"خس و خاشاک زمانے" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
غیر ضروری مواد کا اخراج
سطر 14: سطر 14:
}}
}}


'''خس و خاشاک زمانے''' پاکستان سے [[2010ء]] میں شائع ہونے والا اردو ناول ہے جسے [[مستنصر حسین تارڑ]] نے تحریر کیا ہے۔
'''خس و خاشاک زمانے'''، [[مستنصر حسین تارڑ]] کا مشہور اُردوناول ہے۔ کتاب کے مصنف [[مستنصر حسین تارڑ]] [[اُردو]] ادب کی دنیا میں ایک مشہورو معروف لکھاری ہیں ۔ ان کی کتابوں کی مجموعی تعداد ساٹھ60 سےتجاوزکرچکی ہیں۔ [[مستنصر حسین تارڑ]] سفرنامہ نگار، ناول نگار، افسانہ نگار، [[ڈراما نویس]]، ایکٹر، میزبان اور کالم نگار ہیں <ref>http://www.mustansarhussaintarar.com/</ref>۔ [[مستنصر حسین تارڑ]]کی ادبی خدمات کے صلے میں صدارتی [[تمغۂ حسن کارکردگی]]<ref>http://www.dw.com/ur/%D9%85%D8%B3%D8%AA%D9%86%D8%B5%D8%B1-%D8%AD%D8%B3%DB%8C%D9%86-%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DA%91-75-%DA%A9%DB%92-%DB%81%D9%88-%DA%AF%D8%A6%DB%92/a-17523167</ref> اوران کے ناول "[[راکھ (ناول)|راکھ]]" کو [[1999ء|1999]] میں بہترین [[ناول]] کے زمرے میں [[وزیر اعظم]] ادبی ایوارڈ کا مستحق گردانا گیا<ref>https://ijrakarachi.wordpress.com/2014/04/29/%D9%85%D9%85%D8%AA%D8%A7%D8%B2-%D9%86%D8%A7%D9%88%D9%84-%D9%86%DA%AF%D8%A7%D8%B1%D8%8C-%D9%85%D8%B3%D8%AA%D9%86%D8%B5%D8%B1%D8%AD%D8%B3%DB%8C%D9%86-%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DA%91/</ref> اور آپ کو [[2002ء]] میں دوحہ قطر میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیا گیا۔ آپ کی تازہ ترین کتا ب "15-کہانیاں" ہے جو افسانوں کا مجموعہ ہے۔


==مواد==
==مواد==
سطر 21: سطر 21:
==تبصرے و آراء==
==تبصرے و آراء==
ریاض شاہد کتاب اور مصنف کے بارے میں کہتے ہیں<ref>http://www.riazshahid.com/2012/08/22/%D8%AE%D8%B3-%D9%88-%D8%AE%D8%A7%D8%B4%D8%A7%DA%A9-%D8%B2%D9%85%D8%A7%D9%86%DB%92/</ref>،
ریاض شاہد کتاب اور مصنف کے بارے میں کہتے ہیں<ref>http://www.riazshahid.com/2012/08/22/%D8%AE%D8%B3-%D9%88-%D8%AE%D8%A7%D8%B4%D8%A7%DA%A9-%D8%B2%D9%85%D8%A7%D9%86%DB%92/</ref>،
{{اقتباس|اس ناول میں تارڑ کا فن اپنے عروج پر نظر آتا ہے خصوصا فلیش بیک کی ٹیکنیک بار بار استعمال کی گئی ہے ۔ الفاظ کا چناو اور ان کا استعمال بڑی سوچ اور نفاست سے کیا گیا ہے ۔ ناول کی سب سے بڑی خوبی اس کا وہ ماحول میں جو تارڑ اپنے ڈائیلاگ کی مدد سے پیدا کر دیتا ہے کہ قاری ناول کے اختتام تک اس کے سحر سے آزاد نہیں ہو سکتا اور یہ انہیں کا خاصہ ہے ۔ حقیقت پسندی کا درس ناول کا تھیم ہے جسے تارڑ علامات کے ذریعے واضح کرتا ہے مثلا اچھو شیخ کا کردار جو مذہبی انتہا پسندی کا مظہر ہے گاوں کا فاترالعقل نوجوان ہے جو بار بار اپنی ماں سے نظر بچا کر گلی میں غلاظت کے ڈھیر سے شیشہ تلاش کر کے اپنی گردن پر پھیرنا شروع کر دیتا ہے جس سے اسے لذت ملتی ہے ۔ پتہ چلنے پر اس کی ماں آ کر اٹھا کر گھر لے آتی ہے لیکن وہ پھر موقع ملنے پر یہی عمل دہراتا رہتا ہے ۔ ناول میں [[1947ء]] کے فسادات میں ہونے والی قتل و غارت ، معاشرے میں لوٹ مار کے رحجان کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔}}
{{اقتباس|اس ناول میں تارڑ کا فن اپنے عروج پر نظر آتا ہے خصوصا فلیش بیک کی ٹیکنیک بار بار استعمال کی گئی ہے ۔ الفاظ کا چناو اور ان کا استعمال بڑی سوچ اور نفاست سے کیا گیا ہے ۔ ناول کی سب سے بڑی خوبی اس کا وہ ماحول میں جو تارڑ اپنے ڈائیلاگ کی مدد سے پیدا کر دیتا ہے کہ قاری ناول کے اختتام تک اس کے سحر سے آزاد نہیں ہو سکتا اور یہ انہیں کا خاصہ ہے ۔ حقیقت پسندی کا درس ناول کا تھیم ہے جسے تارڑ علامات کے ذریعے واضح کرتا ہے مثلا اچھو شیخ کا کردار جو مذہبی انتہا پسندی کا مظہر ہے گاؤں کا فاترالعقل نوجوان ہے جو بار بار اپنی ماں سے نظر بچا کر گلی میں غلاظت کے ڈھیر سے شیشہ تلاش کر کے اپنی گردن پر پھیرنا شروع کر دیتا ہے جس سے اسے لذت ملتی ہے۔ پتہ چلنے پر اس کی ماں آ کر اٹھا کر گھر لے آتی ہے لیکن وہ پھر موقع ملنے پر یہی عمل دہراتا رہتا ہے ۔ ناول میں [[1947ء]] کے فسادات میں ہونے والی قتل و غارت ، معاشرے میں لوٹ مار کے رحجان کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔}}


== مزید دیکھیے ==
== مزید دیکھیے ==

نسخہ بمطابق 10:38، 12 اپریل 2016ء

خس و خاشاک زمانے
مصنفمستنصر حسین تارڑ
ملکپاکستان کا پرچمپاکستان
زباناردو
صنفناول
ناشرسنگ میل پبلی کیشنز، لاہور
تاریخ اشاعت
اول 2010ء، دوم 2014ء
طرز طباعتمطبوعہ (مجلد)
صفحات740

خس و خاشاک زمانے پاکستان سے 2010ء میں شائع ہونے والا اردو ناول ہے جسے مستنصر حسین تارڑ نے تحریر کیا ہے۔

مواد

"خس و خاشاک زمانے" کو پاکستان کی ایک ایسی دستاویز کہا جاسکتا ہے جو پاکستانی معاشرے کی اخلاقی اور تہذیبی اقدار اور اس کے بدلتے رویوں کو بیان کرتی ہے۔"خس و خاشاک زمانے" ضخیم ناول ہے جس میں دو خاندانوں کی کئی نسلوں پر پھیلی داستان بیان کی گئی ہے۔تقسیم برصغیر کے بارے میں لکھ گیا یہ ناول ان تاریخی حقائق کو بیان کرتا ہے جن پہ بات کرنا پسند نہیں کیا جاتا۔

تبصرے و آراء

ریاض شاہد کتاب اور مصنف کے بارے میں کہتے ہیں[1]،

اس ناول میں تارڑ کا فن اپنے عروج پر نظر آتا ہے خصوصا فلیش بیک کی ٹیکنیک بار بار استعمال کی گئی ہے ۔ الفاظ کا چناو اور ان کا استعمال بڑی سوچ اور نفاست سے کیا گیا ہے ۔ ناول کی سب سے بڑی خوبی اس کا وہ ماحول میں جو تارڑ اپنے ڈائیلاگ کی مدد سے پیدا کر دیتا ہے کہ قاری ناول کے اختتام تک اس کے سحر سے آزاد نہیں ہو سکتا اور یہ انہیں کا خاصہ ہے ۔ حقیقت پسندی کا درس ناول کا تھیم ہے جسے تارڑ علامات کے ذریعے واضح کرتا ہے مثلا اچھو شیخ کا کردار جو مذہبی انتہا پسندی کا مظہر ہے گاؤں کا فاترالعقل نوجوان ہے جو بار بار اپنی ماں سے نظر بچا کر گلی میں غلاظت کے ڈھیر سے شیشہ تلاش کر کے اپنی گردن پر پھیرنا شروع کر دیتا ہے جس سے اسے لذت ملتی ہے۔ پتہ چلنے پر اس کی ماں آ کر اٹھا کر گھر لے آتی ہے لیکن وہ پھر موقع ملنے پر یہی عمل دہراتا رہتا ہے ۔ ناول میں 1947ء کے فسادات میں ہونے والی قتل و غارت ، معاشرے میں لوٹ مار کے رحجان کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔

مزید دیکھیے

حوالہ جات