"امین صفدر اوکاڑوی" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
نیا صفحہ: == مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی ؒ == {{عالم دین | نام = محمد امین صفدر | مکمل نام = مولانا محمد امین صف...
 
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 12: سطر 12:
| مقام وفات = [[اوکاڑہ]]
| مقام وفات = [[اوکاڑہ]]
| مکتبہ فکر = حنفی دیوبندی
| مکتبہ فکر = حنفی دیوبندی
| شعبہ عمل = قرآن, حدیث، فقہ،تبلیغ دین
| شعبہ عمل = قرآن, حدیث، فقہ،تبلیغ دین،مناظر اسلام،وکیل اہل سنت،محقق حنفیت
| موثر شخصیات = مولانااحمد علی لاہوریؒ،مولانا سرفراز خان صفدرؒ،مولانا سیدشمس الحق افغانیؒ،
| موثر شخصیات = مولانااحمد علی لاہوریؒ،مولانا سرفراز خان صفدرؒ،مولانا سیدشمس الحق افغانیؒ،
مولانا مفتی بشیر احمد پسوریؒ،مولانا محمد عبد الحنان ؒ،مولانا عبد القدیر ؒ
مولانا مفتی بشیر احمد پسوریؒ،مولانا محمد عبد الحنان ؒ،مولانا عبد القدیر ؒ
سطر 29: سطر 29:
}}
}}
{{دیوبندی}}
{{دیوبندی}}
حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی کی پیدائش مورخہ چار اپریل 1934ء کو بیکانیر، ضلع گنگا نگر (جو اب بھارت کا حصہ ہے) میں ہوئی۔
'''حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی''' کی پیدائش مورخہ چار اپریل 1934ء کو بیکانیر، ضلع گنگا نگر (جو اب بھارت کا حصہ ہے) میں ہوئی۔
آپ رحمہ اللہ کی پیدائش اور علمی محققانہ طرز زندگی حضرت مولانا سید شمس الحق رحمہ اللہ (فاضل دار العلوم دیوبند) کی دعاؤں کا ثمرہ ہے اور انہوں نے ہی حضرت کا نام محمد امين تجویز فرمایا تھا اور بڑے پیار سے سر پر ہاتھ پھیر کر آپ رحمہ اللہ کے والد محترم ولی محمد سے فرمایا: "یہ لڑکا مولوی بنے گا، مناظر بنے گا!" چناچہ اللہ تعالٰی نے حضرت سید صاحب رحمہ اللہ کی دعاء قبول فرماتے ہوۓ آخر کار حضرت کو ماسٹر محمد امین سے مناظر اسلام، محقق حنفیت، وکیل اہل سنت والجماعت مولانا محمد امین صفدراوکاڑوی بنا دیا۔
آپ رحمہ اللہ کی پیدائش اور علمی محققانہ طرز زندگی حضرت مولانا '''سید شمس الحق افغانی رحمہ اللہ''' (فاضل دار العلوم دیوبند) کی دعاؤں کا ثمرہ ہے اور انہوں نے ہی حضرت کا نام '''محمد امين''' تجویز فرمایا تھا اور بڑے پیار سے سر پر ہاتھ پھیر کر آپ رحمہ اللہ کے والد محترم '''ولی محمد''' سے فرمایا: "یہ لڑکا مولوی بنے گا، مناظر بنے گا!" چناچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سید صاحب رحمہ اللہ کی دعاء قبول فرماتے ہوۓ آخر کار حضرت کو '''ماسٹر محمد امین''' سے مناظر اسلام، محقق حنفیت، وکیل اہل سنت والجماعت مولانا محمد امین صفدراوکاڑوی بنا دیا۔
تحقیق و‌تحریر میں حضرت اوکاڑوی رحمہ اللہ چونکہ شیخ و‌مرشد امام اہل سنت والجماعت پیر طریقت حضرت مولانا سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم سے متاثر تھے، اس لۓ صفدر کہلاتے ہوۓ ان کی جانب نسبت ظاہر فرماتے تھے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ وطن عزیز پاکستان میں تاحال دو ہی صفدر گزرے ہیں، تقریر میں حضرت مولانا محمد امين صفدر اوکاڑوی اور تحریر میں حضرت مولانا سرفراز خان صفدر ؒ
تحقیق و‌تحریر میں حضرت اوکاڑوی رحمہ اللہ چونکہ شیخ و‌مرشد امام اہل سنت والجماعت پیر طریقت '''حضرت مولانا سرفراز خان صفدر''' دامت برکاتہم سے متاثر تھے، اس لیئے '''صفدر''' کہلاتے ہوئےان کی جانب نسبت ظاہر فرماتے تھے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ وطن عزیز پاکستان میں تاحال دو ہی صفدر گزرے ہیں، تقریر میں '''حضرت مولانا محمد امين صفدر اوکاڑوی''' اور تحریر میں '''حضرت مولانا سرفراز خان صفدر ؒ'''
== تعلیم ==
== تعلیم ==
حضرت اوکاڑوی نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں میں ہی حاصل کی، وہاں چونکہ اہل حق کا کوئی مدرسہ تھا نہ مسجد اس لیئے عقیدہ توحید سے مناسبت کی وجہ سے ان کے والد محترم نے انہیں غیر مقلدین کی مسجد میں تعلیم کیلئے حافظ محمد رمضان کے سپرد کر دیا، بعد ازاں مولانا عبد الجبار کنڈیلوی سے کچھ درسی کتب پڑھیں، جس کے نتیجے میں کافی عرصہ تک احناف کے خلاف سرگرم عمل رہے۔ پاکستان بنے کے بعد اپنے والدین کے ہمراہ ضلع اوکاڑہ کے چک نمبر55/2-1میں ہجرت کرنے کے بعد مستقل سکونت اختیار کرلی۔
حضرت اوکاڑوی نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں میں ہی حاصل کی، وہاں چونکہ اہل حق کا کوئی مدرسہ تھا نہ مسجد اس لیئے عقیدہ توحید سے مناسبت کی وجہ سے ان کے والد محترم نے انہیں غیر مقلدین کی مسجد میں تعلیم کیلئے حافظ محمد رمضان کے سپرد کر دیا، بعد ازاں مولانا عبد الجبار کنڈیلوی [[غیر مقلد|(غیر مقلد)]]سے کچھ درسی کتب پڑھیں، جس کے نتیجے میں کافی عرصہ تک احناف کے خلاف سرگرم عمل رہے۔ پاکستان بنے کے بعد اپنے والدین کے ہمراہ ضلع '''اوکاڑہ''' کے چک نمبر55/2-1میں ہجرت کرنے کے بعد مستقل سکونت اختیار کرلی۔
== رجوع الاخیر ==
== رجوع الاخیر ==
1953ء میں قادیانیوں کے خلاف تحریک ختم نبوت کے دوران حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ تعالیٰ کے شاگردِ رشید، حضرت مولانا محمد عبد الحنان رحمہ اللہ (فاضل دیوبند) اور حضرت مولانا عبد القدیر (فاضل دیوبند) گرفتاری کے بعدجب اوکاڑہ تشریف لائےتو آپ ؒ کے استاذ مولانا عبد الجبار کنڈیلوی نے حضرت اوکاڑوی کو ان سے بحث و‌مباحثہ کرنے کیلئے بھیج دیا۔ ان سے بحث میں نہ صرف حضرت اوکاڑوی ہار بیٹھے بلکہ ان کی ناصحانہ باتوں کے اثر سے، غیر مقلدی برین واشنگ بھی اتر گئی اور یوں وہ اپنے مسلک سے تائب ہو کر اہل السنۃ والجماعۃ احناف میں شامل ہوگئے۔ اس بارے میں حضرت اوکاڑوی کا اپنا مضمون "میں حنفی کیسے بنا؟" مطبوعہ مجموعہ رسائل صفدری، نہ صرف انتہائی دلچسپ ہے بلکہ قابل دید ہے۔
1953ء میں قادیانیوں کے خلاف تحریک ختم نبوت کے دوران '''حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ تعالیٰ''' کے شاگردِ رشید، حضرت مولانا محمد عبد الحنان رحمہ اللہ (فاضل دیوبند) اور حضرت مولانا عبد القدیر (فاضل دیوبند) گرفتاری کے بعدجب اوکاڑہ تشریف لائےتو آپ ؒ کے استاذ مولانا عبد الجبار کنڈیلوی نے حضرت اوکاڑوی کو ان سے بحث و‌مباحثہ کرنے کیلئے بھیج دیا۔ ان سے بحث میں نہ صرف حضرت اوکاڑوی ہار بیٹھے بلکہ ان کی ناصحانہ باتوں کے اثر سے، غیر مقلدی برین واشنگ بھی اتر گئی اور یوں وہ اپنے مسلک سے تائب ہو کر اہل السنۃ والجماعۃ احناف میں شامل ہوگئے۔ اس بارے میں حضرت اوکاڑوی کا اپنا مضمون "'''میں حنفی کیسے بنا؟'''" مطبوعہ مجموعہ رسائل صفدری، نہ صرف انتہائی دلچسپ ہے بلکہ قابل دید ہے۔
== بیعت و تحفظِ دین حنیف ==
== بیعت و تحفظِ دین حنیف ==
حضرت مولانا مفتی بشیر احمد پسوری رحمہ اللہ کی تلقین سے آپ شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہوئےاور حضرت لاہوریؒ کی خصوصی توجہات کا مرکز بنے۔ والدین کی تربیت، طبعی نفاست پسندی اور سب سے بڑھ‌ کر حضرت لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کی شفقت و‌محبت اور خصوصی تعلق نے آپ کی روحانیت میں نہ صرف کہ نکھار ہی پیدا کردیا تھا بلکہ حنفیت کے میدان میں ایسا سکہ جمایا کہ تاحال مسلک حنفيہ کی ترویج و‌اشاعت اور تحفظ و‌خدمت کے میدان میں آپ کا ثانی نہیں ہے۔
حضرت مولانا مفتی بشیر احمد پسوری رحمہ اللہ کی تلقین سے آپ شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہوئےاور حضرت لاہوریؒ کی خصوصی توجہات کا مرکز بنے۔ والدین کی تربیت، طبعی نفاست پسندی اور سب سے بڑھ‌ کر حضرت لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کی شفقت و‌محبت اور خصوصی تعلق نے آپ کی روحانیت میں نہ صرف کہ نکھار ہی پیدا کردیا تھا بلکہ حنفیت کے میدان میں ایسا سکہ جمایا کہ تاحال مسلک حنفيہ کی ترویج و‌اشاعت اور تحفظ و‌خدمت کے میدان میں آپ کا ثانی نہیں ہے۔

نسخہ بمطابق 22:23، 12 جولائی 2015ء

مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی ؒ

مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی ؒ
مولانا امین صفدر اوکاڑوی ؒ

معلومات شخصیت
پیدائش 4 اپریل 1934ء
بیکانیر
وفات 3 شعبان المعظم 1421‌ھ بمطابق 3 اکتوبر 2000ء
اوکاڑہ
شہریت پاکستانی
مذہب اسلام
عملی زندگی
مادر علمی آبائی گاؤں
استاذ احمد علی لاہوری   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص علامہ عبدالغفار ذھبی   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ عالم ،  معلم ،  مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت جامعہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن ،  جامعہ خیر المدارس   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مؤثر محمد سرفراز خان صفدر   ویکی ڈیٹا پر (P737) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
متاثر مولانا الیاس گھمن

حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی کی پیدائش مورخہ چار اپریل 1934ء کو بیکانیر، ضلع گنگا نگر (جو اب بھارت کا حصہ ہے) میں ہوئی۔ آپ رحمہ اللہ کی پیدائش اور علمی محققانہ طرز زندگی حضرت مولانا سید شمس الحق افغانی رحمہ اللہ (فاضل دار العلوم دیوبند) کی دعاؤں کا ثمرہ ہے اور انہوں نے ہی حضرت کا نام محمد امين تجویز فرمایا تھا اور بڑے پیار سے سر پر ہاتھ پھیر کر آپ رحمہ اللہ کے والد محترم ولی محمد سے فرمایا: "یہ لڑکا مولوی بنے گا، مناظر بنے گا!" چناچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سید صاحب رحمہ اللہ کی دعاء قبول فرماتے ہوۓ آخر کار حضرت کو ماسٹر محمد امین سے مناظر اسلام، محقق حنفیت، وکیل اہل سنت والجماعت مولانا محمد امین صفدراوکاڑوی بنا دیا۔ تحقیق و‌تحریر میں حضرت اوکاڑوی رحمہ اللہ چونکہ شیخ و‌مرشد امام اہل سنت والجماعت پیر طریقت حضرت مولانا سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم سے متاثر تھے، اس لیئے صفدر کہلاتے ہوئےان کی جانب نسبت ظاہر فرماتے تھے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ وطن عزیز پاکستان میں تاحال دو ہی صفدر گزرے ہیں، تقریر میں حضرت مولانا محمد امين صفدر اوکاڑوی اور تحریر میں حضرت مولانا سرفراز خان صفدر ؒ

تعلیم

حضرت اوکاڑوی نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں میں ہی حاصل کی، وہاں چونکہ اہل حق کا کوئی مدرسہ تھا نہ مسجد اس لیئے عقیدہ توحید سے مناسبت کی وجہ سے ان کے والد محترم نے انہیں غیر مقلدین کی مسجد میں تعلیم کیلئے حافظ محمد رمضان کے سپرد کر دیا، بعد ازاں مولانا عبد الجبار کنڈیلوی (غیر مقلد)سے کچھ درسی کتب پڑھیں، جس کے نتیجے میں کافی عرصہ تک احناف کے خلاف سرگرم عمل رہے۔ پاکستان بنے کے بعد اپنے والدین کے ہمراہ ضلع اوکاڑہ کے چک نمبر55/2-1میں ہجرت کرنے کے بعد مستقل سکونت اختیار کرلی۔

رجوع الاخیر

1953ء میں قادیانیوں کے خلاف تحریک ختم نبوت کے دوران حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ تعالیٰ کے شاگردِ رشید، حضرت مولانا محمد عبد الحنان رحمہ اللہ (فاضل دیوبند) اور حضرت مولانا عبد القدیر (فاضل دیوبند) گرفتاری کے بعدجب اوکاڑہ تشریف لائےتو آپ ؒ کے استاذ مولانا عبد الجبار کنڈیلوی نے حضرت اوکاڑوی کو ان سے بحث و‌مباحثہ کرنے کیلئے بھیج دیا۔ ان سے بحث میں نہ صرف حضرت اوکاڑوی ہار بیٹھے بلکہ ان کی ناصحانہ باتوں کے اثر سے، غیر مقلدی برین واشنگ بھی اتر گئی اور یوں وہ اپنے مسلک سے تائب ہو کر اہل السنۃ والجماعۃ احناف میں شامل ہوگئے۔ اس بارے میں حضرت اوکاڑوی کا اپنا مضمون "میں حنفی کیسے بنا؟" مطبوعہ مجموعہ رسائل صفدری، نہ صرف انتہائی دلچسپ ہے بلکہ قابل دید ہے۔

بیعت و تحفظِ دین حنیف

حضرت مولانا مفتی بشیر احمد پسوری رحمہ اللہ کی تلقین سے آپ شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہوئےاور حضرت لاہوریؒ کی خصوصی توجہات کا مرکز بنے۔ والدین کی تربیت، طبعی نفاست پسندی اور سب سے بڑھ‌ کر حضرت لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کی شفقت و‌محبت اور خصوصی تعلق نے آپ کی روحانیت میں نہ صرف کہ نکھار ہی پیدا کردیا تھا بلکہ حنفیت کے میدان میں ایسا سکہ جمایا کہ تاحال مسلک حنفيہ کی ترویج و‌اشاعت اور تحفظ و‌خدمت کے میدان میں آپ کا ثانی نہیں ہے۔

عشقِ رسول

آپ کے روز و‌شب خدمت دین حنیف میں گزرتے۔ کثرت درود و‌اتباع سنت کی وجہ سے عشق رسول صلى اللہ عليہ وسلم بحظ وافر نصیب ہوا تھا، قریشی صاحب کو حضرت اوکاڑوی نے خود فرمایا کہ حضرت لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کی دعاؤں اور کثرت درود اور اللہ تعالیٰ کے محض فضل وکرم سے مجھے خواب میں نبی اقدس صلى اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی تو میں نے دربار نبویﷺ میں عرض کیا کہ حضور! میں مسائل یاد کرتا ہوں، احادیث پڑھتا ہوں، آپ کی ہدایات کو یاد کر کے عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتا ہوں مگر یاد نہیں رہتیں! تویہ ارشاد فرماتے ہوئے نبی اقدس صلى اللہ علیہ وسلم نے اپنا لعابِ دہن میرے ہونٹوں پر لگاتے ہوۓ فرمایا کہ "انشاء اللہ اب ایسا نہیں ہوگا"۔

بطورِ سکول ٹیچر

حضرت مولانا اوکاڑوی رحمۃ اللہ بعض حالات کی وجہ سے مجبوراً پرائمری اسکول میں ٹیچر ہوئے تاہم یہ ان کا اصل مشغلہ نہیں تھا۔ الحمد للہ اسکول سے فراغت کے بعد وہ باقی وقت عربی و‌فارسی دینی کتب کا مطالعہ اور تبلیغ دین میں مصروف رہتے چنانچہ آپ نے اپنے گاؤں میں دو مرتبہ مکمل قرآن حکیم کا درس بھی دیا ،حضرت لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کی دعاؤں اور توجہات نے حضرت اوکاڑوی رحمۃ اللہ کو دین حنیف کا سپاہی بنا دیا۔

فتنوں کی سرکوبی

فرق باطلہ...خصوصاً مرزائیوں اور عیسائیوں و‌روافض اور منکرین فقہ کے ساتھ کراچی سے خیبر تک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً ایک سو سے زائد مناظرےکیئے جن میں اللہ تعالیٰ نے حضرت اوکاڑوی کو ہر جگہ سرخرو کیا جس سے ہزاروں لوگ اہل باطل کے دام فریب سے نکلنے میں نہ صرف کامیاب ہی ہوئےبلکہ حضرت نے تعمیری تنقید کا ایک نیا اسلوب متعارف کروا کر معاشرے کو تقریب پسند اور تفرقہ باز جماعتوں کے گھناؤنے اثرات سے پاک کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

خدمت دین

مدارس عربیہ، علوم اسلامیہ کی نشر و‌اشاعت کے مراکز اور اسلام کا قلعہ ہونے کے ساتھ ساتھ دین حنیف کو یلغار باطل سے محفوظ رکھنے کیلئے ڈھال کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ رحمۃ اللہ کو مدارس دینیہ کے اجراء، سرپرستی اور تعاون کا ذوق اپنے اکابر سے ورثہ میں ملا تھا، آپ نے اپنے گاؤں میں ذاتی زمین پر ایک مکتب قرانی تعمیر کروایا، خود حضرت مولانا مفتی احمد الرحمٰن صاحب کے حکم پر اسکول کی نوکری چھوڑ کر ایک طویل عرصہ تک جامعہ العلوم الاسلاميہ علامہ سيّد محمد یوسف البنوري ٹاؤن کراچی میں درس و‌تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے، ان کے وصال کے بعد جامعہ خير المدارس ملتان کے رئيس حضرت مولانا قاری محمد حنیف صاحب جالندھری دامت بركاتہم کے بار بار اصرار پر ١٤١٤‌ھ میں ملتان تشریف لے گئے اور تاحیات جامعہ خير المدارس ملتان میں شعبہ تخصص فی الدّعوۃ والارشاد کے رئیس رہے۔ علاوہ ازین شعبان و‌رمضان کی سالانہ چھٹیوں میں ملک و‌بیرون ملک دیگر مدارس اسلامیہ میں دورہ پڑھانے اور وقتاً فوقتاً مناظروں اور جلسوں سے خطاب کیلئےتشریف لے جاتے۔

اسلاف کی سرپرستی

حضرت اوکاڑوی اصول و‌فروع میں اپنے اکابر علماء دیوبند پر اعتماد کو اس دور پرفتن میں ہر فتنہ کا علاج سمجھتے ہوۓ ہمیشہ اس کی اہمیت و‌افادیت بیان فرماتے۔ اگرچہ تعمیری تنقید اور حنفیت کی تحقیق میں وہ مجتہدانہ شان کے مالک تھے تاہم عجز و‌انکسار کا پیکر مجسم تھے اور اپنی زندگی کے آخری دور میں میرے شیخ و‌مرشد، امام اہل السنت، شیخ الحديث مولانا سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم العاليہ (گوجرانوالہ) کی تحقیقات اور علمی کاوشوں سے بڑی حد تک متاثر تھے۔ ان سے آپ رحمۃاللہ کا بڑا گہرا روحانی تعلق بھی تھا۔ مولانا اوکاڑوی اس دور کے نزاعی مسائل میں اکابر کی تحقیق کو حرف آخر سمجھتے اور تحقیق کے نام پر اس سے انحراف کو انتہائی بری نظر سے دیکھتے تھے۔ جناب عمر الدین قریشی صاحب سے چونکہ ان کی بچپن سے دوستی تھی اس لیئےاکثر دونوں میں بے تکلفانہ گفتگو رہتی بلکہ مولانا امین صفدر اکثر عمر الدین قریشی کو مناظروں میں بھی ساتھ رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ عمر الدین قریشی نے ان سے عرض کیا؛ "امین صاحب! کبھی جناب نے سوچا بھی ہے کہ اتنا بڑا منصب (کہ جناب بڑے بڑے علماء کرام و‌مفتیان عظام کے استاذ بنے بیٹھے ہیں) آپ کو کس وجہ سے ملا؟" تو برکلا ارشاد فرمایا؛ "حضرت لاہوری رحمۃ اللہ کی دعاؤں، حضرت مولانا سرفراز خان صفدر کی شفقت، اپنے اکابر پر اعتماد اور علماء کرام کی محبت سے!"

اشاعتِ دین

آپ نے ماہنامہ بینات کراچی، ماہنامہ الحنفیہ جام پور، ماہنامہ الخیر ملتان وغیرہ میں حنفیت کی ترویج و‌اشاعت و‌تحفظ میں بے شمار مضامین لکھے اور بہت سی کتب بھی تصنیف فرمائیں جن کو اکابر و‌اصاغر قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور رہتی دنیا تک علماء و‌طلبہ ان سے مستفید ہوتے رہیں گے۔

طرزِ زندگی

آپ نے نہایت بے تکلف اور سادہ زندگی گزاری، حتٰی کہ تقریروں اور مناطروں میں بھی بات کرنے کا انداز بالکل سادہ مگر محققانہ تھا۔ کھانے پینے، لباس، نشست و‌برخاست میں بھی کسی تکلف و‌امتیاز کے روادار نہ تھے۔

وفات

نقاہت اور بیماری کے آثار ایک طویل عرصہ سے نمایاں تھے، علاج جاری تھا کہ 3 شعبان المعظم 1421‌ھ بمطابق 13کتوبر 2000ء کو طبیعت زیادہ خراب ہوگئی اور منگل اور بدھ کی درمیانی شب رات نو بجے کے قریب اپنے آبائی گاؤں (اورکاڑہ) میں دین حنیف کے عالمی ترجمان نے اپنی جان جان آفرین کے سپرد کردی۔