"اسلامی سکہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
گروہ زمرہ بندی: حذف از زمرہ:تاریخ
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
(ٹیگ: القاب)
سطر 4: سطر 4:
==اموی عہد==
==اموی عہد==


عبدالملک کا دوسرا قابل فخر کارنامہ [[اسلامی سکہ|اسلامی سکوں]] کا اجرا ہے ابھی تک اسلامی مملکت کے تمام علاقوں میں [[بازنطینی سلطنت|رومی]] اور [[ساسانی سلطنت|فارسی]] سکے رائج تھے۔ یہ سکے سونے اور چاندی سے بنائے جاتے تھے۔ اور تمام تجارتی اور سرکاری لین دین ان ہی سکوں کے توسط سے ہوتا تھا۔ [[خلافت راشدہ]] کے زمانہ میں ابھی [[ساسانی سلطنت|فارسی]] [[درہم]] کے نمونہ پر سکے بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ [[معاویہ بن ابو سفیان|امیر معاویہ]] نے بھی اپنی عہد حکومت میں اپنے سکے جاری کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔ اس ناتمام کوشش کے بعد کسی بھی مسلمان حکمران سوائے حضرت [[عبداللہ ابن زبیر]] کے بھائی [[مصعب بن زبیر]] کے اس اہم قومی ضرورت کی طرف توجہ نہ دی مگر مصعب کے جاری شدہ سکے معیاری نہ تھے اور انھیں قبول عام حاصل نہ ہو سکا۔ عبدالملک نے خالص اسلامی سکوں کی ترویج کا آغاز کیا۔ اس نے [[بازنطینی سلطنت|رومی]] [[دینار]] و [[ساسانی سلطنت|فارسی]] [[درہم]] کے مقابلہ میں نئے درہم اور دینار جاری کئے جن پر '''(قل ھو اللہ احد)''' کی عبارت کندہ تھی۔ یہ سکے علی الترتیب چاندی اور سونے کے تھے۔ اس کے علاوہ ان سکوں پر تاریخ اور ٹکسال کا نام بھی درج کیا جاتا تھا۔ شہشاہ [[بازنطینی سلطنت]] نے اس انقلابی تبدیلی پر دھمکی دی کہ اگر عبدالملک نے اسلامی سکوں کا ڈھالنا بند نہ کیا تو وہ اپنے سکوں پر ایسے نازبیا کلمات درج کروائے گا جن سے '''رسول اللہ''' کی شان میں گستاخی ہو۔ عبدالملک نے اس دھمکی کا کوئی اثر نہ لیا اور اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ اسی وجہ سے شہشاہ [[بازنطینی سلطنت]] ، [[جستینی دوئم]] نے اعلان جنگ کر دیا، جس کے نتیجے میں [[جنگ سباستوپولیس]] 692ء میں لڑی گئی جس میں عبدالملک بن مروان کے سوتیلے بھائی [[محمد بن مروان]] نے بازنطینی سپہ سالار [[لئونتیوس]] کو شکست دے کر اس بحث کا خاتمہ کر دیا-
عبدالملک کا دوسرا قابل فخر کارنامہ [[اسلامی سکہ|اسلامی سکوں]] کا اجرا ہے ابھی تک اسلامی مملکت کے تمام علاقوں میں [[بازنطینی سلطنت|رومی]] اور [[ساسانی سلطنت|فارسی]] سکے رائج تھے۔ یہ سکے سونے اور چاندی سے بنائے جاتے تھے۔ اور تمام تجارتی اور سرکاری لین دین ان ہی سکوں کے توسط سے ہوتا تھا۔ [[خلافت راشدہ]] کے زمانہ میں ابھی [[ساسانی سلطنت|فارسی]] [[درہم]] کے نمونہ پر سکے بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ [[معاویہ بن ابو سفیان|امیر معاویہ]] نے بھی اپنی عہد حکومت میں اپنے سکے جاری کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔ اس ناتمام کوشش کے بعد کسی بھی مسلمان حکمران سوائے حضرت [[عبداللہ ابن زبیر]] کے بھائی [[مصعب بن زبیر]] کے اس اہم قومی ضرورت کی طرف توجہ نہ دی مگر مصعب کے جاری شدہ سکے معیاری نہ تھے اور انھیں قبول عام حاصل نہ ہو سکا۔ عبدالملک نے خالص اسلامی سکوں کی ترویج کا آغاز کیا۔ اس نے [[بازنطینی سلطنت|رومی]] [[دینار]] و [[ساسانی سلطنت|فارسی]] [[درہم]] کے مقابلہ میں نئے درہم اور دینار جاری کئے جن پر '''(قل ھو اللہ احد)''' کی عبارت کندہ تھی۔ یہ سکے علی الترتیب چاندی اور سونے کے تھے۔ اس کے علاوہ ان سکوں پر تاریخ اور ٹکسال کا نام بھی درج کیا جاتا تھا۔ شہشاہ [[بازنطینی سلطنت]] نے اس انقلابی تبدیلی پر دھمکی دی کہ اگر عبدالملک نے اسلامی سکوں کا ڈھالنا بند نہ کیا تو وہ اپنے سکوں پر ایسے نازبیا کلمات درج کروائے گا جن سے '''رسول اللہ''' کی شان میں گستاخی ہو۔ عبدالملک نے اس دھمکی کا کوئی اثر نہ لیا اور اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ اسی وجہ سے شہشاہ [[بازنطینی سلطنت]] ، [[جستینی دوم]] نے اعلان جنگ کر دیا، جس کے نتیجے میں [[جنگ سباستوپولیس]] 692ء میں لڑی گئی جس میں عبدالملک بن مروان کے سوتیلے بھائی [[محمد بن مروان]] نے بازنطینی سپہ سالار [[لئونتیوس]] کو شکست دے کر اس بحث کا خاتمہ کر دیا-


695ء ، 76ھ میں [[دمشق]] میں ٹکسال تعمیر کی گئی۔ [[حجاج بن یوسف]] نے [[کوفہ]] میں بھی ایسی ہی ایک ٹکسال قائم کی۔ [[سونا|سونے]] اور [[چاندی]] کے [[دینار]] میں بالعموم ایک اور دس کی نسبت تھی۔ اگرچہ اس نسبت میں بعض اوقات تبدیلیاں بھی ہوتی رہیں۔ اسلامی سکے کی معیار قدرو قیمت اور خوبصورتی کی بدولت بہت جلد اقوام عالم نے ان کو قبول کر لیا۔
695ء ، 76ھ میں [[دمشق]] میں ٹکسال تعمیر کی گئی۔ [[حجاج بن یوسف]] نے [[کوفہ]] میں بھی ایسی ہی ایک ٹکسال قائم کی۔ [[سونا|سونے]] اور [[چاندی]] کے [[دینار]] میں بالعموم ایک اور دس کی نسبت تھی۔ اگرچہ اس نسبت میں بعض اوقات تبدیلیاں بھی ہوتی رہیں۔ اسلامی سکے کی معیار قدرو قیمت اور خوبصورتی کی بدولت بہت جلد اقوام عالم نے ان کو قبول کر لیا۔

نسخہ بمطابق 04:56، 29 ستمبر 2016ء

اسلام کی آمدسے پہلے عرب میں ایرانی اوررومی سکّے چلتے تھے حضرت عمرؓ کے عہد مبارک میں ۱۸ھ؁ میں اسلامی سکّہ ڈھالاگیا۔آپؓ ایرانی درہم وزن کرائے تو اس میں سے بعض ۲۰قیراط کے بعد ۱۲ قیراط کے اوربعض ۱۰قیراط کے نکلے حضرت عمر نے ان تینوں کا مجموعہ لیکراس کا ثلث یعنی ۱۴قیراط درہم کا وزن قراردیا اس طرح درہم کا وزن سات مثقال ہوگیا یہ درہم کسروی درہم کے نمونے پرڈھالے گئے بعض کا نقش الحمدللہ بعض کالااللہ الا اللہ اوربعض کا محمدرسول اللہ قراردیاگیا۔ حضرت عثمان غنیؓ کے زمانۂ خلافت میں صرف دراہم ڈھالے گئے دینار نبومیہ کے عہد میں عبدالملک بن مروان کے زمانے میں ڈھالے گئے۔


اموی عہد

عبدالملک کا دوسرا قابل فخر کارنامہ اسلامی سکوں کا اجرا ہے ابھی تک اسلامی مملکت کے تمام علاقوں میں رومی اور فارسی سکے رائج تھے۔ یہ سکے سونے اور چاندی سے بنائے جاتے تھے۔ اور تمام تجارتی اور سرکاری لین دین ان ہی سکوں کے توسط سے ہوتا تھا۔ خلافت راشدہ کے زمانہ میں ابھی فارسی درہم کے نمونہ پر سکے بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ امیر معاویہ نے بھی اپنی عہد حکومت میں اپنے سکے جاری کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔ اس ناتمام کوشش کے بعد کسی بھی مسلمان حکمران سوائے حضرت عبداللہ ابن زبیر کے بھائی مصعب بن زبیر کے اس اہم قومی ضرورت کی طرف توجہ نہ دی مگر مصعب کے جاری شدہ سکے معیاری نہ تھے اور انھیں قبول عام حاصل نہ ہو سکا۔ عبدالملک نے خالص اسلامی سکوں کی ترویج کا آغاز کیا۔ اس نے رومی دینار و فارسی درہم کے مقابلہ میں نئے درہم اور دینار جاری کئے جن پر (قل ھو اللہ احد) کی عبارت کندہ تھی۔ یہ سکے علی الترتیب چاندی اور سونے کے تھے۔ اس کے علاوہ ان سکوں پر تاریخ اور ٹکسال کا نام بھی درج کیا جاتا تھا۔ شہشاہ بازنطینی سلطنت نے اس انقلابی تبدیلی پر دھمکی دی کہ اگر عبدالملک نے اسلامی سکوں کا ڈھالنا بند نہ کیا تو وہ اپنے سکوں پر ایسے نازبیا کلمات درج کروائے گا جن سے رسول اللہ کی شان میں گستاخی ہو۔ عبدالملک نے اس دھمکی کا کوئی اثر نہ لیا اور اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ اسی وجہ سے شہشاہ بازنطینی سلطنت ، جستینی دوم نے اعلان جنگ کر دیا، جس کے نتیجے میں جنگ سباستوپولیس 692ء میں لڑی گئی جس میں عبدالملک بن مروان کے سوتیلے بھائی محمد بن مروان نے بازنطینی سپہ سالار لئونتیوس کو شکست دے کر اس بحث کا خاتمہ کر دیا-

695ء ، 76ھ میں دمشق میں ٹکسال تعمیر کی گئی۔ حجاج بن یوسف نے کوفہ میں بھی ایسی ہی ایک ٹکسال قائم کی۔ سونے اور چاندی کے دینار میں بالعموم ایک اور دس کی نسبت تھی۔ اگرچہ اس نسبت میں بعض اوقات تبدیلیاں بھی ہوتی رہیں۔ اسلامی سکے کی معیار قدرو قیمت اور خوبصورتی کی بدولت بہت جلد اقوام عالم نے ان کو قبول کر لیا۔