"تحریک اسلامی طالبان" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م دنیا ظالم (تبادلۂ خیال) کی ترامیم واپس ؛ Syedalinaqinaqvi کی گذشتہ تدوین کی جانب۔
م حقیقی طالبان
سطر 18: سطر 18:




[[افغانستان]] کی سب سے موثر جنگی و سیاسی قوت ہیں ان کو مختصرا [[طالبان]] کہا جاتا ہے نسلی اعتبار سے پشتون ہیں اور مسلکی اعتبار سے [[دیو بندی|دیوبندی]] اور اہل حدیث کے مکتبہ فکر سے منسلک ہیں
افغانستان کی سب سے موثر جنگی و سیاسی قوت ہیں ان کو مختصرا طالبان کہا جاتا ہے نسلی اعتبار سے پشتون ہیں اور مسلکی اعتبار سے [[دار العلوم دیوبند|دیوبندی]] مکتبہ فکر سے منسلک ہیں۔




== پس منظر ==
== پس منظر ==
طالبان دراصل پاکستانی و افغانی مدارس کے وہ طالب علم ہیں جو افغان جہاد میں [[روس]] کے خلاف لڑتے رہے تھے ۔ سویت یونین کی مداخلت کے بعد ابتدائی دنوں میں اس مزاحمتی تحریک [[افغان جہاد]] کو کسی جانب سے کوئی مدد حاصل نہ تھی لیکن جلد ہی پاکستان کو احساس ہوگیا کہ [[سرخ فوج]] کی اگلی منزل کونسی ہوگی۔ [[سوویت اتحاد|سویت یونین]] سے براہ راست جنگ کی استعداد پاکستان تو کیا امریکہ کے بھی پاس نہیں تھی اس لئے پاکستان نے جنگ کی ابتدائی صورتحال کا تجزیہ کرنے کے بعد [[سرخ فوج]] کو افغان گوریلا فورس کے ذریعے الجھانے کا فیصلہ کیا اور اس کے لئے مشرقی پاکستان کے میں بھارتی فوجی جارحیت کے [[مکتی باہنی]] والے تجربے کو مدّنظر رکھا گیا۔ اس گوریلہ جنگ کی اصل منصوبہ بندی پاک فوج نے کی تھی اور اس کے افسران ہی نے افغانوں کی قوت مزاحمت کو ایک نا قابل شکست قوت میں تبدیل کردیا تھا۔ کچھ عرصے بعد [[ریاستہائے متحدہ امریکہ|امریکہ]] بھی اس جنگ میں بلواسطہ طور پر کود گیا۔طالبان نے ان تین فریقوں ( [[پاکستان]] [[ریاستہائے متحدہ امریکہ|امریکہ]] [[افغان مجاہدین]] ) کے زیر سایہ جنگ کی واضح رہے کہ اس وقت تک طالبان مختلف جہادی تنظیموں میں بکھری ہوئے تھے اور انہوں نے کوئی باقا‏عدہ تنظیم کی شکل اختیار نہ کی تھی۔ روسی فوجوں کی واپسی کے بعد ان کی اکثریت اپنے مدارس میں واپس چلی گئی تھی۔
طالبان دراصل پاکستانی و افغانی مدارس کے وہ طالب علم ہیں جو افغان [[جہاد]] میں [[روس]] کے خلاف لڑتے رہے تھے ۔ [[روس|سویت یونین]] کی مداخلت کے بعد ابتدائی دنوں میں اس مزاحمتی تحریک افغان جہاد کو کسی جانب سے کوئی مدد حاصل نہ تھی لیکن جلد ہی پاکستان کو احساس ہوگیا کہ سرخ فوج کی اگلی منزل کونسی ہوگی۔ سویت یونین سے براہ راست جنگ کی استعداد پاکستان تو کیا امریکہ کے بھی پاس نہیں تھی اس لئے [[پاکستان]] نے جنگ کی ابتدائی صورتحال کا تجزیہ کرنے کے بعد سرخ فوج کو افغان گوریلا فورس کے ذریعے الجھانے کا فیصلہ کیا۔ اس گوریلہ جنگ کی اصل منصوبہ بندی پاک فوج نے کی تھی اور اس کے افسران ہی نے افغانوں کی قوت مزاحمت کو ایک نا قابل شکست قوت میں تبدیل کردیا تھا۔ کچھ عرصے بعد امریکہ بھی اس جنگ میں بلواسطہ طور پر کود گیا۔مجاہدین نے ( پاکستان و امریکہ) کے زیر سایہ جنگ کی ۔ روسی فوجوں کی واپسی کے بعد مجاہدین میں جو طلباء جہاد کر رہے تھے اب وہ واپس اپنے اپنے مدارس میں چلے گئے۔


== قیام ==
== قیام ==
روسی فوجوں کی واپسی کے بعد جہادی تنظیموں کی باہمی خانہ جنگی کے باعث 1995میں طالبان دوبارہ میدان جنگ میں آگئے اور [[افغانستان]] کے 90 فیصد رقبے پر اپنی عملداری قائم کرکے [[شریعت]] نافذ کردی۔تاہم ان کی شریعت پر کئی حلقوں کی طرف سے تنقید ہوتی رہی۔ ان کو سب سے پہلے سعودی عرب اور بعد میں اسامہ بن لادن سے مالی معاونت حاصل رہی۔<ref> طالبان از راشد، 2000 صفحہ 132۔ و 139</ref><ref> طالبان انگریزی وکیپیڈیا</ref>
روسی فوجوں کی واپسی کے بعد جہادی تنظیموں کی باہمی خانہ جنگی کے باعث 1995ءمیں مدارس کے طلباء ملا محمد عمر مجاہد کی قیادت میں دوبارہ میدان جنگ میں آگئے اور امریکہ کے آنے تک افغانستان کے ٪90 فیصد رقبے سے ظالموں کا خاتمہ کرکے مکمل طور پر شریعت نافذ کردی گئی۔تاہم اقوام متحدہ اور اسکے حواریوں کی جانب سے نافظ کی گئی شریعت پر بے جا تنقید ہوتی رہی۔ اگر تو اقوام متحدہ کی تنقید بجا ہوتی تو طالبان سے ذیادہ امن قائم کرکے دکھاتے مگر 56 مملک کی افغانستان پر اقوام متحدہ کے زیر سایہ یلغار کےاثرات انتہائی منفی ہیں۔ اقوام متحدہ اور نیٹو کے زیر قبضہ افغانستان طالبان دور سے ہزاروں درجہ پسماندہ و بے امن ہے۔اسی لیئے موجودہ انتظامیہ امریکہ سمیت تمام ناٹو طالبان سے مذاکرات کرنے کیلئے دوڑ لگا رہی ہے۔


== پاکستان کا ان کی مضبوطی میں کردار ==
== پاکستان کا ان کی مضبوطی میں کردار ==
جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ روسی فوجوں کی واپسی کے افغانستان میں جہادی تنظیموں کی باہمی خانہ جنگی اور ان کے داخلی انتشار ، بار بار معاہدوں کی عہد شکنی کا ایک افسوسناک دور چل نکلا تھا ۔ حکومت پاکستان جو 10 سالہ جنگ لڑ کر اس بات کی منتظر تھی کہ اب افغانستان میں پہلی بار پاکستان کی حلیف حکومت قائم ہوگی مگر ان تنظیموں کی داخلی خانہ جنگی نے کابل کا جنگی درجہ حرارت وہ ہی رکھا جو روسی جارحیت کے دوران رہا کرتا تھا نتیجتہ حکومت پاکستان ان سے نالاں ہوگئ ۔ افغانستان میں اپنی حکومت کے قیام کے بعد طالبان پاکستان کے لئے اجنبی اس لئے بھی نہ تھے کہ آئی ایس آئی کے روابط جہادی تنظیموں سے افغان جہاد سے ہی قائم تھے اور طالبان بھی ان تنظیموں کا ہی حصہ رہے تھے ۔ پھر طالبان نے افغانستان میں اپنے زیر کنٹرول علاقوں سے نہ صرف یہ کہ پاکستان مخالف عناصر بالخصوص بھارتی عناصر کا مکمل صفایا کردیا بلکہ ڈیورنڈ لائن کو بھی پاکستان کے لئے مکمل محفوظ کردیا ۔ان وجوہ پر حکومت پاکستان نے طالبان کو افغانستان کا جائز حکمران تسلیم کرلیا۔
جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ روسی فوجوں کی واپسی کے افغانستان میں جہادی تنظیموں کی باہمی خانہ جنگی اور ان کے داخلی انتشار ، بار بار معاہدوں کی عہد شکنی کا ایک افسوسناک دور چل نکلا تھا ۔ حکومت پاکستان جو 10 سالہ جنگ لڑ کر اس بات کی منتظر تھی کہ اب افغانستان میں پہلی بار پاکستان کی حلیف حکومت قائم ہوگی مگر ایران اپنے حامیوں کو لیکر میدان میں آگیا جو شیعہ گورنمنٹ چاہتا تھا۔ ان تنظیموں کی داخلی خانہ جنگی میں ایران کا اہم کردار عبدالرشید کی دوستم کی صورت میں مجاہدین کو بگھتنا پڑا۔ کابل کا جنگی درجہ حرارت وہ ہی رکھا جو روسی جارحیت کے دوران رہا کرتا تھا نتیجتہ حکومت پاکستان کی خواہش کبھی نہ پوری ہوئی ۔ افغانستان میں اپنی حکومت کے قیام کے بعد طالبان پاکستان کے لئے اجنبی اس لئے بھی نہ تھے کہ آئی ایس آئی کے روابط جہادی تنظیموں سے افغان جہاد سے ہی قائم تھے جنہیں ایرانی امداد و مذہب کی سپلائی برابر جاری تھی وہ روس دور میں افغانستان کا امن تباہ و برباد کرنے میں برابر کے شریک تھے۔ طالبان بھی ان تنظیموں کا ہی حصہ رہے تھے ۔ پھر طالبان نے افغانستان میں اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں امن قائم کردیا۔ ایرانی سپلائی یافتہ عبدالرشید دوستم کے قتل عام سے تنگ آکر بلآخر حکومت پاکستان نے امن پسند لوگوں کے ہاتھ میں اقتدار کو دیکھتے ہی انہیں قبول کرلیا۔ جنہیں آج طالبان مانا گیا۔


== دور حکومت ==
== دور حکومت ==
طالبان کا دور حکومت 1995 سے 2001 تک تقریبا 6 سال کے عرصے پر محیط ہے اس دوران ان کا زیادہ تر وقت اپنے حریف [[شمالی اتحاد]] سے جنگ میں گزرا۔ افغانستان کو اگر کوئی چیز طالبان نے دی تھی تو وہ انصاف کی بروقت فراہمی اور امن و امان کی مثالی صورتحال تھی۔ ان کے زیر کنٹرول علاقوں میں شاہراوں کو محفوظ بنادیا گیا تھا۔ پوست کی کاشت پر پابندی عائد کردی گئی تھی تمام غیر قانونی ٹیکس اور چنگیاں ختم کردی گئی تھیں جن کے باعث آمدرفت میں اضافہ دیکھنے میں آیا تھا ساتھ ہی ساتھ ‏غیر قانونی تجارت کو بھی خاصا فروغ حاصل ہوگیا تھا۔ مزید کسی میدان میں طالبان کو‎ئی خاص پیش رفت نہ کرسکے ۔
طالبان کا دور حکومت 1995ء سے 2001ء تک تقریبا 6 سال کے عرصے پر محیط ہے اس دوران ان کا زیادہ تر وقت اپنے حریف ایرانی حمایت یافتہ شمالی اتحاد سے جنگ میں گزرا۔ افغانستان کو اگر کوئی چیز طالبان نے دی تھی تو وہ انصاف کی بروقت فراہمی اور امن و امان کی مثالی صورتحال تھی۔ ان کے زیر کنٹرول علاقوں میں شاہراوں کو محفوظ بنادیا گیا تھا۔ پوست کی کاشت پر پابندی عائد کردی گئی تھی تمام غیر قانونی ٹیکس اور چنگیاں ختم کردی گئی تھیں جن کے باعث آمدرفت میں اضافہ دیکھنے میں آیا تھا ایک تباہ شدہ ملک جہاں ایک سپر پارو ملک سے 11 سال پر محیط جنگ لڑی گئی ہو وہاں صرف 6 سال کے عرصہ کے اندر اندر اتنے بڑے کام کردیئے جائیں اسی کو انقلاب کہتے ہیں۔

یہی بات امریکہ اور اسکی اقوام متحدہ کو نہیں بھاتی تھی کہ اتنی غریب مملکت جنکے پاس نہ انجنیئرز، نہ یونیورسٹیاں ہوں اور نہ ہی دیگر ترقی یافتہ اقوام کی طرح کی پالیسیاں ہوں انتہائی قلیل عرصہ میں اتنی بڑی کامیابیاں حاصل کرلینا معجزے کم نہ تھا۔

انسان کو انسان کے ساتھ ہمدردی سکھانا، ایک عورت کو وہ مقام دینا کہ جہاں سے گزر رہی ہو تو مرد نظریں جھکالے، ایسا نظام متعارف کروانا کہ عورت چار دیواری سے باہر بھی محفوظ ہو اور اسکے برعکس تعقی یافتہ ممالک میں عورت کی عصمت دری گھریلو چار دیواری میں ہو گھر سے باہر تو کجا۔

== امریکی و اتحادی دور ==
22 فروری 2005ء کو اقوام متحدہ افغانستان کی تازہ صورت حال کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کی۔اس رپورٹ میں کہا گیا کہ:

طالبان حکومت کو گرائے جانے تین سال بعد بھی افغانستان ایک غریب ملک ہے جو عالمی امن کیلئے خطرہ بن سکتا ہے تین سال بعد بھی ملک میں بے روز گاری، صحت اور تعلیم کے مسائل موجود ہیں۔ دنیا میں افغانستان سے ذیادہ غریب صرف تین امریکی ملک ہیں۔ افغانستان انسانی ترقی کے چارٹ پر دنیا کے ایک سو انہتر ملکوں میں سے ایک سو تہترویں نمبر پر ہے۔رپورٹ کے مطابق افغانستان میں ہر پانچواں بچہ پانچ سال کی عمر سے پہلے ہی فوت ہوجاتا ہے اور عام زندہ رہنے اوسط شرح چوالیس سال ہے۔ افغانستان میں بد امنی اور غربت سے سب سے ذیادہ متاثر عورتیں ہوئی ہیں اور ہر آدھے گھنٹے میں ایک افغانی عورت زچگی کی پیچیدگیوں کا نشانہ بن جاتی ہے۔ افغانستان میں دنیا کا بدترین تعلیمی نظام ہے اور ملک میں بالغ شرح تعلیم صرف اٹھائیس اعشاریہ سات فیصد ہے۔ منشیات کا کاروبار بھی آج بھی افغانستان کی معیشت کا اہم ستون ہے اور وہ آج دنیا کو منشیات مہیا کرنے ولے ملکوں کی فہرست میں سب سے اوپر ہے۔ طالبان کو حکلومت سے نکالے جانے کے باوجود جسمانی تشدد آج بھی جاری ہے۔ اگر افغانستان کے حالات نہ بدلے تو وہ پھر ایک غیر محفوظ سلطنت بن جائے گی جہاں نہ صرف اسکے اپنے شہری غیر محفوظ ہونگے بلکہ وہ دنیا کیلئے بھی خطرہ بن جائے گا۔


== نصیر اللہ خان بابر اور طالبان ==
==سرد جنگ کے بعد امریکہ کا کردار ==
==سرد جنگ کے بعد امریکہ کا کردار ==
سویت افواج کی شرمناک شکست کے بعد سویت یونین اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا جس کے باعث افغانستان میں امریکی دلچسپی ختم ہوچکی تھی۔ امریکا جو افغان جہادی تنظیموں سے ہاٹ لائن پر رابطے میں رہا کرتا تھا یکلخت ان سب معاملات سے الگ ہوگیا۔ امریکا کی نظر خلیج کے تیل پر تھی اس لۓ وہ عراق کو کویت پر حملے کے لۓ اکسانے کی سازشوں میں مصروف ہوگیا تاکہ اس بہانے خلیج میں امریکی افواج کے قدم جمائے جاسکیں۔
سویت افواج کی شرمناک شکست کے بعد سویت یونین اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا جس کے باعث افغانستان میں امریکا کی نظر اب یہاں مرضی کی حکومت تکیل دینا تھا یہ کام ایرانی حمایت یافتہ بخوبی سر انجام دے رہے تھے۔ امریکا کی نظر خلیج کے تیل پر تھی اس لیئے وہ عراق کو کویت پر حملے کے لیئے اکسانے کی سازشوں میں مصروف ہوگیا تاکہ اس بہانے خلیج میں امریکی افواج کے قدم جمائے جاسکیں۔


== نسل کشی کا الزام ==
== نسل کشی کا الزام ==


طالبان نے 1998ء میں ہرات پر قبضہ کے بعد مزار شریف پر قبضہ کیا تو اس شہر میں قتل عام کیا۔ ان کا طریقہ یہ تھا کہ ٹرکوں اور گاڑیوں میں عام سڑکوں اور گلیوں میں جاتے اور دائیں بائیں فائرنگ کرتے تھے۔<ref>طالبان از راشک، 2000، صفحہ 73 </ref>۔<ref>افغانستان کی غیر فانی جنگ از گڈسن، 2001 صفحہ 79</ref> اس طریقہ سے انہوں نے 8000 لوگوں کا قتل عام کیا۔ یہی طریقہ انہوں نے بامیان پر قبضہ کے بعد اختیار کیا <ref>افغانستان کی غیر فانی جنگ از گڈسن، 2001 صفحہ 79</ref> واضح رہے کہ طالبان سے قبل بامیان پر ایران نواز شیعہ ملیشیاء [[حزب وحدت]] کا قبضہ تھا۔
طالبان نے 1998ء میں ہرات پر قبضہ کے بعد مزار شریف کو فتح کیا تو ایران و امریکا اور اسکی اقوام متحدہ کی جانب سے قتل عام کا الزام لگایا گیا۔اس تیار کردہ الزام کے مطابق ان کا طریقہ یہ تھا کہ ٹرکوں اور گاڑیوں میں عام سڑکوں اور گلیوں میں جاتے اور دائیں بائیں فائرنگ کرتے تھے۔ واضح رہے کہ طالبان سے قبل بامیان پر ایران نواز شیعہ ملیشیاء حزب وحدت کا قبضہ تھا۔


== خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک ==
== خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک ==
کچھ حلقوں کے مطابق طالبان خواتین کے ساتھ غیر انسانی سلوک کے لیے جانے جاتے ہیں.مگر اس قسم کر الزامات کی بہترین نفع [[یووون رڈلے]] نامی برطانوی خاتون صحافی نے کی.جنہوں نے تقریبا ایک سال کا عرصہ طالبان کی قید میں گزارا اور ان کے حسن سلوک سے متاثر ہوکر ناصرف اسلام قبول کیا بلکہ طالبان کا ہر فورم پر دفاع بھی گیا.یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کے اصولوں کا تعلق اسلام سے زیادہ پشتون ولی قوانین کے ساتھ ہے.لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ طالبان نہ صرف خواتین کی مردوں کے ساتھ مخلوط تعلیم کے سخت خلاف ہیں بلکہ خواتین کو بلاضرورت گھر سے باہر بھی نہیں نکلنے دیتے. خواتین کو غیر اسلامی طریقہ سے سزائیں بھی دینے کے قائل ہیں مثلاً بھرے بازار میں خواتین کو لکڑی کی چھڑیوں کے ساتھ پیٹنے کی روایت انہوں نے قائم کی.<ref> [http://www.state.gov/g/drl/rls/6185.htm طالبان کی خواتین کے خلاف جنگ انسانی حقوق و محنت کی رپورٹ۔ 2001ء] </ref> ان کے دور میں خواتین کے مدرسے بند کر دیے گئے۔
کچھ حلقوں کے مطابق طالبان خواتین کے ساتھ غیر انسانی سلوک کے لیے جانے جاتے ہیں.مگر اس قسم کر الزامات کی بہترین نفع یووون رڈلے نامی برطانوی خاتون صحافی نے کی.جنہوں نے تقریبا ایک سال کا عرصہ طالبان کی قید میں گزارا اور ان کے حسن سلوک سے متاثر ہوکر ناصرف اسلام قبول کیا بلکہ طالبان کا ہر فورم پر دفاع بھی گیا.یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کے اصولوں کا تعلق اسلام سے زیادہ پشتون ولی قوانین کے ساتھ ہے.لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ طالبان نہ صرف خواتین کی مردوں کے ساتھ مخلوط تعلیم کے سخت خلاف ہیں بلکہ خواتین کو بلاضرورت گھر سے باہر بھی نہیں نکلنے دیتے۔ایسا کرنے سے خواتین کی عصمت دری کے واقعات کا نہ ہونا صرف طالبان کو ہی کریڈٹ دیتا ہے باقی دنیا میں کوئی بھی ملک ایسا نہیں جہاں حقوق نسواں کی تنظیمیں سالانہ اربوں دالر کھا جائیں،پولیس کے محکمے پر بے انتہا اخراجات، عصمت دری کے واقعات کو کنٹرول کرنے کیلئے بڑی بڑی تنظیموں کی موجودگی میں لاکھوں عصمت دری کے واقعات رونما ہوجائیں اسکے برعکس ٹوٹا پھوٹا افغانستان جہاں کے نظام میں ایک انگریز غیر مسلم عورت آکر اسلام کیوں نہ قبول کر جائے۔ اس ذیادہ اچھی مثال کوئی ملک نہیں پی کر سکتا کہ 6 سال کے مختصر عرصہ میں اچھی رپورٹ وہ بھی غریب نہتے نگ دھڑنگ لوگوں سے متوقع ہو سکتی ہے تو وہ صرف طالبان کے ذریعے لیا نافذ یا گیا اسلامی شرعی نطام ہی ہے۔ تب ہی افغان حکام ، نیٹو و امریکا طالبان کی جانب ہاتھ بڑھارہے ہیں۔


== خارجہ پالیسی ==
== خارجہ پالیسی ==
طالبان حکومت کو صرف تین ممالک پاکستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے تسلیم کیا تھا لہذا ان کی خارجہ پالیسی کی کوئی خاص سمت متعین نہیں تھی ۔ افغانستان کے شیعہ اکثریتی علاقوں میں ایرانی مدا‏خلت کے باعث ایران سے طالبان کے تعلقات کبھی خوشگوار نہ رہے ایک موقع پر تو دونوں ممالک جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے تاہم دوسرے اسلامی ممالک کی مداخلت سے باعث یہ جنگ بمشکل روکی جاسکی۔ پڑوسی ممالک میں صرف پاکستان ہی سے ان کے بہترین تعلقات تھے۔ اسامہ بن لادن نے جب سرزمین عرب پر امریکی افواج کی موجودگی کے خلاف آواز بلند کی تو طالبان کے سعودی عرب سے بھی اختلافات پیدا ہوچلے تھے۔
طالبان حکومت کو صرف تین ممالک پاکستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے تسلیم کیا تھا لہذا ان کی خارجہ پالیسی کی کوئی خاص سمت متعین نہیں تھی ۔ افغانستان کے شیعہ اکثریتی علاقوں میں ایرانی مدا‏خلت کے باعث ایران سے طالبان کے تعلقات کبھی خوشگوار نہ رہے ایک موقع پر تو دونوں ممالک جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے تاہم دوسرے اسلامی ممالک کی مداخلت کے باعث یہ جنگ بمشکل روکی جاسکی۔ پڑوسی ممالک میں صرف پاکستان ہی سے ان کے بہترین تعلقات تھے۔ اسامہ بن لادن نے جب سرزمین عرب پر امریکی افواج کی موجودگی کے خلاف آواز بلند کی تو طالبان کے سعودی عرب سے بھی اختلافات پیدا ہوچلے تھے۔ اسوقت طالبان کے پاس حکومت تو تھی لیکن آج وہ بھی نہیں اسکے باوجود امریکہ مذاکرات کیلئے ہاتھ بڑھارہا ہے آخر کوئی تو وجہ ہے ہی۔


== دور حکومت کا خاتمہ ==
== دور حکومت کا خاتمہ ==
ستمبر2001 ایک میں امریکا شہروں نیویارک میں واقع ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور امریکی محکمہ دفاع کے صدر دفتر المعروف [[پینٹا گون|پینٹاگون]] پر حملے کئے گئے جن کا زم دار [[القا‏عدہ]] کو قرار دیا گیا۔ القاعدہ کے میزبان ہونے کے ناطے طالبان کو اکتوبر2001 میں امریکی جارحیت کا سامنا کرنا پڑا اور ان کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔
ستمبر2001 ایک میں امریکا شہروں نیویارک میں واقع ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور امریکی محکمہ دفاع کے صدر دفتر المعروف پینٹاگون پر حملے کئے گئے جن کا ذمہ دار القا‏عدہ کو ٹحہرایا گیا۔ القاعدہ کے میزبان ہونے کے ناطے طالبان کو اکتوبر2001ء میں امریکی جارحیت کا سامنا کرنا پڑا اور امن کا گہوارہ بنائے جانے والے ملک افغانستان پر دیکھتے ہی دیکھتے 56 ممالک امریکہ و اقوام متحدہ سربراہی میں چڑھ دوڑے۔ ببانگ دہل امن کا نعرہ لگانے والے افغانستان کو کیا امن دیتے خود بے امنی کا شکار ہیں۔آج افغانستان صرف اور صرف انہی کی لیا ہوا بے امنی کا شکار ملک ہے۔ لوگ اپنے مسائل کے حل کیلئے آج طالبان سے کیوں رجوع کرتے ہیں۔


== میدان جنگ میں ==
== میدان جنگ میں ==
طالبان کا سب سے موثر طریقہ جنگ گوریلا جنگ ہے جو صدیوں سے افغانستان میں بیرونی مداخلت کاروں کے خلاف کامیابی سے استعمال کیا جاتا رہا ہے ماضی میں برطانیہ، روس اور آج کل امریکا کو اسی مزاحمت کا سامنا ہے ۔افغانستان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بیرونی مداخلت کاروں کے خلاف مزاحمت میں صرف افغان قوم ہی نہیں بلکہ اس ملک کا جغرافیہ بھی شامل ہوجاتا ہے۔ افغانستان کا بیشتر حصہ سخت گزار پہاڑی سلسلوں پر محیط ہے جہاں جدید ترین اسلحہ سے لیس تربیت یافتہ افواج بھی بے بس نظر آتی ہیں۔ خودکش حملوں کو طالبان کا سب سے موثر ہتھیار مانا جاتا ہے ان کو اس وقت افغانستان میں موجود اتحادی افواج کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے اس کے علاوہ سڑک کے کناروں پر نصب باروی سرنگیں اور ریمورٹ کنٹرول بم بھی طالبان کی جنگی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ بنیادی طور پر طالبان گوریلا جنگجو ہونے کی وجہ سے چھوٹے ہھتیاروں پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ دوسری جانب ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ طالبان جدید ٹیکنالوجی بھی استعمال کر رہے ہیں۔ <ref> [ طالبان اور جدید ٹیکنالوجی http://www.ummatpublication.com/2009/06/23/lead14.html] </ref> ۔
طالبان کا سب سے موثر طریقہ جنگ گوریلا جنگ ہے جو صدیوں سے افغانستان میں بیرونی مداخلت کاروں کے خلاف کامیابی سے استعمال کیا جاتا رہا ہے ماضی میں برطانیہ، روس اور آج کل امریکا کو اسی مزاحمت کا سامنا ہے ۔افغانستان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بیرونی مداخلت کاروں کے خلاف مزاحمت میں صرف افغان قوم ہی نہیں بلکہ اس ملک کا جغرافیہ بھی شامل ہوجاتا ہے۔ افغانستان کا بیشتر حصہ سخت گزار پہاڑی سلسلوں پر محیط ہے جہاں جدید ترین اسلحہ سے لیس تربیت یافتہ افواج بھی بے بس نظر آتی ہیں۔ خودکش حملوں کو طالبان کا سب سے موثر ہتھیار مانا جاتا ہے ان کو اس وقت افغانستان میں موجود اتحادی افواج کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے اس کے علاوہ سڑک کے کناروں پر نصب باروی سرنگیں اور ریمورٹ کنٹرول بم بھی طالبان کی جنگی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ بنیادی طور پر طالبان گوریلا جنگجو ہونے کی وجہ سے چھوٹے ہھتیاروں پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ دوسری جانب ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ طالبان جدید ٹیکنالوجی بھی استعمال کر رہے ہیں جو نیٹو و امریکی افوج سے کھینچ کر انہی کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے اسے عرف عام میں جدید ٹیکنالوجی کہتے ہیں۔


== 2009 ==
== 2009 ==
افعانستان میں امریکی فوجی سربراہ جنرل [[میک کرسٹل]] کا کہنا ہے کہ طالبان کی پوزیشن دن بہ دن مضبوط ہوتی جارہی ہے اگر امریکا نے 45000 مزید فوج افغانستان روانہ نا کی تو خدشہ ہے کہ ایک سال کے اندر اندر اتحادی افواج کو شکست کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
افعانستان میں امریکی فوجی سربراہ جنرل میک کرسٹل کا کہنا ہے کہ طالبان کی پوزیشن دن بہ دن مضبوط ہوتی جارہی ہے اگر امریکا نے 45000 مزید فوج افغانستان روانہ نا کی تو خدشہ ہے کہ ایک سال کے اندر اندر اتحادی افواج کو شکست کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ستمبر 2009 میں ہی اتحادی فوج کے ایک کانوا‌ئے پر طالبان کے ایک حملے میں اٹلی کے 6 فوجیوں کے ہلاک  ہوجانے پر اٹلی کے وزیر اعظم نے اتحادی ممالک پر زور دیا ہے کہ ان کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ جلد از جلد اپنی افوا ج افغانستان سے نکال لیں۔
ستمبر 2009 میں ہی اتحادی فوج کے ایک کانوا‌ئے پر طالبان کے ایک حملے میں [[اطالیہ|اٹلی]] کے 6 فوجیوں کے ہلاک <ref> [http://www.ummatpublication.com/2009/09/18/lead3.html] </ref> ہوجانے پر اٹلی کے وزیر اعظم نے اتحادی ممالک پر زور دیا ہے کہ ان کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ جلد از جلد اپنی افوا ج افغانستان سے نکال لیں <ref> [اٹلی کے قدم لڑکھڑا گئے http://www.ummatpublication.com/2009/09/19/lead23.html] </ref> ۔


== 2010 ==
== 2010 ==
افغانستان میں موجود قابض امریکی افواج کے کمانڈر جنرل میک کرسٹل نے کے مطابق طالبان سے امن بات چیت کی جانی چاہیے. انہوں نے مزید کہا کہ آنے والے ماہ و سال میں طالبان افغانستان کو آگ کا گولا بنادیں گے۔ انہوں نے اصرار کیا کہ افغانستان میں جنگ کا خاتم صرف طالبان سے مذاکرات کے زریعے ہی ممکن ہے۔<ref>http://www.ummatpublication.com/2010/01/26/story10.html</ref>
افغانستان میں موجود قابض امریکی افواج کے کمانڈر جنرل میک کرسٹل نے کے مطابق طالبان سے امن بات چیت کی جانی چاہیے. انہوں نے مزید کہا کہ آنے والے ماہ و سال میں طالبان افغانستان کو اتحادیوں کا جہنم بنا دیں گے۔ انہوں نے اصرار کیا کہ افغانستان میں جنگ کا خاتمہ صرف طالبان سے مذاکرات کے زریعے ہی ممکن ہے۔<sup>[9]</sup>


[[واشنگٹن پوسٹ]] کے ایک اداریئے کے مطابق امریکی افواج نے پاکستانی سرحد سے ملحقہ صوبے [[کنڑ]] میں واقع وادی کورنگل طالبان سے مزاکرات کے بعد خالی کرکے پسپائی اختیار کرلی ہے اور اپنے اس اڈے کو تباہ کئے بنا اس میں موجود مشینری ، کرینیں، جنریٹرز، اور 6 ہزار گیلن پیڑول کا زخیرہ بھی چھوڑ گئے ہیں <ref>http://www.ummatpublication.com/2010/04/16/idr1.html</ref>۔ اس سے قبل امریکی فوج کی جانب صوبہ [[صوبہ ہلمند|ہلمند]] کے علاقے [[مرجہ]] سے بھی امریکی آپریشن بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانے کے بعد منسوخ کردیا گیا.امریکی کانگریس میں سے یہ سوال بار بار اٹھایا جارہا ہے کہ مسلسل ناکامیوں اور بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانے کے باوجود افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی کا کیا جواز ہے ؟
واشنگٹن پوسٹ کے ایک اداریئے کے مطابق امریکی افواج نے پاکستانی سرحد سے ملحقہ صوبے کنڑ میں واقع وادی کورنگل طالبان سے مزاکرات کے بعد خالی کرکے پسپائی اختیار کرلی ہے اور اپنے اس اڈے کو تباہ کئے بنا اس میں موجود مشینری ، کرینیں، جنریٹرز، اور 6 ہزار گیلن پیڑول کا زخیرہ بھی چھوڑ گئے ہیں اسی کو طالبان کی جدید ٹیکنا لوجی کہتے ہیں <sup>[10]</sup>۔ اس سے قبل امریکی فوج کی جانب سے صوبہ ہلمند کے علاقے مرجہ سے بھی امریکی آپریشن بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانے کے بعد منسوخ کردیا گیا.امریکی کانگریس میں سے یہ سوال بار بار اٹھایا جارہا ہے کہ مسلسل ناکامیوں اور بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانے کے باوجود افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی کا کیا جواز ہے ؟


== جنرل میک کرسٹل کی برطرفی ==
== جنرل میک کرسٹل کی برطرفی ==
سطر 71: سطر 78:


== عالم اسلام پر اثرات ==
== عالم اسلام پر اثرات ==
تحریک طالبان کے عالم اسلام پر منفی و مثبت دونوں ہی طرح کے اثرات مرتب ہوئے ۔ عالمی جہادی تحریکوں کا طالبان سے خاصی تقویت ملی جن میں القاعدہ سرفہرست ہے ۔ کشمیر میں سرگرم جہادی تحریکوں کو بھی طالبان کی پشت پناہی حاصل تھی۔ شرعی قوانین کے نفاذ سے جنگ سے تباہ حال ملک میں امن و امان قائم ہوگیا تھا۔ طالبان حکومت کے گورنروں اور وزراء کی نہایت سادہ طرز زندگی ایک روشن مثال تھی جن کو بغیر کسی پروٹوکول کے اکثر سائیکلوں پر گھومتے دیکھا جاسکتا تھا یہ صورتحال خاص کر پاکستان جیسے ممالک کے حکمرانوں کے لئے ناقابل قبول تھی جن کے وزیراعظم اور صدور کے ہمراہ درجنوں گاڑیاں اور سینکڑوں کی تعداد میں سیکیورٹی اہلکار سفر کرتے ہیں اور جن کے عالیشان محلات کے محض ایک روز کے اخراجات ایک کروڑ تک پہنچ جاتے ہیں۔
تحریک طالبان کے عالم اسلام پر مثبت مرتب ہوئے ۔ عالمی جہادی تحریکوں کا طالبان سے خاصی تقویت ملی جن میں القاعدہ سرفہرست ہے ۔ کشمیر میں سرگرم جہادی تحریکوں کو بھی طالبان کی پشت پناہی حاصل تھی۔ شرعی قوانین کے نفاذ سے جنگ سے تباہ حال ملک میں امن و امان قائم ہوگیا تھا۔ طالبان حکومت کے گورنروں اور وزراء کی نہایت سادہ طرز زندگی ایک روشن مثال تھی جن کو بغیر کسی پروٹوکول کے اکثر سائیکلوں پر گھومتے دیکھا جاسکتا تھا یہ صورتحال خاص کر دیگر ممالک کے حکمرانوں کے لئے ناقابل قبول تھی جن کے وزیراعظم اور صدور کے ہمراہ درجنوں گاڑیاں اور سینکڑوں کی تعداد میں سیکیورٹی اہلکار سفر کرتے ہیں اور جن کے عالیشان محلات کے محض ایک روز کے اخراجات ایک کروڑ تک پہنچ جاتے ہیں۔





نسخہ بمطابق 14:55، 20 جولائی 2015ء

Taliban
طالبان
the Civil war in Afghanistan, the جنگ افغانستان (2001ء– تاحال) میں شریک
Taliban flag
Flag used by the Taliban (1997–2001)
متحرکSeptember 1994 – September 1996 (militia)
September 1996 – December 2001 (government)
2004–present (insurgency)
نظریاتIslamism
Islamic fundamentalism
پشتون
Takfiri
Strict sharia law
رہنماہانMullah محمد عمر
Mullah عبدالغنی برادر
Mullah Obaidullah Akhund
کاروائیوں کے علاقےAfghanistan and Pakistan
قوت45,000 (2001 est.)[1]
11,000 (2008 est.)[2]
36,000 (2010 est.)[3]
وجۂ آغازStudents of جمعیت علمائے اسلام
اتحادیجلال الدین حقانی گروہ
Hezb-e-Islami Gulbuddin
Islamic Emirate of Waziristan
تحریک طالبان پاکستان
Islamic Movement of Uzbekistan
مشرقی ترکستان اسلامی تحریک
القاعدہ and Caucasian Front[4]
مخالفینافغانستان
US-led International Security Assistance Force (ISAF)


افغانستان کی سب سے موثر جنگی و سیاسی قوت ہیں ان کو مختصرا طالبان کہا جاتا ہے نسلی اعتبار سے پشتون ہیں اور مسلکی اعتبار سے دیوبندی مکتبہ فکر سے منسلک ہیں۔


پس منظر

طالبان دراصل پاکستانی و افغانی مدارس کے وہ طالب علم ہیں جو افغان جہاد میں روس کے خلاف لڑتے رہے تھے ۔ سویت یونین کی مداخلت کے بعد ابتدائی دنوں میں اس مزاحمتی تحریک افغان جہاد کو کسی جانب سے کوئی مدد حاصل نہ تھی لیکن جلد ہی پاکستان کو احساس ہوگیا کہ سرخ فوج کی اگلی منزل کونسی ہوگی۔ سویت یونین سے براہ راست جنگ کی استعداد پاکستان تو کیا امریکہ کے بھی پاس نہیں تھی اس لئے پاکستان نے جنگ کی ابتدائی صورتحال کا تجزیہ کرنے کے بعد سرخ فوج کو افغان گوریلا فورس کے ذریعے الجھانے کا فیصلہ کیا۔ اس گوریلہ جنگ کی اصل منصوبہ بندی پاک فوج نے کی تھی اور اس کے افسران ہی نے افغانوں کی قوت مزاحمت کو ایک نا قابل شکست قوت میں تبدیل کردیا تھا۔ کچھ عرصے بعد امریکہ بھی اس جنگ میں بلواسطہ طور پر کود گیا۔مجاہدین نے ( پاکستان و امریکہ) کے زیر سایہ جنگ کی ۔ روسی فوجوں کی واپسی کے بعد مجاہدین میں جو طلباء جہاد کر رہے تھے اب وہ واپس اپنے اپنے مدارس میں چلے گئے۔

قیام

روسی فوجوں کی واپسی کے بعد جہادی تنظیموں کی باہمی خانہ جنگی کے باعث 1995ءمیں مدارس کے طلباء ملا محمد عمر مجاہد کی قیادت میں دوبارہ میدان جنگ میں آگئے اور امریکہ کے آنے تک افغانستان کے ٪90 فیصد رقبے سے ظالموں کا خاتمہ کرکے مکمل طور پر شریعت نافذ کردی گئی۔تاہم اقوام متحدہ اور اسکے حواریوں کی جانب سے نافظ کی گئی شریعت پر بے جا تنقید ہوتی رہی۔ اگر تو اقوام متحدہ کی تنقید بجا ہوتی تو طالبان سے ذیادہ امن قائم کرکے دکھاتے مگر 56 مملک کی افغانستان پر اقوام متحدہ کے زیر سایہ یلغار کےاثرات انتہائی منفی ہیں۔ اقوام متحدہ اور نیٹو کے زیر قبضہ افغانستان طالبان دور سے ہزاروں درجہ پسماندہ و بے امن ہے۔اسی لیئے موجودہ انتظامیہ امریکہ سمیت تمام ناٹو طالبان سے مذاکرات کرنے کیلئے دوڑ لگا رہی ہے۔

پاکستان کا ان کی مضبوطی میں کردار

جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ روسی فوجوں کی واپسی کے افغانستان میں جہادی تنظیموں کی باہمی خانہ جنگی اور ان کے داخلی انتشار ، بار بار معاہدوں کی عہد شکنی کا ایک افسوسناک دور چل نکلا تھا ۔ حکومت پاکستان جو 10 سالہ جنگ لڑ کر اس بات کی منتظر تھی کہ اب افغانستان میں پہلی بار پاکستان کی حلیف حکومت قائم ہوگی مگر ایران اپنے حامیوں کو لیکر میدان میں آگیا جو شیعہ گورنمنٹ چاہتا تھا۔ ان تنظیموں کی داخلی خانہ جنگی میں ایران کا اہم کردار عبدالرشید کی دوستم کی صورت میں مجاہدین کو بگھتنا پڑا۔ کابل کا جنگی درجہ حرارت وہ ہی رکھا جو روسی جارحیت کے دوران رہا کرتا تھا نتیجتہ حکومت پاکستان کی خواہش کبھی نہ پوری ہوئی ۔ افغانستان میں اپنی حکومت کے قیام کے بعد طالبان پاکستان کے لئے اجنبی اس لئے بھی نہ تھے کہ آئی ایس آئی کے روابط جہادی تنظیموں سے افغان جہاد سے ہی قائم تھے جنہیں ایرانی امداد و مذہب کی سپلائی برابر جاری تھی وہ روس دور میں افغانستان کا امن تباہ و برباد کرنے میں برابر کے شریک تھے۔ طالبان بھی ان تنظیموں کا ہی حصہ رہے تھے ۔ پھر طالبان نے افغانستان میں اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں امن قائم کردیا۔ ایرانی سپلائی یافتہ عبدالرشید دوستم کے قتل عام سے تنگ آکر بلآخر حکومت پاکستان نے امن پسند لوگوں کے ہاتھ میں اقتدار کو دیکھتے ہی انہیں قبول کرلیا۔ جنہیں آج طالبان مانا گیا۔

دور حکومت

طالبان کا دور حکومت 1995ء سے 2001ء تک تقریبا 6 سال کے عرصے پر محیط ہے اس دوران ان کا زیادہ تر وقت اپنے حریف ایرانی حمایت یافتہ شمالی اتحاد سے جنگ میں گزرا۔ افغانستان کو اگر کوئی چیز طالبان نے دی تھی تو وہ انصاف کی بروقت فراہمی اور امن و امان کی مثالی صورتحال تھی۔ ان کے زیر کنٹرول علاقوں میں شاہراوں کو محفوظ بنادیا گیا تھا۔ پوست کی کاشت پر پابندی عائد کردی گئی تھی تمام غیر قانونی ٹیکس اور چنگیاں ختم کردی گئی تھیں جن کے باعث آمدرفت میں اضافہ دیکھنے میں آیا تھا ایک تباہ شدہ ملک جہاں ایک سپر پارو ملک سے 11 سال پر محیط جنگ لڑی گئی ہو وہاں صرف 6 سال کے عرصہ کے اندر اندر اتنے بڑے کام کردیئے جائیں اسی کو انقلاب کہتے ہیں۔

یہی بات امریکہ اور اسکی اقوام متحدہ کو نہیں بھاتی تھی کہ اتنی غریب مملکت جنکے پاس نہ انجنیئرز، نہ یونیورسٹیاں ہوں اور نہ ہی دیگر ترقی یافتہ اقوام کی طرح کی پالیسیاں ہوں انتہائی قلیل عرصہ میں اتنی بڑی کامیابیاں حاصل کرلینا معجزے کم نہ تھا۔

انسان کو انسان کے ساتھ ہمدردی سکھانا، ایک عورت کو وہ مقام دینا کہ جہاں سے گزر رہی ہو تو مرد نظریں جھکالے، ایسا نظام متعارف کروانا کہ عورت چار دیواری سے باہر بھی محفوظ ہو اور اسکے برعکس تعقی یافتہ ممالک میں عورت کی عصمت دری گھریلو چار دیواری میں ہو گھر سے باہر تو کجا۔

امریکی و اتحادی دور

22 فروری 2005ء کو اقوام متحدہ افغانستان کی تازہ صورت حال کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کی۔اس رپورٹ میں کہا گیا کہ:

طالبان حکومت کو گرائے جانے تین سال بعد بھی افغانستان ایک غریب ملک ہے جو عالمی امن کیلئے خطرہ بن سکتا ہے تین سال بعد بھی ملک میں بے روز گاری، صحت اور تعلیم کے مسائل موجود ہیں۔ دنیا میں افغانستان سے ذیادہ غریب صرف تین امریکی ملک ہیں۔ افغانستان انسانی ترقی کے چارٹ پر دنیا کے ایک سو انہتر ملکوں میں سے ایک سو تہترویں نمبر پر ہے۔رپورٹ کے مطابق افغانستان میں ہر پانچواں بچہ پانچ سال کی عمر سے پہلے ہی فوت ہوجاتا ہے اور عام زندہ رہنے اوسط شرح چوالیس سال ہے۔ افغانستان میں بد امنی اور غربت سے سب سے ذیادہ متاثر عورتیں ہوئی ہیں اور ہر آدھے گھنٹے میں ایک افغانی عورت زچگی کی پیچیدگیوں کا نشانہ بن جاتی ہے۔ افغانستان میں دنیا کا بدترین تعلیمی نظام ہے اور ملک میں بالغ شرح تعلیم صرف اٹھائیس اعشاریہ سات فیصد ہے۔ منشیات کا کاروبار بھی آج بھی افغانستان کی معیشت کا اہم ستون ہے اور وہ آج دنیا کو منشیات مہیا کرنے ولے ملکوں کی فہرست میں سب سے اوپر ہے۔ طالبان کو حکلومت سے نکالے جانے کے باوجود جسمانی تشدد آج بھی جاری ہے۔ اگر افغانستان کے حالات نہ بدلے تو وہ پھر ایک غیر محفوظ سلطنت بن جائے گی جہاں نہ صرف اسکے اپنے شہری غیر محفوظ ہونگے بلکہ وہ دنیا کیلئے بھی خطرہ بن جائے گا۔

سرد جنگ کے بعد امریکہ کا کردار

سویت افواج کی شرمناک شکست کے بعد سویت یونین اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا جس کے باعث افغانستان میں امریکا کی نظر اب یہاں مرضی کی حکومت تکیل دینا تھا یہ کام ایرانی حمایت یافتہ بخوبی سر انجام دے رہے تھے۔ امریکا کی نظر خلیج کے تیل پر تھی اس لیئے وہ عراق کو کویت پر حملے کے لیئے اکسانے کی سازشوں میں مصروف ہوگیا تاکہ اس بہانے خلیج میں امریکی افواج کے قدم جمائے جاسکیں۔

نسل کشی کا الزام

طالبان نے 1998ء میں ہرات پر قبضہ کے بعد مزار شریف کو فتح کیا تو ایران و امریکا اور اسکی اقوام متحدہ کی جانب سے قتل عام کا الزام لگایا گیا۔اس تیار کردہ الزام کے مطابق ان کا طریقہ یہ تھا کہ ٹرکوں اور گاڑیوں میں عام سڑکوں اور گلیوں میں جاتے اور دائیں بائیں فائرنگ کرتے تھے۔ واضح رہے کہ طالبان سے قبل بامیان پر ایران نواز شیعہ ملیشیاء حزب وحدت کا قبضہ تھا۔

خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک

کچھ حلقوں کے مطابق طالبان خواتین کے ساتھ غیر انسانی سلوک کے لیے جانے جاتے ہیں.مگر اس قسم کر الزامات کی بہترین نفع یووون رڈلے نامی برطانوی خاتون صحافی نے کی.جنہوں نے تقریبا ایک سال کا عرصہ طالبان کی قید میں گزارا اور ان کے حسن سلوک سے متاثر ہوکر ناصرف اسلام قبول کیا بلکہ طالبان کا ہر فورم پر دفاع بھی گیا.یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کے اصولوں کا تعلق اسلام سے زیادہ پشتون ولی قوانین کے ساتھ ہے.لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ طالبان نہ صرف خواتین کی مردوں کے ساتھ مخلوط تعلیم کے سخت خلاف ہیں بلکہ خواتین کو بلاضرورت گھر سے باہر بھی نہیں نکلنے دیتے۔ایسا کرنے سے خواتین کی عصمت دری کے واقعات کا نہ ہونا صرف طالبان کو ہی کریڈٹ دیتا ہے باقی دنیا میں کوئی بھی ملک ایسا نہیں جہاں حقوق نسواں کی تنظیمیں سالانہ اربوں دالر کھا جائیں،پولیس کے محکمے پر بے انتہا اخراجات، عصمت دری کے واقعات کو کنٹرول کرنے کیلئے بڑی بڑی تنظیموں کی موجودگی میں لاکھوں عصمت دری کے واقعات رونما ہوجائیں اسکے برعکس ٹوٹا پھوٹا افغانستان جہاں کے نظام میں ایک انگریز غیر مسلم عورت آکر اسلام کیوں نہ قبول کر جائے۔ اس ذیادہ اچھی مثال کوئی ملک نہیں پی کر سکتا کہ 6 سال کے مختصر عرصہ میں اچھی رپورٹ وہ بھی غریب نہتے نگ دھڑنگ لوگوں سے متوقع ہو سکتی ہے تو وہ صرف طالبان کے ذریعے لیا نافذ یا گیا اسلامی شرعی نطام ہی ہے۔ تب ہی افغان حکام ، نیٹو و امریکا طالبان کی جانب ہاتھ بڑھارہے ہیں۔

خارجہ پالیسی

طالبان حکومت کو صرف تین ممالک پاکستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے تسلیم کیا تھا لہذا ان کی خارجہ پالیسی کی کوئی خاص سمت متعین نہیں تھی ۔ افغانستان کے شیعہ اکثریتی علاقوں میں ایرانی مدا‏خلت کے باعث ایران سے طالبان کے تعلقات کبھی خوشگوار نہ رہے ایک موقع پر تو دونوں ممالک جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے تاہم دوسرے اسلامی ممالک کی مداخلت کے باعث یہ جنگ بمشکل روکی جاسکی۔ پڑوسی ممالک میں صرف پاکستان ہی سے ان کے بہترین تعلقات تھے۔ اسامہ بن لادن نے جب سرزمین عرب پر امریکی افواج کی موجودگی کے خلاف آواز بلند کی تو طالبان کے سعودی عرب سے بھی اختلافات پیدا ہوچلے تھے۔ اسوقت طالبان کے پاس حکومت تو تھی لیکن آج وہ بھی نہیں اسکے باوجود امریکہ مذاکرات کیلئے ہاتھ بڑھارہا ہے آخر کوئی تو وجہ ہے ہی۔

دور حکومت کا خاتمہ

ستمبر2001 ایک میں امریکا شہروں نیویارک میں واقع ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور امریکی محکمہ دفاع کے صدر دفتر المعروف پینٹاگون پر حملے کئے گئے جن کا ذمہ دار القا‏عدہ کو ٹحہرایا گیا۔ القاعدہ کے میزبان ہونے کے ناطے طالبان کو اکتوبر2001ء میں امریکی جارحیت کا سامنا کرنا پڑا اور امن کا گہوارہ بنائے جانے والے ملک افغانستان پر دیکھتے ہی دیکھتے 56 ممالک امریکہ و اقوام متحدہ سربراہی میں چڑھ دوڑے۔ ببانگ دہل امن کا نعرہ لگانے والے افغانستان کو کیا امن دیتے خود بے امنی کا شکار ہیں۔آج افغانستان صرف اور صرف انہی کی لیا ہوا بے امنی کا شکار ملک ہے۔ لوگ اپنے مسائل کے حل کیلئے آج طالبان سے کیوں رجوع کرتے ہیں۔

میدان جنگ میں

طالبان کا سب سے موثر طریقہ جنگ گوریلا جنگ ہے جو صدیوں سے افغانستان میں بیرونی مداخلت کاروں کے خلاف کامیابی سے استعمال کیا جاتا رہا ہے ماضی میں برطانیہ، روس اور آج کل امریکا کو اسی مزاحمت کا سامنا ہے ۔افغانستان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بیرونی مداخلت کاروں کے خلاف مزاحمت میں صرف افغان قوم ہی نہیں بلکہ اس ملک کا جغرافیہ بھی شامل ہوجاتا ہے۔ افغانستان کا بیشتر حصہ سخت گزار پہاڑی سلسلوں پر محیط ہے جہاں جدید ترین اسلحہ سے لیس تربیت یافتہ افواج بھی بے بس نظر آتی ہیں۔ خودکش حملوں کو طالبان کا سب سے موثر ہتھیار مانا جاتا ہے ان کو اس وقت افغانستان میں موجود اتحادی افواج کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے اس کے علاوہ سڑک کے کناروں پر نصب باروی سرنگیں اور ریمورٹ کنٹرول بم بھی طالبان کی جنگی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ بنیادی طور پر طالبان گوریلا جنگجو ہونے کی وجہ سے چھوٹے ہھتیاروں پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ دوسری جانب ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ طالبان جدید ٹیکنالوجی بھی استعمال کر رہے ہیں جو نیٹو و امریکی افوج سے کھینچ کر انہی کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے اسے عرف عام میں جدید ٹیکنالوجی کہتے ہیں۔

2009

افعانستان میں امریکی فوجی سربراہ جنرل میک کرسٹل کا کہنا ہے کہ طالبان کی پوزیشن دن بہ دن مضبوط ہوتی جارہی ہے اگر امریکا نے 45000 مزید فوج افغانستان روانہ نا کی تو خدشہ ہے کہ ایک سال کے اندر اندر اتحادی افواج کو شکست کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ستمبر 2009 میں ہی اتحادی فوج کے ایک کانوا‌ئے پر طالبان کے ایک حملے میں اٹلی کے 6 فوجیوں کے ہلاک  ہوجانے پر اٹلی کے وزیر اعظم نے اتحادی ممالک پر زور دیا ہے کہ ان کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ جلد از جلد اپنی افوا ج افغانستان سے نکال لیں۔

2010

افغانستان میں موجود قابض امریکی افواج کے کمانڈر جنرل میک کرسٹل نے کے مطابق طالبان سے امن بات چیت کی جانی چاہیے. انہوں نے مزید کہا کہ آنے والے ماہ و سال میں طالبان افغانستان کو اتحادیوں کا جہنم بنا دیں گے۔ انہوں نے اصرار کیا کہ افغانستان میں جنگ کا خاتمہ صرف طالبان سے مذاکرات کے زریعے ہی ممکن ہے۔[9]

واشنگٹن پوسٹ کے ایک اداریئے کے مطابق امریکی افواج نے پاکستانی سرحد سے ملحقہ صوبے کنڑ میں واقع وادی کورنگل طالبان سے مزاکرات کے بعد خالی کرکے پسپائی اختیار کرلی ہے اور اپنے اس اڈے کو تباہ کئے بنا اس میں موجود مشینری ، کرینیں، جنریٹرز، اور 6 ہزار گیلن پیڑول کا زخیرہ بھی چھوڑ گئے ہیں اسی کو طالبان کی جدید ٹیکنا لوجی کہتے ہیں [10]۔ اس سے قبل امریکی فوج کی جانب سے صوبہ ہلمند کے علاقے مرجہ سے بھی امریکی آپریشن بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانے کے بعد منسوخ کردیا گیا.امریکی کانگریس میں سے یہ سوال بار بار اٹھایا جارہا ہے کہ مسلسل ناکامیوں اور بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانے کے باوجود افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی کا کیا جواز ہے ؟

جنرل میک کرسٹل کی برطرفی

عراق میں خانہ جنگی برپا کراکر داد سمیٹنے والے امریکی کمانڈر اسٹینلے میک کرسٹل نے اپنی تعیناتی کے بعد جلد ہی نوشتہ دیوار پڑھ لیا تھا ۔ ان کی جانب سے آئے روز آنے والے بیانات اتحادی صفوں میں شدید مایوسی پھیلارہے تھے. جون میں انہوں نے اوبامہ انتظامیہ کو افغان پالیسی کے حوالے سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جس پر وائٹ ہاؤس نے برہم ہوکر جنرل موصوف کو افغانستان میں اتحادی کمانڈر کے عہدے سے برطرف کردیا۔ جنرل میک کرسٹل کی برطرفی کے چند روز بعد ہی برطانوی آرمی چیف کی جانب سے بھی یہ بیان سامنے آیا کہ افغانستان میں طالبان سے مزاکرات کا یہ بہترین وقت ہے۔ ان بیانات کی روشنی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ 2002 سے افعانستان میں آگ وخون کا کھیل کھیلنے والے اتحادیوں کے حوصلے کس حد تک پست ہوچکے ہیں.

2011ء

دو ہزار گیارہ میں اگست کا مہینہ یہاں برسرپیکار امریکی افواج کیلئے نہایت تباہ کن ثابت ہوا جس میں اس کو مشرقی افغانستان کی تنگی وادی (جو کہ کابل سے تفریبا ساٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے) میں ایک ناکام آپریشن کے دوران اپنے 31 مایہ ناز نیوی کمانڈو اور ایک بیش قیمت چینوک نامی جنگی ہیلی کاپٹر کا نقصان اٹھانا پڑا۔ کچھ جرائد کے مطابق یہ نیوی کمانڈوز کی وہ ہی ٹیم تھی جس نے پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں القا‏عدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے خلاف کاروائی کی تھی۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اس امریکی ہیلی کاپٹر کو کسی میزائل سے نشانہ بنایا گيا۔ طالبان جنگجوؤں کے پاس اس قسم کے ہتھیاروں کی موجودگی سے اتحادی افواج میں سخت سراسیمگی پھیل گئی تھی۔

عالم اسلام پر اثرات

تحریک طالبان کے عالم اسلام پر مثبت مرتب ہوئے ۔ عالمی جہادی تحریکوں کا طالبان سے خاصی تقویت ملی جن میں القاعدہ سرفہرست ہے ۔ کشمیر میں سرگرم جہادی تحریکوں کو بھی طالبان کی پشت پناہی حاصل تھی۔ شرعی قوانین کے نفاذ سے جنگ سے تباہ حال ملک میں امن و امان قائم ہوگیا تھا۔ طالبان حکومت کے گورنروں اور وزراء کی نہایت سادہ طرز زندگی ایک روشن مثال تھی جن کو بغیر کسی پروٹوکول کے اکثر سائیکلوں پر گھومتے دیکھا جاسکتا تھا یہ صورتحال خاص کر دیگر ممالک کے حکمرانوں کے لئے ناقابل قبول تھی جن کے وزیراعظم اور صدور کے ہمراہ درجنوں گاڑیاں اور سینکڑوں کی تعداد میں سیکیورٹی اہلکار سفر کرتے ہیں اور جن کے عالیشان محلات کے محض ایک روز کے اخراجات ایک کروڑ تک پہنچ جاتے ہیں۔


20 ویں صدی کی ایک باقا‏عدہ اسلامی حکومت کے قیام عمل میں آنے سے عالم اسلام کے اکثر ممالک میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگی تھیں ۔

بیرونی روابط

حوالہ جات

  1. "Taliban and the Northern Alliance"۔ US Gov Info۔ About.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 نومبر 2009 
  2. 9/11 seven years later: US 'safe,' South Asia in turmoil "There are now some 62,000 foreign soldiers in Afghanistan, including 34,000 US troops, and some 150,000 Afghan security forces. They face an estimated 7,000 to 11,000 insurgents, according to US commanders." Retrieved 2010-08-24.
  3. Fiona Hamilton، Sam Coates، Michael Savage (2010-03-03)۔ "MajorGeneral Richard Barrons puts Taleban fighter numbers at 36000"۔ The Times۔ London 
  4. Antonio Giustozzi (2009)۔ Decoding the new Taliban: insights from the Afghan field۔ Columbia University Press۔ صفحہ: 274۔ ISBN 978-0231701129 

سانچہ:اسلامی اوکیہ جوت