest rates. Already back then, there was a clear inverse relationship between the interest rate level and the price of long dated assets like shares.[20]
  • جب بھی بڑے پیمانے پر اسٹاک مارکیٹ ڈوبی، حکومت نے پرانے مسموم کاغذی اثاثوں کے متبادل نئے کاغذی اثاثے جاری کیے۔
The lesson that could have been learned from the three divergent responses to the collapse of the international stock markets in 1720 was that effective government intervention to stabilize the market by offering a new security to refinance the previously issued ‘toxic assets’[21]
  • جوہن لا کے تجربے سے پتہ چلتا ہے کہ ڈالر چند مہینوں میں ڈوب سکتا ہے۔
If we replicate the John Law experience, the dollar could become valueless in a matter of months.[22]

  • نوٹ چھپائی کا اصل فائیدہ سیاست دانوں کو ہوتا ہے اور انفلیشن ان کی ہی وجہ سے وجود میں آتا ہے۔
The beneficiaries of higher inflation are those who create it - the politicians.[23]
  • جس طرح جان لا کا بینک 1720ء کا بحران نہیں جھیل سکا تھا اسی طرح آج کے سینٹرل بینک بھی کنگال ہو چکے ہیں کیونکہ ان کا سرمائیہ حکومتی بونڈز ہیں جن کی قیمت مقداری تسہیل (quantitative easing) کی وجہ سے مصنوعی طور پر بہت بڑھ چکی ہے۔
Furthermore, like Law’s Banque Royale which did not survive the 1720 crisis, today’s central banks are already technically bankrupt on a mark-to-market valuation basis due to their acquisition of government bonds at inflated prices through quantitative easing.[14]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ "A Concise Financial History of Europe by Jan Sytze Mosselaar" (PDF)۔ 24 اکتوبر 2020 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 اگست 2020 
  2. The Richest Company In History
  3. CHAPTER17 John Law and his Experiment with France,1715–1726
  4. ^ ا ب پ ت How John Law turbocharged the West's malignancy
  5. Currency Devaluation
  6. John Law Scottish economist
  7. John Law (economist)
  8. Five of the richest companies in history
  9. John Law’s System By François R. Velde
  10. Great Plague of Marseille
  11. Richard Cantillon: The Founding Father of Modern Economics
  12. ^ ا ب پ MMT - Not Modern, Not About Money, & Not Really Much Of A Theory
  13. Richard Cantillon: Founder of Political Economy
  14. ^ ا ب Why the dollar is finished
  15. John Law: Economic Theorist and Policy-maker By Antoin E. Murphy
  16. Time, Money, and People Change. Liquidity Crises Don't.
  17. John Law and the Mississippi Bubble: 1718-1720
  18. MMT: The case against Modern Monetary Theory
  19. The journey to monetary gold and silver
  20. «Prudent Investing is Impossible These Days»
  21. History of Financial Globalization, Overview
  22. The emerging evidence of hyperinflation
  23. "Good Evening. I Want To Have A Frank Talk With You Tonight About Our Most Serious Domestic Problem" said President Carter in an October 1978 televised address.