حاکم بامراللہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
منصور
الحاکم بامراللہ
حاکم کی ایک خیالی تصویر
14 اکتوبر 996 – 13فروری 1021
پیشروعزیز باللہ
جانشینعلی الظاہر
نسلعلی الظاہر
مکمل نام
ابو علی منصور الحاکم بامر اللہ
والدعزیز باللہ
والدہالسیدہ العزیزیہ
پیدائش13 اگست 985

ابو الحسین الحاکم بامراللہ فاطمیوں کا چھٹا خلیفہ اور اسمعیلیوں کا سولواں امام 382ھ تا 411ھ عزیز کے بعد اس کا بیٹا ابو الحسین الحاکم بامراللہ امام و خلیفہ بنا۔ اس وقت اس کی عمر گیارہ سال پانچ ماہ تھی۔ حسب فاطمیوں کے دستور کے مطابق عزیز کی موت کو چھپایا گیا۔

ترکوں اور کتامیوں کے جھگڑے[ترمیم]

حاکم کی کمسنی کی وجہ سے برجوان اور وزیر حسن عمار مملکت پر چھا گئے۔ حسن عمار کو یہ خوف ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو برجوان اور اس کی ترکی فوج کتامی فوج پر غلبہ حاصل کر لے۔ اس لیے حسن عمار نے برجوان کے اختیارت ختم دیدے۔ برجوان کے کا اقتدار صرف خلیفہ کے محل تک رہے گیا تھا۔ ان کے آپس کے جھگڑے سے )مشارقہ ( ترکی فوج اور مغاربہ ) بربری کتامی ( فوج میں بھی لڑائیاں چھڑگئیں۔ برجوان نے شام کے ترک والیوں کے ساتھ مل کر سازش کی اور کتامی فوجوں کو ایسی شکست دی کہ وہ آئندہ سر نہیں اٹھا سکے اور حسن عمار کو بھی چند ترکوں نے قتل کر ڈالا۔

شام میں فتنہ اور انسداد[ترمیم]

اس کے بعد برجوان نے حکم دیا کہ دمشق اور دوسرے شہروں کے کتامی والیوں نکال دیا جائے۔ اس وجہ سے شام میں کتامی والیوں کو نکال دیا گیا، لیکن اس کا یہ نقصان ہوا کہ شام کے مختلف شہروں میں معمولی آدمیوں نے حکومتیں قائم کر لیں۔ برجوان نے ان کے خلاف کے لیے حبش بن صائمہ کو بھیجا گیا اس نے شام میں باغیوں کو شکست دے کر فاطمی اقتدار کو دوبارہ استحکام بخشا۔ حبش نے جب صور میں کارروائی کرنا چاہی تو اس نے روم سے مدد مانگ لی۔ مگر ناکام رہا۔ اس کے بعد بعد حبش نے رومیوں کے خلاف کارروائی کی جو افامیہ تک بڑھ آئے تھے اور ان کو لڑائی میں شکست دی۔ یہ لڑائی 389ھ میں پیش آئی تھی۔ اس کے بعد برجوان نے قیصر بسیل سے مصالحت کرلی تاکہ مصر کے اندرونی مسائل کی طرف توجہ دے۔

برجوان کا قتل[ترمیم]

شام کے انتظامات کے بعد برجوان نے افریقہ کے معمالات کی طرف توجہ دی۔ وہاں کی بغاوتوں کو کچلا۔ اس طرح برجوان کا اقتدار بہت بڑھ گیا اور وہ حاکم کو بھی خاطر میں نہیں لانے لگا اور حاکم سے بد سلوکی بھی کرنے لگا۔ ایک دن موقع سے فائدہ اٹھا کر حکم نے برجوان کو قتل کر وادیا۔ برجوان کے قتل سے ترکی فوج نے ہنگامہ برپا کر دیا۔ حاکم نے فوج سے مخاطب ہو کر کہا کہ ’ اے لوگوں ْ برجوان نے میرے خلاف شازش کی تھی اس لیے میں نے اسے قتل کروا دیا۔ اس کے بعد اس حکومت اپنے ہاتھ میں لی۔

حاکم کامجنوں پن[ترمیم]

390ھ کے بعد حاکم سے عجیب و غریب افعال سرز ہونے لگے۔ جس کی وجہ سے اکثر مورخین نے اسے فاتر اثر اور مجنوں ٹہرایا۔ ان میں اس کا اکثر راتوں کو یہ سوار ہو کر نکلتا اور راتوں کا دربار لگانا، ، اس نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اپنا کاروبار رات ہی کو کرا کریں۔ دوکانیں رات کو کھلتی تھیں اور روشنی کی جاتی تھی۔ غرض رات دن سے بدل گئی۔ اکثر وہ باتیں جو راتوں کو در پردہ ہوا کرتی تھیں دن دہاڑے ہونے لگیں۔ لہو و لعب زیادہ ہونے لگا۔ جب تماشا دیکھنے کے لیے عوریں نکلنے لگیں تو ان کو روکنے کے لیے سخت احکامات صادر کیے گئے، تاکہ شام کے وقت وہ گھروں میں ہی رہیں۔ رات کے دربار کا سلسلہ 391ھ تا 393 تک یعنی تین سال تک برابر جاری رہا۔ اس کے بعد حاکم نے اسے بکل موقوف کر دیا اور یہ حکم دیا کہ رات کو کئی شخص نہیں نکلے۔

393ھ میں حاکم نے جرجیر، متوکلیہ اور طوخیہ کے کھانے اور ان کی خرید و فروخت پر پابندی لگا دی اور ان کی خلاف ورزی پر سزا کا حکم جاری کیا۔ اس طرح اس نے بعض مچھلیوں پر پابندی لگا دی اور مچھروں سے عہد لیا کہ ان کو نہیں پکڑیں گے اور جس نے خلاف ورزی کی اس کی گردن ماری گئی۔ شراپ نویشی کو سختی سے روکا گیا انگور کی سیکرڑوں بیلیں کاٹ دی گئیں، شہد کے پانچ ہزار مٹکے دریائے نیل میں بھادیے، قمار بازی پر پابندی لگادی گئی، شطرنج چوسر وغیرہ کے جتنے مہرے ملے انھیں آگ لگادی گئی۔ اس زمانے میں عورتیں بناؤسنگھار کر کے سڑکوں پر پھرتی تھیں، نیل کے کنارے سیر و تفریح کے لیے جمع ہوتی تھیں، حاکم نے عورتوں کے باہر نکلنے پر سخت پابندی لگادی گئی اور ان پر یہاں تک پابندی لگائی گئی کہ وہ مکانات کے دریچوں سے سر باہر نکالیں۔ موچیوں کو ہدایت کی گئی کہ ان کے جوتے نہیں بنائیں۔ 395ھ میں ایک شوانہ مخزن کی تیاری کا حکم دیا، جس میں جلانے کے لیے لکڑیاں جمع کی گئیں۔ لوگ خوف زدہ ہو گئے اور سب لوگ جمع ہوکر حاکم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حاکم سے معافی کی درخواست کی۔ اس پر حاکم نے سب کو امن دیا۔

اہل سنت کے ساتھ سلوک[ترمیم]

حاکم نے اہل سنت کے ساتھ ناروا سلوک رکھا۔ 393ھ میں اس نے صواۃ الضحیٰ پڑھنے پر بابندی لگادی جس نے پڑھی اسے سزا دی گئی۔ تراویح کی نماز موقوف کردی گئی۔ 395ھ میں دوکانوں، مکانوں اور قبرستانوں پر سب السلف لکھوایا گیا، اہل سنت اپنے مکانوں پر رنگین اور منقش تحریروں میں اپنے مکانوں پر رنگین اور منقش تحریروں میں اپنے بزرگوں پر لعنت ملامت لکھوانے پر مجبور کیے گئے۔ اکثر لوگ جبراً دعوت اسمعیلیہ میں داخل کیے گئے اور ان کی تربیت کے لیے دارالحکمۃ بنایا گیا۔ اس نے اذان میں ’ اصلوٰۃ خیر من النوم ‘ کہنے کی بجائے ’ حی علی خیر العمل ‘ کا اعلان کیا، ماہ رمضان کے لیے اس نے حکم دیا کہ وہ ظاہر روایت پر عمل نہیں کریں بلکہ حساب سے روزے شروع کریں اور ختم کریں۔ اس طرح کے بہت سے احکامات اس نے دیے جس سے اہل سنت کی دل آذاری ہوتی تھی۔

یہود و نصارہ کے ساتھ سلوک[ترمیم]

حاکم کے ابتدائی حکومت کے ابتدائی آٹھ سال تک اہل کتاب سے ساتھ وہی سلوک کیا جاتا جو مسلمانوں کے ساتھ کیا جاتا تھا اور ان میں سے بہت سے وزیر اور دوسرے اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز رہے۔ 395ھ میں حاکم نے اہل کتاب کے ساتھ روادری کا سلوک چھوڑ دیا۔ اگرچہ اس کی بہت سی وجوہات بتائی جاتی ہیں اور ان پر بیجا سختیاں شروع کیں۔ انھیں تین باتوں میں سے اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ ( 1 ) اسلام قبول کر لیں یا مملکت فاطمیہ سے نکل کر دوسرے ملک چلے جائیں۔ ( 2 ) اگر نصاری ہوں تو کالا لباس پہنیں، جو بنو عباس کا شعار تھا اور اپنی گردنوں وزنی صلیب ڈالیں اور یہ صلیب ان کے کپڑوں میں سے نظر آتی ہوں۔ ( 3 ) اگر یہود ہوں تو پیلے رنگ کے عمامے پہنیں اور اپنے گلے میں ایک لکڑی کی بنی ہوئی گائے کے بچھڑے کی شکل لٹکائی ہو۔ اس کے علاوہ ان کے حمام بھی علحیدہ کر دیے گئے۔ تین سال کے بعد 398ھ میں ان کے اوقاف صبط کر لیے گئے۔ اگر چہ یہ احکامات تعصب پر مبنی ہیں لیکن اس کا ایک سبب اہل کتاب کا طرز عمل بھی تھا۔

ابو رکوہ کی بغاوت[ترمیم]

جب حاکم نے سختی کی تو اہل سنت اور اہل کتاب میں بے چینی پھیل گئی۔ ابو رکوہ جیسے جاہل اور آوارہ شخص نے دولت فاطمیہ کے خلاف 397ھ میں جھنڈا بلند کیا۔ اس کا نام ولید بن ہشام بن عبد ا لملک بن مروان ( بنو امیہ ) تھا۔ یہ ابو رکوہ کے نام سے مشہور تھا اس کی اموی خلیفہ ( اندلس ) سے قرابت تھی۔ اس کی اندلس کے اموی خلیفہ سے قرابت تھی۔ اس نے آہستہ آہستہ لوگوں کو اپنی طرف راغب کیا۔ اس زمانے میں کئی وزیر اور عہدہ دار حاکم کے حاتوں قتل اور بہت سے گرفتار ہو چکے تھے اور رعایا بھی حاکم کی سختیوں سے سخت نالاں تھی۔ ابو رکوہ نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور بنو قرہ اور دوسرے بربری قبائل کو اپنی طرف راغب کیا اور برقہ پر حملہ کر دیا۔ عامل برقہ نے حاکم کو اطلاع دی۔ حاکم نے ینال کی سرکردگی میں ایک فوج روانہ کی۔ ابو رکوہ نے راستہ کے تمام کنوئں پٹوادیئے۔ مصری فوج برقہ پہنچی تو پانی نہ ملنے کی وجہ سے سخت نڈھال تھی اور عین لڑائی کے موقع پر کتامی فوج ابو رکوہ کے ساتھ مل گئی۔ مصری فوج کو شکست ہوئی اور ینال مارا گیا۔

ایسے نازک موقع پر بعض حکومتی عہدہ دارں نے ابو رکوہ سے خفیہ مراسلت کی اور اسے مصر پر حملہ کرنے کی ترغیب دی۔ پھر بھی حاکم نے مستعدی سے کام لیا اور مزید فوجیں روانہ کیں۔ لیکن ابو رکوہ نے انھیں شکست دے دی۔ ابو رکوہ مصر پہنچ گیا اور جیزہ کے قریب اس نے ایک مصری فوج کو شکست دے دی۔ لیکن ابو رکوہ کو دریا پار کرنا آسان نہیں تھا۔ ابو رکوہ فیوم پہنچ گیا۔ شامی اور مصری کو فضل بن صالح کی سرکردگی میں ابو رکوہ کے مقابلے کے لیے روانہ ہوئیں۔ عرب فوجوں کے قائدین کو ابو رکوہ خفیہ طور پر اپنے ساتھ ملا لیا۔ اس کی اطلاع فضل کو ہو گئی۔ فضل نے عرب سرداروں کو عین لڑائی کے وقت روک لیا۔ عرب سپاہیوں کو یہ بات نہیں معلوم تھی۔ اس لیے عرب سپاہی بے جگڑی سے لڑے اور اس کے نتیجہ میں ابو رکوہ کو 693ھ میں شکست ہو گئی۔ ابو رکوہ نوبہ فرار ہو گیا، لیکن گرفتار ہوا اور سولی پر چڑھا دیا گیا۔

ابو رکوہ کے حملے کا اثر یہ ہوا کہ حاکم نے اپنے نظام حکومت میں اہم تبدیلیاں کیں۔ جن عہدہ داروں نے ابو رکوہ سے خفیہ مراسلت کی تھی۔ انھیں اپنے عہدوں سے معزول کر دیا۔ ان عمالوں آہستہ آہستہ قتل کروا دیا۔

حاکم کا عدم استقلال[ترمیم]

ابو رکوہ کے حملے کا یہ اثر ہوا کہ حاکم نے 398ھ میں نظام حکومت میں اہم تبدیلیاں کیں۔ دریائے نیل میں پانی کم آنے سے غلے کے نرخ بڑھ گئے۔ حاکم نے اس کے صدباب کی کوشش کی۔ لیکن 399ھ میں پھر دریائے نیل میں پانی کم آیا۔ جس سے قحط کی صورت حال پیدا ہو گئی۔ دوسری طرح طاعون کا حملہ ہو گیا۔ اس لیے حاکم نے بہت سے محاصل معاف کر دیے۔ 400ھ میں خمس، فطرہ، زکواۃ اور نحوی بھی اٹھالیے۔ قیصر میں بیت الحکمۃ کی جو خاص مجالس منعقد کی جاتی تھیں بند کر دی گئیں۔ اذان میں ’ الصلوۃ خیر النوم ‘ کہنے کی ممانعت کردی گئی۔ اس کی بجائے ’ حئی علی خیر العمل ‘ کے اعلان کا حکم دیا۔ صلوۃ الضحیٰ اور صلواۃ التراویح ‘ اجازت دے دی گئی۔

ان احکامات کو حاکم نے 403ھ میں منسوخ کر دیے گئے۔ اذان میں ’ الصلوۃ خیر النوم ‘ کہنے کا حکم دیا گیا اور ’ حئی علی خیر العمل ‘ کی ممانعت کردی گئی۔ صلوۃ الضحیٰ اور صلواۃ التراویح ‘ کی ممانعت کردی گئی۔ 401ھ میں موصل، انبار مدائن اور کوفہ وغیرہ میں حاکم کا خطبہ پڑھا گیا۔ لیکن حلب دولت فاطمیہ کہ ہاتھ سے نکل گیا۔

بنو فاطمہ کے نسب پر محصر[ترمیم]

سانچہ:امام 406ھ میں خلیفہ بغداد نے ایک محصر تیار کرا یا جس پر علوی خاندان کے بڑے سرداروں اور فقہیوں کے دتخط تھے کہ بنو فاطمہ کا تعلق علوی نہیں ہیں۔ اس پر ابن خلدون نے تنقید کی ہے کہ ان کی شہادتیں صرف سماع پر موقوف تھیں اور یہ سب بنو عباس کے طرف دار تھے۔

وزیروں، قاضیوں عہدے داروں اور رئیسوں کا قتل[ترمیم]

برجوان حاکم کا پہلا وزیر تھا۔ تین سال کے بعد حاکم نے 983ھ میں قتل کروا دیا۔ حسین جوہر وزیر تقریباً نو سال تک وزیر رہا۔ 397ھ میں اسے برطرف کر کے نظر بند کر دیا۔ پھر اس کا قصور معاف کریا۔ علی بن صالح وزیر بنا یہ ایک سال بعد موقوف ہوا اور دوسال کے بعد قتل ہوا۔ 398ھ منصور نصرانی کو وزیر بنایا گیا یہ بھی قتل کر دیا گیا۔ اس کاجانشین احمد قشوری کی گردن صرف دس دن کے بعد مار دی گئی۔ اس کے بعد زرعہ عیسیٰ ابن نسطورس وزیر بنا، دو سال کے بعد اس کا انتقال ہو گیا۔ حاکم کے وزیروں میں یہ واحد وزیر تھا جو طبعی موت مرا ہے۔ امین الا منا ھسین بن طاہر کو وزارت کا عہدہ دیا گیا، دو سال کے 405ھ میں یہ قتل کر دیا گیا۔ عبد الرحیم ابن ابی السید کاتب وزیر بنا، دو مہینے کے بعد ہی اس کی گردن ماردی گئی۔ اس کے بھائی ابو عبد اللہ حسین وزیر بنا لیکن دومہینے کے اس کا بھی بھائی کی طرح حشر ہوا۔ اس کے فضل بن جعفر وزیر کی گردن تو صرف پانچ دن کے بعد ہی ماردی گئی۔ حاکم کا آخری وزیر ذو ریاستین قطب الدولہ ابو الحسن علی بن جعفر بن فلاح کتامی تھا۔ جو 405ھ سے حاکم کے مفقود ہونے تک یعنی 411ھ تک وزیر بنا رہا۔

قاضی جو حاکم کے دور میں رہے ان کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ پہلا قاضی محمد بن نعمان نے 389ھ میں وفات پائی۔ ابو عبد اللہ حسین بن علی کو قاضی بنایا گیا، چھ سال بعد 395ھ میں اس کو قتل کر کے اس کی لاش جلادی گئی۔ عبد العزیز بن محمد قاضی بنا دو سال کے بعد برطرف کر دیا گیا۔ یہ خوف کی وجہ سے مصر چھوڑ کر چلاگیا اور 401ھ میں واپس آیا تو حاکم نے اسے قتل کرا دیا گیا۔ مالک بن سعید الفارقی کو اس کی جگہ دی گئی۔ چار سال کے بعد 401ھ میں اس کی گردن ماردی گئی۔ احمد بن محمد قاضی بنا لیکن معلوم نہیں اس کا کیا حشر ہوا شاید یہ حاکم کا آخری قاضی تھا۔

دوسرے عہدے دار اور رئیں جو حاکم کے دور میں قتل ہوئے ان کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ استاد ریدان صقیلی۔ علی بن عمر الدواس، قائد فضل بن صالح، ابو علی فضل کا بھائی قائد نین، کاتب ابو القاسم علی بن احمد الجر جرائی اور مغربی کے سات بیٹے۔ جملہ تعداد وزیروں، قاضیوں، عہدے داروں اور رئیسوں جن کی گردنیں ماری گئیں، چھبیس ہے۔

جو شخص قتل ہوتا اس کی جائداد کی حفاظت کے لیے ایک خاص دفتر کھولا جاتا، جس کو دیوان مفرد کہتے تھے۔ رئیسوں کے علاوہ بہت سے خادموں اور فراشوں کی گردنیں ماری گئیں اور ان کے اعضائ بھی کاتے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ حاکم کا خادم کہا ملوخیا کو قتل حاکم نے خود اپنے ہاتھ سے کیا تھا۔

دار الحمکۃ کا قیام[ترمیم]

395ھ میں دار الحکمۃ قائم کیا گیا۔ اس اصل غایت شیعی علوم کی اشاعت تھی۔ مگر اس میں قاری، فقیہ، نحوی، ادیب، منجم اور طبیب بھی مقرر کیے گئے۔ کچھ عرصہ کے بعد اس میں اہل سنت کی تعلیم موقوف کردی گئی اور کئی استاتذہ جس میں فقیہ ابو بکر الانطاکی وغیرہ شامل ہیں قتل کروا دیا۔

اس مدرسہ کے ساتھ ایک تب خانہ بھی کھولا گیا، جس میں قیصر شاہی کی تمام کتب منتقل کردی گئیں۔ اس کتب خانہ میں کاغذ و دوات وغیرہ اور دوسری تمام اشیائ فراہم کی گئیں جن کی مدرسہ میں ضرورت ہوتی ہے۔

اس میں حاکم نے ایک رصد گاہ بھی بنوائی اور اپنے زمانے کے مشہور ہیت دان علی بن یونس کو حکم دیا کہ ایک زیح تیار کرے۔ یہ زیح مامون کے زمانے میں جو زیح تیار کی گئی تھی اس کہیں زیادہ جامع تھی۔ اس زیح سے عرصہ دراز تک لوگ اپنے حسابات نکالنے کے لیے مدد لیتے تھے۔

مسجدوں کی تعمیر اور اشیائ ضرورت کی فراہمی[ترمیم]

اس کی سب سے مشہور جامع الحاکم تھی جس کی بنیاد عزیز نے رکھی تھی۔ حاکم نے چالیس ہزار دینار سے اس کی تکمیل393 ھ میں کی۔ اس کے علاوہ مزید پانچ ہزار دینار سے اس کی چٹائیاں، قندیلیں اور پردے مہیا کیے۔ اس کی حفاظت اور مرمت کے لیے ایک بڑی املاک وقف کی۔

اس کے علاوہ قاہرہ اور دیگر شہروں میں کئی مسجدیں بنوائیں اور مرمت کروائیں۔ اس کے علاوہ ان مسجدوں کو مصارف کے علاوہ کلام اللہ، پردے اور چٹائیاں اور دوسری اشیائ فراہم کیں اور ہر مسجد میں موزن، قاری، ہانی کے حوض، دواخانوں اور کفنوں کے لیے وقف قائم کیے۔

خلیج اسکندریہ[ترمیم]

حاکم نے خلیج اسکندریہ 404ھ میں تیار کی گئی، جس پر پندرہ ہزار دینار کے مصارف آئے۔

حاکم کی سادگی اور فیاضی[ترمیم]

بنو فاطیہ اپنی شان و شوکت کے لیے بڑا اہتمام کرتے تھے۔ ان کے محلات طرح طرح کی آریشوں اور دیبائیشوں سے مزین کیے جاتے تھے۔ ان کی سواری بڑی و اہتمام سے نکلتی تھی۔ ان ثروت، ان کی محلات اور دربار عام کی تفصیل مورخوں نے دیں ہیں۔ دولت فاطمہ میں یہ رسم عام تھی جب کبھی امام کی سواری نکلتی تھی تو لوگ اس کے سامنے زمین بوسی کرتے تھے۔ دربار میں اس کے سامنے سجدہ کرتے تھے۔ حاکم نے یہ رسم بھی موقوف کردی تھی۔ اس کے محل کے اطراف میں جو نوبت بجائی جاتی تھی وہ بھی اس نے بند کروا دی تھی۔ ان نے یہ ہدایت بھی کی کہ سلام میں اسے صرف اسلام علیٰ امیر المومنین کہنا کافی ہے۔

حاکم اس روش کے برعکس بالکل سادہ زندگی بسر کرتا تھا۔ جب یہ باہر نکلتا تو معملولی سوتی لباس، سر پر معمولی عمامہ اور جوتا بھی معمولی ہوتا تھا۔ عید کے لیے نکلتا تھا تو اس کی سواری سے سادگی ٹپکتی تھی۔ زینت کا کوئی سامان نہ تھا جلوس می دس گھوڑے تھے۔ جن پر معملولی زینیں کسی ہوئی تھیں۔ حاکم اکثر اپنے گدھے پر سوار ہو کر نکلتا تھا۔ لوگ اس کے گرد جمع ہوجاتے تھے اور اپنی درخواستیں پیش کرتے تھے۔ وہ بڑی دیر ان کی خاطر کھڑا رہتا تھا۔ کوئی سپاہی انھیں روک نہیں سکتا تھا۔

حاکم مال و دولت صرف کرنے میں بڑا فیاض تھا۔ خاس کر خدمت گاروں اور نوکروں کو بہت انعام دیتا تھا۔ حاکم فیاضی میں نیک و بد کی تمیز نہیں کرتا تھا۔

دروزیہ فرقہ[ترمیم]

آخر زمانے میں حاکم پر جنون کا دورہ پڑا اور اس کو یہ گمان ہونے لگا کے اللہ اس کے اندر حلول کر گیا ہے۔ اس نے اپنے مریدوں کو حکم دیا کہ اس کو پوجیں اور جب اس کا نام آئے تو وہ سجدے میں جھک جائیں۔ اس کے چند داعیوں نے یہ مذہب اختیار کر لیا اور اس کو اللہ کا خلیفہ کی بجائے اسے خدا ماننے لگے اور اس کی تائید میں حسن بن حیدر فرقانی نے الرسالہ الواعظ لکھا۔ جس میں حاکم کی الوہیت کی تائید کی تھی اور کہا کہ حاکم مجسم خدا ہے۔ یہ شیعی باطنی تصوف کا انتہائی نتیجہ ہے۔ اس کے ماننے والوں ی تعداد روز بروز تعداد بڑھنے لگی۔ حاکم نے اس کو بلا کر خلعت اور انعام دیا۔ لیکن جلد ہی بازار میں لوگوں نے اس کو قتل کر دیا۔ اس نے لوگوں کو کہا کہ وہ خدا کی بجائے حاکم کی عبادت کریں۔ اس کے بعد ایک ان کی تعداد روز بروز تعداد بڑھنے لگی۔ حاکم نے اس کو بلا کر خلعت اور انعام دیا۔ لیکن جلد ہی بازار میں لوگوں نے اس کو قتل کر دیا۔

409ھ میں ایک دوسرا عجمی داعی حمزہ لیاد زدزن مصر آیا۔ یہ بھی حلول و تناسخ قائل تھا۔ اس نے اپنے پیروں کو ہدایت کی کہ خدا کی بجائے حاکم کی عبادت کریں۔ یہ خلوت میں حاکم سے ملتا۔ اس نے حاکم سے کہا کہ مجھے اپنی جان کا خوف ہے۔ کہیں میرا حشر فرغانی سا نہ ہو۔ حاکم نے اس کی حفاظت کا معقول انتظام کیا۔

410ھ میں ایک ترک اثوستگین آیا جو درازی کہلاتا تھا۔ وہ بھی لوگوں سے حاکم کو پوجنے کی تلفین کرتا تھا۔ لوگوں نے اس کو مارا پیٹا تو حاکم نے اس پر تشدد کرنے والے لوگوں کو گرفتار کر کے انھیں مختلف اوقات میں قتل کروا دیا۔ اس پر لوگوں اور ترکوں کا یہ امر شاق گذرا اور انھوں نے اس کو قتل کرنا چاہا۔ یہ بھاگ کر حاکم کے محل میں چھپ گیا لوگوں نے حاکم سے اسے اس کے قتل کا مطالہ کیا تو حاکم نے لاعلمی کا اظہار کیا اور اسے بھگا دیا درازی لبنان چلاگیا۔ جہاں اس نے دروزی فرقہ کی بنیاد رکھی۔

فسطاط میں فساد[ترمیم]

حاکم کی تلون مزاجی سے تنگ آکر مصری اس سے نفرت کرنے لگے اور اس کا اظہار بھی کرنے لگے۔ اس پر حاکم نے اپنے غلاموں کو خفیہ فسطاط بھیجا، انھوں نے فسطاط میں لوٹ مار کی اور آگ لگادی، جس پر ترکوں اور کتامیوں نے ان کا مقابلہ کیا اور بہت سے لوگ مارے گئے۔

حاکم کا غائب ہوجانا[ترمیم]

حاکم اکثر گدھے پر سوار ہو کر قاہرہ کے باہر تمام رات گھوما کرتا تھا۔ ایک دن اس کے ساتھ دو خدمت گار تھے۔ اس نے انھیں واپس بھیج دیا اور خود حلوان کے شرقی علاقہ کی طرف چلدیا۔ جب اسے دیر ہو گئی تو لوگوں اسے تلاش کرنے کی کوشش کی مگر کسی کو نہیں ملا۔ البتہ اس کے گدھے کی لاش اور اس خون الودہ کپڑے ملے، مگر اس کا پتہ نہیں چلا۔ جو لوگ اس کی محبت میں غلو رکھتے تھے وہ یقین نہیں کرتے تھے کہ حاکم مرا ہے۔ ان کا خیال تھا حاکم دوبارہ آئے گا۔[1]۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ڈاکٹر زاہد علی۔ تاریخ فاطمین مصر

بیرونی روابط[ترمیم]

حاکم بامراللہ
پیدائش: 13 اگست 985ء وفات: 13 فروری 1021ء
شاہی القاب
ماقبل  فاطمی خلیفہ
14 اکتوبر 996ء– 13 فروری 1021ء
مابعد