"گندھارا" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
م clean up, replaced: ← (3) using AWB
سطر 6: سطر 6:


گندھارا کا ذکر رگ وید اور [[بدھ]] روایات میں ہے۔ چینی سیاح ہیوں سانگ جو یہاں زیارتوں کے لیۓ آیا تھا تفصیل سے اسکا ذکر کیا ہے۔ یہ علاقہ [[ایران]] کا ایک صوبہ بھی رہا اور [[سکندر اعظم]] بھی یہاں آیا۔ فلسفی کوٹلیا چانکیا بھی یہاں مقیم رہا۔ کشان دور گندھارا کی تاریخ کا سنہرا دور تھا۔ کشان بادشاہ کنشک کے عہد میں گندھارا تہزیب اپنے عروج پر پہنچی۔ گندھارا [[بدھ مت]] کی تعلیمات کا مرکز بن گیا اور لوگ یہاں تعلیم حاصل کرنے آنے لگے۔ یونانی، ایرانی اور مقامی اثرات نے مل کر گندھارا کے فن کو جنم دیا۔ ہن حملہ آوروں کا پانچویں صدی میں یہاں آنا [[بدھ مت]] کے زوال کا سبب بنا۔ [[محمود غزنوی]] کے حملوں کے بعد گندھارا تاریخ سے محو ہو گیا۔
گندھارا کا ذکر رگ وید اور [[بدھ]] روایات میں ہے۔ چینی سیاح ہیوں سانگ جو یہاں زیارتوں کے لیۓ آیا تھا تفصیل سے اسکا ذکر کیا ہے۔ یہ علاقہ [[ایران]] کا ایک صوبہ بھی رہا اور [[سکندر اعظم]] بھی یہاں آیا۔ فلسفی کوٹلیا چانکیا بھی یہاں مقیم رہا۔ کشان دور گندھارا کی تاریخ کا سنہرا دور تھا۔ کشان بادشاہ کنشک کے عہد میں گندھارا تہزیب اپنے عروج پر پہنچی۔ گندھارا [[بدھ مت]] کی تعلیمات کا مرکز بن گیا اور لوگ یہاں تعلیم حاصل کرنے آنے لگے۔ یونانی، ایرانی اور مقامی اثرات نے مل کر گندھارا کے فن کو جنم دیا۔ ہن حملہ آوروں کا پانچویں صدی میں یہاں آنا [[بدھ مت]] کے زوال کا سبب بنا۔ [[محمود غزنوی]] کے حملوں کے بعد گندھارا تاریخ سے محو ہو گیا۔
گندھارا
گندھارا
وادی کابل و غزنوی سے لیکر دریائے سندھ کے پار تک جس میں صوابی، سوات، مردان اور راولپنڈی تک کے علاقے شامل تھے۔ عرب مورخین نے گندھارا کی ہندوستانی سلطنت کو جو دریائے سندھ سے دریائے کابل تک پھیلی تھی قندھار (گندھار) کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ البیرونی نے قندھار (گندھارا) کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اس کی راجدھانی وہنڈ یا اوہنڈ تھی۔ المسعودی نے قندھار (گندھار) کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ یہ رہبوط (راجپوت) کا ملک ہے اور دریائے کابل جو دریائے سندھ میں گرتا پر واقع ہے۔ (قندھار۔ معارف اسلامیہ)
وادی کابل و غزنوی سے لیکر دریائے سندھ کے پار تک جس میں صوابی، سوات، مردان اور راولپنڈی تک کے علاقے شامل تھے۔ عرب مورخین نے گندھارا کی ہندوستانی سلطنت کو جو دریائے سندھ سے دریائے کابل تک پھیلی تھی قندھار (گندھار) کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ البیرونی نے قندھار (گندھارا) کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اس کی راجدھانی وہنڈ یا اوہنڈ تھی۔ المسعودی نے قندھار (گندھار) کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ یہ رہبوط (راجپوت) کا ملک ہے اور دریائے کابل جو دریائے سندھ میں گرتا پر واقع ہے۔ (قندھار۔ معارف اسلامیہ)
اس علاقے کا سب سے پہلا تزکرہ آریوں کی مذہبی کتاب ’رگ وید‘ میں ملتا ہے۔ کیوں کے اس کے بھجنوں میں اس علاقے کے اہم دریاؤں کابل، سوات،اور گومل کا تزکرہ ملتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس علاقے پر آریاؤں نے قبضہ کرلیا تھا۔ (ڈاکٹرمعین الدین، عہد قدیم اور سلطنت دہلی۔ 41، 42) اس علاقے میں جو آثار ملے ہیں انہیں گندھارا کی گورستانی تہذیبGundhra Grove Clturکا نام دیا گیا ہے۔ مہابھارت سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں گندھارا یا گندھارد اکی ریاست تھی۔ جسے کوشالہ Kashala کے حکمران نے ککیہ KaKiya کی مدد سے زیر کیا تھا۔ کوشالہ کے دو بیٹوں ٹکسا Taksa اور پو شکلا Poskda نے دو شہروں ٹکشاسلہ Taksahshsila یعنی ٹیکسلہTaksla اور پوشکلہ وتی Poshkalawati (چارسدہ)کی بنیاد رکھی۔ یہ ریاست دریائے سندھ کے دونوں طرف پھیلی ہوئی تھی۔ (اکرام علی، تاریخ پنجاب۔ 17)
اس علاقے کا سب سے پہلا تزکرہ آریوں کی مذہبی کتاب ’رگ وید‘ میں ملتا ہے۔ کیوں کے اس کے بھجنوں میں اس علاقے کے اہم دریاؤں کابل، سوات،اور گومل کا تزکرہ ملتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس علاقے پر آریاؤں نے قبضہ کرلیا تھا۔ (ڈاکٹرمعین الدین، عہد قدیم اور سلطنت دہلی۔ 41، 42) اس علاقے میں جو آثار ملے ہیں انہیں گندھارا کی گورستانی تہذیبGundhra Grove Clturکا نام دیا گیا ہے۔ مہابھارت سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں گندھارا یا گندھارد اکی ریاست تھی۔ جسے کوشالہ Kashala کے حکمران نے ککیہ KaKiya کی مدد سے زیر کیا تھا۔ کوشالہ کے دو بیٹوں ٹکسا Taksa اور پو شکلا Poskda نے دو شہروں ٹکشاسلہ Taksahshsila یعنی ٹیکسلہTaksla اور پوشکلہ وتی Poshkalawati (چارسدہ)کی بنیاد رکھی۔ یہ ریاست دریائے سندھ کے دونوں طرف پھیلی ہوئی تھی۔ (اکرام علی، تاریخ پنجاب۔ 17)
بعض ماہرین آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ ٹیکسلہ کی بنیاد ٹکا Taka نامی قبیلے نے آباد کیا تھا، جو وسط ایشیاء سے آیا تھا۔ چنانچہ اس کے نام پر ٹکلاشیلا پڑا جو رفتہ رفتہ ٹیکسلہ ہوگیا۔ اس کی تصدیق اس دور کے یونانی مورخ نے بھی کی ہے اور اسے ٹیکسائلو Taksailo کا شہر بتایا ہے۔ (مولانا اسمعیل ذبیح۔ اسلام آباد۔ 666)
بعض ماہرین آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ ٹیکسلہ کی بنیاد ٹکا Taka نامی قبیلے نے آباد کیا تھا، جو وسط ایشیاء سے آیا تھا۔ چنانچہ اس کے نام پر ٹکلاشیلا پڑا جو رفتہ رفتہ ٹیکسلہ ہوگیا۔ اس کی تصدیق اس دور کے یونانی مورخ نے بھی کی ہے اور اسے ٹیکسائلو Taksailo کا شہر بتایا ہے۔ (مولانا اسمعیل ذبیح۔ اسلام آباد۔ 666)
بدھ مذہب کی کتابوں میں گندھار کا ذکر ملتا ہے۔ گوتم بدھ کے زمانے میں ٹیکسلہ کی شہرت ایک علمی مرکز کی تھی، جہاں دور دور سے لوگ تحصیل علم کے لئے آتے تھے۔ یونانی جغرافیہ داں استرابو Strabo کے مطابق دریائے سندھ انڈیا اور آریانہ Aryana کے درمیان سرحدکی حثیت رکھتا تھا۔ آریانہ میں کابل، گومل، کرم، قندھار اور مغربی گندھاراکے علاقے شامل تھے۔ چھٹی صدی قبل عیسوی میں آریانہ کا علاقہ کاایک وسیع علاقہ گندھارکے حکمران پوکوستی کی مملکت میں شامل تھا۔ 515۔ 518 ق م کے درمیان دارانے حملہ کرکے وادی سندھ کے مغربی حصہ پر قبضہ کرلیا۔ اس نے یہاں ایرانیوں اور یونانیوں کو آباد کیا۔ یہ تسلط غالباََ ارتاکسز (۰۴۴۔ ۸۵۳ ق م) کے عہد میں ختم ہوگیا تھا۔ کیوں کہ جب یہاں سکندر نے حملہ کیا تو ایرانی تسلط نہیں تھا۔ (اکرام علی، تاریخ پنجاب۔ ۸۱ تا ۲۱)
بدھ مذہب کی کتابوں میں گندھار کا ذکر ملتا ہے۔ گوتم بدھ کے زمانے میں ٹیکسلہ کی شہرت ایک علمی مرکز کی تھی، جہاں دور دور سے لوگ تحصیل علم کے لئے آتے تھے۔ یونانی جغرافیہ داں استرابو Strabo کے مطابق دریائے سندھ انڈیا اور آریانہ Aryana کے درمیان سرحدکی حثیت رکھتا تھا۔ آریانہ میں کابل، گومل، کرم، قندھار اور مغربی گندھاراکے علاقے شامل تھے۔ چھٹی صدی قبل عیسوی میں آریانہ کا علاقہ کاایک وسیع علاقہ گندھارکے حکمران پوکوستی کی مملکت میں شامل تھا۔ 515۔ 518 ق م کے درمیان دارانے حملہ کرکے وادی سندھ کے مغربی حصہ پر قبضہ کرلیا۔ اس نے یہاں ایرانیوں اور یونانیوں کو آباد کیا۔ یہ تسلط غالباََ ارتاکسز (۰۴۴۔ ۸۵۳ ق م) کے عہد میں ختم ہوگیا تھا۔ کیوں کہ جب یہاں سکندر نے حملہ کیا تو ایرانی تسلط نہیں تھا۔ (اکرام علی، تاریخ پنجاب۔ ۸۱ تا ۲۱)
سکندنے 327 ق م میں کوہ ہندو کش غبور کیا اور مختلف شہروں کو جنگ و جدل کے ذریعے مطیع کرتا ہوا اوہنڈ کے مقا م پر دریائے سندھ کو غبور کیا جہاں ٹیکسلہ کے راجہ نے اس کا استقبال کیا۔ ٹیکسلہ کے امبھی نے سکندر کی اطاعت قبول کرلی تھی۔ اس طرح یونانی 326 ق م میں پنجاب میں داخل ہوگئے۔ (ڈاکٹرمعین الدین، عہد قدیم اور سلطنت دہلی۔ 91)
سکندنے 327 ق م میں کوہ ہندو کش غبور کیا اور مختلف شہروں کو جنگ و جدل کے ذریعے مطیع کرتا ہوا اوہنڈ کے مقا م پر دریائے سندھ کو غبور کیا جہاں ٹیکسلہ کے راجہ نے اس کا استقبال کیا۔ ٹیکسلہ کے امبھی نے سکندر کی اطاعت قبول کرلی تھی۔ اس طرح یونانی 326 ق م میں پنجاب میں داخل ہوگئے۔ (ڈاکٹرمعین الدین، عہد قدیم اور سلطنت دہلی۔ 91)
سکندرکے چند سال بعد ہی چندر گپت نے یونانی بالادستی کے خلاف بغاوت کردی اور اس نے دریائے سندھ کے مشرقی حصوں کو اپنی مملکت میں شامل کر لیا۔ سکندر کے سپہ سالار سلوکس نے سکندرکے مفتوع علاقوں کو دوبارہ فتح کرنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوا۔ اشوک کے بعد جب موریہ سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا۔ کابل، غزنی، پنجاب و سندھ پر اسو بھاگ سن نے قبضہ کرلیا۔ اس پر انطیوکس اعظمAntiochus The Garet نے حملہ کردیا۔ اسو بھاگ نے شکست کھائی مگر انطیوکس اعظم بھی مارا گیا۔ اسوبھاگ کے بعد اس کا بیٹاگج حکمران ہوا۔ پھر اس علاقہ پر یونانی حمکمران ہوگئے۔ سیتھی یونانی حکومت ختم کرکے سیستان سے ہوتے ہوئے اس علاقے پر قابض ہوگئے۔ (ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم۔ 311)
سکندرکے چند سال بعد ہی چندر گپت نے یونانی بالادستی کے خلاف بغاوت کردی اور اس نے دریائے سندھ کے مشرقی حصوں کو اپنی مملکت میں شامل کر لیا۔ سکندر کے سپہ سالار سلوکس نے سکندرکے مفتوع علاقوں کو دوبارہ فتح کرنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوا۔ اشوک کے بعد جب موریہ سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا۔ کابل، غزنی، پنجاب و سندھ پر اسو بھاگ سن نے قبضہ کرلیا۔ اس پر انطیوکس اعظمAntiochus The Garet نے حملہ کردیا۔ اسو بھاگ نے شکست کھائی مگر انطیوکس اعظم بھی مارا گیا۔ اسوبھاگ کے بعد اس کا بیٹاگج حکمران ہوا۔ پھر اس علاقہ پر یونانی حمکمران ہوگئے۔ سیتھی یونانی حکومت ختم کرکے سیستان سے ہوتے ہوئے اس علاقے پر قابض ہوگئے۔ (ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم۔ 311)
سیتھی جب پارتھیوں کے زیر اثر ہوئے تو اس علاقہ پر ان کا تسلط ہوگیا۔ مگر جلد ہی یہ سرزمین کشانوں کے قبضہ میں آگئی۔ کشنوں کا خاتمہ ہنوں نے کیا، اس طرح اس علاقہ پر یوچیوں کی چار سو سالہ حکمرانی کا خاتمہ ہوگیا۔ اس علاقہ پر ہنوں کے زابلی مملکت کی حکمرانی تھی۔ ہنوں نے تقریباً دوسو سال حکمرانی کی۔ افغانستان میں ان کی قوت کو ترکوں نے صدمہ پہنچایا اور برصغیر میں ایک قومی وفاق نے ان کی حکومت کا خاتمہ کردیا۔ (دیکھئے، کشن اور ہن)
سیتھی جب پارتھیوں کے زیر اثر ہوئے تو اس علاقہ پر ان کا تسلط ہوگیا۔ مگر جلد ہی یہ سرزمین کشانوں کے قبضہ میں آگئی۔ کشنوں کا خاتمہ ہنوں نے کیا، اس طرح اس علاقہ پر یوچیوں کی چار سو سالہ حکمرانی کا خاتمہ ہوگیا۔ اس علاقہ پر ہنوں کے زابلی مملکت کی حکمرانی تھی۔ ہنوں نے تقریباً دوسو سال حکمرانی کی۔ افغانستان میں ان کی قوت کو ترکوں نے صدمہ پہنچایا اور برصغیر میں ایک قومی وفاق نے ان کی حکومت کا خاتمہ کردیا۔ (دیکھئے، کشن اور ہن)
جس وقت چینی سیاح ہیون سانگHion Tsang (630ء) اور وانگ ہیون سی Wang Hioun Tso نے برصغیر کی سیاحت کی تھی، اس وقت گندحارا پر کشتری خاندان کی حکومت تھی۔ ان کا دارلحکومت کاپسا (موجودہ بلگرام کابل کے شمال میں) تھا۔ البیرونی انہیں ترک بتاتا ہے۔ اس خاندان کی حکومت آخری حکمران کو اس کے وزیر کلیر عرف للیہ نے قید کرکے ہندو شاہی یا برہمن شاہی خاندان کی بنیاد رکھی۔ برہمن شاہی اس علاقے کا آخری حکمران خاندان تھا، جس نے مسلمانوں کا مقابلہ کیا۔ یہ خاندان ابتدائے اسلام سے 421ھ/ 1030 تک حکمران رہا۔ جب افغانستان کے مشرقی حصوں پر اسلامی لشکر کا قبضہ ہو گیا، تو اس کا دارلحکومت کاپسا سے گردیز، کابل، پھر اوہنڈ اور آخر میں نندانہ (جہلم کے قریب) منتقل ہوگیا۔ جہاں ان کا محمود غزنوی نے خاتمہ کردیا۔ (دیکھئے، ہندو خاندان)
جس وقت چینی سیاح ہیون سانگHion Tsang (630ء) اور وانگ ہیون سی Wang Hioun Tso نے برصغیر کی سیاحت کی تھی، اس وقت گندحارا پر کشتری خاندان کی حکومت تھی۔ ان کا دارلحکومت کاپسا (موجودہ بلگرام کابل کے شمال میں) تھا۔ البیرونی انہیں ترک بتاتا ہے۔ اس خاندان کی حکومت آخری حکمران کو اس کے وزیر کلیر عرف للیہ نے قید کرکے ہندو شاہی یا برہمن شاہی خاندان کی بنیاد رکھی۔ برہمن شاہی اس علاقے کا آخری حکمران خاندان تھا، جس نے مسلمانوں کا مقابلہ کیا۔ یہ خاندان ابتدائے اسلام سے 421ھ/ 1030 تک حکمران رہا۔ جب افغانستان کے مشرقی حصوں پر اسلامی لشکر کا قبضہ ہو گیا، تو اس کا دارلحکومت کاپسا سے گردیز، کابل، پھر اوہنڈ اور آخر میں نندانہ (جہلم کے قریب) منتقل ہوگیا۔ جہاں ان کا محمود غزنوی نے خاتمہ کردیا۔ (دیکھئے، ہندو خاندان)
* (معین انصاری)
* (معین انصاری)

نسخہ بمطابق 05:55، 19 نومبر 2015ء

گندھارا میں بنا بدھا کا مجسمہ

گندھارا (انگریزی: Gandhara) ایک قدیم ریاست تھی جو شمالی پاکستان میں خیبر پختونخوا اور صوبہ پنجاب کے علاقے پوٹھوہار کے کچھ علاقوں پر مشتمل تھی۔ پشاور، ٹیکسلا، تخت بائی، سوات ،دیر اور چارسدہ اس کے اہم مرکز تھے۔ یہ دریائے کابل سے شمال کی طرف تھی۔

گندھارا چھٹی صدی قبل مسیح سے گیارہویں صدی تک قائم رہی۔

گندھارا کا ذکر رگ وید اور بدھ روایات میں ہے۔ چینی سیاح ہیوں سانگ جو یہاں زیارتوں کے لیۓ آیا تھا تفصیل سے اسکا ذکر کیا ہے۔ یہ علاقہ ایران کا ایک صوبہ بھی رہا اور سکندر اعظم بھی یہاں آیا۔ فلسفی کوٹلیا چانکیا بھی یہاں مقیم رہا۔ کشان دور گندھارا کی تاریخ کا سنہرا دور تھا۔ کشان بادشاہ کنشک کے عہد میں گندھارا تہزیب اپنے عروج پر پہنچی۔ گندھارا بدھ مت کی تعلیمات کا مرکز بن گیا اور لوگ یہاں تعلیم حاصل کرنے آنے لگے۔ یونانی، ایرانی اور مقامی اثرات نے مل کر گندھارا کے فن کو جنم دیا۔ ہن حملہ آوروں کا پانچویں صدی میں یہاں آنا بدھ مت کے زوال کا سبب بنا۔ محمود غزنوی کے حملوں کے بعد گندھارا تاریخ سے محو ہو گیا۔ گندھارا وادی کابل و غزنوی سے لیکر دریائے سندھ کے پار تک جس میں صوابی، سوات، مردان اور راولپنڈی تک کے علاقے شامل تھے۔ عرب مورخین نے گندھارا کی ہندوستانی سلطنت کو جو دریائے سندھ سے دریائے کابل تک پھیلی تھی قندھار (گندھار) کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ البیرونی نے قندھار (گندھارا) کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اس کی راجدھانی وہنڈ یا اوہنڈ تھی۔ المسعودی نے قندھار (گندھار) کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ یہ رہبوط (راجپوت) کا ملک ہے اور دریائے کابل جو دریائے سندھ میں گرتا پر واقع ہے۔ (قندھار۔ معارف اسلامیہ) اس علاقے کا سب سے پہلا تزکرہ آریوں کی مذہبی کتاب ’رگ وید‘ میں ملتا ہے۔ کیوں کے اس کے بھجنوں میں اس علاقے کے اہم دریاؤں کابل، سوات،اور گومل کا تزکرہ ملتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس علاقے پر آریاؤں نے قبضہ کرلیا تھا۔ (ڈاکٹرمعین الدین، عہد قدیم اور سلطنت دہلی۔ 41، 42) اس علاقے میں جو آثار ملے ہیں انہیں گندھارا کی گورستانی تہذیبGundhra Grove Clturکا نام دیا گیا ہے۔ مہابھارت سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں گندھارا یا گندھارد اکی ریاست تھی۔ جسے کوشالہ Kashala کے حکمران نے ککیہ KaKiya کی مدد سے زیر کیا تھا۔ کوشالہ کے دو بیٹوں ٹکسا Taksa اور پو شکلا Poskda نے دو شہروں ٹکشاسلہ Taksahshsila یعنی ٹیکسلہTaksla اور پوشکلہ وتی Poshkalawati (چارسدہ)کی بنیاد رکھی۔ یہ ریاست دریائے سندھ کے دونوں طرف پھیلی ہوئی تھی۔ (اکرام علی، تاریخ پنجاب۔ 17) بعض ماہرین آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ ٹیکسلہ کی بنیاد ٹکا Taka نامی قبیلے نے آباد کیا تھا، جو وسط ایشیاء سے آیا تھا۔ چنانچہ اس کے نام پر ٹکلاشیلا پڑا جو رفتہ رفتہ ٹیکسلہ ہوگیا۔ اس کی تصدیق اس دور کے یونانی مورخ نے بھی کی ہے اور اسے ٹیکسائلو Taksailo کا شہر بتایا ہے۔ (مولانا اسمعیل ذبیح۔ اسلام آباد۔ 666) بدھ مذہب کی کتابوں میں گندھار کا ذکر ملتا ہے۔ گوتم بدھ کے زمانے میں ٹیکسلہ کی شہرت ایک علمی مرکز کی تھی، جہاں دور دور سے لوگ تحصیل علم کے لئے آتے تھے۔ یونانی جغرافیہ داں استرابو Strabo کے مطابق دریائے سندھ انڈیا اور آریانہ Aryana کے درمیان سرحدکی حثیت رکھتا تھا۔ آریانہ میں کابل، گومل، کرم، قندھار اور مغربی گندھاراکے علاقے شامل تھے۔ چھٹی صدی قبل عیسوی میں آریانہ کا علاقہ کاایک وسیع علاقہ گندھارکے حکمران پوکوستی کی مملکت میں شامل تھا۔ 515۔ 518 ق م کے درمیان دارانے حملہ کرکے وادی سندھ کے مغربی حصہ پر قبضہ کرلیا۔ اس نے یہاں ایرانیوں اور یونانیوں کو آباد کیا۔ یہ تسلط غالباََ ارتاکسز (۰۴۴۔ ۸۵۳ ق م) کے عہد میں ختم ہوگیا تھا۔ کیوں کہ جب یہاں سکندر نے حملہ کیا تو ایرانی تسلط نہیں تھا۔ (اکرام علی، تاریخ پنجاب۔ ۸۱ تا ۲۱) سکندنے 327 ق م میں کوہ ہندو کش غبور کیا اور مختلف شہروں کو جنگ و جدل کے ذریعے مطیع کرتا ہوا اوہنڈ کے مقا م پر دریائے سندھ کو غبور کیا جہاں ٹیکسلہ کے راجہ نے اس کا استقبال کیا۔ ٹیکسلہ کے امبھی نے سکندر کی اطاعت قبول کرلی تھی۔ اس طرح یونانی 326 ق م میں پنجاب میں داخل ہوگئے۔ (ڈاکٹرمعین الدین، عہد قدیم اور سلطنت دہلی۔ 91) سکندرکے چند سال بعد ہی چندر گپت نے یونانی بالادستی کے خلاف بغاوت کردی اور اس نے دریائے سندھ کے مشرقی حصوں کو اپنی مملکت میں شامل کر لیا۔ سکندر کے سپہ سالار سلوکس نے سکندرکے مفتوع علاقوں کو دوبارہ فتح کرنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوا۔ اشوک کے بعد جب موریہ سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا۔ کابل، غزنی، پنجاب و سندھ پر اسو بھاگ سن نے قبضہ کرلیا۔ اس پر انطیوکس اعظمAntiochus The Garet نے حملہ کردیا۔ اسو بھاگ نے شکست کھائی مگر انطیوکس اعظم بھی مارا گیا۔ اسوبھاگ کے بعد اس کا بیٹاگج حکمران ہوا۔ پھر اس علاقہ پر یونانی حمکمران ہوگئے۔ سیتھی یونانی حکومت ختم کرکے سیستان سے ہوتے ہوئے اس علاقے پر قابض ہوگئے۔ (ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم۔ 311) سیتھی جب پارتھیوں کے زیر اثر ہوئے تو اس علاقہ پر ان کا تسلط ہوگیا۔ مگر جلد ہی یہ سرزمین کشانوں کے قبضہ میں آگئی۔ کشنوں کا خاتمہ ہنوں نے کیا، اس طرح اس علاقہ پر یوچیوں کی چار سو سالہ حکمرانی کا خاتمہ ہوگیا۔ اس علاقہ پر ہنوں کے زابلی مملکت کی حکمرانی تھی۔ ہنوں نے تقریباً دوسو سال حکمرانی کی۔ افغانستان میں ان کی قوت کو ترکوں نے صدمہ پہنچایا اور برصغیر میں ایک قومی وفاق نے ان کی حکومت کا خاتمہ کردیا۔ (دیکھئے، کشن اور ہن) جس وقت چینی سیاح ہیون سانگHion Tsang (630ء) اور وانگ ہیون سی Wang Hioun Tso نے برصغیر کی سیاحت کی تھی، اس وقت گندحارا پر کشتری خاندان کی حکومت تھی۔ ان کا دارلحکومت کاپسا (موجودہ بلگرام کابل کے شمال میں) تھا۔ البیرونی انہیں ترک بتاتا ہے۔ اس خاندان کی حکومت آخری حکمران کو اس کے وزیر کلیر عرف للیہ نے قید کرکے ہندو شاہی یا برہمن شاہی خاندان کی بنیاد رکھی۔ برہمن شاہی اس علاقے کا آخری حکمران خاندان تھا، جس نے مسلمانوں کا مقابلہ کیا۔ یہ خاندان ابتدائے اسلام سے 421ھ/ 1030 تک حکمران رہا۔ جب افغانستان کے مشرقی حصوں پر اسلامی لشکر کا قبضہ ہو گیا، تو اس کا دارلحکومت کاپسا سے گردیز، کابل، پھر اوہنڈ اور آخر میں نندانہ (جہلم کے قریب) منتقل ہوگیا۔ جہاں ان کا محمود غزنوی نے خاتمہ کردیا۔ (دیکھئے، ہندو خاندان)

  • (معین انصاری)

نگار خانہ