"جنگ جمل" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 41: سطر 41:


اس جنگ میں حضرت علی کی فوج کے باغی مسلمانوں کو آپس میں لڑوانے میں کامیاب ہوئے اور جنگ جمل مسلمانوں کے درمیان لڑی جانے والی پہلی جنگ ہوئی جس میں بھائی نے بھائی کا خون بہایا۔ اس جنگ کے شعلے مزید بھڑکے اور حضرت [[امیر معاویہ]] نے قصاص عثمان کا مطالبہ کر دیا۔ اور شام میں بغاوت کی۔ جس کی سرکوبی کے لیے [[جنگ صفین]] لڑی گئی۔ یوں مسلمانوں کی عظیم ریاست چند باغیوں کی وجہ سے دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ اور اتحاد پارہ پارہ ہوگیا۔
اس جنگ میں حضرت علی کی فوج کے باغی مسلمانوں کو آپس میں لڑوانے میں کامیاب ہوئے اور جنگ جمل مسلمانوں کے درمیان لڑی جانے والی پہلی جنگ ہوئی جس میں بھائی نے بھائی کا خون بہایا۔ اس جنگ کے شعلے مزید بھڑکے اور حضرت [[امیر معاویہ]] نے قصاص عثمان کا مطالبہ کر دیا۔ اور شام میں بغاوت کی۔ جس کی سرکوبی کے لیے [[جنگ صفین]] لڑی گئی۔ یوں مسلمانوں کی عظیم ریاست چند باغیوں کی وجہ سے دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ اور اتحاد پارہ پارہ ہوگیا۔

{{حذف|غیر متعلقہ مواد}}
== حضرت علی کی اپنے فوج کے باغیوں کے بارے میں رائے ==
== حضرت علی کی اپنے فوج کے باغیوں کے بارے میں رائے ==
{{اطلاع|غیر متعلقہ مواد}}
حضرت علی کی فوج میں ایک تعداد باغیوں اور قاتلان عثمان کی تھی اس لئے وہ خود بھی بے بس تھے کہ ان سے کس طرح جان چھڑا سکیں ۔ان فوجیوں اور باغیوں کے بارے میں علی کے الفاظ پڑھیے جو ـ"نہج البلاغہ "میں نقل ہوئے ہیں۔ "میں روز اول سے تمھاری غداری کے انجام کا انتظار کر رہا ہوں اور تمھیں فریب خوردہ لوگوں کے انداز سے پہچان رہا ہوں"(صفحہ 45)
حضرت علی کی فوج میں ایک تعداد باغیوں اور قاتلان عثمان کی تھی اس لئے وہ خود بھی بے بس تھے کہ ان سے کس طرح جان چھڑا سکیں ۔ان فوجیوں اور باغیوں کے بارے میں علی کے الفاظ پڑھیے جو ـ"نہج البلاغہ "میں نقل ہوئے ہیں۔ "میں روز اول سے تمھاری غداری کے انجام کا انتظار کر رہا ہوں اور تمھیں فریب خوردہ لوگوں کے انداز سے پہچان رہا ہوں"(صفحہ 45)



نسخہ بمطابق 14:19، 15 مئی 2016ء

جنگ جمل
سلسلہ First Fitna
تاریخ7 November 656
مقامبصرہ, عراق
نتیجہ خلافت راشدہ فتح
مُحارِب
خلافت راشدہ حضرت عائشہ کی فوج خلافت امویہ
کمان دار اور رہنما
علی بن ابی طالب
مالک ابن حارث النخئی الاشتر
حسن ابن علی
عمار بن یاسر
محمد بن ابی بکر
عبد الرحمن بن ابی بکر
مسلم ابن عقیل
ابوقتادہ
جابر بن عبداللہ
Muhammad ibn al-Hanafiyyah
ابوایوب انصاری
Abu Qatada bin Rabyee
Qays ibn Sa'd
Qathm bin Abbas
عبداللہ بن عباس
خزیمہ بن ثابت
عائشہ بنت ابی بکر
طلحہ بن عبید اللہ  
Muhammad ibn Talha  
زبیر ابن العوام  
Kaab ibn Sur  
عبداللہ ابن زبیر
مروان بن حکم  (جنگی قیدی)
Waleed ibn Uqba  (جنگی قیدی)
طاقت
~20,000[1] ~30,000[1]
ہلاکتیں اور نقصانات
~5,000[2][3] ~13,000[2][3]

10 جمادی الثانی 36 ھ مطابق 4 دسمبر 656ء۔ مسلمانوں کے درمیان قصاص عثمان پر لڑی جانے والی جنگ۔

وجوہات

ام المومنین حضرت عائشہ حج کی غرض سے مکہ تشریف لے گئی تھیں۔ وہاں حضرت طلحہ و زبیر سے ملاقات کی تو انھوں نے حضرت عثمان کے قصاص کے لیے آواز اٹھائی اور بصرہ کی جانب ایک لشکر کے ہمراہ روانہ ہوئیں۔جب یہ لوگ بصرہ پہنچے تو وہاں کے گورنر عثمان بن حنیف نے انھیں روکا مگر عثمان کو شکست ہوئی اور حضرت عائشہ کے ساتھیوں نے بصرہ پر قبضہ کر لیا۔ حضرت علی کو پتہ چلا تو وہ بصرہ کی طرف روانہ ہوئے۔ کوفہ سے بھی ایک فوج آپ کی مدد کے لیے آگئی۔

پس منظر

حضرت عثمان اسلام کے تیسرے خلیفہ مقرر ہوئے تو آپ کے دور میں یہودیوں نے "منافقت " کا راستہ بڑے پرعزم طریقے اور منصوبہ بندی سے اختیار کیا۔

عبداللہ بن سبا ایک روایت

طبری کی روایت ہے کہ 33-35 ہجری کے برسوں میں ایک یمنی یہودی عبداللہ بن سبا نے، جو ابن السودا کے نام سے مشہور تھا، اسلام قبول کرنے کا اعلان کردیا۔ اس کے ظاہری تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ نمازِ فجر کے لیے مسجد میں داخل ہونے والا وہ پہلا شخص ہوتا اور عشاء کے بعد مسجد سے رخصت ہونے والا بھی وہ آخری شخص ہوتا۔ ہر وقت نوافل کی ادائیگی میں مصروف رہتا۔ اکثر روزہ رکھتا اور درود وظائف کا تو شمار ہی نہ تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ علی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بہت قریبی رشتہ دار ہیں اگر ان کے نام پر عثمان کے خلاف کام کیا جائے تو بڑا کامیاب ہوگا۔ عرب میں عبدﷲ بن سبا اپنا کام نہ کرسکا کیونکہ یہاں صحابہ کی کافی بڑی تعداد موجود تھی اس لیے اس نے عراق کے علاقے کا انتخاب کیا کیونکہ یہ علاقہ مسلمانوں نے فتح کرلیا تھا لیکن یہاں پر اب بھی وہاں کے لوگوں کے دلوں میں ایرانی بادشاہ کی محبت اور مسلمانوں کے خلا ف نفرت تھی۔ وہاں جاکر عبداﷲ بن سبا نے لوگوں سے کہنا شروع کردیا کہ یہ کیا بات کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے رشتہ دار یعنی علی تو یوں ہی بیٹھے رہیں اور اِدھراُدھر کے لوگ خلیفہ بن جائیں۔ابھی وقت ہے کہ عثمان کو ہٹا کر علی کو خلیفہ بنادو۔لیکن چونکہ بصرہ عراق میں صحابہ کی بہت ہی تھوڑی تعداد تھی جو نہ ہونے کے برابر تھی اس لیے کوئی عبدﷲ بن سبا کی باتوں کا جواب نہ دے سکتا اگر وہ ہوتے تو کچھ جواب دیتے لوگ آہستہ آہستہ ا س کی باتوں سے متاثر ہوکر عثمان کے خلاف ہوتے گئے۔ جب بصرہ کے گورنر عبدﷲ بن عامر کو عبدﷲ بن سبا کی منافقت کی خبر ملی تو اس کو بصرہ سے نکال دیا اور یہ پھر کوفہ پہنچ گیا۔وہاں سے بھی نکلوادیا گیا پھر یہ شام پہنچا لیکن وہاں معاویہ گورنر تھے جنھوں نے اس کو وہاں سے بھی نکال دیا۔ عبدﷲ بن سبا کو چونکہ تمام اسلام دشمن لوگوں کی پشت پناہی حاصل تھی اس لیے وہ اس کام کو چلانے کے لیےپروپیگنڈہ کرتا رہا۔ عبدﷲ بن سبا شام سے نکالے جانے کے بعد مصر پہنچا اور وہاں کام شروع کیا اور ایک اچھی خاصی جماعت بنالی جو عثمان کے خلاف ہوگئے۔ عبداللہ بن سباحجاز، بصرہ، کوفہ، شام، مصر میں لوگوں کو اپنے بناوٹی تقویٰ سے متاثر کر چکا تھا وہ خصوصاً ان لوگوں کی ٹوہ میں رہتاجنہوں نے موقع پرستی کے لیے اسلام کا لیبل اپنے اوپر لگا لیا تھا لیکن دراصل وہ اس کی جڑیں کاٹنے کے درپے تھے۔ جب اس نے ایسے بہت سے افراد جمع کرلیے تو اپنا منصوبہ ان کے سامنے پیش کیا جو سادہ مگر دور رس اثرات کا حامل تھا۔ اس نے اپنے ساتھیوں کو ہدایت کی وہ اس کے سگنل کے منتظر رہیں۔ اس نے ایک خط تیار کیا جو ہر علاقے میں اس کے معتمدینِ خاص کو دوسرے علاقوں کے معتمدینِ خاص کی طرف سے پہنچایا گیا۔ اس میں لکھا تھا "پیارے بھائی۔ آپ خوش قسمت ہیں آپ کے علاقے میں اسلام زندہ ہے۔ گورنر دیانت دار ہے، انتظامیہ منصف مزاج ہے جبکہ میرے علاقے میں اسلام مردہ ہوچکا ہے۔ کوئی شخص اس پر عمل پیرا نہیں۔ گورنر شرابی اور عورتوں کا رسیا ہے۔ انتظامیہ بدعنوان ہے۔ بہتری کا کوئی امکان نہیں۔" اس طرح کے خطوط مسلسل مدینہ سے ہر شہر میں آئے اور اس کے معتمدین نے نمازوں کے بعد مساجد میں پڑھ کر سنائے اور اسی طرح ہر شہر سے ایسے ہی خطوط مدینہ آئے۔ پہلے پہل تو لوگوں نے کوئی توجہ نہ دی لیکن جب اس طرح کے خطوط مسلسل آنے لگے تو عوام میں ناراضگی پھیلنے لگی۔ بعض نے یہ اطلاعات خلیفہ(حضرت عثمانؓ) تک بھی پہنچائیں۔ اپنے معمول کے مطابق انہوں نے فوراً کاروائی کی اور لوگوں سے مشورہ کیا کہ کیا کرنا چاہئیے۔ فیصلہ ہوا کہ مدینہ سے با اعتماد اور غیر جانبدار لوگوں کو ان علاقوں کے دورے پر بھیجا جائے جہاں کے بارے میں شکایت کی گئی ہے کہ وہ اسلام سے دور ہوگئے ہیں اوریہ لوگ خود مشاہدہ کرکے الزامات کی تحقیقات کریں۔ بظاہر یہ لوگ گروپوں کی شکل میں نہیں گئے بلکہ ہر ایک اپنے لیے مقرر علاقے کی طرف گیا۔ طبری کے مطابق تمام نمائندے اپنے مقررہ وقت پر دارالحکومت پہنچ گئے اور یہی خبر لائے کہ نامعلوم افراد کی طرف سے عاید کیے جانے والے الزامات بے بنیاد ہیں اور حالات بہت اچھے اور معمول کے مطابق ہیں ۔تاہم بدقسمتی سے صوبوں میں اس قسم کا کوئی انتظام نہ کیا گیا جہاں لوگ حضرت عثمانؓ کے خلاف پھیلائی جانے والی بے بنیاد کہانیوں پر مسلسل یقین کرتے رہے۔صرف مصر جانے والے عمار بن یاسر رضی اللہ تعالی عنہ واپس نہ آئے اور مصر ہی میں ٹھہر گئے۔ کچھ ہی عرصہ بعد گورنر مصر نے خلیفہ کو رپورٹ بھجوائی کہ یہاں کچھ لوگوں نے عمار رضی اللہ تعالی عنہ کو چکر دے کر ساتھ ملا لیا ہے اور ان کے ساتھ جمع ہورہے ہیں جن میں عبداللہ بن السودا بھی شامل ہے۔ خلیفہ نے رواداری کا مظاہرہ کیا۔ طبری نے لکھا ہے کہ "شوال 35 ہجری میں ابن سبا نے مصر سے مدینہ کا سفر اختیار کیا۔ اس کے 600 کے لگ بھگ فدائی اس کے ساتھ تھے۔ اپنے آپ کو ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا رکھنے لیے انہوں نے اعلان کیا کہ وہ حج کے لیے جا رہے ہیں۔ ان کے ساتھ ہی بصرہ اورکوفہ سے بھی سبائی مدینہ کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ بلاشبہ یہ سب یہودی النسل نہیں تھے۔ ان میں بعض مخلص مسلمان بھی تھے جو اپنی سادگی کے باعث ان کے ہتھے چڑھ گئے تھے۔ سبائی پراپیگنڈہ کام دکھا رہا تھا اور ان سب کا مطالبہ یہ تھاکہ خلیفہ کو معزول کیا جائے جو تمام برائیوں کی جڑ ہے لیکن ان میں یہ اتفاق رائے نہیں ہورہا تھا کہ خلیفہ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو معزول کرکے کسی ان کی جگہ لایا جائے۔ مصریوں کا مطالبہ تھاکہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو خلیفہ مقرر کیا جائے۔ بصرہ کے سبائی حضرت طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں تھے جبکہ کوفی حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ بن عوام کے حامی تھے۔ عامۃ المسلمین کی حمایت حاصل کرنے کے لیے زمین بڑی احتیاط سے ہموار کی گئی۔ جو خطوط مدینہ سے بھجوائے گئے ان پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے دستخط کئے گئے تھے۔ جن میں مصریوں سے کہا گیا تھا کہ وہ مدینہ آئیں اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو خلافت کی گدی سے اتارنے میں ان کی مدد کریں (طبری)۔ دوسرے خطوط پر بی بی عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے دستخط تھے جن میں صوبوں کے لوگوں کو حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے خلاف بغاوت پر اکسایا گیا تھا [4]۔ جبکہ بعض خطوط پر حضرت طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کے دستخط کئے گئے [5]۔

واقعہ جمل

حضرت علی کے اور حضرت عائشہ دونوں اس بات پر متفق ہوگئے تھے کہ پہلے امن و امان قائم ہوجائے پھر حضرت عثمان کا قصاص لیا جائے۔ مگر جن لوگوں کو ان کی مصالحت کی وجہ سے اپنی جان کا خطرہ تھا، وہ دونوں کو لڑانے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ لڑائی کوفہ کے باہر خریبہ کے مقام پر ہوئی اس میں حضرت طلحہ و حضرت زیبر قتل ہوئے اور کوئی دس ہزار مسلمان کام آئے [حوالہ درکار]۔ اس جنگ میں حضرت عائشہ ایک اونٹنی پر سوار تھیں۔ (جمل کا مطلب ہے اونٹ اور اسی لیے اس جنگ کو جنگ جمل کہتے ہیں) ۔ حضرت علی نے ان پر غلبہ پانے کے بعد اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں۔ وہ بلبلا کر بیٹھ گئی ۔ تو حضرت عائشہ کی فوج کو شکست ہوئی۔ حضرت علی نے حضرت عائشہ کو بڑے احترام کے ساتھ مدینہ روانہ کر دیا۔ اس جنگ میں حضرت ابوبکر کے بیٹے یعنی حضرت عائشہ کے بھائی محمد بن ابی بکر جو حضرت علی کے قریبی اور پیارے صحابی تھے، حضرت علی کی طرف سے اپنی بہن کے خلاف لڑے۔

نتائج

جنگ جمل وہ جنگ تھی جو منافقین اور باغیوں نے بھڑکائی حضرت علی کی فوج میں موجودکچھ باغی تھے جنھوں نے سازش کر کے ام المومنین حضرت عائشہ اور حضرت علی کے درمیان ہونے والی رضامندی کو جنگ میں بدل دیا۔ اس رضامندی کے بعد حضرت علی، قاتلان عثمان کو سزا دینے اور عائشہ، طلحہ اور زبیر اور دیگر صحابہ علی کی بیعت کے لئے تیار ہوگئے تھے۔ لیکن منافقین نے جب یہ اتحاد دیکھا تو آپس میں منصوبہ بنایا کہ دونوں طرف باغی ایک دوسرے پر تیر پھینکیں گے اور حضرت علی کی فوج میں شامل باغی شور مچادیں گے کہ عائشہ کے لوگوں نے تیر پھینکے اور عائشہ کی فوج کی طرف تیر پھینکے جائیں گے تو جو باغی یہاں سے وہاں گئے وہ شور مچادیں گے کہ یہ علی کی فوج نے پھینکے۔ انھوں نے پھراسی طرح کیا اور اپنے منصوبے میں کامیاب ہوئے اور جنگ جمل ہوئی۔

اس جنگ میں حضرت علی کی فوج کے باغی مسلمانوں کو آپس میں لڑوانے میں کامیاب ہوئے اور جنگ جمل مسلمانوں کے درمیان لڑی جانے والی پہلی جنگ ہوئی جس میں بھائی نے بھائی کا خون بہایا۔ اس جنگ کے شعلے مزید بھڑکے اور حضرت امیر معاویہ نے قصاص عثمان کا مطالبہ کر دیا۔ اور شام میں بغاوت کی۔ جس کی سرکوبی کے لیے جنگ صفین لڑی گئی۔ یوں مسلمانوں کی عظیم ریاست چند باغیوں کی وجہ سے دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ اور اتحاد پارہ پارہ ہوگیا۔

حضرت علی کی اپنے فوج کے باغیوں کے بارے میں رائے

حضرت علی کی فوج میں ایک تعداد باغیوں اور قاتلان عثمان کی تھی اس لئے وہ خود بھی بے بس تھے کہ ان سے کس طرح جان چھڑا سکیں ۔ان فوجیوں اور باغیوں کے بارے میں علی کے الفاظ پڑھیے جو ـ"نہج البلاغہ "میں نقل ہوئے ہیں۔ "میں روز اول سے تمھاری غداری کے انجام کا انتظار کر رہا ہوں اور تمھیں فریب خوردہ لوگوں کے انداز سے پہچان رہا ہوں"(صفحہ 45)

"میں تو تم میں سے کسی کو لکڑی کے پیالہ کا بھی امین بناؤں تو یہ خوف رہے گا کہ وہ کنڈا لے بھاگے"(صفحہ 69)

"اپنے اصحاب کی سرزنش کرتے ہوئے(قوم)کب تک میں تمھارے ساتھ نرمی کا برتاؤ کروں خد ا کی قسم ذلیل وہی ہوگا جس کے تم جیسے مددگار ہوں گے۔خدا تمھارے چہروں کو ذلیل کرے۔"(صفحہ 119)

"خدا گواہ ہے کہ مجھے یہ بات پسند ہے کہ معاویہ مجھ سے درہم و دینار کا سودا کرلے کہ تم میں سے دس لے کر ایک دے دے۔(صفحہ 189)

اس طرح کے اقوال سے جو علی سے منسوب نہج البلاغہ میں بکھرے پڑے ہیں، کو پڑھ کر بخوبی اندازا ہوتا ہے کہ علی بھی اپنی فوج کے باغیوں سے تنگ تھے اور ان کا مکر و فریب اور ان کی بغاوت کو خوب جانتے تھے لیکن بے بس تھے۔

حوالہ جات

  1. ^ ا ب http://books.google.co.uk/books?id=axL0Akjxr-YC&pg=PT472&dq=Ali+20,000+battle+of+the+camel&hl=en&sa=X&ei=PNc-UresF4nAtQaZioGQCg&ved=0CDsQ6AEwAg#v=onepage&q=Ali%2020%2C000%20battle%20of%20the%20camel&f=false
  2. ^ ا ب Jibouri, Yasin T. Kerbalā and Beyond. Bloomington, IN: Authorhouse, 2011. Print. ISBN 1467026131 Pgs. 30
  3. ^ ا ب Muraj al-Thahab Vol. 5, Pg. 177
  4. ابن سعد i, III صفحہ 574
  5. ابن کثیر III، 175