"محمد یونس" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
clean up, Replaced: → , using AWB
م robot Modifying: jbo:mu'amad.djunus
سطر 59: سطر 59:
[[it:Muhammad Yunus]]
[[it:Muhammad Yunus]]
[[ja:ムハマド・ユヌス]]
[[ja:ムハマド・ユヌス]]
[[jbo:muhammad Yunus]]
[[jbo:mu'amad.djunus]]
[[ka:მუჰამედ იუნუსი]]
[[ka:მუჰამედ იუნუსი]]
[[kk:Мұхаммад Жүніс]]
[[kk:Мұхаммад Жүніс]]

نسخہ بمطابق 07:56، 9 اگست 2009ء

پروفیسر ڈاکٹر محمد یونس
پروفیسر ڈاکٹر محمد یونس نوبل انعام وصول کرنے کے بعد

پروفیسر ڈاکٹر محمد یونس (Professor Dr. Muhammad Yunus) تاریخ پیدائش 28 جون 1940ء بنگلہ دیش کے مسلمان بنکار ہیں۔ وہ انتہائی غریب لوگوں کو جو عام بنکاری نظام سے قرضہ لینے کے اہل نہیں کو چھوٹے قرضے دینے کے نظام کے بانی ہیں۔ اسکے علاوہ وہ گرامین بنک (Grameen Bank) کے بانی بھی ہیں۔ 2006ء میں انکو اور انکے بنک کو مشترکہ طور پر غریب لوگوں کی بہتری کے لیے کام کرنے پر اور سماجی خدمات کے شعبہ میں نوبل انعام دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر یونس انفرادی طور پر بھی کئی بین الاقوامی اعزازات بشمول بین الاقوامی خوراک کا انعام (ورلڈ فوڈ پرائز World Food Prize) جیت چکے ہیں۔ وہ بینکر ٹو دی پوور (Banker to the Poor) کے مصنف اور گرامین بنک کے بانی بھی ہیں۔

تعلیم

محمد یونس 8 جون 1940ء کو پیدا ہوئے۔ وہ ایک بینکر اور ماہر معاشیات ہیں وہ اپنے والدین کے نو بچوں میں سے سب سے بڑے ہیں۔ ان کے والد سنار تھے۔ محمد یونس کا بچپن گاؤں ہی میں گزرا ۔ 1944 میں ان کا خاندان چٹاگانگ شہر میں منتقل ہوگیا ۔ 1949ء میں ان کی والدہ ایک نفسیاتی عارضہ میں مبتلا ہوگئیں ۔ انہوں نے میٹرک کا امتحان چٹاگانگ کالجیٹ سکول سے پاس کیا۔ مشرقی پاکستان کے مجموعی 39000 ہزار طلبا و طالبات میں سے ان کی پوزیشن 16 ویں تھی۔ بعد ازاں انہوں انہوں نے چٹاگانگ کالج میں داخلہ لیا جہاں وہ نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں پیش پیش نظر آتے تھے ۔ 1957 میں وہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں داخل ہوگئے۔ 1960ء میں بی اے اور 1961ء میں ایم کر لیا

گریجویشن کرنے کے بعد محمد یونس بیورو آف اکنامکس میں ریسرچ اسسٹنٹ کے طور پر کام کرنے لگے۔ایم اے کے بعد انہیں چٹاگانگ کالج ہی میں معاشیات کے لیچکرر کے طور پر ملازمت مل گئی ۔ اسی دوران انہوں نے ایک پیکجنگ فیکٹری بھی قائم کر لی جس میں انہوں نے خاصا منافع کمایا۔ 1965میں انہیں فل برائٹ سکالر شپ کی پیشکش ہوئی چنانچہ وہ امریکہ چلے گئے ۔انہوں نے وینڈر بلٹ یونیورسٹی سے معاشیات میں پی ایچ ڈی کر لی۔

خدمات

1971 میں جب سقوط مشرقی پاکستان ہوا تو وہ ابھی امریکہ ہی میں تھے۔ انہوں نے وہاں دیگر بنگالیوں کے ساتھ مل کر سٹیزن کمیٹی اور بنگلہ دیش انفارمیشن سنٹر قائم کیا ۔ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد محمد یونس وطن واپس آ گئے اور چٹاگانگ یونیورسٹی کے اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ بن گئے۔ ان کے ساتھ انہوں نے اپنے معاشرے سے غربت کے خاتمے کی کوششیں شروع کر دیں۔

انہوں نے ’’رورل اکنامک پروگرام‘ُ‘ شروع کیا ۔ یہ ایک ریسرچ پراجیکٹ تھا۔ اس کے نتیجے میں وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ملک سے غربت کے خاتمے کا ایک ہی راستہ ہے کہ پورے ملک میں دیہاتی حکومتیں قائم کر دی جائیں۔ انہوں نے اس حوالے سے ایک زودار مہم چلائی۔ جنرل ضیاء الرحمن برسراقتدار آئے تو انہوں نے ملک کے 40 ہزار 3 سو 92 دیہاتوں میں حکومتیں قائم کر دیں۔

1976 میں انہیں خیال آیا کے چھوٹے چھوٹے قرضے دے کر غریب لوگوں کو مشکلات سے نکالا جاسکتا ہے ۔ اس سلسلے میں انہوں نے سب سے پہلا قرضہ اپنی جیب سے دیا جس کی مالیت 27 ڈالر بنتی تھی۔ اس رقم سے گائوں کی 42 خواتین نے مختلف چھوٹے چھوٹے کاروبار شروع کیے۔ بعد ازاں یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا گیا ۔ اس سلسلے نے ملکی برآمدات درآمدات پر غیر معمولی اثرات مرتب کیے۔

غربت کے خاتمے کے لیے چھوٹے قرضے دینے کا آئیڈیا نیا نہیں تھا۔ اس کے سب سے پہلے خالق پاکستان اکیڈمی فار رورل ڈیویلپمنٹ کے بانی ڈاکٹر اختر حمید خان تھے ۔ روایتی بینک اس آئیڈیا پر کام کرنے کو تیار نہیں تھے۔ ان کے اپنے تحفظات تھے تاہم محمد یونس کا کہنا تھا کہ غریبوں کو آسان اور چھوٹے قرضے دئیے جائیں تو نہ صرف وہ بروقت واپس کریں گے بلکہ اس سے ان کی اور ملک کی معاشی حالت بھی بہتر ہوگی۔

گرامین بنک

اسی اثنا میں محمد یونس حکومت کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ دسمبر 1976ء میں انہیں اس حوالے سے ایک غیر معمولی کامیابی نصیب ہوئی جب سرکاری جنتا بنک نے انہیں قرض دینے کی ہامی بھرلی ۔ اس طرح انہوں نے ایک ادارہ قائم کر لیا جسے دوسرے بنکوں نے بھی قرضے فراہم کرنے شروع کر دئیے ۔ 1982ء میں اس دارے کے ممبرز کی تعداد 28 ہزار تھے۔ یکم اکتوبر 1983ء کو یہ ادارہ باقاعدہ ایک بنک کی صورت اختیار کر گیا۔ اس کا نام ’’گرامین بنک‘‘ (دیہاتی بنک) رکھ دیا گیا۔ اس دوران محمد یونس کا سامنا بائیں بازو کے کٹر لوگوں سے بھی ہوا اور تنگ نظر مولویوں سے بھی مڈبھیڑ ہوئی جو کہتے تھے کہ وہ کسی ایسے فرد کا جنازہ نہیں پڑھائیں گے جو گرامین بنک سے قرضہ لے گا۔ ان مخالفتوں کے باوجود گرامین بنک کے حجم میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔ جولائی 2007ء کی رپورٹ کے مطابق یہ بنک 74 لاکھ لوگوں کو 6 اعشاریہ 38 ارب ڈالر کا قرضہ جاری کرچکا تھا۔

80 کی دہائی کے اواخر میں بنک نے کچھ نئے پراجیکٹ شروع کیے یعنی مچھلیوں کے تالاب اور ٹیوب ویل لگانا شروع کیے۔ بعد ازاں ایگریکلچر فاؤنڈیشن کی صورت میں باقاعدہ مکمل ادارے بن گئے ۔ صرف یہی نہیں بلکہ دیگر کئی ادارے بھی قائم کر دئیے گئے جن میں گرامین سافٹ وئیر لمیٹٹڈ گرامین سائبر لمیٹڈ، گرامین نیٹ وئیر ، گرامین فون بنگلہ دیش کی سب سے بڑی نجی کمپنی ہے۔ گرامین بنک سے قرضہ حاصل کرنے والوں میں خواتین کی شرح 94 فی صد ہے۔ خواتین کو قرضے دینے میں اس لیے خوشی محسوس کی جاتی ہے کہ خواتین خاندانوں کی فلاح و بہبود کے لیے زیادہ مخلص ہوتی ہیں۔

2006ء میں محمد یونس کو نوبل انعام دیا گیا۔ محمد یونس پہلے بنگلہ دیشی اور تیسرے بنگالی ہیں جنہوں نے یہ نوبل ایوارڈ حاصل کیا ۔ جب اس ایوارڈ کی خبر نشر ہوئی تو محمد یونس نے اس ایوارڈ سے ملنے والی رقم 14 لاکھ ڈاکٹر میں سے ایک حصے سے ایک ایسا ادارہ قائم کرنے کا اعلان کیا جو غریبوں کے لیے انتہائی سستی اور اعلیٰ معیار کی خوراک تیار کرے۔

محمد یونس کو نوبل ایوارڈ دلانے کے لیے سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے اہم کردار ادا کیا ۔کیلیفورنیا یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے بل کلنٹن کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر یونس ایسے شخص ہیں جنہیں بہت پہلے نوبل انعام مل جانا چاہیے تھا۔ معروف مغربی جریدے اکانومسٹ نے محمد یونس کو ایوارڈ دینے کی مخالفت کی ۔ اس کا لکھنا تھا کہ زیادہ بہتر ہوتا اگر نوبل ایوارڈ دینے والی کمیٹی یہ اعلان کر دیتی کہ اس انعام کا کوئی حقدار نہیں۔

2006ء کے اوائل میں محمد یونس اور سول سوسائٹی کے دیگر لوگوں نے ایک مہم چلائی جس میں کہا گیا کہ آئندہ انتخابات میں صرف دیانت دار اور صاف ستھرے لوگوں کو ہی امیدوار ہونا چاہیے۔ اس سال کے اواخر میں انہوں نے سیاست میں آنے کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ 11 فروری 2007ء کو محمد یونس نے عوام کے نام ایک کھلا خط لکھا جس میں کہا گیا کہ انہیں رائے دی جائے کہ وہ سیاست میں حصہ لے کر کیسے اچھی حکومت اور موزوں قیادت تیار کرنے کے لیے کردار ادا کر سکتے ہیں۔ 18 فروری 2007ء کو انہوں نے ’’ناگرگ شکتی ‘‘ کے نام سے پارٹی قائم کر لی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ پارٹی فوج کی حمایت یافتہ ہے۔ تاہم 3 مئی کو محمد یونس نے ملک کے نگران سربراہ فخر الدین احمد سے ملاقات کرکے اپنی سیاسی منصوبے ختم کرنے کا اعلان کیا۔

1967 میں جب محمد یونس وینڈربلٹ یونیورسٹی میں تھے کہ ان کی روشی طالبہ ویرافوروسٹینکو سے ملاقات ہوئی ۔ وہ روسی ادب کی طالبہ تھی۔ 1970ء میں نیو جرسی میں ان کی شادی ہوگئی۔ 1979ء میں ان کی بیٹی مونیکا یونس پیدا ہوئی تو کچھ ہی عرصے بعد ان کی طلاق ہوگئی ۔ دراصل ویرا کو بنگلہ دیش کا ماحول پسند آیا تھا اور وہ واپس جانا چاہتی تھی ۔ اس کا کہنا تھا کہ بیٹی کی پرورش افروز سے ہوئی جو مانچسٹر یونیورسٹی میں فزکس کے شعبے میں ریسرچر تھیں۔ محمد یونس کی اب تک پانچ تصانیف شائع ہوچکی ہیں۔ جس میں زیادہ تر دنیا میں غربت کے خاتمہ کے موضوع پر ہیں۔