"صلاح الدین احمد" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
غیر ضروری مواد کا اخراج
اضافہ مواد
سطر 27: سطر 27:
| influences =
| influences =
| influenced =
| influenced =
| awards = [[تمغا حسن کارکردگی|صدارتی تمغا برائےحسن کارکردگی]]
| awards =
| signature =
| signature =
| website =
| website =

نسخہ بمطابق 14:46، 25 اپریل 2016ء

مولانا صلاح الدین احمد
پیدائش25 مارچ 1902(1902-03-25)ء
لاہور، برطانوی ہندوستان
وفات14 جون 1964(1964-06-14)ء
ساہیوال، پاکستان
آخری آرام گاہلاہور، پاکستان
قلمی نامصلاح الدین احمد
پیشہادیب، صحافی، مترجم، نقاد
زباناردو
نسلپنجابی
شہریتپاکستان کا پرچمپاکستانی
اصنافصحافت ،تنقید، ترجمہ
نمایاں کامتصوراتِ اقبال
امریکہ کا سیاسی نظام
اُردو میں افسانوی ادب
کششِ ثقل
اہم اعزازاتصدارتی تمغا برائےحسن کارکردگی

مولانا صلاح الدین احمد (پیدائش: 25 مارچ، 1902ء - وفات: 14 جون، 1964ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے نامور ادیب، صحافی، نقاد، مترجم ادبی جریدے ادبی دنیا کے مدیر تھے۔

حالات زندگی

صلاح الدین احمد 25 مارچ، 1902ء کو لاہور، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے[1][2]۔ ابتدا ہی سے انہیں ادبی صحافت کا بڑا اچھا ذوق تھا۔زمانہ طالب علمی میں انہوں نے ایک انہوں نے ایک وقیع اردو رسالہ خیالستان جاری کیا۔ پھر 1934ء میں اردو کا ایک انتہائی اہم جریدہ ادبی دنیا جاری شائع کرنا شرو کیا۔ وہ اردو بولو، اردو لکھو، اردو پڑھو کی تحریک کے سرخیل تھے، اسی وجہ سے انہیں پنجاب کا بابائے اردو کہا جاتا ہے۔ [1]

اردو کے لئے خدمات

مولانا صلاح الدین احمدکی اُردو کے لیے خدمات کا اگر ایمان داری سے احاطہ کیا جائے تو شاید اُن کی پوری سوانح عمری کو دُہرانا ہو گا کہ اُن کی زندگی کے شعوری حصے کا کوئی ایسا پل نہیں ہے، جو خدمتِ اُردو سے خالی ہو۔اُردو زبان کی تحسین، فروغ، دفاع اور نفاذ اُن کی زندگی کا مقصدِ اوّل اور مدّعائے آخر تھا۔ اُردو اُن کی تہذیب تھی، اُن کا ماحول تھا، اُن کی ثقافتی فضا تھی، اُن کی وجہِ دوستی اور سببِِ عداوت تھی، اُن کا نظریہ تھا، اُن کا نظامِ خیال تھا حتیٰ کہ اُن کا جزوِ ایمان تھا۔[3]

زمانی لحاظ سے اُن کی خدمات کا پہلا عرصہ قیام پاکستان تک کا ہے جب کہ اُردو اور ہندی کا تنازعہ اُسی طرح عروج پر تھا جیسا کہ ہندوستان کی دو بڑی اقوام کے مابین مذہب کا جھگڑا۔ اگرچہ یہ لسانی مناقشہ قطعی طور پر مصنوعی تھا اور اُس زبان کے خلاف ایک محاذ تھا جو عوام میں رائج اور مقبول تھی۔اُس وقت کی ہندوقیادت کا یہ خیال تھا : اُردو کا مستقبل مسلمانوں کے فرقے کا نجی معاملہ ہے اور اگر وہ اِسی زبان میں لکھنا پڑھنا چاہیں تو اُن پر کوئی پابندی مناسب نہ ہو گی۔ البتہ قومی سطح پر فوقیت ہندی یا ہندوستانی کو حاصل ہو گی۔ یہی وہ نقطۂ نظر تھا جس کے باعث اُردو کے قومی سطح پر فروغ یا نفاذ کے خلاف سرگرمیاں شروع ہوئیں اورہر سطح پر اُردو کے فروغ کا راستہ روکا گیا۔ ہندی نواز طبقہ اُردو دُشمنی میں ہر نوع کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ اُردو کے خلاف جلسے بھی منعقد کیے جانے لگے اور قراردادیں بھی پاس ہونے لگیں۔ الغرض کوئی موقع ضائع نہ کیا گیا۔ جون 1945ء میں پنجاب ساہتیہ منڈل کا ایک جلسہ زیرِصدارت بہاری لال چاننہ منعقد ہوا جس میں یہ قرارداد پاس کی گئی: چونکہ ریڈیو کی زبان عربی اور فارسی الفاظ کی کثرت کے باعث حدِ درجہ ناقابلِ فہم ہے، اِسی لیے اِس محکمے کے عملے میں فوری تبدیلیاں کی جائیں اور پچھتّر فی صد اسامیاں ایسے لوگوں سے پُر کی جائیں جو ہندی دان پبلک کے نمائندے ہوں اور جو زبان کے معاملے میں ہم سے انصاف کر سکیں۔ اُردو کے خلاف اِس محاذ کے باعث یہ ضروری سمجھا گیا کہ اِس لسانی مناقشے میں بھرپور دفاعی پالیسی اپنائی جائے۔ چنانچہ اُردو کے تحفظ کے لیے تمام مسلمانانِ ہند اور اُن کی نمائندہ جماعتیں ایک ہو گئیں اور اُسی شدومد کے ساتھ اُردو دفاع کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا، جس قدر کہ جارحیت تھی۔ بقول ڈاکٹر فرمان فتح پوری: مسلم لیگ، مسلم ایجوکیشنل کانفرنس، خلافت کمیٹی اور انجمن ترقی اُردونے اُردو کو برصغیر کے مسلمانوں کی ثقافتی رگ سمجھ کر اُس کو بچانے کی کوشش کی۔ مسلم لیگ نے سیاسی سطح پر اُردو کا دفاع کیا اور اپنے مطالبات میں اُردو کی حفاظت کو بھی شروع ہی سے پیشِ نظر رکھا۔ مولانا صلاح الدین احمدنے اِس صورتِ حال میں جو کردار ادا کیا وہ کسی جہاد سے کم نہیں۔ اُردو کو اپنے ایمان کا حصہ بناتے ہوئے اُردو کے فروغ اور اُس کے خلاف کارروائیوں کے سدِّ باب کے لیے تن، من اور دھن کی بازی لگا دی۔ اِسی سلسلے میں انھوں نے جو نمایاں اقدامات کیے،وہ یہ ہیں:

  1. ادبی دنیا کے اداریوں میں فروغ و دفاعِ اُردو کو مستقل اہمیت دی۔
  2. ادبی دنیا میں اپنے تنقیدی شذرات میں اُردو کے دفاع کے لیے بطورِ خاص لکھا۔
  3. ادبی دنیا میں اُردو کے حق میں اور ہندوستان کی لسانی صورتِ حال پر مضامین لکھوائے اور شائع کیے۔
  4. اُردو بولو تحریک شروع کی اور اِس کے لیے مختلف سلوگنز بنائے۔ (اِس کی تفصیل آگے آئے گی۔)
  5. پنجاب اُردو کانفرنس کی بنا ڈالی۔
  6. اُردو یونیورسٹیوں کے قیام کی تجویز پیش کی اور اِن کی عملی شکل کے لیے جدوجہد کی۔
  7. مجلسِ تعمیرِ جامعہ اُردوتشکیل دی، جس کا ایک اہم شعبہ دارالتحقیق علم و ادب قرار پایا۔
  8. اُردو زبان کے دفاع کے لیے کانفرنسوں کا انعقاد کیا اور ہر اُس عملی جہد کا حصہ بنے جو اُردو کی بقاءکے لیے ناگزیر تھی۔

قیام پاکستان کے بعد مولانا صلاح الدین احمدکی خدماتِ اُردو کا زاویہ تبدیل ہو گیا اور انہوں نے حالات کے نئے تناظرکی روشنی میں ایک الگ لائحہ عمل اختیار کیا۔ قیام پاکستان کے بعد یہ ایک حقیقت تھی کہ یہ زبان پاکستان کے باشندوں کی زبان بن کر رہ گئی۔ ایسا نہیں کہ اب بھارت میں اِس کی تہذیبی شناخت ختم ہو گئی بلکہ سیاست نے کچھ ایسا زاویہ اختیار کیا کہ وہاں کی حکومت نے اپنی پالیسیوں کی روشنی میں ہندی کو باقاعدہ طور پر نافذ کر دیا اور ذرائع ابلاغ و تعلیم میں ہندی کی برتری قائم کر دی۔ یہی وہ دُکھ تھا جس سے مولانا صلاح الدین احمد مغلوب ہو گئے لیکن اب یہ قضا کا فیصلہ تھا جسے قبول کیے بغیر چارہ نہیں تھا۔ اُن کے خیال میں تقسیم ہند کے بعد اُردو کی عالمگیر حیثیت ختم ہو چکی ہے اور وہ زبان جو نہ صرف برعظیم ہند، ایشیا، یورپ اور افریقہ کی ہر بندرگاہ میں بولی اور سمجھی جاتی تھی، اب ایک چھوٹے سے ملک بلکہ اُس کے ایک حصے کی زبان ہو کر رہ گئی ہے۔اِسی لیے انہوں نے یہ اعتراف کیا کہ یہ زبان جس عجیب دوراہے پر کھڑی ہے، اِس میں سے پھوٹنے والا ایک رستہ چند ہی قدم پر ایک مہیب چٹان کے کنارے پہنچ کر ختم ہو جاتاہے اور دوسرا خم کھا کر دُور سے نظر آنے والے ایک جنگل کی طرف چلا جاتا ہے ، جہاں ایک غیریقینی مستقبل کا دُھندلکا چھا رہا ہے۔[3]

مولانا صلاح الدین احمد کی تمام تر زندگی اُردو کے تحفظ، فروغ، دفاع اور نفاذ کی کوششوں میں گزری۔ یہ کوششیں ایک ایسی زبان کے لیے تھیں جو ایک عظیم تہذیب کی ترجمان اور امانت دار تھی مگر جس ہوائے مخالف کو ورثے میں پایا اور تاحال اِس تندئ بادِ مخالف کا سامناکر رہی ہے، غنیمت نہیں۔ وہ لوگ جنھوں نے شعبۂ اُردو کے لیے ایک مضبوط بادبان کا کام کیا ورنہ تو اِس کے دُشمنوں ہی نے نہیں بعض نادان دوستوں نے بھی اِ س کے ڈبونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔[3]

انہوں نے اُردو کے دفاع کے لیے ہر ممکن قدم بھی اُٹھایا اور آواز بھی۔ ادبی دنیا کے اداریے، تنقیدی شذرات، اُردو بولوتحریک، اکادمی پنجاب ہروہ تدبیر آزمائی جو اُردو کے تحفظ کے لیے کارگر ہو سکتی تھی۔ یہ کہنا قطعی طورپر بجا ہو گا کہ مولوی عبدالحق کے بعد مولانا صلاح الدین احمد نے اُردو کے لیے جو مجاہدہ اور ایثار کیا، اُردو کی تاریخ میں اُس کی دوسری مثال آج تک سامنے نہیں آئی۔[3]

اُردو بولو تحریک

ہندی کے مقابلے میں اُردو کے فروغ کے سلسلے میں مولانا صلاح الدین احمدکی اُردو بولوتحریک کا کردار بہت بھرپور ہے۔اگرچہ یہ تحریک ابتداً اُن مختصر فرمودات بلکہ نعروں( سلوگنز) پر مبنی ہے جو ادبی دُنیا کے صفحات پر خالی جگہوں کو پُر کرنے کے لیے درج کیے جاتے تھے مگر اپنے اثر اور اُردو کے فروغ کے سلسلے میں خاصے کارگر ثابت ہوئے۔ بعدازاں اِس کے لیے صفحہ مختص کر دیا گیا اور ادبی دنیا کا سرورق اُلٹتے ہی اِس تحریک کے نعروں پر نظر پڑتی جو جلی حروف میں درج ہوتے تھے۔ اِس تحریک کی اِبتدا کے بارے میں آغا بابر کا دعویٰ ہے کہ یہ اُن کی تجویز تھی۔ اِس سلسلے میں اُن کا کہنا ہے: دو برس ہوئے جب ادبی دُنیا کا دفتر مال روڈ کی ایک عمارت میں تھا۔ میں نے ایک ملاقاتِ شام کے دوران میں ایڈیٹر ادبی دنیا سے کہا کہ آپ پرچے میں مضمون ختم ہونے پر میر،غالب یا حالی کا کوئی شعر چھاپ دیتے ہیں۔ یہ خانہ پری اچھی چیزہے مگر میری ایک تجویز ہے۔۔۔ یہ کہ کہیں لکھ دیا جائے اُردوبولوکہیں یہ کہ بچوں سے اُردو بولو۔ یہ مختصر سے نعرے(سلوگن) اپنے حلقہ اثر کے اعتبار سے بہت وسعت کے حامِل ثابت ہوئے اور یہ تحریک وقت کے ساتھ ساتھ اذہان میں ایک مثبت شعور اور تبدیلی کا باعث بنی۔اِن اعلانات میں نہایت سادہ مگر پراثرانداز کے الفاظ شامل کیے جاتے، جن میں لسانی سطح کی ایک فکری دعوت ہوتی۔ یہ اعلانات اُردو کے حق میں ہوتے لیکن کوئی ایسا اعلان شائع نہ ہوا، جو ہندی کے خلاف ہو، جس کا مقصد یہ تھا کہ بغیر محاذ آرائی کی فضا پیدا کیے اُردو کے لیے راہ ہموار کی جائے۔ چنانچہ صرف اُردو کے فروغ اور اہمیت پر اعلانات درج کیے گئے۔ ادبی دُنیا کے صفحات پر اِن اعلانات کی نوعیت کیا تھی۔ مناسب ہو گا کہ چند منتخب اعلانات درج کیے جائیں:

  • اُردو بولو۔
  • اُردو بولو تحریک کی مدد کیجیے۔
  • اُردو بولو۔ اُردو بولنے سے آپس میں محبت بڑھتی ہے۔
  • اُردو بولو۔ اگر آپ کی زبان ایک ہے تو کبھی نہ کبھی آپ کے دِل بھی ایک ہو جائیں گے۔
  • اُردو ایشیا کی سب سے بڑی زبان ہے۔
  • اُردو بولو اور ایشیا کی سب سے بڑی قوم بن جاؤ۔
  • قاہرہ سے لے کر شنگھائی تک اُردویکساں طور پر بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اُردو بولو۔
  • اُردو اور انگریزی، انگریز اور امریکن، کو انگریزی زبان ملاتی ہے۔ ہندو اور مسلمان کو اُردو زبان ملائے گی۔ اُردو بولو۔
  • اُردو کے تین گُن: اُردو ہندوستان کی علمی زبان ہے،اُردو ہندوستان کی سماجی زبان ہے،اُردو ہندوستان کی عوامی زبان ہے۔
  • اُردو بولو۔ اور اُردو بولو تحریک میں شامل ہو جاؤ۔
  • اُردو بولو۔ اُردو بولنے سے ہماری قومی عزت بڑھتی ہے۔
  • اُردو کو انگریزی کی جگہ دے کر اپنا قومی وقار بڑھایئے۔ اُردو بولو۔
  • پنجابی،پشتو، سندھی سب ہمیں پیاری ہیں مگر اُردو، اُردو ہماری جان اور ایمان ہے۔
  • اُردو بولو۔ اور ایک ہو جاؤ۔ اُردو۔اُردو۔اُردو۔
  • ہم زبانی ہم دِلی کی پہلی شرط ہے۔ اُردو بولو۔اُردو بولو اور یک جان ہو جاؤ۔
  • اُردو وہ جادو ہے جو سَر چڑھ کر بولتا ہے۔ اُردو بولو۔

یہ مختصر، بے ضرر مگر پراثر اعلانات بڑی سرعت کے ساتھ ذہنی بیداری کا باعث بنے۔ اِس تحریک کے اثرات کس قدر وسیع تھے۔ اِس سلسلے میں مولوی عبدالحق کا یہ بیان ملاحظہ ہو: آپ کی تحریک’اُردو بولو‘ نہایت قابلِ قدراور لائقِ عمل ہے۔ یوں تو پنجاب میں اور خاص کر لاہور میں بہت سی انجمنیں اور بزمیں ہیں اور کام بھی کرتی ہیں لیکن اِن سب کے کام مِلا کر بھی اِس تحریک کو نہیں پہنچتے۔ یہ بنیادی کام ہے۔ اِس وقت تو شاید لوگ اِسے زیادہ اہمیت نہ دیں لیکن ایک ایسا وقت آئے گا جب اِس کے حیرت انگیز نتائج کا قائل ہونا پڑے گا۔ اِس کی کامیابی پر ہمارے بہت سے مسائل کی کامیابی کا انحصار ہے۔[3]

اکادمی پنجاب کی بنیاد

اُردو کے فروغ اور نفاذ کے لیے اُردوبولوتحریک کے علاوہ مولانا صلاح الدین احمد نے اپنے وسائل سے اکادمی پنجاب کی بنیاد رکھی۔اِس سلسلے میں اُن کو سیّد وحیدالدین،اے ڈی اظہر اور ڈاکٹر وزیرآغا کا تعاون حاصل تھا۔ اِس اکادمی کے مقاصد میں اُردو زبان و ادب کی نشوونما کے لیے متنوع جہتوں میں کام کرنا تھا۔ اکادمی پنجاب کے مقاصد کا تعین کرتے ہوئے ڈاکٹر انور سدید نے درج ذیل پانچ نکات پیش کیے ہیں:

  1. قومی زبان کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنا۔
  2. اُردو کی ترقی اور فروغ کی علمی کامرانیوں میں اضافہ۔
  3. ملک و قوم کی تہذیب و ارتقأ کے لیے اعلیٰ درجے کے مصنّفین کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنا۔
  4. مغربی پاکستان میں سنجیدہ ادب کی نشرواشاعت۔
  5. ملک کے بہترین دِل و دماغ کو تسکین و آسائش فراہم کرنا۔[3]

اُردو یونیورسٹی کے قیام کی تجویز

مولانا صلاح الدین احمد نے اُردو یونیورسٹی کے قیام کی تجویز بھی پیش کی۔ یہ تجویز دراصل بابائے اُردو مولوی عبدالحق کی وہ تمنا تھی، جس کے لیے وہ اپنے آخری ایامِ زندگی میں نہایت بے تاب اور بے چین رہ چکے تھے۔[3]

تصانیف

  • تصوراتِ اقبال (اقبالیات)
  • اقبال کے دس شعر (اقبالیات)
  • خدا ہمارے ساتھ ہے (ترجمہ)
  • امریکہ کا سیاسی نظام
  • اُردو میں افسانوی ادب
  • کششِ ثقل (ترجمہ)
  • زمانہ قدیم کے جانور (ترجمہ)
  • برق (ترجمہ)
  • پردوں کے کارخانے (ترجمہ)
  • مادہ، سالمے اور جوہر (ترجمہ)
  • زمین کی بدلتی ہوئی سطح (ترجمہ)
  • سائنس دان اور اُس کے آلات (ترجمہ)
  • توہمات یا سائنس (ترجمہ)
  • بادل،بارش اور برف (ترجمہ)
  • زندگی منزل بہ منزل (ترجمہ)
  • موسم (ترجمہ)
  • مقناطیس (ترجمہ)
  • مشینیں (ترجمہ)
  • مٹّی (ترجمہ)
  • کیڑوں کی سماجی زندگی (ترجمہ)
  • ستاروں سے آگے (ترجمہ)
  • زندہ اشیاء (ترجمہ)
  • روشنی (ترجمہ)
  • حرارت (ترجمہ)
  • چاند (ترجمہ)
  • پُھول پھل اور بیج (ترجمہ)
  • پرندے (ترجمہ)
  • آواز (ترجمہ)
  • انسانی مشین (ترجمہ)

مولانا صلاح الدین احمد کے فن و شخصیت پر کتب

ناقدین کی آراء

معروف نقاد ڈاکٹر انور سدید مولانا صلاح الدین احمد کے بارے میں کہتی ہیں کہ:

مولانا صلاح الدین احمد کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد اعلائے کلمتہ الاردو تھا اور اِس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے مصلحت کوشی سے بے نیاز ہو کر اُردو زبان اور ادب کے لیے گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ اپنا تن، من اور دھن نثار کیا اور اِس کی بقأ اور ترقی کے لیے اپنی پوری زندگی اور بہترین صلاحیتیں وقف کر دیں[3]۔

اعزازات

حکومت پاکستان نے مولانا صلاح الدین احمد کی خدمات کے صلے میں بعد از مرگصدارتی تمغا برائےحسن کارکردگی سے نوازا۔[1]

وفات

صلاح الدین احمد 14 جون، 1964ء کو ساہیوال، پاکستان میں وفات پا گئے اور لاہور میں مانی صاحب کے قبرستان میں سپرد خاک ہوئے۔[1] [2]

حوالہ جات