"توہین رسالت قانون (معترضین کے دلائل)" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 7: سطر 7:


2۔ اس آرڈیننس کے تحت عفو و درگذر اور توبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ اگر کسی سے بھولے سے بھی کوئی غلطی ہو گئی ہے تو موجودہ آرڈیننس کے تحت آپ کو توبہ کا کوئی موقع نہیں ملے گا اور ہر حال میں قتل کی سزا ملے گی۔
2۔ اس آرڈیننس کے تحت عفو و درگذر اور توبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ اگر کسی سے بھولے سے بھی کوئی غلطی ہو گئی ہے تو موجودہ آرڈیننس کے تحت آپ کو توبہ کا کوئی موقع نہیں ملے گا اور ہر حال میں قتل کی سزا ملے گی۔

==کیا ماورائے عدالت قتل کو روکا جا سکتا ہے؟ ==

یہ ناممکنات میں سے ہے کیونکہ ان لوگوں کے دلائل یہ ہیں:

# عصماء بنت عمیس کا واقعہ جو کہ علماء حضرات بڑھ چڑھ کر معصوم عوام الناس کو سنا رہے ہوتے ہیں۔ اس میں صحابی عمیر بن عدی کے نام پر یہ سنت بیان کی جا رہی ہے کہ انہوں نے اپنی طرف سے فیصلہ کر کے اس عورت کو "ماورائے عدالت" قتل کر دیا۔ اور جب بعد میں رسول (ص) کو علم ہوا تو وہ اس ماورائے عدالت فعل سے خوش ہوئے۔
# ابن عباس والی روایت جہاں نابینا صحابی نے اپنے دو بچوں کی ماں کنیز کو ایک دن غصے میں آ کر ماورائے عدالت قتل کر دیا، اور جب رسول (ص) کو علم ہوا تو وہ اس فعل پر راضی ہوئے۔
# ام مکتوم والی روایت جہاں پھر سے ماورائے عدالت قتل پر رسول (ص) کو راضی بتایا گیا ہے۔
# علی ابن ابی طالب سے مروی یہودیہ عورت کا ماورائے عدالت قتل جس پر پھر رسول (ص) کو راضی بتایا گیا ہے۔

اگرچہ کہ بذات خود ان حضرات کی اکثریت ماورائے عدالت قتل کو ناجائز بتاتے ہوئے اس کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے، مگر انتہا پسند حضرات کے پیش کردہ ان دلائل کا انکے پاس کوئی جواب نہیں ہے اور جلد یا بدیر انتہا پسند حضرات اس امر میں اِن پر غالب آنےوالے ہیں۔

مثال کے طور پر انٹرنیٹ پرسعودیہ کے مفتی، ناصر الدین البانی صاحب کے حوالے یہ تحریر [http://archive.is/20130422152944/http://webcache.googleusercontent.com/search?q=cache:eF-OHPynOikJ:baazauq.blogspot.com/2011/01/kia-qaanoon-awaam-ke-haath-hai.html+%D9%85%DA%AF%D8%B1+%D8%B9%D9%85%D9%88%D9%85%DB%8C+%D9%82%D8%A7%D8%B9%D8%AF%DB%81+%DB%8C%DB%81+%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA+%DA%A9%DB%81+%DB%81%D8%B1+%DA%A9%D9%88%D8%A6%DB%8C+%D8%AE%D9%88%D8%AF+%D8%B3%DB%92+%D9%82%D8%AA%D9%84+%DA%A9%D8%B1+%D8%AF%DB%92&cd=1&hl=de&ct=clnk&gl=de لنک]) جہاں ایک طرف وہ ماورائے عدالت قتل کرنے کی حوصلہ شکنی کر رہے ہیں، مگر دوسری طرف ہی انہیں خود ماننا پڑ رہا ہے کہ اگر کوئی شخص ایسے ماورائے عدالت قتل کر بھی دے تو بھی اس کا کوئی مواخذہ ہو گا اور نہ کوئی سزا۔

<blockquote>عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ سے کچھ سوال جواب یوں ہوئے ہیں :<br>سوال :<br>کیا اہانتِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے مرتکب کو کوئی بھی عام مسلمان قتل کر سکتا ہے؟<br>جواب :<br>یہ بات صحیح ہے کہ اہانت رسول کرنے والے کی سزا موت ہےلیکن اس کا حق صرف حکمران کو یا اس کے نائب کو ہے ہر کسی کو نہیں<br>سوال :<br>بعض لوگ دلیل دیتے ہیں کہ ایک صحابی نے بغیر حکومت کے بھی خود سے اپنی لونڈی کو قتل کر دیا کہ جب اس نے اہانت رسول کی<br>جواب :<br>یہ تو ایک واقعہ ہے کہ جب کوئی جذبات میں مغلوب ہوکر ایسا اقدام کرلے تو قدراللہ وماشاء فعل دلائل سے ثابت ہونے کے بعد اس کا مواخذہ پھر نہیں ہونا چاہیے مگر عمومی قاعدہ یہ نہیں کہ ہر کوئی خود سے قتل کر دے<br>سوال:<br>مرنے والے پر اظہار افسوس ؟؟<br>جواب :<br>نہیں افسوس تو نہیں ہوسکتا۔</blockquote>

اس سوال جواب میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بنیادی طور پر شیخ ناصر الدین البانی صاحب کی کوشش ہے کہ چیزوں کو اعتدال میں لیا جائےکہ یہ صرف حکومت یا عدالت کا حق ہےکہ سزا دے۔ مگر دوسری طرف جن روایات کو وہ خود بغیر درایت کے اصولوں پر پرکھے توہین رسالت کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں اور جہاں نہ کسی گواہ کی ضرورت ہے اور نہ عدالت کی، اسی کو بنیاد بنا کر انتہا پسند انہیں مجبور کر رہے ہیں کہ وہ مانیں کہ اگر کوئی شخص ماورائے عدالت بھی قتل کر دے تو بھی اسکا مواخذہ ہو سکتا ہے اور نہ کوئی سزا۔



== سورۃ المائدہ آیت 33 کا غلط استعمال ==
== سورۃ المائدہ آیت 33 کا غلط استعمال ==

نسخہ بمطابق 01:45، 12 جولائی 2014ء


اب تک عدالت کےحکم کے تحت کسی توہین کر مرتکب شخص کو قتل نہیں کیا گیا ہے، مگر اس دوران میں دس افراد کو جیلوں میں ماورائے عدالت قتل کیا جا چکا ہے۔[1] اس آرڈیننس کے دو تعبیرات پر شدید تنقید ہے۔

1۔ چھوٹی سی چھوٹی بات پر بھی اس آرڈیننس کے تحت قتل کی سزا ہو جاتی ہے۔

2۔ اس آرڈیننس کے تحت عفو و درگذر اور توبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ اگر کسی سے بھولے سے بھی کوئی غلطی ہو گئی ہے تو موجودہ آرڈیننس کے تحت آپ کو توبہ کا کوئی موقع نہیں ملے گا اور ہر حال میں قتل کی سزا ملے گی۔

سورۃ المائدہ آیت 33 کا غلط استعمال

موجودہ توہین رسالت آرڈیننس والے سورۃ المائدہ کی آیت 33 کے حوالے سے دعوی کرتے ہیں کہ اس سے توہین رسالت کا موجودہ قانون ثابت ہوتا ہے۔


یہ دعوی غلط ہے۔ اس قرآنی آیت زمین میں فساد پھیلانے والوں کا ذکر ہے جو کہ قتل و خونزیزی اور ڈاکہ زنی جیسے جرائم کے متعلق ہے۔ اس قرانی آیت کو سیاق و سباق کے ساتھ پڑھیے:

[سورۃ المائدہ 5:32] اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر (نازل کی گئی تورات میں یہ حکم) لکھ دیا (تھا) کہ جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے یعنی خونریزی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کی سزا) کے (بغیر ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے اسے (ناحق مرنے سے بچا کر) زندہ رکھا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو زندہ رکھا (یعنی اس نے حیاتِ انسانی کا اجتماعی نظام بچا لیا)، اور بیشک ان کے پاس ہمارے رسول واضح نشانیاں لے کر آئے پھر (بھی) اس کے بعد ان میں سے اکثر لوگ یقیناً زمین میں حد سے تجاوز کرنے والے ہیں

[سورۃ المائدہ 5:33] بیشک جو لوگ اﷲ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد انگیزی کرتے پھرتے ہیں (یعنی مسلمانوں میں خونریز رہزنی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں) ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کئے جائیں یا پھانسی دیئے جائیں یا ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹے جائیں یا (وطن کی) زمین (میں چلنے پھرنے) سے دور (یعنی ملک بدر یاقید) کر دیئے جائیں۔ یہ (تو) ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لئے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہے

اس آیت کریمہ میں ہاتھ پیر کاٹنے کی سزا فساد فی الارض سے متعلق ہے۔ سیاق و سباق کے علاوہ بہتر ہو گا کہ اس آیت کریمہ کی تفسیر کو پڑھ لیا جائے جو کہ اختصار کے پیش نظر یہاں پیش نہیں کر رہے۔ مگر اسکے بعد آپ کو اور زیادہ واضح ہو جائے گا کہ ان قرآنی آیا ت کواستعمال کر کے ہرگز موجودہ توہینِ رسالت آرڈیننس ثابت نہیں کیا جا سکتا ہے۔

سورۃ التوبہ، آیت 12 کا غلط استعمال

سورۃ توبہ کی اس آیت مبارکہ میں اللہ نے اُن "ائمہ کفر (کفر کے سرداروں)” سے لڑنے کا حکم دیا ہے جنہوں نے قسم کھا کر اپنے عہد کو توڑ دیا تھا اور دینِ اسلام کی انتہائی مخالفت کرتے ہوئے اس میں طعن کرتے تھے۔ دین میں اس طعن کے نام پر یہ "تفسیر بالرائے" پیش کی گئی ہے کہ توہینِ رسالت کرنے والا قابل قتل ہے۔

[القرآن توبہ، 12] وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ ۙ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُونَ

‏‏ [محمودالحسن‏ توبہ آیت 12] اور اگر وہ توڑ دیں اپنی قسمیں عہد کرنے کے بعد اور عیب لگائیں تمہارے دین میں تو لڑو کفر کے سرداروں سے بیشک ان کی قسمیں کچھ نہیں تاکہ وہ باز آئیں۔

یہاں ذکر ہے اول "کفر کے ائمہ(سرداروں)" کا، یعنی جن کا کفر انتہائی شدید ہے اور جو عملی طور پر مسلمانوں کی جانوں کے لیے خطرہ ہے۔ اور دوم یہ کہ یہ آیت ہے جب انہوں نے اپنے معاہدے کو توڑ دیا تھا۔

تفسیر عثمانی میں اسکی تفصیل یہ ہے:

"یعنی اگر عہد وپیمان توڑ ڈالا (جیسے بنی بکر نے خلاف عہد خزاعہ پر حملہ کر دیا اور قریش نے حملہ آوروں کی مدد کی) اور کفر سے باز نہ آئے بلکہ دین حق کے متعلق طعنہ زنی اور گستاخانہ عیب جوئی کرتے رہے تو سمجھ لو کہ اس طرح کے لوگ "ائمۃ الکفر" (کفر کے سردار اور امام) ہیں۔ کیونکہ ان کی حرکات دیکھ کر اور باتیں سن کر بہت سے کجرو اور بیوقوف پیچھے ہو لیتے ہیں۔ ایسے سرغنوں سے پورا مقابلہ کرو۔ کیونکہ ان کا کوئی قول و قسم اور عہد و پیمان باقی نہیں رہا۔ ممکن ہے تمہارے ہاتھوں سے کچھ سزا پا کر اپنی شرارت و سرکشی سے باز آجائیں۔"

موجودہ توہین آرڈیننس کے حامی حضرات کی اس دلیل میں یہ خامیاں ہیں کہ:

  1. اس آیت کے نزول کے سیاق و سباق کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
  2. صحابہ کرام (اور تابعین) سے اس آیت کی جو تفسیر مروی ہے اُسے بھی مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے کیونکہ اُن کی بیان کردہ تفسیر انکے مؤقف کے بالکل خلاف ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ صحابہ کرام انکے برعکس یہ تفسیر اس آیت کے نزول کے حالات کے سیاق و سباق میں کر رہے ہیں۔
  3. رسول (ص) کی زندگی یا صحابہ کرام کے ادوار میں ایک بھی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا جہاں شاتم رسول کو اس آیت کا حوالہ دے کر قتل کیا گیا ہو۔
  4. پھر یہاں کسی عام ایک دو دفعہ گستاخی کرنے والا ذکر نہیں ہے بلکہ صرف "ائمہ الکفر" کا ذکر ہے۔
  5. پھر بدعہدی کرنے اور قسمیں کھا کر انہیں توڑ دینے کا ذکر ہے جس کا حکم شروع سے موجود ہے کہ ایسے عہد شکنوں سے قتال کرنا ہے۔
  6. انہوں نے اپنی تفسیر بالرائے میں دین میں طعن کو فقط توہینِ رسالت تک محدود کر دیا ہے۔ اگر تفسیر بالرائے کرنی ہی ہے اور "عہد شکنی" اور "ائمہ الکفر" کی شرائط کو نظر انداز کرنا ہی ہے تو پھر صرف ایک توہینِ رسالت پر ہی کیوں بلکہ دین اسلام پر کسی بھی قسم کےچھوٹے سے چھوٹے طعن کرنے والے کو بھی قتل کی سزا سنا دیجئے۔ مثلاصحیح بخاری (کتاب التفسیر۔ لنک) کی یہ روایت:
    حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے:
    آپ(ص) نے فرمایا کہ اللہ نے فرمایا کہ مجھے ابن آدم نے جھٹلایا حالانکہ اس کے لئے یہ مناسب نہ تھا اور مجھے گالیاں دیں حالانکہ اس کے لئے یہ مناسب نہ تھا مجھے اس کا جھٹلانا تو اس کا یہ قول ہے کہ مجھے دوبارہ زندہ نہیں کرے گا جس طرح مجھے شروع میں پیدا کیا حالانکہ پہلی بار پیدا کرنا مجھ پر اس کے دوبارہ پیدا کرنے سے آسان نہیں ہے اور اس کا مجھے گالی دینا اس کا یہ قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیٹا بنا لیا ہے حالانکہ میں ایک ہوں بے نیاز ہوں نہ میں نے کسی کو جنا اور نہ میں کسی سے جنا گیا اور نہ میرا کوئی ہمسر ہے۔ (آیت) اللہ بے نیاز ہے عرب اپنے سردار کو صمد کہتے ہیں
    چنانچہ تفسیر بالرائے کو ہی اوڑھنا بچھونا بنانا ہے تو پھر تو تمام تر اہل کتاب عیسائیوں اور یہودیوں کو بھی قتل کر ڈالیں کیونکہ وہ تو مسلسل اللہ کو گالیاں دے رہے ہیں اور یہ تو دین میں عظیم ترین طعن ہے۔

  7. اور انسانوں کے قتل و خون کرنے کے لیےکسی پلپلی نہیں، بلکہ بہت ٹھوس دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیا یہ لوگ ٹھوس دلیل کی جگہ فقط اپنی "تفسیر بالرائے" کی بنیاد پر انسانوں کے خون کے فتوے جاری کرنا شروع کر دیں گے؟ اور پھر یہ "تفسیر بالرائے" بھی ایسی کہ جس کے حق میں رسول (ص) کا کوئی قول نہیں ملتا ہے اور نہ آپ (ص) نےاپنی پوری زندگی میں توہینِ رسالت کرنے والے کسی شخص کو اس آیت کے نام پر قتل کیا۔۔۔ اور صحابہ کرام کی پیش کردہ تفسیرتو اسکےبالکل مخالف ہے۔۔۔۔۔ نہ صرف صحابہ بلکہ امام ابو حنیفہ ، امام ثوری اور اہل کوفہ کی رائے کے بھی اس تفسیر بالرائے کے بالکل خلاف ہے۔

امام ابو حنیفہ کے متعلق اوپر ہم پیش کر چکے ہیں کہ اسی آیت سے کے متعلق انہوں نے انکی یہ تفسیر بالرئے مسترد کی تھی۔امام المنذری کے حوالے درج ہے کہ:

أبا حنيفة والثوري وأتباعهما من أهل الكوفة فإنهم قالوا: لا يقتل، ما هو عليه من الشرك أعظم، ولكن يؤدب ويعزر. والحجة عليه قوله تعالى: "وإن نكثوا" الآية.

یعنی امام ابو حنیفہ، امام سفیان ثوری اور انکی اتباع میں اہل کوفہ کا قول ہے کہ شاتم رسول (ص) کو قتل کی سزا نہیں دی جائے گی ،ان کی دلیل یہ ہے کہ مشرک کو شرک کے جرم میں قتل کرنا جائز نہیں حالانکہ شرک سب سے بڑا جرم ہے۔بلکہ (قتل) کی بجائے انہیں ادب سکھایا جائے اور تعزیر لگائی جائے (یعنی ہلکی سزا جس کا فیصلہ حکومتِ وقت کرے)۔ اور انہوں نے حجت پکڑی ہے اللہ تعالی کے اس قول سے "وان نکثوا" والی آیت۔

وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ ۙ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُونَ﴿009:012﴾
‏ [محمودالحسن‏] اور اگر وہ توڑ دیں اپنی قسمیں عہد کرنے کے بعد اور عیب لگائیں تمہارے دین میں تو لڑو کفر کے سرداروں سے بیشک ان کی قسمیں کچھ نہیں تاکہ وہ باز آئیں۔

تفسیر صلاح الدین (شاہ فہد پرنٹنگ پریس کا شائع کردہ) میں اس آیت کے ذیل میں درج ہے:۔

اس سے احناف نے استدلال کیا ہے کہ ذمی (اسلامی مملکت میں رہائش پذیر غیر مسلم) اگر نقض عہد نہیں کرتا۔ البتہ دین اسلام میں طعن کرتا ہے تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا کیونکہ قرآن نے اس سے قتال کے لیے دو چیزیں ذکر کی ہیں اس لیے جب تک دونوں چیزوں کا صدور نہیں ہوگا وہ قتال کا مستحق نہیں ہوگا۔

تفسیر بالرائے کے مقابلے میں اس آیت کی تفسیر میں جو روایات (صحیح) موجود ہیں، انہیں یہاں پیش کرتے ہیں۔تفسیر بالرائے عموماً قرآنسٹ (منکر حدیث) حضرات کی وصف ہے جہاں وہ آیت کے نزول کے سیاق و سباق کو نظر انداز کر کے قرآنی آیات کو ہر طریقے سے اپنی خواہشات کے مطابق توڑ مڑوڑ سکتے ہیں۔

پہلی روایت (قتادہ):

حدثنا بشر، قال: ثنا يزيد، قال: ثنا سعيد، عن قتادة: { وَإنْ نَكَثُوا أيمَانَهُمْ مَنْ بَعْد عَهْدِهِمْ... } إلى: { يَنْتَهُونَ } ، فكان من أئمة الكفر: أبو جهل بن هشام، وأمية بن خلف، وعتبة بن ربيعة، وأبو سفيان، وسهيل بن عمرو، وهم الذين هموا بإخراجه.

امام عبدالرزاق، ابن جریر طبری، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو شیخ نے حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے فرمایا: "ائمۃ الکفر" سے مراد ابو سفیان بن حرب، امیہ بن خلف، عتبہ بن ربیعہ، ابو جہل بن ہشام اور سہیل بن عمرہ ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے عہد کو توڑا اور رسول (ص) کو مکہ مکرمہ سے نکالنے کا قصد کیا۔

دوسری روایت (مالک بن انس):

امام ابن عساکر نے حضرت مالک بن انس رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

تیسری روایت(مجاہد):

امام طبری نے مجاہد سے یہ روایت نقل کی ہے:

حدثنا ابن وكيع وابن بشار، قال ابن وكيع: ثنا غندر، وقال ابن بشار: ثنا محمد بن جعفر، عن شعبة، عن أبي بشر، عن مجاهد: { فَقاتِلُوا أئمَّةَ الكُفْرِ أنَّهُمْ لا أيمَانَ لَهُمْ } قال أبو سفيان منهم.
اور امام ابن عساکر نے بھی ذکر کیا ہے کہ حضرت مجاہد نے کہا: "ائمہ الکفر" سے مراد سردارانِ قریش ہیں۔

چوتھی روایت (ابن عباس):

حدثني محمد بن سعد، قال: ثني أبي، قال: ثني عمي، قال: ثني أبي، عن أبيه، عن ابن عباس، قوله: { وَإنْ نَكَثُوا أيمَانَهُمْ مَنْ بَعْد عَهْدِهِمْ... } إلى: { لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُونَ } يعني: أهل العهد من المشركين

حضرت عبداللہ ابن عباس کا لقب امام المفسرین ہے۔ اور یہ اس آیت کا پس منظر بیان کر رہے ہیں کہ یہ آیت اُن مشرکین کے لیے نازل ہوئی تھی کہ جن سے عہد کیا گیا تھا۔

پانچویں روایت (عبداللہ ابن عمر ابن الخطاب):

امام ابن ابی حاتم، ابو الشیخ اور ابن مردویہ نے ذکر کیا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "ائمہ الکفر" میں سے ایک ابو سفیان بن حرب بھی ہے۔

چھٹی روایت (حضرت حذیفہ):

حدثنا ابن وكيع، قال: ثنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن زيد بن وهب، عن حذيفة: { فَقاتِلُوا أئمَّةَ الكُفْرِ } قال: ما قوتل أهل هذه الآية بعد.

امام ابن ابی شیبہ، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ لوگوں نے آپ کے پاس یہ آیت ذکر کی ہے تو آپ نے کہا: اسکے بعد اس آیت کے اہل میں سے کسی کو قتل نہیں کیا گیا ہے۔

حضرت حذیفہ کا قتل انکی تفسیر بالرائے کے بالکل خلاف ہے کیونکہ انکا دعوی ہے کہ یہ آیت توہین رسالت کرنے والے کو قتل کا حکم سنا رہی ہے اور نابینا صحابی کی کنیز وغیرہ اسی لیے قتل کیے گئے۔ جبکہ حضرت حذیفہ صاف صاف کہہ رہے ہیں کہ اس آیت کے نزول کے بعد کسی کو اس آیت کے تحت قتل نہیں کیا گیا۔ چنانچہ یا تو یہ آیت توہینِ رسالت کے متعلق نہیں یا پھر نابینا صحابی کی کنیز کا قتل نہیں ہوا۔

ساتویں روایت (حضرت حذیفہ):

امام بخاری، امام ابن ابی شیبہ، اور ابن مردویہ نے بیان کیا ہے کہ حضرت زید بن وہب نے اس آیت کے ضمن میں کہا ہے کہ ہم حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھے تو انہوں نے فرمایا: اس آیت کے اصحاب میں سے تین کے سوا کوئی باقی نہیں اور منافقین میں سے چار کے سوا کوئی باقی نہیں۔ تو ایک اعرابی نے عرض کی: بلاشبہ تم تو حضرت محمد (ص) کے اصحاب ہو، ہمیں ان امور کے بارے میں بتائیے جنہیں ہم نہیں جانتے کہ وہ کیا ہیں۔ پس ان لوگوں کا کیا حال ہے جو ہمارے گھروں کو پھاڑتے ہیں اور ہماری نفیس اور قیمتی چیزیں چرا لیتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: وہ فاسق لوگ ہیں۔ ہاں ان میں سے چار کے سوا کوئی باقی نہیں رہا۔ انہیں میں سے ایک وہ بوڑھا شخص ہے کہ اگر وہ ٹھنڈا پانی پیے تو اسکی ٹھنڈک کو محسوس نہ کرے (صحیح البخاری)۔

متفق علیہ روایات موجود ہیں جن کے مطابق رسول اللہ (ص) نے خود حضرت حذیفہ کو اپنے اصحاب میں موجود منافقین کے نام بتلائے تھے۔

آٹھویں روایت (علی ابن ابی طالب):

امام ابن مردویہ نے بیان کیا ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا قسم بخدا! جب سے یہ آیت نازل ہوئی اسکے اہل میں سے کسی کو قتل نہیں کیا گیا۔

چنانچہ علی ابن ابی طالب کے مطابق بھی اس آیت کے نزول کے مطابق اس کے کسی اہل کو قتل نہیں کیا گیا ہے

حضرت عمر ابن الخطاب والی روایت سے دلیل پکڑنا

یہ لوگ حضرت عمر ابن الخطاب کی اس روایت سے بھی دلیل پکڑتے ہیں۔ اسکی تفصیل ان حضرات کی زبانی یہ ہے:

اس ضمن میں حضرت عمر فاروقؓ کا وہ طرز عمل بھی نہیں فراموش کرنا چاہیے کہ جس کی تحسین اور تائید میں سورہ النساء کی آیت ٦٥ نازل ہوئی۔ واقعہ کچھ اس طرح سے تھا کہ ایک یہودی اور ایک مسلمان میں ایک تنازعہ ہوا. نبی کریم صلی اللہ الہی وسلم نے یہودی کے حق میں فیصلہ دیا. مسلمان جو کہ در حقیقت منافق تھا اس فیصلے سے مطمین نہ تھا اور حضرت عمر فاروقؓ کے پاس جا کر اپنے حق میں فیصلہ لینے کا ارادہ کیا. سوچا کہ حضرت عمرؓ ایک یہودی کو مسلمان پر ترجیح نہ دیں گے. وہ لوگ حضرت عمر فاروقؓ کے پاس گئے اور سارا ماجرا بیان کیا کہ کس طرح نبی کریم(ص) نے اس مقدمے کا فیصلہ یہودی کے حق میں دے دیا اور وہ منافق اس فیصلے پر مطمین نہ تھا اور حضرت عمر رض سے اپنے حق میں فیصلہ لینا چاہتا تھا. سیدناعمرؓ نے یہ سنا تو تلوار نکالی اور اس منافق کی گردن اڑا دی. اس معاملے کا ہر جگہ ذکر ہوا اور بات پھیل گئی کہ حضرت عمر فاروقؓ نے ایک مسلمان کا نا حق خون کر دیا . حضرت عمر رسول (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا یا رسول (ص)! عمر نے ایک ایسے شخص کو قتل کیا ہے جو کلمہ پڑھتا تھا، نماز پڑھتا تھا اور روزے رکھتا تھا، مگر آپ جانتے ہیں عمر نے کسی مسلم کو قتل نہیں کیا . کیونکہ وہ مسلم ہو ہی نہیں سکتا کہ جس کو آپکے فیصلے سے اتفاق نہ ہو ”
اللہ سبحانہ تعالیٰ کو سیدنا عمر فاروق کی یہ بات اس قدر پسند آئی کہ حضرت جبرئیل علیہ سلام سورہ نسا کی یہ آیت لے کر نازل ہوئے ؛
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ( سورہ النساء – آیت ٦٥ )
[سورۃ النساء 4:65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کردو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے.
یہاں سیدنا عمر فاروقؓ کا طرز عمل ایک رہنما طرز عمل ہے جس کی تحسین خود ذات حق نے کی . بغیر کسی ظاہری توہین رسالت کے وہ اتنے حساس تھے ان معاملات میں کہ توہین تو بڑی بات یہ تک گوارا نہیں تھا کہ کوئی نبی کریم(ص) کے فیصلے سے بھی عدم اتفاق کرے ۔


حضرت عمر والی اس روایت کے متعلق اصل حقائق یہ ہیں کہ:

  1. یہ روایت ضعیف ہے (اس میں ایک روای ابن لهيعة ہے جو ضعیف ہے)
  2. یہ روایت غریب ہے اور فقط ابن الاسود سے مروی ہے۔
  3. یہ روایت منکر ہے (یعنی ایسی روایت جو نہ صرف یہ کہ ضعیف ہو، بلکہ کسی صحیح روایت کے مخالف بھی ہو)
  4. اس روایت کو ثابت کرنے کے لیے ایک اور روایت پیش کی جاتی ہےجو کہ ضمرة بن حبيب سے مروی ہے۔ مگر ضمرۃ نے رسول اللہ (ص) کا دور نہیں پایا ہے، لہذا یہ لائق اعتماد نہیں۔ (اس راوی کی وفات 130 ہجری میں ہوئی ہے، یعنی رسول (ص) کی وفات کے 117 سال کے بعد)

یہ آیت نازل ہوئی جب صحابی حضرت زبیر اور ایک بدری صحابی حضرت حاطب کے مابین تنازعہ ہوا تھا اور اس کی تفسیر میں امام بخاری نے اپنی صحیح میں پورا واقعہ دوصحیح اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے۔


سعودی عرب سے اردو میں قران بمع ترجمہ اور تفسیر شائع ہوا ہے (تفسیر کی ہے صلاح الدین صاحب نے)۔ سعودی حکومت نے لاکھوں کی تعداد میں یہ قرآن چھپا کر مفت تقسیم کیا ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں صلاح الدین صاحب لکھتے ہیں:

اس آیت کا شان نزول ایک یہودی اور مسلمان کا واقعہ عموماً بیان کیا جاتا ہے جو بارگاہ رسالت سے فیصلے کے باوجود حضرت عمر رضی اللہ سے فیصلہ کروانے گیا جس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس مسلمان کا سر قلم کر دیا۔ لیکن سنداً یہ واقعہ صحیح نہیں ہے جیسا کہ ابن کثیر نے بھی وضاحت کی، صحیح واقعہ یہ ہے جو اس آیت کے نزول کا سبب ہے کہ حضرت زبیر رضی اللہ کا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد تھے۔ اور ایک آدمی کا کھیت کو سیراب کرنے والے (نالے) کے پانی پر جھگڑا ہو گیا۔ معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا آپ نے صورت حال کاجائزہ لے کر جو فیصلہ دیا تو وہ اتفاق سے حضرت زبیر رضی اللہ کے حق میں تھا، جس پر دوسرے آدمی نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ اس لئے کیا ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پھوپھی زاد ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(صحیح بخاری، کتاب التفسیر)

امام بخاری نے یہ واقعہ دو مختلف اسناد کے ساتھ اپنی صحیح میں نقل کیا ہے۔پہلی روایت کا لنک یہ ہے۔ دوسری روایت کالنک یہ ہے۔

حضرت عمر والی یہ روایت علم درایت کی کسوٹی پر

عقل اللہ کی طرف سے انسان کو بہت بڑا تحفہ ہے۔ اگر یوں آنکھیں بند کر کے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے روایات پیش کرنے کی بجائے کچھ عقل سے کام لے لیا جائے تو بہت سی ایسی ناگوار باتوں سے بچا جا سکتا ہے۔

اس روایت کے مطابق ایک شخص کو رسول اللہ (ص) کےدنیاوی معاملے کے صرف ایک فیصلے پر اعتراض ہوا تو حضرت عمر نے فوراً بغیر کسی توبہ کا موقع دیے، بغیر کوئی وارننگ دیے فی الفور اسے قتل کر دیا۔

مگر ذرا سوچئے کہ جو شخص اسلام لانے کے بعد مرتد ہو جائے، وہ رسول (ص) کا دنیاوی معاملات میں ایک فیصلہ تو کیا بلکہ پوری کی پوری شریعت کو پامال کر کے اسکا انکار کر رہا ہوتا ہے، اللہ اور اسکے رسول کا مکمل انکار کر رہا ہوتا ہے، مگر اسکے باوجود اسے فی الفور قتل نہیں کیا جاتا ہے، بلکہ اُسے تین دن کی مہلت دینا کا حکم ہے تاکہ اُسے موقع مل سکے کہ وہ توبہ کر سکے۔

عقل رکھنے اور اسے استعمال کرنے والوں کے لیے اس بات میں مکمل سبق موجود ہے کہ وہ حق و باطل میں تمیز کر سکیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ ہمیں اللہ کے نام پر انصاف کرنا ہے۔

سلمان تاثیر کا قتل اسی ضعیف و منکر روایت کی وجہ سے ہوا ہے

جتنے بھی حضرات (علماء) نے ممتاز قادری کی حمایت کی ہے، انہوں نے اسی حضرت عمر والی ضعیف اور منکر روایت کو استعمال کیا ہے۔ انکا اصرار ہے کہ چونکہ سلمان تاثیر توہینِ رسالت قانون سے راضی نہیں تھےاس لیے انکا قتل ایسے ہی ضروری تھا جیسا کہ اس روایت میں حضرت عمر نے اُ س شخص کو قتل کر دیا تھا جو اللہ کے رسول کے فیصلہ پر راضی نہیں ہورہا تھا۔


اور یہ تو صرف ابتدا ہے۔ اس روایت میں یہ پوٹینشل پورا موجود ہے کہ صرف توہین رسالت قانون ہی نہیں بلکہ جلد ہی اسکا نفاذ دیگر قوانین سے اختلاف کرنے والوں پر بھی ہو رہا ہو گا اور انہیں فقط اس بنیاد پر قتل کیا جا رہا ہوگا کہ انکے دل ان قوانین پر راضی نہیں ہو رہے تھے لہذا انکو کلمہ گو مسلمان ہوتے ہوئے بھی قتل کر ڈالو۔

حضرت ابو بکر صدیق کی روایت: رسول (ص) کے علاوہ کسی اور کو برا بھلا کہنے پر قتل کرنا جائز نہیں

حضرت ابو بکر سے ایک روایت یہ مروی ہے:

ايك آدمى نے ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ كے ساتھ سخت لہجہ اختيار كيا تو ميں نے كہا: كيا ميں اسے قتل كردوں؟ تو انہوں نے مجھے ڈانٹا اور كہنے لگے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بعد يہ كسى كے ليے بھى نہيں ہے۔صحيح نسائى حديث نمبر ٣٧٩٥

دلائل آپ کے سامنے پیش ہو تو چکے ہیں۔ رسول اللہ (ص) سے منسوب ساری روایات اس بات کی شاہد ہیں کہ پہلی مرتبہ میں ہی قتل نہیں کر دیا گیا، بلکہ پہلے مرحلے میں عفو و درگذر اور ہدایت و نصیحت سے کام لیا گیا ہے۔

شریعت بنانے والی ذات فقط اور فقط اللہ ہے۔ حتی کہ رسول اللہ (ص) کو بھی ذرہ برابر حق حاصل نہیں کہ وہ شریعت سازی کریں۔ ہم رسول (ص) کی بات اس لیے مانتے ہیں کیونکہ قرآن میں ہے کہ رسول (ص) اسکے سوا کچھ نہیں بولتے جو کہ اللہ نے انکی طرف وحی کیا ہے۔ اور جبرئیل علیہ السلام وحی لے کر صرف اور صرف رسول (ص) پر نازل ہوتے تھے، کسی دوسرے صحابی پر نہیں۔

چنانچہ قرآن اور قول رسول ہی واحد حجت ہے۔

صحابہ کرام اگر قول رسول بیان فرما رہے ہیں تو وہ قابل قبول ہے، مگر اگر کوئی مسئلہ بیان کر رہے ہیں تو اس کو قرآن و سنت کی روشنی میں پرکھنا ہو گا۔ اسی وجہ سے صحابہ کرام کے آپس میں بہت سے مسائل پر ایک دوسرے کی آراء سے اختلاف کیا۔

وحی فقط رسول (ص) پر نازل ہوتی تھی، اور صرف انہی کا اسوہ شریعت کا حصہ بنے گا۔ کسی بھی صحابی کی رائے کو قرآن اور سنت رسول کی روشنی میں ہی پرکھا جائے گا اور صرف اسکے بعد اسے قبول کیا جا سکتا ہے۔ صحابی اپنی رائے میں غلطی کر سکتا ہے، مگر یہ فقط اور فقط رسول (ص) کی ذات ہے جو کہ شریعت کے اصول بتاتے وقت کوئی غلطی نہیں کر سکتی۔

چنانچہ حضرت ابوبکر کی یہ روایت ابو ہریرہ والی روایت کے مطابق نہیں جس میں بذات خود رسول (ص) شریعت واضح کر رہے ہیں۔ اور اسکے بعد بھی اگر حضرت ابو بکر کی روایت صرف اسی صورت میں قبول ہو سکے گی جب رسول (ص) کی دوسری نابینا صحابی والی اور یہودیہ عورت والی روایات کی روشنی میں یہ کہا جائے کہ پہلے مرحلے میں ہی قتل نہیں ہے بلکہ مسلسل اور عادت بنا لیے جانے پر قتل کیا گیا۔

نیز یہ روایت ایک مسلمان کے متعلق لگتی ہے جب وہ رسول (ص) کی ذات کے خلاف گستاخی کرے۔ چنانچہ اس صورت میں غیر مسلم کے خلاف یہ سزا جاری نہ ہو سکے گی۔

خلاصہ

  1. موجودہ توہینِ رسالت آرڈیننس کے حامی حضرات جن قرآنی آیات کو پیش کرتے ہیں، وہ سب کی سب “تفسیر بالرائے” ہیں اور نہ رسول اللہ (ص) اور نہ کسی صحابی نے ان قرآنی آیات سے وہ مطلب نکالا جو یہ حضرات تفسیر بالرائے کرتے ہوئے نکال رہے ہیں۔
  2. اور جو روایات یہ حضرات پیش کرتے ہیں ان میں سے اکثر ضعیف اور منکر ہیں، یا پھر غیر متعلق ہیں۔
  3. اگر ان روایات کو صحیح مان بھی لیا جائے تب بھی موجودہ توہینِ رسالت آرڈیننس ہرگز ہرگز صحیح ثابت نہیں ہو سکتا کیونکہ ان کی اپنی پیشکردہ روایات کے مطابق پہلی مرتبہ میں ہی فی الفور قتل نہیں کر دیا جاتا ہے بلکہ شروع میں انہیں مسلسل اچھی نصیحت کی جاتی ہے اور صرف عادت اور معمول بنا لینے کے بعد قتل کیا جاتا ہے۔ جبکہ موجودہ آرڈیننس میں عفو و درگذر کی کوئی گنجائش سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔
  4. وہ روایات اور قرآنی آیات جو بیان کر رہی ہیں کہ توہین کرنے پر اللہ اور اُسکے رسول (ص) نے صبر کرنے کا حکم دیا ہے، وہ ان حضرات کے پیشکردہ دلائل کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہیں۔
  5. موجودہ حالت میں یہ آرڈیننس نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا کیونکہ اس کے ہوتے ہوئے اسکا misuse کسی صورت نہیں روکا جا سکتا ہے اور شریر لوگ مسلسل اسکو اپنی ذاتی دشمنیاں اور شرارت نکالنے کے لیے استعمال کرتے ہوئے معصوموں پر جھوٹے الزامات لگاتے رہیں گے۔ عدالت اور گواہوں سے پاک قتل کر دینے والی احادیث ان شریر لوگوں کو مکمل موقع فراہم کرتی رہیں گی کہ وہ جرم کر کے سارا گناہ توہینِ رسالت آرڈیننس کی جھولی میں ڈال کر مسلسل دینِ اسلام کو بدنام کرتے رہیں اور کوئی انکا بال بیکا تک نہ کر پائے۔
  6. بہت ضرورت ہے کہ یہ حضرات اپنی ضد چھوڑ کر قبول کریں کہ موجودہ حالت میں اس میں سقم موجود ہیں۔ انہیں دور کرنے کی ہر صورت میں کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔

حوالہ جات

'ترچھا متن'ترچھا متن'ترچھا متن'''