"کراچی" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م robot Adding: ug:Karachi
م robot Modifying: ug:كاراچى
سطر 548: سطر 548:
[[tl:Karachi]]
[[tl:Karachi]]
[[tr:Karaçi]]
[[tr:Karaçi]]
[[ug:Karachi]]
[[ug:كاراچى]]
[[uk:Карачі]]
[[uk:Карачі]]
[[vi:Karachi]]
[[vi:Karachi]]

نسخہ بمطابق 15:33، 15 اپریل 2009ء

کراچی
[[Image:|280px]]
عمومی معلومات
صوبہ سندھ
رقبہ 3,527 مربع کلومیٹر
کالنگ کوڈ 021
منطقۂ وقت پاکستان کا معیاری وقت (UTC+5)
حکومت
ناظم سید مصطفی کمال
یونين کونسلیں 178
علامت

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور صنعتی، تجارتی، تعلیمی، مواصلاتی و اقتصادی مرکز ہے۔ کراچی کا شمار دنیا کے چند سب سے بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ کراچی پاکستان کے صوبہ سندھ کا دارالحکومت ہے۔ شہر دریائے سندھ کے مغرب میں بحیرہ عرب کے شمالی ساحل پر واقع ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی بندرگاہ اور ہوائی اڈہ بھی کراچی میں قائم ہے۔ کراچی 1947ء سے 1960ء تک پاکستان کا دارالحکومت بھی رہا۔ موجودہ کراچی کی جگہ پر واقع قدیم ماہی گیروں کی بستیوں میں ایک کا نام کولاچی جو گوٹھ تھا۔ انگریزوں نے انیسویں صدی میں اس شہر کی تعمیر و ترقی کی بنیادیں ڈالیں۔ 1947 میں پاکستان کی آزادی کے وقت کراچی کو نو آموز مملکت کا دار الحکومت منتخب کیا گیا۔ اس کی وجہ سے شہر میں لاکھوں مہاجرین کا دخول ہوا۔ پاکستان کے دار الحکومت ہونے اور بین الاقوامی بندرگاہ ہونے کی وجہ سے شہر میں صنعتی سرگرمیاں دیگر شہروں سے قبل شروع ہو گئیں۔ 1959 میں پاکستان کے دار الحکومت کی اسلام آباد منتقلی کے باوجود کراچی کی آبادی اور معیشت میں ترقی کی رفتار کم نہیں ہوئی۔

کراچی کی آبادی میں کئی مذہبی، نسلی اور لسانی گروہ موجود ہیں۔ اس طرح کراچی کئی نسلوں کا گہوارہ ہے۔ ان کی باہمی کشیدگی کی وجہ سے 80 اور 90 کی دہائیوں میں کراچی لسانی فسادات، تشدد اور دہشت گردی کا شکار بنا رہا۔ بگڑتے ہوئے حالات کو سنبھالنے کے ليے پاک فوج کو بھی کراچی میں مداخلت کرنی پڑی۔ اکیسویں صدی میں تیز قومی معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ کراچی کے حالات میں بہت تبدیلی آئی ہے۔ کراچی کی امن عامہ کی صورتحال کافی بہتر ہوئی ہے اور شہر میں مختلف شعبوں میں ترقی کی رفتار میں بہت اضافہ ہوا ہے۔

کراچی دریائے سندھ کے دہانے کی شمالی حد پر واقع ہے۔ شہر ایک قدرتی بندرگاہ کے گرد وجود پایا۔ کراچی 52´ 24° شمال اور 03´ 67° مشرق پر واقع ہے۔

تاریخ

کراچی کی ایک قدیم تصویر 1889

قدیم یونانی کراچی کے موجودہ علاقہ سے مختلف ناموں سے واقف تھے: کروکولا، جہاں سکندر اعظم وادی سندھ میں اپنی مھم کے بعد، اپنی فوج کی واپس بابل روانگی کی تیّاری کے لیے خیمہ زن ہوا ؛ بندر مرونٹوبارا (ممکنً کراچی کی بندرگاہ سے نزدیک جزیرہ منوڑہ جہاں سے سکندر کا سپہ سالار نییرچس واپس اپنے وطن روانہ ہوا ؛ اور باربریکون، جوکہ ہندوستانی یونانیوں کی باختری مملکت کی بندرگاہ تھی۔ اس کے علاوہ ، عربی اس علاقہ کو بندرگاہِ دیبل کے نام سے جانتے تھے، جہاں سے محمد بن قاسم نے 712ء میں کی اپنی فتوحات کا آغاز کیا ۔ برطانوی تاریخ دان ایلیٹ کے مطابق موجودہ کراچی کے چند علاقے اور جزیرہ منوڑہ، دیبل میں شامل تھے۔

1772 میں گائوں کولاچی جو گوٹھ کو مسقط اور ہحرین کے ساتھ تجارت کرنے کی بندرگاہ منتخب کیا گیا۔ اس کی وجہ سے یہ گائوں تجارتی مرکز میں تبدیل ہونا شروع ہو گیا۔ بڑھتے ہوئے شہر کی حفاظت کے ليے شہر کی گرد فصیل بنائی گئی اور مسقط سے توپیں درآمد کرکے شہر کی فصیل پر نصب کی گئیں۔ فصیل میں دو دروازے تھے۔ ایک دروازے کا رخ سمندر کی طرف تھا اور اس ليے اس کو کھارادر (سندھی میں کھارودر) کہا جاتا اور دوسرے دروازے کا رخ لیاری ندی کی طرف تھا اور اس ليے اس کو میٹھادر (سندھی میں مٹھو در) کہا جاتا تھا۔

1795 تک کراچی خان قلات کی مملکت کا حصہ تھا۔ اس سال سندھ کے حکمرانوں اور خان قلات کے درمیان جنگ چھڑ گئی اور کراچی پر سندھ کی حکومت کا قبضہ ہو گیا۔ اس کے بعد شہر کی بندرگاہ کی کامیابی اور زیادہ بڑے ملک کی تجارت کا مرکز بن جانے کی وجہ سے کراچی کی آبادی میں اضافہ ہوا۔ اس ترقی نے جہاں ایک طرف کئی لوگوں کو کراچی کی طرف کھینچا وہاں انگریزوں کی نگاہیں بھی اس شہر کی طرف کھینچ لیں۔

فریئر ہال، برطانوی راج کے دوران ان کے طرز تعمیر کی ایک مثال

انگریزوں نے 3 فروری 1839 کو کراچی شہر پر حملہ کیا اور اس پر قبضہ کر لیا۔ تین سال کے بعد شہر کو برطانوی ہندوستان کے ساتھ ملحق کرکے ایک ضلع کی حیثیت دے دی۔ انگریزوں نے کراچی کی قدرتی بندرگاہ کو دریائے سندھ کی وادی کا اہم تجارتی مرکز بنانے کے ليے شہر کی ترقی پر اہم نظر رکھی۔ برطانوی راج کے دوران کراچی کی آبادی اور بندرگاہ دونوں بہت تیزی سے بڑھے۔ 1857 کی جنگ آزادی کے دوران کراچی میں 21ویں نیٹو انفنٹری نے 10 ستمبر کو مغل فرمانروابہادر شاہ ظفر سے بیعت کر لی۔ انگریزوں نے شہر پر دوبارہ قبضہ کر لیا اور "بغاوت" کا سر کچل دیا۔

1876 میں کراچی میں بانی پاکستان محمد علی جناح کی پیدائش ہوئی۔ اس وقت تک کراچی ایک ترقی یافتہ شہر کی صورت اختیار کر چکا تھا جس کا انحصار شہر کے ریلوے اسٹیشن اور بندرگاہ پر تھا۔ اس دور کی اکثر عمارتوں کا فن تعمیر کلاسیکی برطانوی نوآبادیاتی تھا، جو کہ بر صغیر کے اکثر شہروں سے مختلف ہے۔ ان میں سے اکثر عمارتیں اب بھی موجود ہیں اور سیاحت کا مرکز بنتی ہیں۔ اس ہی دور میں کراچی ادبی، تعلیمی اور تہذیبی سرگرمیوں کا مرکز بھی بن رہا تھا۔

کراچی آہستہ آہستہ ایک بڑی بندرگاہ کے گرد ایک تجارتی مرکز بنتا گیا۔ 1880 کی دہائی میں ریل کی پٹڑی کے ذریعے کراچی کو باقی ہندوستان سے جوڑا گیا۔ 1881 میں کراچی کی آبادی 73،500 سے، 1891 میں 105،199 اور 1901 میں 115،407 تک بڑھ گئی۔ 1899 میں کراچی مشرقی دنیا کا سب سے بڑا گندم کی درآمد کا مرکز تھا۔ جب 1911 میں برطانوی ہندوستان کا دارالحکومت دہلی بنا تو کراچی سے گزرنے والے مسافروں کی تعداد بڑھ گئی۔ 1936 میں جب سندھ کو صوبہ کی حیثیت دی گئی تو کراچی کو اس کا دارالحکومت منتخب کیا گیا۔

سوک سینٹر، شہری حکومت کا دفتر

1947 میں کراچی کو پاکستان کا دار الحکومت منتخب کیا گیا۔ اس وقت شہر کی آبادی صرف چار لاکھ تھی۔ اپنی نئی حیثیت کی وجہ سے شہر کی آبادی میں کافی تیزی سے اضافہ ہوا اور شہر خطے کا ایک مرکز بن گیا۔ پاکستان کا دارالحکومت کراچی سے راولپنڈی اور پھر اسلام آباد منتقل تو ہوا لیکن کراچی اب بھی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور مرکز ہے۔ کراچی نے 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں تشدد، سیاسی اور سماجی ہنگامہ آرائی اور دہشت گردی کا شکار بنا رہا۔ موجودہ دہائی میں کراچی میں امن عامہ کی صورتحال کافی بہتر ہوئی ہے اور اس کی وجہ سے شہر میں بہت ترقی ہوئی۔

ابھی کراچی میں ترقیاتی کام بہت تیزی سے جاری ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کراچی ایک عالمی مرکز کی شکل میں ابھر رہا ہے۔

موسم اور محل وقوع

فائل:Karachibeach with new fountain jet.jpeg
دنیا کے بلند ترین فواروں میں سے ایک "کراچی جیٹ فاؤنٹین"

کراچی جنوبی پاکستان میں بحیرہ عرب کے عین شمال میں واقع ہے۔ شہر کا رقبہ 3،527 مربع کلومیٹر ہے۔ یہ ایک ناہموار میدانی علاقہ ہے جس کی شمالی اور مغربی سرحدیں پہاڑیاں ہیں۔ شہر کے درمیان سے دو بڑی ندیاں گزرتی ہیں، ملیر ندی اور لیاری ندی۔ اس کے ساتھ ساتھ شہر سے کئی اور چھوٹی بڑی ندیاں گزرتی ہیں۔ کراچی کی بندرگاہ شہر کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ چونکہ بندرگاہ ہر طرف سے زمین سے گھری ہوئی ہے اس ليے اس کو ایک بہت خوبصورت قدرتی بندرگاہ سمجھا جاتا ہے۔

ساحل سمندر پر واقع ہونے کی وجہ سے شہر کا موسم بہت معتدل ہے۔ شہر میں بارشیں کم ہوتی ہیں، سال میں اوسطا 250 ملی میٹر، جن کا زیادہ تر حصہ مون سون میں ہوتا ہے۔ کراچی میں گرمیاں اپریل سے اگست تک باقی رہتی ہیں اور اس دوران ہوا میں نمی کا تناسب بھی زیادہ رہتا ہے۔ نومبر سے فروری شہر میں موسم سرما مانا جاتا ہے۔ دسمبر اور جنوری شہر میں سب سے زیادہ آرام دہ موسم کے مہینے ہیں اور اس وجہ سے شہر میں ان ہی دنوں میں سب سے زیادہ تقاریب اور سیاحت ہوتی ہے۔

کراچی درجہ حرارت جنوری فروری مارچ اپریل مئی جون جولائی اگست ستمبر اکتوبر نومبر دسمبر
زیادہ سے زیادہ (اوسط) (سینٹی گریڈ میں) 25 26 29 32 34 44 43 31 31 33 31 27
کم سے کم (اوسط) (ڈگری سینٹی گریڈ میں) 13 14 19 23 26 28 27 26 25 22 18 14

حکومت

سوک سینٹر، شہری حکومت کا دفتر

کراچی شہر کی بلدیہ کا آغاز 1933 میں ہوا۔ ابتدا میں شہر کا ایک میئر، ایک نائب میئر اور 57 کونسلر ہوتے تھے۔ 1976 میں بلدیہ کراچی کو بلدیہ عظمی کراچی بنا دیا گیا۔ سن 2000 میں حکومت پاکستان نے سیاسی، انتظامی اور مالی وسائل اور ذمہ داریوں کو نچلی سطح تک منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس کے بعد 2001 میں اس منصوبے کے نفاذ سے پہلے کراچی انتظامی ڈھانچے میں دوسرے درجے کی انتظامی وحدت یعنی ڈویژن، کراچی ڈویژن، تھا۔ کراچی ڈویژن میں پانچ ضلع، ضلع کراچی جنوبی، ضلع کراچی شرقی، ضلع کراچی غربی، ضلع کراچی وسطی اور ضلع ملیر شامل تھے۔

سن 2001 میں اس تمام ضلعوں کو ایک ضلعے میں جوڑ لیا گیا۔ اب کراچی کا انتظامی نظام تیں سطحوں پر واقع ہے۔

  • سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ
  • ٹاؤن میونسپل ایڈمنسٹریشن
  • یونین کونسل ایڈمنسٹریشن

ضلع کراچی کو 18 ٹائون میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان سب کی منتخب بلدیاتی انتظامیہ موجود ہیں۔ ان کی ذمہ داریاں اور اختیارات میں پانی کی فراہمی، نکاسی آب، کوڑے کی صفائی، سڑکوں کی مرمت، باغات، ٹریفک سگنل اور چند دیگر زمروں میں آتی ہیں۔ بقیہ اختیارات ضلعی انتظامیہ کے حوالے ہیں۔

کراچی میونسپل کارپوریشن کا صدر دفتر

یہ ٹاؤنز مزید 178 یونین کونسلوں میں تقسیم ہیں جو مقامی حکومتوں کے نظام کی بنیادی اکائی ہے۔ ہر یونین کونسل 13 افراد کی باڈی پر مشتمل ہے جس میں ناظم اور نائب ناظم بھی شامل ہیں۔ یوسی ناظم مقامی انتظامیہ کا سربراہ اور شہری حکومت کے منصوبہ جات اور بلدیاتی خدمات کے علاوہ عوام کی شکایات حکام بالا تک پہنچانے کا بھی ذمہ دار ہے۔

2005ء میں مقامی حکومتوں کے انتخابات میں سید مصطفی کمال نے کامیابی حاصل کی اور نعمت اللہ خان کی جگہ کراچی کے ناظم قرار پائے جبکہ نسرین جلیل شہر کی نائب ناظمہ قرار پائیں۔ مصطفی کمال ناظم کا عہدہ سنبھالنے سے قبل صوبہ سندھ کے وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی تھے۔ ان سے قبل کراچی کے ناظم نعمت اللہ خان 2004ء اور 2005ء کے لیے ایشیاء کے بہترین ناظمین میں سے ایک قرار پائے تھے۔ مصطفی کمال نعمت اللہ خان کا شروع کردہ سفر جاری رکھے ہوئے ہیں اور شہر میں ترقیاتی کام تیزی سے جاری ہیں۔

کراچی شہر مندرجہ ذیل ٹاؤنز میں تقسیم ہے:

  • واضح رہے کہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کراچی میں قائم ہے لیکن وہ کراچی کا ٹاؤن نہیں اور نہ ہی کسی ٹاؤن کا حصہ ہے بلکہ پاک افواج کے زير انتظام ہے۔

اعداد و شمار

سال شہری آبادی

1856 56,875
1872 56,753
1881 73,560
1891 105,199
1901 136,297
1911 186,771
1921 244,162
1931 300,799
1941 435,887
1951 1,068,459
1961 1,912,598
1972 3,426,310
1981 5,208,132
1998 9,269,265
2006 11,969,284
کراچی کی آبادی 1860 ۔ 2006

گذشتہ 150 سالوں میں کراچی کی آبادی و دیگر اعداد و شمار میں واضح تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ غیرسرکاری اور بین الاقوامی ذرا‏ئع کے مطابق کراچی کی موجودہ آبادی 20 سے 25 ملین ہے [حوالہ درکار]۔ جو 1947ء کے مطابق میں 37 گنا زیادہ ہے۔ آزادی کے وقت کراچی کی آبادی محض 4 لاکھ تھی۔ شہر کی آبادی اس وقت 5 فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے جس میں اہم ترین کردار دیہات سے شہروں کو منتقلی ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق ہر ماہ 45 ہزار افراد شہر قائد پہنچتے ہیں۔ کراچی دنیا کے بڑے شہروں میں سے ایک ہے۔

کراچی ایک کثیر النسلی، کثیر اللسانی اور کثیر الثقافتی بین الاقوامی شہر ہے۔ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق کراچی کی 94 اعشاریہ 04 فیصد آبادی شہر میں قیام پذیر ہے۔ اس طرح وہ صوبہ سندھ کا سب سے جدید علاقہ ہے۔

کراچی میں سب سے زیادہ آبادی اردو بولنے والے مہاجرین کی ہے جو 1947ء میں تقسیم برصغیر کے بعد ہندوستان کے مختلف علاقوں سے آکر کراچی میں آباد ہوئے تھے۔ ہندوستان سے آئے ہوئے ان مسلم مہاجرین کو نو آموز مملکت پاکستان کی حکومت کی مدد سے مختلف رہائش گاہیں نوازی گئیں جن میں سے اکثر پاکستان چھوڑ کر بھارت جانے والی ہندو اور سکھ برادری کی تھی۔

شہر کے دیگر باسیوں میں سندھی، بلوچی، پنجابی، پٹھان، گجراتی، کشمیری، سرائیکی اور 10 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین شامل ہیں جو 1979ء میں افغانستان پر سوویت یونین کی جارحیت کے بعد ہجرت کرکے شہر قائد پہنچے اور اب یہاں کے مستقل باسی بن چکے ہیں۔ ان مہاجرین میں پختون، تاجک، ہزارہ، ازبک اور ترکمان شامل تھے۔ ان کے علاوہ ہزاروں بنگالی، عرب، ایرانی، اراکانی کے مسلم مہاجرین (برما کی راکھائن ریاست کے) اور افریقی مہاجرین بھی کراچی میں قیام پذیر ہیں۔ آتش پرست پارسیوں کی بڑی تعداد بھی تقسیم ہند سے قبل سے کراچی میں رہائش پذیر ہے۔ کراچی کے پارسیوں نے شہر کی تاریخ میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اہم سرکاری عہدوں اور کاروباری سرگرمیوں میں بھرپور طریقے سے شامل رہے ہیں۔ آزادی کے بعد ان کی اکثریت مغربی ممالک کو ہجرت کرگئی تاہم اب بھی شہر میں 5 ہزار پارسی آباد ہیں۔ علاوہ ازیں شہر میں گوا سے تعلق رکھنے والے کیتھولک عیسائیوں کی بھی بڑی تعداد آبادی ہے جو برطانوی راج کے زمانے میں یہاں پہنچی تھی۔

1998ء کی مردم شماری کے مطابق شہر کی لسانی تقسیم اس طرح سے ہے: اردو بولنے والے 65 فیصد، پنجابی 8 فیصد، سندھی 7.22 فیصد، پشتو 11.42 فیصد، بلوچی 4.34 فیصد، سرائیکی 2.11 فیصد، دیگر 7.4 فیصد۔ دیگر میں گجراتی، داؤدی بوہرہ، میمن، گھانچی، براہوی، مکرانی، بروشسکی، عربی، فارسی اور بنگالی شامل ہیں۔ شہر کی اکثریت مسلمان ہے جن کی تعداد 96.49 فیصد ہے۔ عیسائی 2.35 فیصد، ہندو 0.83 فیصد، احمدی 0.17 فیصد اور دیگر 0.13 فیصد ہیں۔ دیگر میں پارسی، یہودی اور بدھ شامل ہیں۔

اقتصادیات

کراچی کی بلند عمارات کا ایک منظر

کراچی پاکستان کا تجارتی دارالحکومت ہے اور جی ڈی پی کے بیشتر حصہ کا حامل ہے۔ قومی محصولات کا 65 فیصد کراچی سے حاصل ہوتا ہے۔ پاکستان کے تمام سرکاری و نجی بینکوں کے دفاتر کراچی میں قائم ہیں۔ جن میں سے تقریبا تمام کے دفاتر پاکستان کی وال اسٹریٹ "آئی آئی چندریگر روڈ" پر قائم ہیں۔

دبئی کا معروف تعمیراتی ادارہ ایمار پراپرٹیز کراچی کے دو جزائر بنڈل اور بڈو پر 43 ارب امریکی ڈالرز کی لاگت سے تعمیراتی کام کا آغاز کررہا ہے۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ 20 ارب روپے کے ایک منصوبے پورٹ ٹاور کمپلیکس کا آغاز کررہی ہے جو ایک ہزار 947 فٹ بلندی کے ساتھ پاکستان کی سب سے بلند عمارت ہوگی۔ اس میں ایک ہوٹل، ایک شاپنگ سینٹر اور ایک نمائشی مرکز شامل ہوگا۔ عمارت کی اہم ترین خوبی اس کا گھومتا ہوا ریستوران ہوگا جس کی گیلری سے بدولت کراچی بھر کا نظارہ کیا جاسکے گا۔ مذکورہ ٹاور کلفٹن کے ساحل پر تعمیر کیا جائے گا۔

پاکستان کی وال اسٹریٹ "آئی آئی چندریگر روڈ"، رات کے وقت

بینکنگ اور تجارتی دارالحکومت ہونے کے ساتھ ساتھ کراچی میں پاکستان میں کام کرنے والے تمام کثیر القومی اداروں کے بھی دفاتر قائم ہیں۔ یہاں پاکستان کا سب سے بڑا بازار حصص کراچی اسٹاک ایکسچینج بھی موجود ہے جو 2005ء میں پاکستان کے جی ڈی پی میں 7 فیصد اضافے میں اہم ترین کردار قرار دیاجاتاہے۔

انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشنز ٹیکنالوجیز (آئی سی ٹی)، الیکٹرانک میڈیا اور کال سینٹرز کا نیا رحجان بھی شہر کی ترقی میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ غیرملکی کمپنیوں کے کال سینٹرز کو ترقی کے ليے بنیادی ہدف قرار دیا گیا ہے اور حکومت نے آئی ٹی شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے ليے محصولات میں 80 فیصد تک کمی کے ليے کام کررہی ہے [حوالہ درکار]۔ کراچی پاکستان کا سافٹ ویئر مرکز بھی ہے۔ پاکستان کے کئی نجی ٹیلی وژن اور ریڈیو چینلوں کے صدر دفاتر بھی کراچی میں ہیں جن میں سے جیو، اے آر وائی، ہم اور آج ٹی وی مشہور ہیں۔ مقامی سندھی چینل کے ٹی این، سندھ ٹی وی اور کشش ٹی وی بھی معروف چینل ہیں۔

کراچی میں کئی صنعتی زون واقع ہیں جن میں کپڑے، ادویات، دھاتوں اور آٹو موبائل کی صنعتیں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔ مزيد برآں کراچی میں ایک نمائشی مرکز ایکسپو سینٹر بھی ہے جس میں کئی علاقائی و بین الاقوامی نمائشیں منعقد ہوتی ہیں۔ ٹویوٹا اور سوزوکی موٹرز کے کارخانے بھی کراچی میں قائم ہیں۔ اس صنعت سے متعلق دیگر اداروں میں ملت ٹریکٹرز، آدم موٹر کمپنی اور ہینو پاک کے کارخانے بھی یہیں موجود ہیں۔ گاڑیوں کی تیاری کا شعبہ پاکستان میں سب سے زیادہ تیزی سے ابھرتی ہوا صنعتی شعبہ ہے جس کا مرکز کراچی ہے۔

کراچی بندرگاہ اور محمد بن قاسم بندرگاہ پاکستان کی دو اہم ترین بندرگاہیں ہیں جبکہ جناح بین الاقوامی ہوائی اڈہ ملک کا سب سے بڑا ہوائی اڈہ ہے۔

1960ء کی دہائی میں کراچی کو ترقی پذیر دنیا میں ترقی کا رول ماڈل سمجھا جاتا ہے۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جنوبی کوریا نے شہر کا دوسرا پنج سالہ منصوبہ برائے 1960ء تا 1965ء نقل کیا۔

تعمیرات

کریک ٹاورز (زیر تعمیر)

پورٹ ٹاور کمپلیکس (مجوزہ)

کریسنٹ بے (منظور شدہ)

کراچی کریک مرینا (زیر تعمیر)

ڈولمین ٹاورز (زیر تعمیر)

آئی ٹی ٹاور (منظور شدہ)

بنڈل جزیرہ (منظور شدہ)

بڈو جزیرہ (منظور شدہ)

اسکوائر ون ٹاورز (زیر تعمیر)

کراچی ماس ٹرانزٹ نظام

انشاء ٹاورز (منظور شدہ)

ایف پی سی سی آئی ٹاور (مجوزہ)

ثقافت

ہندو جیم خانہ (ناپا)

کراچی پاکستان کے چند اہم ترین ثقافتی اداروں کا گھر ہے۔ تزئین و آرائش کے بعد ہندو جیم خانہ میں قائم کردہ نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (ناپا) کلاسیکی موسیقی اور جدید تھیٹر سمیت دیگر شعبہ جات میں دو سالہ ڈپلومہ کورس پیش کرتا ہے۔ آل پاکستان میوزیکل کانفرنس 2004ء میں اپنے قیام کے بعد سالانہ میوزک فیسٹیول منعقد کررہا ہے۔ یہ فیسٹیول شہری زندگی کے ایک اہم جز کی حیثیت اختیار کر گیا ہے جس کا شدت سے انتظار کیا جاتا ہے اور 3 ہزار سے زائد شہری اس میں شرکت کرتے ہیں جبکہ دیگر شہروں سے بھی مہمان تشریف لاتے ہیں۔

کوچہ ثقافت میں مشاعرے، ڈرامے اور موسیقی پیش کی جاتی ہے۔ کراچی میں قائم چند عجائب گھروں میں معمول کی بنیادوں پر نمائشیں منعقد ہوتی ہیں جن میں موہٹہ پیلس اور قومی عجائب گھر شامل ہیں۔ سالانہ بنیادوں پر منعقدہ کارا فلم فیسٹیول میں پاکستانی اور بین الاقوامی آزاد اور دستاویزی فلمیں پیش کی جاتی ہیں۔ کراچی کی ثقافت مشرق وسطی، جنوبی ایشیائی اور مغربی تہذیبوں کے ملاپ سے تشکیل پائی ہے۔ کراچی میں پاکستان کی سب سے بڑی مڈل کلاس آبادی قیام پذیر ہے۔ کراچی صوبہ سندھ کا صدر مقام ہے۔

تعلیم

فاسٹ انسٹیٹیوٹ۔ نیشنل یونیورسٹی کا کراچی کیمپس

پاکستان میں سب سے زیادہ شرح خواندگی کراچی شہر میں ہے جہاں کئی جامعات اور کالز قجائم ہیں۔ کراچی اپنی کثیر نوجوان آبادی کے باعث ملک بھر میں جانا جاتا ہے۔ کراچی کی کئی جامعات ملک کے بہترین تعلیمی اداروں میں شمار ہوتی ہیں۔

کھیل

کراچی میں بین الاقوامی کرکٹ کا مرکز، نیشنل اسٹیڈیم

کراچی کے مشہور کھیلوں میں کرکٹ، ہاکی، باکسنگ، فٹبال اور گھڑ دوڑ شامل ہیں۔ بین الاقوامی مرکز نیشنل اسٹیڈيم کے علاوہ کرکٹ کے میچز یو بی ایل اسپورٹس کمپلیکس، اے او کرکٹ اسٹیڈیم، کے سی سی اے کرکٹ گراؤنڈ، کراچی جیم خانہ گراؤنڈ اور ڈی ایچ اے کرکٹ اسٹیڈیم پر منعقد ہوتے ہیں۔ شہر میں ہاکی کے ليے ہاکی کلب آف پاکستان اور یو بی ایل ہاکی گراؤنڈ، باکسنگ کے ليے کے پی ٹی اسپورٹس کمپلیکس، اسکواش کے ليے جہانگیر خان اسکواش کمپلکیس اور فٹبال کے ليے پیپلز فٹ بال اسٹیڈیم اور پولو گراؤنڈ، کراچی جیسے شاندار مراکز قائم ہیں۔ 2005ء میں شہر کے پیپلز فٹ بال اسٹیڈيم میں ساف کپ فٹبال ٹورنامنٹ منعقد ہوا۔ کشتی رانی بھی کراچی کی کھیلوں کی سرگرمیوں کا ایک اہم حصہ ہے۔

کراچی کارساز گالف کلب

کراچی جیم خانہ، سندھ کلب، کراچی کلب، مسلم جیم خانہ، کریک کلب اور ڈی ایچ اے کلب سمیت دیگر کھیلوں کے کلب اپنے ممبران کو ٹینس، بیڈمنٹن، اسکواش، تیراکی، دوڑ، اسنوکر اور دیگر کھیلوں کی سہولیات مہیا کرتے ہیں۔ کراچی میں دو عالمی معیار کے گالف کلب ڈي ایچ اے اور اور کارساز قائم ہیں۔ علاوہ ازیں شہر میں چھوٹے پیمانے پر کھیلوں کی سرگرمیاں بھی عروج پر ہوتی ہیں جن میں سب سے مشہور نائٹ کرکٹ ہے جس میں ہر اختتام ہفتہ پر چھوٹے موٹے میدانوں اور گلیوں میں برقی قمقموں میں کرکٹ کھیلی جاتی ہے۔

دلچسپ مقامات

ساحل کراچی

ڈی ایچ اے مرینا کلب
  • ڈی ایچ اے مرینا کلب
  • زمزمہ تجارتی مرکز۔ اپنے بوتیک اور کیفے کے ليے مشہور

عجائب گھر

برطانوی راج کے دور کی عمارات

ایمپریس مارکیٹ
  • سابق وکٹوریا میوزیم (بعد ازاں عدالت عظمی کے زیر استعمال)

جزائر

باغات

کشتزار (فارم ہاؤسز)

°ولیج گارڈن

  • میمن فارم ہاؤس

میلے (ریزورٹس)

  • ریس کورس یونیورسٹی روڈ

ایوان عکس (سینیما)

  • کیپری سینما
  • نشاط سینما
  • پرنس سینما

یونیورس سنیپلیکس (کلفٹن)

شرب و طعام (فوڈ اینڈ ڈرنکس)

  • حیدرآباد کالونی

علاوہ ازیں کلفٹن، ڈي ایچ اے، شارع فیصل، نارتھ ناظم آباد، کریم آباد، گلشن اقبال، گلستان جوہر وغیرہ میں بھی کئی مراکز ہیں۔

کلفٹن کا ساحل ماضی قریب میں دو مرتبہ تیل کی رسائی کے باعث متاثر ہوچکا ہے جس کے بعد ساحل کی صفائی کردی گئی ہے۔ علاوہ ازیں رات کے وقت تفریح کے ليے ساحل پر برقی قمقمے بھی نصب کئے گئے ہیں۔ حکومت نے کراچی کی ساحلی پٹی کی خوبصورتی کے ليے کلفٹن میں بیچ پارک قائم کیا ہے جو جہانگیر کوٹھاری پیریڈ اور باغ ابن قاسم سے منسلک ہے۔ شہر کے قریب دیگر ساحلی تفریحی مقامات بھی ہیں جن میں سینڈزپٹ، ہاکس بے، فرنچ بیچ، رشین بیچ اور پیراڈائز پوائنٹ معروف ہیں۔

خریداری کا مرکز

اتوار بازار میں کپڑوں کی فروخت

کراچی پاکستان میں خریداری کا مرکز تصور کیا جاتا ہے جہاں روزانہ لاکھوں صارفین اپنی ضروریات کی اشیاء خریدتے ہیں۔ صدر، گلف شاپنگ مال، بہادر آباد، طارق روڈ، زمزمہ، زیب النساء اسٹریٹ اور حیدری اس حوالے سے ملک بھر میں معروف ہیں۔ ان مراکز میں کپڑوں کے علاوہ دنیا بھر سے ضروریات زندگی کی تمام اشیاء حاصل کی جاسکتی ہیں۔ برطانوی راج کے زمانے کی ایمپریس مارکیٹ مصالحہ جات اور دیگر اشیاء کا مرکز ہے۔ صدر میں ہی قائم رینبو سینٹر دنیا میں چوری شدہ سی ڈیز کے بڑے مراکز میں سے ایک ہے۔ دیگر اہم علاقوں میں پاپوش مارکیٹ اور حیدری شامل ہیں۔ ہر اتوار کو لیاقت آباد میں پرندوں اور پالتو جانوروں کے علاوہ پودوں کا بازار بھی لگتا ہے۔

کراچی میں جدید تعمیرات کے حامل خریداری مراکز کی بھی کمی نہیں جن میں پارک ٹاورز، دی فورم، ملینیم مال اور ڈولمین مال خصوصا قابل ذکر ہیں۔ اس وقت زیر تعمیر ایٹریم مال، جمیرہ مال، آئی ٹی ٹاور اور ڈولمین سٹی مال بھی تعمیرات کے شاہکار ہیں۔

ذرائع نقل و حمل

جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ

کراچی ایک جدید بین الاقوامی ہوائی اڈے جناح انٹرنیشنل کا حامل ہے جو پاکستان کا مصروف ترین ہوائی اڈہ ہے۔ شہر کا قدیم ایئرپورٹ ٹرمینل اب حج پروازوں، کارگو اور سربراہان مملکت کے ليے استعمال ہوتا ہے۔ نیا ہوائی اڈہ 1993ء میں ایک فرانسیسی ادارے نے تیار کیا۔ ملک کی سب سے بڑی بندرگاہیں بھی کراچی میں قائم ہیں جو کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم کہلاتی ہیں۔ یہ بندرگاہیں جدید سہولیات سے مزین ہیں اور نہ صرف پاکستان کی تمام تجارتی ضروریات کے مطابق کام کرتی ہیں بلکہ افغانستان اور وسط ایشیاء کے ممالک کی سمندری تجارت بھی انہی بندرگاہوں سے ہوتی ہے۔


کراچی پاکستان ریلویز] کے جال کے ذریعے بذریعہ ریل ملک بھر سے منسلک ہے۔ شہر کے دو بڑے ریلوے اسٹیشن سٹی اور کینٹ ریلوے اسٹیشن ہیں۔ ریلوے کا نظام کراچی کی بندرگاہ کے ذریعے ملک بھر کو سامان پہنچانے کی خدمات انجام دیتا ہے۔ اس وقت شہر میں بسوں اور منی بسوں نے عوامی نقل و حمل کا بیڑہ اٹھارکھا ہے لیکن مستقبل میں شہر میں تیز اور آرام دہ سفر کے ليے ماس ٹرانزٹ نظام کی تعمیر کا منصوبہ بھی موجود ہے۔

زمینی ملکیت

کراچی ساحل کے ساتھ نیم صحرائی علاقے پر قائم ہیں جہاں صرف دو ندیوں ملیر اور لیاری کے ساتھ ساتھ موجود علاقے کی زمین ہی زراعت کے قابل ہے۔ آزادی سے قبل کراچی کی اکثر آبادی ماہی گیروں اور خانہ بدوشوں پر مشتمل تھی اور بیشتر زمین سرکاری ملکیت تھی۔ آزادی کے بعد کراچی کو ملک کا دارالحکومت قرار دیا گیا تو زمینی علاقے ریاست کے زیرانتظام آگئے۔ 1988ء میں کراچی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے مہیا کردہ اعداد و شمار کے مطابق 4 لاکھ 25 ہزار 529 ایکڑ (1722 مربع کلومیٹر) میں سے تقریبا 4 لاکھ ایکڑ (1600 مربع کلومیٹر) کسی نہ کسی طرح سرکاری ملکیت ہے۔ حکومت سندھ ایک لاکھ 37 ہزار 687 ایکڑ (557 مربع کلومیٹر)،کے ڈی اے ایک لاکھ 24 ہزار 676 ایکڑ، کراچی پورٹ ٹرسٹ 25 ہزار 259 ایکڑ، کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) 24 ہزار 189 ایکڑ، آرمی کنٹونمنٹ بورڈ 18 ہزار 569 ایکڑ، پاکستان اسٹیل مل 19 ہزار 461 ایکڑ، ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی 16 ہزار 567 ایکڑ، پورٹ قاسم 12 ہزار 961 ایکڑ، حکومت پاکستان 4 ہزار 51 ایکڑ اور پاکستان ریلوے 12 ہزار 961 ایکڑ رقبے کی حامل ہے۔ 1990ء کی دہائی میں کے ڈی اے کی غیر تعمیر زمین ملیر ڈيولپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) اور لیاری ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کو منتقل کردی گئی۔

مسائل

آئی آئی چندریگر روڈ پر ٹریفک جام کا ایک منظر

کراچی دنیا میں تیزی سے پھیلتے ہوئے شہروں میں سے ایک ہے اس ليے اسے بڑھتی ہوئی آبادی، ٹریفک، آلودگی، غربت، دہشت گردی اور جرائم جیسے مسائل کا سامناہے۔

اس وقت کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ ٹریفک کا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں ہر سال 550 افراد ٹریفک حادثوں میں اپنی جان گنواتےہیں۔ شہر میں کاروں کی تعداد سڑکوں کے تعمیر کردہ ڈھانچے سے کہیں زیادہ ہے۔ ٹریفک کے ان مسائل سے نمٹنے کے ليے شہر میں نعمت اللہ خان کے دور میں کئی منصوبے شروع کئے گئے جن میں فلائی اوورز اور انڈر پاسز شامل ہیں۔

بڑھتے ہوا ٹریفک اور دھواں چھوڑتی گاڑیوں کو کھلی چھوٹ کے باعث شہر میں آلودگی بڑھتی جارہی ہے۔ کراچی میں فضائی آلودگی عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے متعین کردہ معیار سے 20 گنا زیادہ ہے۔ ٹریفک کے علاوہ کوڑے کرکٹ کو آگ لگانا اور عوامی شعور کی کمی بھی آلودگی کا بڑا سبب ہے۔

ایک اور بڑا مسئلہ شاہراہوں کو چوڑا کرنے کے ليے درختوں کی کٹائی ہے۔ کراچی میں پہلے ہی درختوں کی کمی ہےاور موجود درختوں کی کٹائی پر ماحولیاتی تنظیموں نے شدید احتجاج کیا ہے۔ جس پر شہری حکومت نے ستمبر 2006ء سے تین ماہ کے ليے شجرکاری مہم کا اعلان کیا۔

ان کے علاوہ فراہمی آب اور بجلی کی فراہمی میں تعطل شہر کے دو بڑے مسائل ہیں خصوصا 2006 کے موسم گرما میں کراچی میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے عالمی شہرت حاصل کی۔

شراکت دار شہر

بیرونی روابط

شہری حکومت کی آفیشل ویب سائٹ

کراچی اسٹاک ایکسچینج

جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ

کراچی پورٹ ٹرسٹ

کراچی کی سیٹیلائٹ تصویر

کراچی کی تاریخ، شہر کی پرانی تصاویر کے ساتھ

کراچی کی تصویری البم از علی عدنان قزلباش

کارا فلم فیسٹیول