"اہرام مصر" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
Badar.haider (تبادلۂ خیال) کی جانب سے کی گئی 1899830 ویں ترمیم کا استرجع۔
(ٹیگ: القاب)
سطر 2: سطر 2:
اہرام مصر کا شمار [[انسان]] کی بنائی ہوئی عظیم ترین تعمیرات میں ہوتا ہے۔ یہ اہرم زمانہء قدیم کی مصری تہذیب کے سب سے پرشکوہ اور لافانی یادگار ہیں۔ ماہرین آثار قدیمہ میں یہ اتفاق پایا جاتا ہے کہ ان اہرام کی تعمیر کا مقصد فراعین [[مصر]] اور شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد کا مدفن تھا۔ اہرام مصر میں غزہ کا عظیم اہرام دنیا کے سات عجائبات میں سے وہ واحد عجوبہ ہے جو کہ ابھی تک اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔
اہرام مصر کا شمار [[انسان]] کی بنائی ہوئی عظیم ترین تعمیرات میں ہوتا ہے۔ یہ اہرم زمانہء قدیم کی مصری تہذیب کے سب سے پرشکوہ اور لافانی یادگار ہیں۔ ماہرین آثار قدیمہ میں یہ اتفاق پایا جاتا ہے کہ ان اہرام کی تعمیر کا مقصد فراعین [[مصر]] اور شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد کا مدفن تھا۔ اہرام مصر میں غزہ کا عظیم اہرام دنیا کے سات عجائبات میں سے وہ واحد عجوبہ ہے جو کہ ابھی تک اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔


=== امام احمد رضا خان کی تحقیق ===
اہرامِ مصر اتنے عظیم الشان ہیں کہ ان کی تعمیر کےلئے لاکھوں مزدور بھی ناکافی رہے ہوں گے
یہاں یہ بتانا ضروری ہے ملفوظات مجدد مات حاضرہ میں جو تحقیق [[احمد رضا خان بریلوی|احمد رضا خان بریلوی]] کی درج ہے وہ بھی کافی عمدہ ہے. فرماتے ہیں: -<blockquote>ان کی تعمیر حضرت [[آدم علیہ السلام|آدم]] علیٰ نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام سے چودہ ہزار (١٤٠٠٠) برس پہلے ہوئی۔ [[نوح علیہ السلام|نوح]] علیہ السلام کی امت پر جس روز عذابِ طوفان نازل ہوا ہے پہلی رجب تھی، بارش بھی ہورہی تھی اور زمین سے بھی پانی ابل رہا تھا۔ بحکم رب العٰلمین [[نوح علیہ السلام]] نے ایک [["کشتی نوح|کشتی]] تیار فرمائی جو ١٠ [[رجب]] کو تیرنے لگی۔ اس کشتی پر ٨٠ آدمی سوار تھے جس میں دو نبی تھے(حضرت آدم وحضرت نوح علیہم السلام)۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اس کشتی پر حضرت آدم علیہ السلام کا تابوت رکھ لیا تھااور اس کے ایک جانب مرد اور دوسری جانب عورتیں بیٹھی تھیں۔ پانی اس پہاڑ سے جو سب سے بلند تھا ٣٠ ہاتھ اونچا ہوگیاتھا۔ [[دسویں محرم]] کو چھ(٦) ماہ کے بعد سفینہ مبارکہ [[جودی]] پہاڑ پر ٹہرا۔ سب لوگ پہاڑ سے اترے اور پہلا شہر جو بسایا اس کا ”[[سوق الثمانین]]” نام رکھا۔ یہ بستی [[نہاوند|جبل نہاوند]] کے قریب متصل ”موصل” شہر ([[عراق]]) میں واقع ہے۔ اس طوفان میں دو عمارتیں مثل گنبد ومنارہ باقی رہ گئی تھیں جنہیں کچھ نقصان نہ پہنچا۔ اس وقت روئے زمین پر سوائے ان (دو عمارتوں) کے اور عمارت نہ تھی۔ امیر امومنین [[علی بن ابی طالب|حضرت علی]] کرم اللہ تعالٰیٰ وجہہ الکریم سے انہیں عمارتوں کی نسبت منقول ہے۔</blockquote>”بنی الھرمان النسر فی سرطان”


یعنی دونوں عمارتیں اس وقت بنائی گئیں جب ”ستارہ نسر” نے ”[[برج سرطان]]” میں تحویل کی تھی، نسر دوستارے ہیں: ”نسر واقع” و ”نسر طائر” اور جب مطلق بولتے ہیں تو اس سے ”نسر واقع” مراد ہوتا ہے۔ ان کے دروازے پر ایک [[گدھ]] (نما) کی تصویر ہے اور اس کے پنجے میں گنگچہ (گرگٹ، کھنکھجورہ، [[بچھو]]) ہے جس سے تاریخ تعمیر کی طرف اشارہ ہے۔ مطلب یہ کہ جب ”نسر واقع برج سرطان میں آیا اس وقت یہ عمارت بنی جس کے حساب سے (١٢٦٤٠) بارہ ہزار چھ سو چالیس [[سال]] ساڑے آٹھ مہینے ہوتے ہیں۔ ستارہ (نسر واقع) (٦٤) چونسٹھ برس قمری (٧) [[مہینہ|مہینے]]، (٢٧)ستائیس [[دن]] میں ایک درجہ طے کرتا ہے اور اب (ستارہ نسر واقع) [[برج جدی]] کے سولہویں(١٦) درجہ میں ہے تو جب سے چھ (٦) برج ساڑھے پندرہ درجے سے زائد طے کرگیا۔
مصر کے ساتھ ہی اہرام مصر کا نام ذہن میں نہ آئے۔۔۔ ہمارے لئے یہ سوچنا بھی ممکن نہیں۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ مصر کی شہرت کو چار دانگ عالم میں پھیلانے کے لئے جتنی خدمات اہرام مصر کی ہیں اتنی کسی وزیر سفیر یا ثقافتی نمائندے کی نہیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ اہرامِ مصر کی برسہابرس سے قائم و دائم مقبولیت میں اصل ہاتھ اس پراسراریت کا ہے جو صدیوں سے ان عجائب عالم سے وابستہ چلی آرہی ہے۔ فرعون، موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے واقعات تو دنیا زمانے کو معلوم ہیں لیکن آج تک کوئی پورے وثوق سے یہ نہیں بتا سکا کہ آخر کار اہرام مصر کی تعمیر کیسے ہوئی تھی؟​
یہ ایک سوال ہے جس نے ماہرین آثار قدیم سے لیکر ماہرین تعمیرات تک کو پریشان کررکھا ہے۔ اہرام مصر میں تین ٹن(3,000 کلوگرام) سے لیکر300 ٹن وزنی پتھر استعمال ہوئے ہیں۔ ایک خیال تو یہ ہے کہ ان اہرام کی تعمیر پر لاکھوں غلام مامور کئے گئے ہوں گے جنہوں نے یہ عظیم الشان مقبرے بنائے۔ مگر اس خیال کی تائید میں بھی شواہد موجود نہیں۔ اگر اتنی بڑی تعداد میں غلام تھے تو ہر ایک ہرم کے پاس وسیع و عریض رہائشی علاقے بھی ملنے چاہئے تھے۔ لیکن اب تک جتنے آثار بھی ملے ہیں وہ غلاموں کی اتنی بڑی تعداد کی نفی کرتے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ بہر کیف! ایسی کوئی ٹھوس شہادت موجود نہیں جس کی بنیاد پریہ یقین کیا جا سکے کہ اہرام مصر کی تعمیر میں واقعی غلاموں کی اتنی بڑی تعداد کا ہاتھ ہوگا۔ اہرام مصر کی تعمیر اتنی ہی پر اسرار تھی جتنی ان کی اپنی ساخت اورترتیب ہے۔​
کوئی دس سال پہلے ایک امریکی سافٹ ویئرکنسلٹنٹ، مارین کلیمنز اہرام مصر کی تعمیر کے بارے میں کسی تحقیقی کتاب کا مطالعہ کر رہی تھیں۔ اس کتاب کے ایک صفحے پر انہوں نے ایک عجیب و غریب تصویر دیکھی۔ یہ پتھر پر کندہ، قدیم تصویری تحریر (hieroglyph) کا عکس تھا۔ آج سے لگ بھگ ساڑھے تین ہزار سال پہلے جب اہرام مصرتعمیر کئے جا رہے تھے، ان دنوں مصر میں یہی طرز تحریررائج تھا جس میں تصاویر کو علامات و حروف کی جگہ استعمال کیا جاتا تھا۔ مارین نے اس تصویری تحریر میں جو عجیب و غریب چیز محسوس کی، وہ یہ تھی کہ اس میں کئی آدمی ایک قطار کی شکل میں،غیر معمولی انداز سے کھڑے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں رسی جیسی کوئی چیز تھی جو درمیان میں کسی میکانکی نظام سے گزر کر،ہوا میں معلق (پرندے جیسی) کسی چیز سے منسلک ہورہی تھی۔ اگر یہ کوئی پرندہ تھا تو یقیناًاس کی لمبائی بہت کم تھی جبکہ اس کے بازوؤں (Wings)کی چوڑائی بہت زیادہ تھی۔ مارین کے ذہن میں یہیں سے نت نئے خیالات نے سر ابھارنا شروع کر دیا۔​
ہوا میں معلق وہ دیوقامت پرندہ کہیں کوئی ’’پتنگ‘‘ تو نہیں تھا؟کیا یہ ممکن نہیں کہ ان آدمیوں اور عجیب سے میکانکی نظام کا مقصد ہوا کی طاقت کو قابو میں رکھنا ہو؟انہی خیالات نے مارین کو پریشان کئے رکھا۔ انہوں نے اپنے کچھ پراسراریت پسند دوستوں سے اس بارے میں بات چیت کی اور فیصلہ کیا کہ طیرانیات(ایئروناٹکس) اور باد حرکیات (ایئروڈائنامکس) کے کسی ماہر سے رابطہ کرنے سے قبل مناسب ہوگا کہ اپنے طور پر ابتدائی تجربات کرکے دیکھے جائیں۔​
ان لوگوں نے بازار سے عام پتنگیں خریدیں اور انہیں نارتھ رج،کیلیفورنیا میں جاکر اڑایا۔ پہلے تو پتنگ کے ساتھ ریڈووڈ درخت سے کاٹا ہوا ڈھائی میٹر لمبا شہتیر باندھا گیا جسے پتنگ نے بہ آسانی اُٹھا لیا۔ بعد ازاں یہی تجربہ، سیمنٹ سے بنے ہوئے، 180 کلوگرام وزنی ستون پر دہرایاگیا۔یہ تجربہ بھی کامیاب رہا۔ان ابتدائی کامیابیوں کے بعد مارین کلیمنز نے مختلف جامعات میں ایئروناٹکس کے شعبوں سے رابطہ کرنا شروع کر دیا تاکہ یہ کام آگے بڑھایا جاسکے۔ کئی جگہوں سے مایوسی اور ناامیدی اٹھانے کے بعد، کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں ان کی قسمت کام دکھا گئی۔ یہاں ان کی ملاقات ایرانی نژاد ماہر، مرتضی غریب سے ہوئی۔ ایران سے تعلق ہونے کی وجہ سے مرتضی کو قدیم مشرقی علوم سے خصوصی دلچسپی ہے اسی لئے مارین کے یہ تجربات انہیں چونکا گئے اور انہوں نے یہ کام آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔​
وہ بھی اسی تصویر کے ہاتھوں بہت پریشان تھے جس نے مارین کو متوجہ کیا تھا۔ مرتضی بھی اس نکتے پر متفق تھے کہ لمبے بازوؤں اور مختصرقامت والی، ہوا میں معلق یہ چیز پرندہ نہیں ہوسکتی۔ یہ امکان قطعی طور پر ٹھوس بنیاد رکھتا ہے کہ وہ’’چیز‘‘ یقیناًکوئی پتنگ رہی ہوگی۔ اس دلچسپی کی بنا پر انہوں نے اپنے ایک شاگرد، ایمیلیوگراف کو چھٹیوں کے لئے ایک پراجیکٹ دے دیا۔ مقصد اس پراجیکٹ کا یہ تھا کہ پتنگوں کو بھاری وزن اٹھانے میں درکار قوت پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا جائے۔​
فراغت کے دنوں میں مرتضی اور ایمیلیو نے یہ ہدف طے کیا کہ انہیں صرف پتنگ کی طاقت سے ساڑھے چار میٹر لمبے چٹانی پتھر کو(جو زمین پر لمبا لمبا پڑا ہو) سیدھا کھڑا کرنا ہے۔ ابتدائی حساب کتاب اور ہوائی سرنگ(ونڈٹنل) میں چھوٹے پیمانے پر کئے گئے تجربات سے انہوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ ساڑھے تین ٹن وزنی چٹانی ستون سیدھا کھڑا کرنے کے لئے ہوا کی بہت زیادہ شدت ضرورت نہیں ہوگی۔ یہ کام قدرے تیز جھونکوں ہی سے چل جائے گا۔ اسی تجزیئے کے دوران ان پر یہ عقدہ کھلا کہ اگر ہوا آہستہ آہستہ سے، لیکن دیر تک مسلسل چلتی رہے تو بھی یہ کام ہو جائے گا۔ کرنا صرف یہ ہو گا کہ اس میں چرخی(پلی) کا نظام شامل کرنا پڑے گا تاکہ لگنے والی قوت کا اثر بڑھایا جا سکے۔​
اب انہوں نے عملی کام شروع کیا اور خیمے کی شکل والا ایک ڈھانچہ (مچان) باندھا، جو لمبے لیٹے ہوئے چٹانی ستون کے سرے کے عین اوپر تھا۔ مچان کے بلند ترین حصے سے چرخیاں باندھ کر لٹکائی گئیں۔ منصوبہ کچھ یوں تھا کہ جیسے جیسے حرکت پذیر چرخیاں ہوا کی طاقت سے اوپر کی جانب اٹھیں گی، ویسے ویسے چٹانی ستون بھی بلند ہوگا۔ اسے بالکل سیدھا کھڑا کرنے کے لئے اس کے دوسرے سرے کے نیچے ایک عدد ٹرالی رکھ دی گئی تاکہ سیدھا کھڑا ہونے کے ساتھ ساتھ، چٹانی ستون کا نچلا حصہ(ٹرالی کے ساتھ) زمین پر حرکت کرتا ہوا چرخیوں کے نیچے کی طرف بڑھتا چلا جائے۔​
گزشتہ سال کے اوائل میں استاد شاگرد کی اس مختصر سی ٹیم نے ایک قدم آگے بڑھایا اور مارین کے غیرمعمولی خیال کی تصدیق میں مزید آگے جانے کا فیصلہ کیا۔ اب کی مرتبہ انہوں نے نائیلون کے کپڑے سے بنا ہوا چالیس مربع میٹر کا مستطیل نما’’بادبان‘‘ استعمال کرکے پتنگ بنائی۔​
اس دیوقامت پتنگ نے بڑی صفائی سے اس وزنی چٹانی ستون کو ہوا میں اٹھا لیا۔ مرتضی غریب کہتے ہیں:’’ہم بالکل ششدر رہ گئے۔ جس لمحے اس بادبانی پتنگ کو ہوا میں کھولا گیا، اس وقت ایک زبردست قوت پیدا ہوئی اور لگ بھگ چارٹن وزنی چٹانی ستون محض چالیس سیکنڈ میں بالکل عموداً کھڑا ہو گیا۔‘‘​
اس وقت ہوا کی رفتاربھی زیادہ نہیں تھی اور بادِصبا کا گزرصرف 16 سے20 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہورہا تھا۔ ہوا کی یہ رفتار ان کے تخمینہ جات کے مقابلے میں نصف سے کچھ زیادہ تھی۔ البتہ انہیں یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ جس وقت پتنگ کھولی جا رہی تھی، اس وقت کیا انہونی ہوئی تھی۔ مرتضی کا کہنا ہے کہ(پتنگ کھلنے کے وقت) پیدا ہونے والی زبردست ابتدائی قوت، ہوا کے مسلسل چلنے سے پیدا ہونے والی قوت کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ تھی۔ یہ حیرت انگیز مشاہدہ ابھی تک ان کے لئے معما بنا ہوا ہے جس کے لئے کسی کے پاس کوئی وضاحت موجود نہیں۔​
تاہم مرتضی نے محسوس کیا کہ قوت کے اس ابتدائی جھٹکے کا مطلب یہ ہوا کہ پتنگ کی مدد سے کہیں زیادہ وزنی اشیاء بھی اٹھائی جا سکتی ہیں۔ ان کی رائے میں چار سے پانچ بادبانی پتنگوں اور تقریباً چالیس مزدوروں کی مدد سے تین سو ٹن وزنی چٹانی پتھروں کو اٹھا کر عموداً کھڑا کیا جاسکتا ہوگا۔ یعنی مارین کا خیال صحیح تھا۔ یہ قطعی طور ممکن ہے کہ ٹنوں وزنی پتھر اٹھانے اور مطلوبہ جگہ پر نصب کرنے کے لئے پتنگیں استعمال کی گئی ہوں گی۔ یہ ایک علیحدہ بحث ہے کہ مصریوں نے واقعی ایسا کیا تھایا نہیں؟ ورنہ سائنسی شواہد تو اس خیال کی مکمل تائیدکرتے نظر آرہے ہیں۔​
بدقسمتی سے ایسی تصاویر بھی دستیاب نہیں جن میں اہرام مصر کی تعمیر دکھائی گئی ہو۔ لہٰذا پورے وثوق سے کچھ بھی نہیں کہا جا سکتاکہ اصل میں کیا ہوا تھا۔ آثار قدیمہ کے نقطہ نگاہ سے جتنی بری بھلی شہادتیں لاکھوں غلاموں اور مزدوروں والے خیال کی تائیدمیں موجودہیں،کم و بیش ویسی ہی بھلی بری شہادت،پتنگوں والے مفروضے کو تقویت پہنچاتی ہے۔​
وہ تمام سازوسامان (مثلاً رسیاں، بادبان اور چرخیاں وغیرہ) جو ہوا کی طاقت سے کام لینے میں استعمال ہوا ہو گا، وہ ہزاروں برس کے عرصے میں گل سڑ کر ختم ہو گیا ہو گا۔۔۔اس کا سراغ ملنے کی توقع بھی عبث ہے۔ آثار قدیمہ سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اہرام کی تعمیر میں مصر کے روحانی پیشوا بطور نگراں مامور ہوتے تھے۔ مرتضی کو یقین ہے کہ ہوا کی طاقت استعمال کرتے ہوئے اشیاء کو حرکت دینے کا یہ علم انہی راہبوں اور روحانی پیشواؤں کے پاس ایک مقدس راز کی شکل میں محفوظ تھا۔​
بات میں وزن ہے۔ کیونکہ مصر کی قدیم تہذب میں راہبوں کا شمار مراعت یافتہ طبقے میں ہوتا تھا جس کے اختیارات بادشاہوں کے مد مقابل ہوا کرتے تھے۔ وہ طاقت، وہ اقتدار اور وہ تقدس برقرار رکھنے کے لئے ضروری تھا کہ ان کے پاس کچھ ایسے ’’راز‘‘ موجودہوں جو انہیں رعایا کے مقابلے میں فضیلت کا حقدار ٹھہرائیں۔ لوگ جن باتوں کو آسمانی قوتوں پر راہب کا تصرف خیال کر کے سجدہ ریز ہوتے، وہ باتیں قوانین قدرت کے علم کے سوا کچھ نہیں تھیں۔​
مصر کے علاوہ دوسری تہذیبوں میں بھی پتنگوں کو مذہبی نقطہ نگاہ سے مقدس مقام حاصل ہے۔ مثلاً پولی نیشیا میں انہیں بعض مخصوص دیوی دیوتاؤں سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ماؤریس (Maoris) کی تہذیب میں پتنگ اڑانا، وہاں کی مذہبی رسوم کا ایک اہم حصہ ہے۔​
سید شہزاد ناصر, ‏مارچ 31, 2013 #1
معلوماتی معلوماتی × 5 زبردست زبردست × 3
سید شہزاد ناصر
سید شہزاد ناصر
محفلین
مراسلے:8,155
جھنڈا:Pakistan
موڈ:Relaxed
جہاں تک ہوا کی طاقت سے فائدہ اٹھانے کا تعلق ہے تو مصریوں جیسے کامیاب کشتی رانوں کے لئے یہ کوئی بہت مشکل کام نہیں رہا ہو گا۔ وہ بادبانی کشتیاں بنانے میں مہارت رکھنے کے علاوہ لکڑی کی ایسی مضبوط چرخیاں بھی بنایا کرتے تھے جو کئی ٹن وزنی پتھروں کا بوجھ تک سہار سکتی تھیں۔ ماہرین آثار قدیمہ کو آج یہ احساس ہو رہا ہے کہ اس صلاحیت کا کتنا قریبی تعلق، اہرام مصر کی تعمیر سے ہوسکتا ہے۔ ٹنوں وزنی پتھر ڈھونے میں لکڑی کی چرخیاں استعمال کرنے والے مفروضے کی تائید میں کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے بہت سے ماہرین کو یہ یقین ہے کہ اگر لکڑی کو اس کے ریشے سے ایک خاص سمت میں کاٹا جائے تو اس طرح بنے والے چوبی گٹھے، دھات سے بھی زیادہ مضبوط اور سخت جان ہوں گے۔​
مرتضی غریب کا اگلا منصوبہ پٹ سن کی رسیاں اور لکڑی کی چرخیاں استعمال کرتے ہوئے(فی الحال)مفروضہ مصری آلات تیار کرنے کا ہے۔ان کا خیال ہے کہ پہیوں والی ٹرالی کے بجائے قدیم مصری لوگ، چٹانی پتھروں کے نیچے زمین پر تیل اور پانی استعمال کرتے ہوں گے تاکہ رگڑ کم کی جا سکے اور ان کی سطحیں بہ آسانی حرکت کر سکیں۔ ’’یہی ترکیب ہم چٹانی پتھر کے زیریں حصے کے نیچے آزما سکتے ہیں‘‘ مرتضی نے بتایا۔ ان کا یہ ارادہ بھی ہے کہ نباتی ریشے سے بنے ہوئے کپڑے پر اس طرح سے موم کی تہہ جمائی جائے کہ وہ ہوا کا زیادہ سے زیادہ راستہ روک سکے۔​
مارین کو یقین ہے کہ قدیم مصریوں نے بادبان اور پتنگیں بنانے کے لئے وہاں پائے جانے والے خاص اور مقدس بھنورے (Scarab)کے جسم سے خارج ہونے والا سریش نمامادہ استعمال کیا ہو گا۔ گزشتہ برس کے اوائل میں انہیں یونیورسٹی آف ایریزونا میں منعقدہ ’’اسکیرب بایوکنٹرول ورکشاپ‘‘ میں اپنے یہ خیالات پیش کرنے کے لئے مدعو کیا گیا۔ انہیں خوشی ہوئی کہ وہاں پر موجود ماہرین حشریات نے ان کی تقریرپر جوش و جذبے کامظاہرہ کیا اور تجویز دی کہ وہ ان تصورات کی عملی آزمائش بھی کریں۔ بعض لوگوں نے اس سلسلے میں ان کی رہنمائی بھی کی۔ بعد ازاں انہوں نے اپنے گھریلو باغیچے میں پائے جانے والے سبز بھنوروں کے جسم سے خارج ہونے والا مادہ جمع کیا اور اسے لینن کی چادریں’’ہوا بند‘‘ کرنے میں استعمال بھی کیا۔ انہیں معلوم ہوا کہ ان بھنوروں سے حاصل شدہ مادے میں بھی چادر کو بادبان بنانے کی اچھی صلاحیت موجود ہے۔​
کچھ لوگوں کا خیال یہ بھی ہے کہ متعدد مصری علامات کی جڑیں، تعمیرات کی تاریخ میں دفن ہیں ’’مصری صلیب یاآنکھ (Aankh)کا اوپری حصہ ایک حلقے پر مشتمل ہے جو ممکنہ طور پر اس امرکا اظہار بھی ہو سکتا ہے کہ پتنگ کو کس طرح رسیوں سے باندھا جائے اور کیسے قابو میں رکھا جائے‘‘ مارین کلیمنز نے خیال ظاہر کیا۔ ان کی رائے میں آج بھی ہماری بہت سی مقدس علامات مثلاً ہلال، صلیب اور منورا (نو بازوؤں والے شمعدان) کا قدیمی تعلق روزمرہ معمولات سے رہا ہو گا۔​
صرف چند حقائق کی بنیاد پرقائم کئے گئے یہ مفروضات ماہرین مصریات کے لئے کوئی کشش نہیں رکھتے۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، لاس اینجلس میں مصریات کے پروفیسرولیک ونڈرخ بڑے سخت الفاظ میں کہتے ہیں ’’پتنگوں سے پتھر اٹھانے کی قطعاً کوئی شہادت موجود نہیں ہے‘‘۔ البتہ کولن ریڈر کا لہجہ قدرے نرم ہے جو فنیاتی ماہر ارضیات کے حیثیت سے غزا پلیٹو میپنگ پراجیکٹ پر کام کرچکے ہیں: ’’پتنگوں والے اس نظریئے میں میرے نزدیک جو سب سے بڑی مشکل ہے، اور جس کی نوعیت سائنسی نہیں، وہ یہ ہے کہ قدیم مخطوطات میں پتنگوں یا اڑنے والی کسی بھی دوسری چیز سے مدد لینے کا کوئی حوالہ میرے علم میں نہیں آ سکا ہے‘‘۔​
تاہم ریڈر تسلیم کرتے ہیں کہ پرواز میں مصریوں کی دلچسپی کے ٹھوس شواہد ضرور موجود ہیں۔ سقارہ کے مقام پر چھوٹے ہرم سے ملنے والا لکڑی کا کھلونا پہلی نظر میں کسی گلائیڈر کا ماڈل دکھائی دیتا ہے۔ اگرچہ وہ چند سو قبل مسیح سے زیادہ قدیم نہیں لیکن اس کی نفاست سے پتا چلتا ہے کہ شاید مصری ایک عرصے سے انسانی پرواز کے منصوبے بنا رہے تھے۔ جہاں تک دیگر معلومات کا تعلق ہے تو پتا چلتا ہے کہ دوسری تہذیبوں میں بھی پتنگیں استعمال ہوتی تھیں۔ مثلاً 1250 قبل مسیح میں چینی، پیغام رسانی اور دشمنوں پر جلتی ہوئی راکھ (یا اس جیسی کوئی دوسری چیز) برسانے کے لئے پتنگوں ہی کا استعمال کرتے تھے۔​
مرتضی کا خیال ہے کہ دوسری قدیم تہذیبیں بھی شاید اپنے عالیشان مقبروں اور یادگاروں کی تعمیر میں پتنگیں استعمال کرتی رہی ہوں گی۔ اس کے لئے بنیادی ضرورت کوئی ایسی جگہ ہے جہاں ہوا زیادہ چلتی ہو اور آپ کوبادبان سازی کا علم ہو۔ انگلینڈ میں اسٹون ہینج(Stonehenge) اور کوہ اینڈیز میں بلندی پرواقع ’’انکاتہذیب‘‘ کے مقبرے اس شرط کو پورا کرتے نظر آتے ہیں۔​
بہر کیف، پتنگوں سے بھاری وزن اٹھانے میں کامیابی کے بعد سے دوسروں کی دلچسپی بھی اس جانب بڑھ گئی ہے۔ نیشنل جیوگرافک سوسائٹی سنجیدگی سے یہ سوچ رہی ہے کہ کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کو30 سے50 ٹن وزنی چٹانی پتھر اٹھانے کے تجربات کرنے کے لئے رقم مہیا کرے۔ البتہ مرتضی غریب اپنی تمام غربت اور غریب الوطنی کے باوجود، سوسائٹی کی یہ گرانٹ قبول کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔ ’’میں نہیں چاہتا کہ ذرائع ابلاغ کے جھمیلوں میں پڑوں۔۔۔ میری خواہش تو بس اتنی ہے کہ کسی طرح سے ہوا کو قابو میں رکھ کر کچھ تجربات کر سکوں‘‘انہوں نے بتایا۔​
یہ مانا کہ ان تمام تجربات و تجزیات کا تعلق ماضی کی کھوج سے ہے۔ مگر ان کا اطلاق حال میں بھی ممکن ہے۔ آج بھی دنیا میں کئی مقامات ایسے ہیں جہاں کے لوگوں کی بھاری مشینوں تک رسائی نہیں لیکن وہ لوگ ہوا سے کام لینا، کشتی رانی(بادبان سازی) اور میکانیات کے بنیادی اصولوں سے واقف ہیں۔ گزشتہ دنوں مرتضی سے نکاراگوا کے ایک سول انجینئر نے رابطہ کیا۔ مسئلہ یہ تھا کہ ایک جگہ پرکنکریٹ سے بنیمحرابوں پرپہلے سے تیار شدہ (سیمنٹ کی) چھت رکھنا تھی جبکہ اس علاقے میں بھاری مشینوں کا لے جانا ممکن نہیں تھا۔ خیال یہ تھا کہ پہلے محرابیں، افقی انداز میں تیار کی جائیں اور انہیں عموداً کھڑا کیا جائے۔ پھر اسی طرح پہلے سے تیار شدہ چھتیں، براہ راست اٹھا کر ان محرابوں(یا عمودی ستونوں) پر رکھ دی جائیں۔ مرتضی نے انہیں کچھ رہنما ہدایات فراہم کیں اور اب وہ ان کی واپسی کا انتظار کررہے ہیں۔​
مارین کلیمنز اپنے ابتدائی تجسس کے ان غیر متوقع نتائج پربہت خوش ہیں۔ شروع شروع میں جب انہوں یہ خیال پیش کیا تھا کہ اہرام مصر کے پتھر اور چٹانیں اٹھانے میں ہوا کی طاقت استعمال کی گئی ہوگی تو ان کا بہت مذاق اڑایا گیا تھا۔ انہی دنوں جب ایک مصری وزیر تک یہ خبر پہنچی تو اس نے بڑی حقارت سے مارین کو’’اہرامی‘‘ (pyramidiot)کا لقب دے ڈالا۔ مگر اب یوں لگتا ہے جیسے پتنگوں کے ذریعے اہرام مصر کی تعمیروالا مفروضہ کسی دیوانے کی بڑ نہیں ہے۔ اس میں واقعی کوئی نہ کوئی حقیقت ہے۔ کوئی بعید نہیں کی بظاہریہی احمقانہ خیال، کئی غریب ممالک کے لئے ایک کم خرچ حل ثابت ہوجائے۔{{Commonscat|Pyramids of Egypt}}


آدم علیہ السلام کی تخلیق سے بھی (٥٧٥٠سال) پونے چھ ہزار برس پہلے کے بنے ہوئے ہیں کہ ان کی (سیدنا آدم علیہ السلام) آفرینش کو (٧٠٠٠) سات ہزار برس سے کچھ زائد ہوئے لاجرم یہ [[جنوری|قوم جن]] کی تعمیر ہے کہ پیدائش آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پہلے (٦٠٠٠٠) ساٹھ ہزار برس زمین پر رہ چکی ہے۔” <ref name= ملفوظات مجددماۃ حاضرہ حصہ اول ص٧٣۔٧٤> ملفوظات مجددماۃ حاضرہ حصہ اول ص٧٣۔٧٤"</ref>
{{Commonscat|Pyramids of Egypt}}
== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
<div dir="LTR" style="font-family: Arial; padding-left:1.2em;">
<div dir="LTR" style="font-family: Arial; padding-left:1.2em;">

نسخہ بمطابق 07:02، 25 جنوری 2016ء

غزہ کے اہرام

اہرام مصر کا شمار انسان کی بنائی ہوئی عظیم ترین تعمیرات میں ہوتا ہے۔ یہ اہرم زمانہء قدیم کی مصری تہذیب کے سب سے پرشکوہ اور لافانی یادگار ہیں۔ ماہرین آثار قدیمہ میں یہ اتفاق پایا جاتا ہے کہ ان اہرام کی تعمیر کا مقصد فراعین مصر اور شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد کا مدفن تھا۔ اہرام مصر میں غزہ کا عظیم اہرام دنیا کے سات عجائبات میں سے وہ واحد عجوبہ ہے جو کہ ابھی تک اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔

امام احمد رضا خان کی تحقیق

یہاں یہ بتانا ضروری ہے ملفوظات مجدد مات حاضرہ میں جو تحقیق احمد رضا خان بریلوی کی درج ہے وہ بھی کافی عمدہ ہے. فرماتے ہیں: -

ان کی تعمیر حضرت آدم علیٰ نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام سے چودہ ہزار (١٤٠٠٠) برس پہلے ہوئی۔ نوح علیہ السلام کی امت پر جس روز عذابِ طوفان نازل ہوا ہے پہلی رجب تھی، بارش بھی ہورہی تھی اور زمین سے بھی پانی ابل رہا تھا۔ بحکم رب العٰلمین نوح علیہ السلام نے ایک کشتی تیار فرمائی جو ١٠ رجب کو تیرنے لگی۔ اس کشتی پر ٨٠ آدمی سوار تھے جس میں دو نبی تھے(حضرت آدم وحضرت نوح علیہم السلام)۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اس کشتی پر حضرت آدم علیہ السلام کا تابوت رکھ لیا تھااور اس کے ایک جانب مرد اور دوسری جانب عورتیں بیٹھی تھیں۔ پانی اس پہاڑ سے جو سب سے بلند تھا ٣٠ ہاتھ اونچا ہوگیاتھا۔ دسویں محرم کو چھ(٦) ماہ کے بعد سفینہ مبارکہ جودی پہاڑ پر ٹہرا۔ سب لوگ پہاڑ سے اترے اور پہلا شہر جو بسایا اس کا ”سوق الثمانین” نام رکھا۔ یہ بستی جبل نہاوند کے قریب متصل ”موصل” شہر (عراق) میں واقع ہے۔ اس طوفان میں دو عمارتیں مثل گنبد ومنارہ باقی رہ گئی تھیں جنہیں کچھ نقصان نہ پہنچا۔ اس وقت روئے زمین پر سوائے ان (دو عمارتوں) کے اور عمارت نہ تھی۔ امیر امومنین حضرت علی کرم اللہ تعالٰیٰ وجہہ الکریم سے انہیں عمارتوں کی نسبت منقول ہے۔

”بنی الھرمان النسر فی سرطان”

یعنی دونوں عمارتیں اس وقت بنائی گئیں جب ”ستارہ نسر” نے ”برج سرطان” میں تحویل کی تھی، نسر دوستارے ہیں: ”نسر واقع” و ”نسر طائر” اور جب مطلق بولتے ہیں تو اس سے ”نسر واقع” مراد ہوتا ہے۔ ان کے دروازے پر ایک گدھ (نما) کی تصویر ہے اور اس کے پنجے میں گنگچہ (گرگٹ، کھنکھجورہ، بچھو) ہے جس سے تاریخ تعمیر کی طرف اشارہ ہے۔ مطلب یہ کہ جب ”نسر واقع برج سرطان میں آیا اس وقت یہ عمارت بنی جس کے حساب سے (١٢٦٤٠) بارہ ہزار چھ سو چالیس سال ساڑے آٹھ مہینے ہوتے ہیں۔ ستارہ (نسر واقع) (٦٤) چونسٹھ برس قمری (٧) مہینے، (٢٧)ستائیس دن میں ایک درجہ طے کرتا ہے اور اب (ستارہ نسر واقع) برج جدی کے سولہویں(١٦) درجہ میں ہے تو جب سے چھ (٦) برج ساڑھے پندرہ درجے سے زائد طے کرگیا۔

آدم علیہ السلام کی تخلیق سے بھی (٥٧٥٠سال) پونے چھ ہزار برس پہلے کے بنے ہوئے ہیں کہ ان کی (سیدنا آدم علیہ السلام) آفرینش کو (٧٠٠٠) سات ہزار برس سے کچھ زائد ہوئے لاجرم یہ قوم جن کی تعمیر ہے کہ پیدائش آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پہلے (٦٠٠٠٠) ساٹھ ہزار برس زمین پر رہ چکی ہے۔”

حوالہ جات