"توہین رسالت قانون (معترضین کے دلائل)" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 7: سطر 7:


2۔ اس آرڈیننس کے تحت عفو و درگذر اور توبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ اگر کسی سے بھولے سے بھی کوئی غلطی ہو گئی ہے تو موجودہ آرڈیننس کے تحت آپ کو توبہ کا کوئی موقع نہیں ملے گا اور ہر حال میں قتل کی سزا ملے گی۔
2۔ اس آرڈیننس کے تحت عفو و درگذر اور توبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ اگر کسی سے بھولے سے بھی کوئی غلطی ہو گئی ہے تو موجودہ آرڈیننس کے تحت آپ کو توبہ کا کوئی موقع نہیں ملے گا اور ہر حال میں قتل کی سزا ملے گی۔

== حضرت ابو بکر صدیق کی روایت: رسول (ص) کے علاوہ کسی اور کو برا بھلا کہنے پر قتل کرنا جائز نہیں ==

حضرت ابو بکر سے ایک روایت یہ مروی ہے:

ايك آدمى نے ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ كے ساتھ سخت لہجہ اختيار كيا تو ميں نے كہا: كيا ميں اسے قتل كردوں؟ تو انہوں نے مجھے ڈانٹا اور كہنے لگے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بعد يہ كسى كے ليے بھى نہيں ہے۔'''صحيح نسائى حديث نمبر ٣٧٩٥'''

دلائل آپ کے سامنے پیش ہو تو چکے ہیں۔ رسول اللہ (ص) سے منسوب ساری روایات اس بات کی شاہد ہیں کہ پہلی مرتبہ میں ہی قتل نہیں کر دیا گیا، بلکہ پہلے مرحلے میں عفو و درگذر اور ہدایت و نصیحت سے کام لیا گیا ہے۔

شریعت بنانے والی ذات فقط اور فقط اللہ ہے۔ حتی کہ رسول اللہ (ص) کو بھی ذرہ برابر حق حاصل نہیں کہ وہ شریعت سازی کریں۔ ہم رسول (ص) کی بات اس لیے مانتے ہیں کیونکہ قرآن میں ہے کہ رسول (ص) اسکے سوا کچھ نہیں بولتے جو کہ اللہ نے انکی طرف وحی کیا ہے۔ اور جبرئیل علیہ السلام وحی لے کر صرف اور صرف رسول (ص) پر نازل ہوتے تھے، کسی دوسرے صحابی پر نہیں۔

چنانچہ قرآن اور قول رسول ہی واحد حجت ہے۔

صحابہ کرام اگر قول رسول بیان فرما رہے ہیں تو وہ قابل قبول ہے، مگر اگر کوئی مسئلہ بیان کر رہے ہیں تو اس کو قرآن و سنت کی روشنی میں پرکھنا ہو گا۔ اسی وجہ سے صحابہ کرام کے آپس میں بہت سے مسائل پر ایک دوسرے کی آراء سے اختلاف کیا۔

وحی فقط رسول (ص) پر نازل ہوتی تھی، اور صرف انہی کا اسوہ شریعت کا حصہ بنے گا۔ کسی بھی صحابی کی رائے کو قرآن اور سنت رسول کی روشنی میں ہی پرکھا جائے گا اور صرف اسکے بعد اسے قبول کیا جا سکتا ہے۔ صحابی اپنی رائے میں غلطی کر سکتا ہے، مگر یہ فقط اور فقط رسول (ص) کی ذات ہے جو کہ شریعت کے اصول بتاتے وقت کوئی غلطی نہیں کر سکتی۔

چنانچہ حضرت ابوبکر کی یہ روایت ابو ہریرہ والی روایت کے مطابق نہیں جس میں بذات خود رسول (ص) شریعت واضح کر رہے ہیں۔ اور اسکے بعد بھی اگر حضرت ابو بکر کی روایت صرف اسی صورت میں قبول ہو سکے گی جب رسول (ص) کی دوسری نابینا صحابی والی اور یہودیہ عورت والی روایات کی روشنی میں یہ کہا جائے کہ پہلے مرحلے میں ہی قتل نہیں ہے بلکہ مسلسل اور عادت بنا لیے جانے پر قتل کیا گیا۔<br><br>نیز یہ روایت ایک مسلمان کے متعلق لگتی ہے جب وہ رسول (ص) کی ذات کے خلاف گستاخی کرے۔ چنانچہ اس صورت میں غیر مسلم کے خلاف یہ سزا جاری نہ ہو سکے گی۔


== خلاصہ ==
== خلاصہ ==

نسخہ بمطابق 01:48، 12 جولائی 2014ء


اب تک عدالت کےحکم کے تحت کسی توہین کر مرتکب شخص کو قتل نہیں کیا گیا ہے، مگر اس دوران میں دس افراد کو جیلوں میں ماورائے عدالت قتل کیا جا چکا ہے۔[1] اس آرڈیننس کے دو تعبیرات پر شدید تنقید ہے۔

1۔ چھوٹی سی چھوٹی بات پر بھی اس آرڈیننس کے تحت قتل کی سزا ہو جاتی ہے۔

2۔ اس آرڈیننس کے تحت عفو و درگذر اور توبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ اگر کسی سے بھولے سے بھی کوئی غلطی ہو گئی ہے تو موجودہ آرڈیننس کے تحت آپ کو توبہ کا کوئی موقع نہیں ملے گا اور ہر حال میں قتل کی سزا ملے گی۔

خلاصہ

  1. موجودہ توہینِ رسالت آرڈیننس کے حامی حضرات جن قرآنی آیات کو پیش کرتے ہیں، وہ سب کی سب “تفسیر بالرائے” ہیں اور نہ رسول اللہ (ص) اور نہ کسی صحابی نے ان قرآنی آیات سے وہ مطلب نکالا جو یہ حضرات تفسیر بالرائے کرتے ہوئے نکال رہے ہیں۔
  2. اور جو روایات یہ حضرات پیش کرتے ہیں ان میں سے اکثر ضعیف اور منکر ہیں، یا پھر غیر متعلق ہیں۔
  3. اگر ان روایات کو صحیح مان بھی لیا جائے تب بھی موجودہ توہینِ رسالت آرڈیننس ہرگز ہرگز صحیح ثابت نہیں ہو سکتا کیونکہ ان کی اپنی پیشکردہ روایات کے مطابق پہلی مرتبہ میں ہی فی الفور قتل نہیں کر دیا جاتا ہے بلکہ شروع میں انہیں مسلسل اچھی نصیحت کی جاتی ہے اور صرف عادت اور معمول بنا لینے کے بعد قتل کیا جاتا ہے۔ جبکہ موجودہ آرڈیننس میں عفو و درگذر کی کوئی گنجائش سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔
  4. وہ روایات اور قرآنی آیات جو بیان کر رہی ہیں کہ توہین کرنے پر اللہ اور اُسکے رسول (ص) نے صبر کرنے کا حکم دیا ہے، وہ ان حضرات کے پیشکردہ دلائل کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہیں۔
  5. موجودہ حالت میں یہ آرڈیننس نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا کیونکہ اس کے ہوتے ہوئے اسکا misuse کسی صورت نہیں روکا جا سکتا ہے اور شریر لوگ مسلسل اسکو اپنی ذاتی دشمنیاں اور شرارت نکالنے کے لیے استعمال کرتے ہوئے معصوموں پر جھوٹے الزامات لگاتے رہیں گے۔ عدالت اور گواہوں سے پاک قتل کر دینے والی احادیث ان شریر لوگوں کو مکمل موقع فراہم کرتی رہیں گی کہ وہ جرم کر کے سارا گناہ توہینِ رسالت آرڈیننس کی جھولی میں ڈال کر مسلسل دینِ اسلام کو بدنام کرتے رہیں اور کوئی انکا بال بیکا تک نہ کر پائے۔
  6. بہت ضرورت ہے کہ یہ حضرات اپنی ضد چھوڑ کر قبول کریں کہ موجودہ حالت میں اس میں سقم موجود ہیں۔ انہیں دور کرنے کی ہر صورت میں کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔

حوالہ جات

'ترچھا متن'ترچھا متن'ترچھا متن'''