"صارف:Manzoor khan 1" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
املاکی درستگی
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
اضافہ
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 15: سطر 15:
یہ دونو . متضاد ہیں .
یہ دونو . متضاد ہیں .
تو پھر کیوں نہ اپنی فطرت کے مطابق دنیا کو جنت بنا لیا جآئے . نظریات اور دین میں فرق واضع ہونا چاہیے ۔
تو پھر کیوں نہ اپنی فطرت کے مطابق دنیا کو جنت بنا لیا جآئے . نظریات اور دین میں فرق واضع ہونا چاہیے ۔
انسان کا بڑا مقام ہے . اپنی ذات کے خدائی صفت کی وجہ سے( وہ کہا جاتا ہے .اللہ کی ننانوے صفات ہیں . اور بےشک انسان کے خود کو کامل و اکمل کہنا اور ثابت کرنا فطری ہے ) ہر کوئی زمین پر خدا بنا بیٹھا ہے . اور یہ سب کا فطری حق ہے . یہی وجہ ہے . سب ہی اکٹنگ کرتے ہیں . اپنی بات منوآتے ہیں اپنے حصے کا لقمہ لے لیں تو نیند آتی ہے توازن توازن ترازو سبکا اپنا ہے ..

نسخہ بمطابق 17:52، 3 اکتوبر 2016ء

دین اور نظریہ دین اور نظریہ کو علیحدہ کر کے دنیا کو پرامن ماحول فراہم کیاجاسکتا ہے! الہامی کتابوں کی صورت میں رہنمائ کے ہوتے ہوئے انسانی نظریات کی کیا ضرورت ہے ؟ اس کے کیا نتائج سامنے آ رہے ہیں ؟ انسان کو اللہ نے بطور نائب دنیا میں بھیجا اور سارے معاملات میں رہ نمائ کیلئے کئ انسانونکے کردارکوپسندکرکے نشانیونکے ساتھ اپنے انبیا ؑ  کا انتخاب کیا ۔ بنی نوع انسان کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی تاکید کردی۔ اور بتا دیا کہ جو کوئ ان کی تقلیدکرے گا فلاح پائے گا تقلید نہیں کرے گا الجھتا رہے گا ۔۔ ان متبر و مقدس ہستیوں نے عملی ثبوت کے ساتھ واضح کیا،خراب فعل سے باز رہنے کو فلاح و بہبود کاراستہ بتایا۔ ان ہی انسانیت کے مخالف افعال کی راہیں پیدہ کرنے کیلیے مزھبی پیشواہ سامنے آتے ر ئے ۔ بغیر کسی سندکے اپنی نظریہ مطابق جنو ن کے بل پر ایک ہی دین میں تفرقے پیدہ کیے۔ ایک ہی دین کو تقسیم در تقسیم کرکے سارے بنی نوع انسان کا چین و سکون تہ و بالہ کر دیا۔ وقت آگیا ہے کہ انسان اپنی بنیاد کی طرف رجوع کر کے سکون کی جانب گامزن ہو جائے ۔ صحیفہ مستند خبر مراسلت و پیغام کا مجموعہ ہوتا ہے جو مفاد عامه کے مطابق ہو اور مقبول عام بھی ہو . کسی کی بھی طرف سے تر دید ممکن ہو نہ تنقید . تردید و تنقید کرنے کی جسارت کرنے والے از خود رجوح کر لیں یا مفقود ہو جایں . جسکی مثال پارسی و یہودی ہیں . جو صحیفوں کے منکر ہیں یا انسانی نظریات کی بنیاد پر آسمانی کتابوں پر انسانی تصورات کے زور پر ترمیم کو ترجیح دیتے رہے اس سے بڑی مثال مسلمانوں کی ہے جو نظریات کو بنیاد بناکر شیعہ سنی وہابی بریلوی شافی مالکی دیوبندی اہل حدیث اور نہ معلوم انسانی نظریات کو بنیاد بناکر کتنے فرقے بنا لئے . دین کو مذھب میں بدل کر صحیفہ آسمانی کو جو خود گواہ ہیے کہ اسلام دین حنیف ہے اور سابق آسمانی کتابوں کا تسلسل ہے کو اپنی اپنی رآئہے و رویے میں ڈھالنے کی ناکام کوشش کر کے تمام کلمہ گو مسلمانوں کو دنیا کے تنفر کا نشان بنا لیا نبیوں نے دین پھیلایا اور یہ نظریات کے الم بردار اتنے پھیلے کہ . عام عوم کو دنیا میں گھٹن ہو رہی ہے نظریات جو دین و ملت کے حوالے سے سامنے آئے . وہ ایسے ہے ہیں جسے جہنم کے دہانے پر کھرے کھڑے ہو کر ہو دوسروں کو دعوت دی جارہی ہو . براۓ کرم ہماری رہنمایی کریں . اور ہماری غلطیوں کو درست کریں .شکریہ . سلام پیش پیش خدمات وکیپیڈیا کے منتظمین کو کہ اس تنظیم نے بہروں کو کان . اندھوں کو روشنی اور گونگوں دے کر ضعیف و طاقتور کو یکساں سانس لائن کی آزادی فراہم کی . مالک نے اپنے نایب پر فخر اعتماد اور انحصار کر کے تخلیق کیا .بہت زیادہ قیمتی اثاثوں کے ساتھ افضل بنا کر ایک ہی کام سومپا کہ زمین کو جنت بنادو . اپنے لئے اور سب کیلئے . اور ساتھ ہی ایک منفی رجحان کی بھی نشان دیہی کر دی . اس طرح کہ اس کو سمجھنے کیلئے انسان ہی نہیں سارے جانداروں کی اپنی نظر کافی ہے . البتہ منفی سوچ کے لوگ اپنے نظریات کو مسلط کرنے کیلئے معاشرے میں جبر کی روش کی حوصلہ افزائی کیلئے اپنے نظریات بچتے ہیں . اب ان نظریات کے سوداگروں سے نجاہت کیلئے انسان بنیادی دین جو حضرت آدم سے شروح ہوا اور حضرت ابراھیم علیہ سلام پر مکمل ہوا ، کو پچانا جاۓ . کیونکہ انسانی نظریات نے زمین کو تنگ کر دیا ہے . دین. تمدن کا اظہار ہے نظریات . دھوکہ یہ دونو . متضاد ہیں . تو پھر کیوں نہ اپنی فطرت کے مطابق دنیا کو جنت بنا لیا جآئے . نظریات اور دین میں فرق واضع ہونا چاہیے ۔ انسان کا بڑا مقام ہے . اپنی ذات کے خدائی صفت کی وجہ سے( وہ کہا جاتا ہے .اللہ کی ننانوے صفات ہیں . اور بےشک انسان کے خود کو کامل و اکمل کہنا اور ثابت کرنا فطری ہے ) ہر کوئی زمین پر خدا بنا بیٹھا ہے . اور یہ سب کا فطری حق ہے . یہی وجہ ہے . سب ہی اکٹنگ کرتے ہیں . اپنی بات منوآتے ہیں اپنے حصے کا لقمہ لے لیں تو نیند آتی ہے توازن توازن ترازو سبکا اپنا ہے ..