"کتاب" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 5: سطر 5:
=== سرنامے
=== سرنامے
علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں :
علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں :
کتب کا معنی ہے چمڑے کے دو ٹکڑوں کو سی کر ایک دوسرے کے ساتھ ملا دینا‘ اور عرف میں اس کا معنی ہے : بعض حروف کو لکھ کر بعض دوسرے حروف کے ساتھ ملانا‘ اور کبھی صرف ان ملائے ہوئے حروف پر بھی کتاب کا اطلاق ہوتا ہے اسی اعتبار سے اللہ کے کلام کو کتاب کہا جاتا ہے اگرچہ وہ لکھا ہوا نہیں ہے‘ قرآن مجید میں ہے : ’’ الم ذَلِكَ الْكِتَابُ‘‘ کتاب اصل میں مصدر ہے‘ پھر مکتوب کا نام کتاب رکھ دیا گیا‘ نیز کتاب اصل میں لکھے ہوئے صحیفہ کا نام ہے‘ قرآن مجید میں ہے :
کتب کا معنی ہے چمڑے کے دو ٹکڑوں کو سی کر ایک دوسرے کے ساتھ ملا دینا‘ اور عرف میں اس کا معنی ہے : بعض حروف کو لکھ کر بعض دوسرے حروف کے ساتھ ملانا‘ اور کبھی صرف ان ملائے ہوئے حروف پر بھی کتاب کا اطلاق ہوتا ہے اسی اعتبار سے اللہ کے کلام کو کتاب کہا جاتا ہے اگرچہ وہ لکھا ہوا نہیں ہے‘ قرآن مجید میں ہے : ’’ الم ذَلِكَ الْكِتَابُ‘‘ کتاب اصل میں مصدر ہے‘ پھر مکتوب کا نام کتاب رکھ دیا گیا‘ نیز کتاب اصل میں لکھے ہوئے صحیفہ کا نام ہے‘ قرآن مجید میں ہے :
’’يَسْأَلُكَ أَهْلُ الْكِتَابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتَابًا مِنَ السَّمَاءِ: (النساء : ١٥٣) اھل کتاب آپ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ آپ ان پر آسمان سے کوئی صحیفہ نازل کردیں۔
’’يَسْأَلُكَ أَهْلُ الْكِتَابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتَابًا مِنَ السَّمَاءِ: (النساء : ١٥٣) اھل کتاب آپ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ آپ ان پر آسمان سے کوئی صحیفہ نازل کردیں۔
فرض اور تقدیر کے معنی میں کتاب کا لفظ مستعمل ہے‘ قرآن مجید میں ہے :
فرض اور تقدیر کے معنی میں کتاب کا لفظ مستعمل ہے‘ قرآن مجید میں ہے :
سطر 14: سطر 14:
اللہ کی طرف سے حجت ثابتہ کے معنی میں بھی کتاب کا لفظ مستعمل ہے‘ قرآن کریم میں ہے :
اللہ کی طرف سے حجت ثابتہ کے معنی میں بھی کتاب کا لفظ مستعمل ہے‘ قرآن کریم میں ہے :
’’ أَمْ آتَيْنَاهُمْ كِتَابًا مِنْ قَبْلِهِ‘‘۔ (الزخرف : ٢١) کیا ہم نے اس (قرآن) سے پہلے انہیں کوئی حجت ثابتہ دی ہے ؟
’’ أَمْ آتَيْنَاهُمْ كِتَابًا مِنْ قَبْلِهِ‘‘۔ (الزخرف : ٢١) کیا ہم نے اس (قرآن) سے پہلے انہیں کوئی حجت ثابتہ دی ہے ؟
’’ فاتوا بکتبکم ان کنتم صدقین (الصافات : ١٥٧) تم اپنی حجت ثابۃ لے آؤ اگر تم سچے ہو
’’ فاتوا بکتبکم ان کنتم صدقین (الصافات : ١٥٧) تم اپنی حجت ثابۃ لے آؤ اگر تم سچے ہو
کتاب کا لفظ حکم کے معنی میں بھی وارد ہے‘ قرآن مجید میں ہے :
کتاب کا لفظ حکم کے معنی میں بھی وارد ہے‘ قرآن مجید میں ہے :
’’ لولا کتب من اللہ سبق لمسکم فیما اخذتم عذاب عظیم (الانفال : ٦٨) اگر پہلے (معاف کردینے کا) حکم‘ اللہ کی طرف سے نہ ہوتا تو (کافروں سے) جو (فدیہ کا مال) تم نے لیا تھا‘ تمہیں اس میں ضرور بڑا عذاب پہنچتا
’’ لولا کتب من اللہ سبق لمسکم فیما اخذتم عذاب عظیم (الانفال : ٦٨) اگر پہلے (معاف کردینے کا) حکم‘ اللہ کی طرف سے نہ ہوتا تو (کافروں سے) جو (فدیہ کا مال) تم نے لیا تھا‘ تمہیں اس میں ضرور بڑا عذاب پہنچتا
قرآن مجید میں جہاں اہل کتاب کا لفظ آتا ہے تو اس کتاب سے تورات‘ انجیل یا یہ دونوں کتابیں مراد ہوتی ہیں۔ (المفردات ص ٤٢٥۔ ٤٢٣‘ مطبوعہ المکتبۃ المرتضویہ‘ ایران‘ ١٣٤٢ ھ)
قرآن مجید میں جہاں اہل کتاب کا لفظ آتا ہے تو اس کتاب سے تورات‘ انجیل یا یہ دونوں کتابیں مراد ہوتی ہیں۔ (المفردات ص ٤٢٥۔ ٤٢٣‘ مطبوعہ المکتبۃ المرتضویہ‘ ایران‘ ١٣٤٢ ھ)
=== کتاب کا اصطلاحی معنی ===
کتاب کا اصطلاحی معنی یہ ہے : وہ صحیفہ جو ایسے متعدد مسائل جامع ہو جو جنسا متحد ہوں اور نوعا اور صنفا مختلف ہوں اور وہ صحیفہ ابواب اور فصول پر منقسم ہو‘ جیسے کتاب الطہارۃ‘ کتاب الزکوۃ وغیرہ۔
کتاب کا اصطلاحی معنی یہ ہے : وہ صحیفہ جو ایسے متعدد مسائل جامع ہو جو جنسا متحد ہوں اور نوعا اور صنفا مختلف ہوں اور وہ صحیفہ ابواب اور فصول پر منقسم ہو‘ جیسے کتاب الطہارۃ‘ کتاب الزکوۃ وغیرہ۔
اس آیت میں کتاب سے مراد آسمانی صحیفہ ہے یعنی قرآن مجید<ref>تفسیر تبیان القرآن مولانا غلام رسول سعیدی جلد اول صفحہ 240،241فرید بکسٹال لاہور</ref>۔<br />
اس آیت میں کتاب سے مراد آسمانی صحیفہ ہے یعنی قرآن مجید<ref>تفسیر تبیان القرآن مولانا غلام رسول سعیدی جلد اول صفحہ 240،241فرید بکسٹال لاہور</ref>۔<br />

نسخہ بمطابق 06:49، 26 مئی 2015ء

چھاپ خانہ کی ایجاد اور اِنتخاب سے پہلے، تقریباً تمام کتابوں کی نقلیں ہاتھوں سے بنائی جاتی تھیں، جس سے کتابیں نایاب اور مہنگی تھیں.

کتاب

کتاب کا لغوی معنی

=== سرنامے علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں : کتب کا معنی ہے چمڑے کے دو ٹکڑوں کو سی کر ایک دوسرے کے ساتھ ملا دینا‘ اور عرف میں اس کا معنی ہے : بعض حروف کو لکھ کر بعض دوسرے حروف کے ساتھ ملانا‘ اور کبھی صرف ان ملائے ہوئے حروف پر بھی کتاب کا اطلاق ہوتا ہے اسی اعتبار سے اللہ کے کلام کو کتاب کہا جاتا ہے اگرچہ وہ لکھا ہوا نہیں ہے‘ قرآن مجید میں ہے : ’’ الم ذَلِكَ الْكِتَابُ‘‘ کتاب اصل میں مصدر ہے‘ پھر مکتوب کا نام کتاب رکھ دیا گیا‘ نیز کتاب اصل میں لکھے ہوئے صحیفہ کا نام ہے‘ قرآن مجید میں ہے : ’’يَسْأَلُكَ أَهْلُ الْكِتَابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتَابًا مِنَ السَّمَاءِ: (النساء : ١٥٣) اھل کتاب آپ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ آپ ان پر آسمان سے کوئی صحیفہ نازل کردیں۔ فرض اور تقدیر کے معنی میں کتاب کا لفظ مستعمل ہے‘ قرآن مجید میں ہے : ’’ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ‘(البقرہ : ١٨٣) اے ایمان والو ! تم پر روزہ رکھنا فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا۔ ’’ قُلْ لَنْ يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا‘‘ (التوبہ : ٥١) آپ کہیے : ہمیں صرف وہی چیز پہنچے گی‘ جوہمارے لیے اللہ نے مقدر کردی ہے۔ کتاب کا لفظ بنانے اور شمار کرنے کے معنی میں بھی آتا ہے‘ قرآن مجید میں ہے : ’’ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ(آل عمران : ٥٣) سو گواہی دینے والوں کے ساتھ ہمارا شمار کرلے اللہ کی طرف سے حجت ثابتہ کے معنی میں بھی کتاب کا لفظ مستعمل ہے‘ قرآن کریم میں ہے : ’’ أَمْ آتَيْنَاهُمْ كِتَابًا مِنْ قَبْلِهِ‘‘۔ (الزخرف : ٢١) کیا ہم نے اس (قرآن) سے پہلے انہیں کوئی حجت ثابتہ دی ہے ؟ ’’ فاتوا بکتبکم ان کنتم صدقین (الصافات : ١٥٧) تم اپنی حجت ثابۃ لے آؤ اگر تم سچے ہو کتاب کا لفظ حکم کے معنی میں بھی وارد ہے‘ قرآن مجید میں ہے : ’’ لولا کتب من اللہ سبق لمسکم فیما اخذتم عذاب عظیم (الانفال : ٦٨) اگر پہلے (معاف کردینے کا) حکم‘ اللہ کی طرف سے نہ ہوتا تو (کافروں سے) جو (فدیہ کا مال) تم نے لیا تھا‘ تمہیں اس میں ضرور بڑا عذاب پہنچتا قرآن مجید میں جہاں اہل کتاب کا لفظ آتا ہے تو اس کتاب سے تورات‘ انجیل یا یہ دونوں کتابیں مراد ہوتی ہیں۔ (المفردات ص ٤٢٥۔ ٤٢٣‘ مطبوعہ المکتبۃ المرتضویہ‘ ایران‘ ١٣٤٢ ھ)

کتاب کا اصطلاحی معنی

کتاب کا اصطلاحی معنی یہ ہے : وہ صحیفہ جو ایسے متعدد مسائل جامع ہو جو جنسا متحد ہوں اور نوعا اور صنفا مختلف ہوں اور وہ صحیفہ ابواب اور فصول پر منقسم ہو‘ جیسے کتاب الطہارۃ‘ کتاب الزکوۃ وغیرہ۔ اس آیت میں کتاب سے مراد آسمانی صحیفہ ہے یعنی قرآن مجید[1]۔
اپنے وسیع تر مفہوم میں ہر وہ تحریر جو کسی شکل میں محفوظ کی گئی ہو کتاب کہلاتی ہے۔ گویا مٹی کی تختیاں، پیپرس کے رول، اور ہڈیاں جن پر تحریر محفوظ ہے کتاب ہے؛ یہ چمڑے یا جھلی پر بھی ہو سکتی ہے اور کاغذ پر بھی۔ کتاب لکھے اور چھاپے گئے کاغذوں کے مجموعہ کو کہتے ہیں ، جن کی جلد بندی کی گئی ہواور انھیں محفوظ کرنے کے لیے جلد موجود ہو۔موجودہ دور میں طرزیات اور سائنس کی ترقی کی بدولت کتاب صرف کاغذ پر چھپی تحریر ہی نہیں رہی، بلکہ اب کتاب انٹرنیٹ اور بک ریڈر کے ذریعے ڈیجی ٹیل ہو چکی ہے۔ کتابوں کے شوقین یا کتابیں زیادہ پڑھنے والے کو عموماً ، کتابوں کا رَسیا یا کتابوں کا کیڑا کہاجاتا ہے.
کتب خانہ ایک جگہ ہے جہاں پر کتابیں صرف پڑھنے کے لئے مہیا کی جاتی ہیں. کتب خانے میں کتابوں کی خریدوفروخت نہیں کی جاتی.

  1. تفسیر تبیان القرآن مولانا غلام رسول سعیدی جلد اول صفحہ 240،241فرید بکسٹال لاہور