"عبد اللہ بن ابی" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
درستی املا, replaced: ابتدائیی ← ابتدائی using AWB
(ٹیگ: القاب)
م اعداد کے نئے صفحات کی تخلیق, replaced: ← (2) using AWB
(ٹیگ: القاب)
سطر 1: سطر 1:
رئیس المنافقین '''عبداللہ بن ابی''' کا مکمل نام اپنی [[ماں]] کی نسبت سے، عبداللہ بن ابی بن سلول ، بتایا جاتا ہے۔ [[تاریخ اسلام|اسلامی تاریخ]] کے مطابق حضرت [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم|محمد]]{{ص}} کی آمد سے قبل اہل [[مدینہ منورہ|مدینہ]] میں اسکی حیثیت اثر اور مرتبہ سب سے ممتاز تھا اور ہجرت سے کچھ روز قبل اہل مدینہ کے تمام قبائل نے اسے متفقہ طور پر اپنا سردار مقرر کرلیا تھا اور اسکی باقاعدہ رسم تاج پوشی کے لئے دن اور بھی تیہ کر لی گئی تھی۔ لیکن عین اسی وقت خاتم النبین حضرت [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم|محمد]]{{ص}} نے [[مکہ|مکہ مکرمہ]] سے ہجرت کرکے بے تاج بادشاہ کے طور پر مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہل مدینہ نے اپنا پہلا منصوبہ ترک کرکے اپنے تمام معاملات کو آنحضرت {{ص}} کے سپرد کردیا۔ اس صورت حال کی وجہ سے عبداللہ بن ابی کے سینے میں آپ {{ص}} سے ذاتی بغض اور عناد پیدا ہوگیا اور وہ دل ہی دل میں آپ {{ص}} سے جلنے کڑھنے لگا۔ کیونکہ اہل مدینہ کے تمام قبائل کی ہمدردیاں شمع رسالت کے ساتھ تھیں اس لئے وہ انکی کھلم کھلا مخالفت نہیں کرسکتا تھا چنانچہ اس نے منافقت کی راہ اپنائی۔
رئیس المنافقین '''عبداللہ بن ابی''' کا مکمل نام اپنی [[ماں]] کی نسبت سے، عبداللہ بن ابی بن سلول ، بتایا جاتا ہے۔ [[تاریخ اسلام|اسلامی تاریخ]] کے مطابق حضرت [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم|محمد]]{{ص}} کی آمد سے قبل اہل [[مدینہ منورہ|مدینہ]] میں اسکی حیثیت اثر اور مرتبہ سب سے ممتاز تھا اور ہجرت سے کچھ روز قبل اہل مدینہ کے تمام قبائل نے اسے متفقہ طور پر اپنا سردار مقرر کرلیا تھا اور اسکی باقاعدہ رسم تاج پوشی کے لئے دن اور بھی تیہ کر لی گئی تھی۔ لیکن عین اسی وقت خاتم النبین حضرت [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم|محمد]]{{ص}} نے [[مکہ|مکہ مکرمہ]] سے ہجرت کرکے بے تاج بادشاہ کے طور پر مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہل مدینہ نے اپنا پہلا منصوبہ ترک کرکے اپنے تمام معاملات کو آنحضرت {{ص}} کے سپرد کردیا۔ اس صورت حال کی وجہ سے عبداللہ بن ابی کے سینے میں آپ {{ص}} سے ذاتی بغض اور عناد پیدا ہوگیا اور وہ دل ہی دل میں آپ {{ص}} سے جلنے کڑھنے لگا۔ کیونکہ اہل مدینہ کے تمام قبائل کی ہمدردیاں شمع رسالت کے ساتھ تھیں اس لئے وہ انکی کھلم کھلا مخالفت نہیں کرسکتا تھا چنانچہ اس نے منافقت کی راہ اپنائی۔


عبداللہ بن ابی نے بظاہر اسلام قبول کرلیا اور ظاہری اعتبار سے اللہ اور اسکے رسول {{ص}} کے تمام احکامات کی پاپندی شروع کردی لیکن اندر ہی اندر وہ محمد {{ص}} سے بغض اور عناد کی عاد میں جل رہا تھا۔ وہ جب تک زندہ رہا اس نے اسلام کی جڑ کاٹنے کے لئے یہودیوں اور مشرقین مکہ سے رابطے استوار رکھے اور غزوہ بدر اور احد میں نہ خود حصہ نہیں لیا بلکہ اندر ہی اندر صحابہ کو بھی جہاد پہ جانے سے روکتا رہا۔ یہی منافق شخص آپ {{ص}} کی لاڈلی بیوی اور مسلمانوں کی ماں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیہ عنہ پر تہمت لگانے میں بھی پیش پیش رہا۔
عبداللہ بن ابی نے بظاہر اسلام قبول کرلیا اور ظاہری اعتبار سے اللہ اور اسکے رسول {{ص}} کے تمام احکامات کی پاپندی شروع کردی لیکن اندر ہی اندر وہ محمد {{ص}} سے بغض اور عناد کی عاد میں جل رہا تھا۔ وہ جب تک زندہ رہا اس نے اسلام کی جڑ کاٹنے کے لئے یہودیوں اور مشرقین مکہ سے رابطے استوار رکھے اور غزوہ بدر اور احد میں نہ خود حصہ نہیں لیا بلکہ اندر ہی اندر صحابہ کو بھی جہاد پہ جانے سے روکتا رہا۔ یہی منافق شخص آپ {{ص}} کی لاڈلی بیوی اور مسلمانوں کی ماں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیہ عنہ پر تہمت لگانے میں بھی پیش پیش رہا۔

نسخہ بمطابق 15:58، 19 دسمبر 2015ء

رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کا مکمل نام اپنی ماں کی نسبت سے، عبداللہ بن ابی بن سلول ، بتایا جاتا ہے۔ اسلامی تاریخ کے مطابق حضرت محمد کی آمد سے قبل اہل مدینہ میں اسکی حیثیت اثر اور مرتبہ سب سے ممتاز تھا اور ہجرت سے کچھ روز قبل اہل مدینہ کے تمام قبائل نے اسے متفقہ طور پر اپنا سردار مقرر کرلیا تھا اور اسکی باقاعدہ رسم تاج پوشی کے لئے دن اور بھی تیہ کر لی گئی تھی۔ لیکن عین اسی وقت خاتم النبین حضرت محمد نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے بے تاج بادشاہ کے طور پر مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہل مدینہ نے اپنا پہلا منصوبہ ترک کرکے اپنے تمام معاملات کو آنحضرت کے سپرد کردیا۔ اس صورت حال کی وجہ سے عبداللہ بن ابی کے سینے میں آپ سے ذاتی بغض اور عناد پیدا ہوگیا اور وہ دل ہی دل میں آپ سے جلنے کڑھنے لگا۔ کیونکہ اہل مدینہ کے تمام قبائل کی ہمدردیاں شمع رسالت کے ساتھ تھیں اس لئے وہ انکی کھلم کھلا مخالفت نہیں کرسکتا تھا چنانچہ اس نے منافقت کی راہ اپنائی۔

عبداللہ بن ابی نے بظاہر اسلام قبول کرلیا اور ظاہری اعتبار سے اللہ اور اسکے رسول کے تمام احکامات کی پاپندی شروع کردی لیکن اندر ہی اندر وہ محمد سے بغض اور عناد کی عاد میں جل رہا تھا۔ وہ جب تک زندہ رہا اس نے اسلام کی جڑ کاٹنے کے لئے یہودیوں اور مشرقین مکہ سے رابطے استوار رکھے اور غزوہ بدر اور احد میں نہ خود حصہ نہیں لیا بلکہ اندر ہی اندر صحابہ کو بھی جہاد پہ جانے سے روکتا رہا۔ یہی منافق شخص آپ کی لاڈلی بیوی اور مسلمانوں کی ماں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیہ عنہ پر تہمت لگانے میں بھی پیش پیش رہا۔

اسلامی تاریخ اور بطور خاص مسلمانوں میں تفرقات پیدا ہونے کے ابتدائی ماحول اور محرکات کے سلسلے میں عبداللہ بن ابی کا نام اولین شخصیات میں لیا جاتا ہے[1]۔ رئیس المنافقین کی وفات پر حضرت عمر فاروق نے اس کا واضح طور پر اظہار بھی کیا تھا کہ یہ شخص منافق اور آپ اسکی نماز جنازہ نہ پڑھائیں۔ [2][3]، لیکن اس کے باوجود حضرت محمد نے اسکے مسلمان بیٹے کی دلجوئی کے لئے کمال رحم اور عفو در گزر سے کام لیتے ہوئے اس کی نماز جنازہ میں شرکت کے لیے گئے اور کفنانے کے کئے اپنا کرتا عنایت فرمایا، مگر عین وقت پر اللہ تعالٰی نے بذریعہ وحی نماز جنازہ پڑھنے سے روک دیا۔

حوالہ جات

  1. William Montgomery Watt, "`Abd Allah b. Ubayy", Encyclopaedia of Islam. Brill publisher.
  2. Saif-ur-Rahman al-Mubarakpuri, Ar-Raheeq Al-Makhtum (2002), p. 285.
  3. Sayed Ali Asgher Razwy, Restatement of History of Islam.