"حیدرآباد، سندھ" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م clean up, replaced: ← using AWB
م تاریخ - نیرون کوٹ
سطر 26: سطر 26:


== تاریخ ==
== تاریخ ==
===نیرون کوٹ===
موجودہ حیدرآباد شہر کی جگہ پہلے '''نیرون کوٹ''' نامی ایک بستی قائم تھی؛ یہ سندھوُ دریا (اب [[دریائے سندھ]]) کے کنارے مچھیروں کی ایک چھوٹی بستی تھی۔ اِس کا نام اِس کے سردار نیرون کے نام سے اخذ کیا جاتا تھا۔ دریائے سندھ کے متوازن میں ایک پہاڑی سلسلہ واقع ہے جسے [[گنجو ٹاکر]] کہتے ہیں۔ یہ بستی جوں جوں ترقی کرتی گئی ویسے ہی دریائے سندھ اور اِن پہاڑوں کے درمیان بڑھنے لگی۔تھوڑے ہی عرصے میں اِس پہاڑی سلسلے پر کُچھ بدھمت پجاری آ بسے۔ شہر میں اچھی تجارت کے خواہشمند لوگ اِن پجاریوں کے پاس اپنی التجائیں لے کر آتے تھے۔ یہ بستی ایک تجارتی مرکز تو بن ہی گئی لیکن اِس کے ساتھ ساتھ دوسری اقوام کی نظریں اِس کی اِس بڑھتی مقبولیت کو دیکھے نہ رہ سکیں۔ نیرون کوٹ کے لوگوں کے پاس ہتھیار تو تھے نہیں، بس فصلیں کاشت کرنے کے کُچھ اوزار تھے۔ چنانچہ، جب 711ء میں مسلمان عربی افواج نے اِس بستی پر دھاوا بولا تو یہ لوگ اپنا دفاع نہ کر سکے اور یہ بستی تقریباً فنا ہو گئی۔

[[چچ نامہ]] میں ایک سردار کا اکثر ذکر ملتا ہے جس کا نام [[آغم لوہانہ]] تھا۔ یہ [[منصورہ (برہمن آباد)‎|برہمن آباد]] نامی شہر کا سردار تھا اور اِس کی ملکیت میں دو علاقے آتے تھے — لوہانہ اور ساما۔ 636ء کی اِس تحریر میں، لوہانہ کے جنوب میں ایک بستی کا ذکر ملتا ہے جسے '''نارائن کوٹ''' کہا گیا ہے۔ تاریخ نویسوں کا ماننا ہے کہ نارائن کوٹ اور نیرون کوٹ ایک ہی بستی کا نام تھا۔


==شہر کے لوگ==
==شہر کے لوگ==

نسخہ بمطابق 21:05، 29 نومبر 2015ء

زیر نظر مضمون حیدرآباد، سندھ۔ دیگر استعمالات کے لیے حیدرآباد دیکھیے۔

حیدرآباد، سندھ
 

تاریخ تاسیس 1768  ویکی ڈیٹا پر (P571) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
انتظامی تقسیم
ملک پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P17) کی خاصیت میں تبدیلی کریں[1][2]
دار الحکومت برائے
تقسیم اعلیٰ ضلع حیدرآباد   ویکی ڈیٹا پر (P131) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جغرافیائی خصوصیات
متناسقات 25°22′45″N 68°22′06″E / 25.379166666667°N 68.368333333333°E / 25.379166666667; 68.368333333333   ویکی ڈیٹا پر (P625) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رقبہ
بلندی
آبادی
کل آبادی
مزید معلومات
اوقات متناسق عالمی وقت+05:00   ویکی ڈیٹا پر (P421) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
فون کوڈ 022  ویکی ڈیٹا پر (P473) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قابل ذکر
باضابطہ ویب سائٹ باضابطہ ویب سائٹ  ویکی ڈیٹا پر (P856) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جیو رمز 1176734  ویکی ڈیٹا پر (P1566) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
  ویکی ڈیٹا پر (P935) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
Map

حیدرآباد پاکستان کے صوبہ سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے جو کہ 1935 تک سندھ کا دارالخلافہ رہا۔ اس شہر کی بنیاد 1768 میں میان غلام شاہ کلہوڑو نے رکھی۔ قبل بنیاد یہ شہر ایک مچھیروں کا گاؤں تھا جس کا نام نیرون کوٹ تھا۔ پاکستان کے وقوف میں آنے سے پہلے اس شہر کو ہندوستان کے پیرس کا درجہ دیا جاتا تھا[حوالہ درکار] کیونکہ اس کی سڑکیں گلاب کے عرق سے صاف کی جاتی تھیں۔[حوالہ درکار] اپنی تاریخ میں یہ شہر سندھ کا دارالخلافہ رہ چکا ہے، اسی لئے یہ اب ایک ضلع کی حیثیت رکھتا ہے۔ انگریزوں کی حکومت سے لے کر 1980 کے سانحے[حوالہ درکار] تک حیدرآباد اپنی پہچان کھو چکا تھا اور اس کی تاریخی عمارات کھنڈروں میں تبدیل ہو گئیں۔[حوالہ درکار] سیاسی اعتبار سے حیدرآباد کو ایک اہم مقام حاصل ہے کیونکہ یہ شہری اور دیہاتی سندھ کے درمیان ایک دروازے کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں کئی عالم اور صوفی درویشوں کی پیدائش ہوئی ہے اور اس شہر کی ثقافت اس بات کی وضاحت کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حیدرآباد دنیا کی سب سے بڑی چوڑیوں کی صنعت گاہ ہے۔ یہ شہر پاکستان کے کچھ اہم ترین تاریخی و تہذیبی عناصر کے پاس وقوع ہے۔ تقریباً 110 کلومیٹر کی دوری پر امری ہے جہاں ہڑپہ کی ثقافت سے بھی قبل ایک قدیم تہذیب کی دریافت کی گئی ہے۔ جہاں یہ شہر اپنی تہذیب و تمدن کے لئے جانا جاتا ہے وہاں اسکے میڈیکل اور تعلیمی ادارے بھی بہت جانے مانے ہیں۔ حیدرآباد میں تقسیم ہند کے بعد بنائ گئی سب سے پہلی یونیورسٹی کا قیام ہے۔

تاریخ

نیرون کوٹ

موجودہ حیدرآباد شہر کی جگہ پہلے نیرون کوٹ نامی ایک بستی قائم تھی؛ یہ سندھوُ دریا (اب دریائے سندھ) کے کنارے مچھیروں کی ایک چھوٹی بستی تھی۔ اِس کا نام اِس کے سردار نیرون کے نام سے اخذ کیا جاتا تھا۔ دریائے سندھ کے متوازن میں ایک پہاڑی سلسلہ واقع ہے جسے گنجو ٹاکر کہتے ہیں۔ یہ بستی جوں جوں ترقی کرتی گئی ویسے ہی دریائے سندھ اور اِن پہاڑوں کے درمیان بڑھنے لگی۔تھوڑے ہی عرصے میں اِس پہاڑی سلسلے پر کُچھ بدھمت پجاری آ بسے۔ شہر میں اچھی تجارت کے خواہشمند لوگ اِن پجاریوں کے پاس اپنی التجائیں لے کر آتے تھے۔ یہ بستی ایک تجارتی مرکز تو بن ہی گئی لیکن اِس کے ساتھ ساتھ دوسری اقوام کی نظریں اِس کی اِس بڑھتی مقبولیت کو دیکھے نہ رہ سکیں۔ نیرون کوٹ کے لوگوں کے پاس ہتھیار تو تھے نہیں، بس فصلیں کاشت کرنے کے کُچھ اوزار تھے۔ چنانچہ، جب 711ء میں مسلمان عربی افواج نے اِس بستی پر دھاوا بولا تو یہ لوگ اپنا دفاع نہ کر سکے اور یہ بستی تقریباً فنا ہو گئی۔

چچ نامہ میں ایک سردار کا اکثر ذکر ملتا ہے جس کا نام آغم لوہانہ تھا۔ یہ برہمن آباد نامی شہر کا سردار تھا اور اِس کی ملکیت میں دو علاقے آتے تھے — لوہانہ اور ساما۔ 636ء کی اِس تحریر میں، لوہانہ کے جنوب میں ایک بستی کا ذکر ملتا ہے جسے نارائن کوٹ کہا گیا ہے۔ تاریخ نویسوں کا ماننا ہے کہ نارائن کوٹ اور نیرون کوٹ ایک ہی بستی کا نام تھا۔

شہر کے لوگ

حیدرآباد میں زیادہ تر لوگ سندھی ہیں، کیونکہ اکثر اشخاص جو اس شہر میں آتے ہیں وہ اندرون سندھ کی جانب سے آتے ہیں۔ یہ یہاں پاکستان کے نامور ادارے سندھ یونیورسٹی میں پڑھنے آتے ہیں جو حیدرآباد سے 33 کلومیٹر کی دوری پر جام شورو میں وقوع ہے۔ حیدرآباد میں اس کے علاوہ اردو، پشتو اور پنجابی بولنے والے لوگ بھی موجود ہیں۔ حیدرآباد شہر، قبل تقسیم، مقام پذیر سندھیوں کا رہائشی علاقہ تھا لیکن حب 1947 کے بعد ہندوستان سے مہاجر ہجرت کر کے شہر میں داخل ہوئے تو سندھیوں اور مہاجرین میں فسادات چھڑ گئے۔ موجودہ حالات بہتر ہیں اور دونوں اقوام باہم خوش ہیں مگر اکثر واقعات ان علامات کا اظہار کرتے ہیں۔ مذاہب کے اعتبار سے حیدرآباد کے لوگ زیادہ تر مسلمان ہیں جبکہ ایک خاثر مقدار میں سندھی ہندو بھی یہاں رہایش پذیر ہیں۔ تقریباً 2 فیصد آبادی مقامی عیسائیوں کی ہے۔

موسم

بہار

تعلیم

تقسیم سے قبل، حیدرآباد کے باشندوں کیلئے تعلیم کا جو نظام تھا وہ اس قابل نہ تھا کہ ہندوستان کے نامور اداروں میں اسکا شمار ہوتا۔ اب کیونکہ یہ شہر اندرون سندھ کو شہری آبادی سے جا ملاتا تھا، یہاں اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی اشد ضرورت آ نکلی اور ایسے اداروں کا ہونا لازم ہو گیا۔

صنعت اور تجارت

حیدرآباد صنعت اور تجارت کے لحاظ سے پاکستان کے اہم شہروں میں شمار ہوتا ہے ۔ یہاں کی اہم صنعتوں میں چوڑی، چمڑا، کپڑا اور دیگر صنعتیں شامل ہیں ۔حیدرآباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری یہاں کے تاجروں اور صنعت کاروں کی نماءندہ تنظیم ہے ۔

زراعت

بیرونی روابط

کھیل

حیدرآباد میں ایک عدد کرکٹ اسٹیڈیم ہے جس کا نام نیاز اسٹیڈیم ہے۔ اس میں 25،000 لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے اور یہاں دنیا کی سب سے پہلی ہیٹ ٹرک سن 1982ء میں بنائ گئی تھی۔ حیدرآباد میں ایک ہاکی اسٹیڈیم بھی ہے۔

ریل

حیدرآباد میں ریل کی تاریخ میں ایک پختہ پہچان ہے۔ یہ شروع میں Scinde Railway کا حصہ تھی اور انگریزوں نے اسے خرید کر شمالی-مغربی ریل کا احتمام کیا جو کہ اب پاکستان ریلوے ہے۔ حیدرآباد ایک بڑے ریل جنکشن کی حیثیت رکھتا ہے۔

 یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔

سانچہ:سانجہ:تاریخ سندھ

  1.   ویکی ڈیٹا پر (P1566) کی خاصیت میں تبدیلی کریں"صفحہ حیدرآباد، سندھ في GeoNames ID"۔ GeoNames ID۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 اپریل 2024ء 
  2.   ویکی ڈیٹا پر (P982) کی خاصیت میں تبدیلی کریں "صفحہ حیدرآباد، سندھ في ميوزك برينز."۔ MusicBrainz area ID۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 اپریل 2024ء