"تلنگانہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 63: سطر 63:
==تاریخ==
==تاریخ==
ابھی جس علاقے کو تلنگانہ کہا جاتا ہے، اس میں آندھرا پردیش کے 23 اضلاع میں سے 10 اضلاع آتے ہیں. اس علاقے سے آندھرا پردیش کی 294 میں سے 119 اسمبلی نشستیں آتی ہیں. تلنگانہ کو 42 لوک سبھا سیٹوں میں سے 17 سیٹیں حاصل ہوئی ہے.تلنگانہ کو ایک الگ ریاست بنانے کی مانگ کی جاتی رہی ہے، اور اس کے لئے تحریک بھی چلائی گئی.
ابھی جس علاقے کو تلنگانہ کہا جاتا ہے، اس میں آندھرا پردیش کے 23 اضلاع میں سے 10 اضلاع آتے ہیں. اس علاقے سے آندھرا پردیش کی 294 میں سے 119 اسمبلی نشستیں آتی ہیں. تلنگانہ کو 42 لوک سبھا سیٹوں میں سے 17 سیٹیں حاصل ہوئی ہے.تلنگانہ کو ایک الگ ریاست بنانے کی مانگ کی جاتی رہی ہے، اور اس کے لئے تحریک بھی چلائی گئی.

ہندوستان کی ریاست آندھرا پردیش بروز پیر2جون 2014 کو باضابطہ طور پر2حصوں میںمنقسم ہو گئی جبکہ اس میں سے ملک کی 29 ویں ریاست تیلنلگانہ وجود میں آگئی ۔تیلنلگانہ کا قیام اتوار اور پیر کی درمیانی شب کو ہندوستان کے مقامی وقت کے مطابق رات12 بجے عمل میں آیا۔تلنگانہ ریاست آندھرا پردیش کے دارالحکومت حیدرآباد کے آس پاس کے10 اضلاع پر مشتمل ہے جبکہ حیدرآباد آئندہ دس برس کیلئے دونوں ریاستوں کا مشترکہ دارالحکومت رہے گا۔ان 10 برسوں میں آندھرپردیش کو اپنا الگ دارالحکومت بنانا ہو گا۔مقامی سیاسی جماعت تلنگانہ راشٹرسمیتی نے نئی ریاست کے قیام کیلئےگذشتہ 14 سال تک تحریک چلائی اور نئی ریاست میں اس کی پہلی حکومت ہو گی۔
ہندوستان کی ریاست آندھرا پردیش بروز پیر 2 جون 2014 کو باضابطہ طور پر 2 حصوں میں منقسم ہو گئی جبکہ اس میں سے ملک کی 29 ویں ریاست تلنگانہ وجود میں آگئی ۔تلنگانہ کا قیام اتوار اور پیر کی درمیانی شب کو ہندوستان کے مقامی وقت کے مطابق رات 12 بجے عمل میں آیا۔تلنگانہ ریاست آندھرا پردیش کے [[دار الحکومت]] حیدرآباد کے آس پاس کے 10 اضلاع پر مشتمل ہے جبکہ حیدرآباد آئندہ دس برس کیلئے دونوں ریاستوں کا مشترکہ دار الحکومت رہے گا۔ ان 10 برسوں میں آندھرپردیش کو اپنا الگ دار الحکومت بنانا ہوگا۔ مقامی سیاسی جماعت تلنگانہ راشٹر سمیتی نے نئی ریاست کے قیام کیلئےگذشتہ 14 سال تک تحریک چلائی اور نئی ریاست میں اس کی پہلی حکومت ہو گی۔
گذشتہ سال جولائی میں مرکز میں کانگریس کی سربراہی میں حکمراں اتحاد نے آندھراپردیش میں نئی ریاست تلنگانہ کے قیام کی منظوری دی تھی اور اس کے بعد رواں سال فروری میں ملک کے ایوان بالا نے تلنگانہ کے قیام کا بل منظور کیا تھا۔ اس فیصلے پر اس وقت آندھرا پردیش کے وزیراعلیٰ کرن کمار ریڈی احتجاجاً اپنے عہدہ سے مستعفی ہو گئے تھے۔آندھراپردیش کے شمالی اضلاع بشمول حیدرآباد پر مشتمل تلنگانہ ریاست کے قیام کا مطالبہ 1956 میں اس وقت سے کیا جا رہا تھا جبکہ تلگو بولنے والے مختلف علاقوں کو ملا کر آندھراپردیش کی تشکیل عمل میں آئی تھی۔ریاست اپنی تاریخ کے ایک بڑے حصے کے دوران ساحلی آندھرا کے زیادہ خوشحال اور بااثر طبقات کے کنٹرول میں رہی اور یہ شکایت عام رہی کہ انھوں نے غریب اور پسماندہ تلنگانہ کے ساتھ معاشی سماجی اور دوسرے شعبوں میں انصاف نہیں کیا۔چنانچہ وقفے وقفے سے تلنگانہ کو علاحدہ ریاست بنانے کا مطالبہ سر اٹھاتا رہا۔ 70-1969 میں اس مسئلہ پر پرتشدد احتجاج شروع ہوا جس میں 200 سے زیادہ لوگ مارے گئے۔2001 میں یہ مسئلہ اس وقت پھر شدت کے ساتھ اٹھا جبکہ تلگودیشم سے عیلحدگی اختیار کرنے والے چندر شیکھر راو نے تلنگانہ راشٹرسمیتی کے نام سے اپنی الگ پارٹی بنائی اور تلنگانہ کیلئے اپنی مہم کا آغاز کیا۔

رفتہ رفتہ یہ جماعت اتنی طاقتور ہوگئی کہ 2004کے انتخابات کیلئے کانگریس پارٹی کو اس علاقائی جماعت کے ساتھ اتحاد کرنا پڑا۔ہندوستان میں اس سے پہلے آخری بار 2012 میں تین نئی ریاستوں کا قیام عمل میں آیا تھا۔ ان میں مدھیہ پردیش کے مشرقی علاقوں پر مشتمل چھتیس گڑھ کے نام سے نئی ریاست بنائی گئی۔ اتر پردیش کے پہاڑی علاقوں پر مشتمل اتراکھنڈ ریاست اور ریاست بہار کے جنوبی علاقوں پر مشتمل جھار کھنڈ ریاست کا قیام عمل میں آیا تھا۔ندھراپردیش کے شمالی حصے میں نو اضلاع بشمول حیدرآباد پر مشتمل تلنگانہ ریاست کے قیام کا مطالبہ 1956 میں اس وقت سے کیا جارہا ہے جبکہ تلگو بولنے والے مختلف علاقوں کو ملا کر آندھراپردیش کی تشکیل عمل میں آئی تھی۔تاریخی اعتبار سے تلنگانہ کا علاقہ نظام حیدرآباد کی آصف جاہی سلطنت کا حصہ تھا۔ 1948 کے دوران ہندوستان میں حیدرآباد کے انضمام کے بعد تلنگانہ کو کچھ برسوں تک ایک الگ ریاست کی حیثیت حاصل رہی۔جب لسانی بنیادوں پر ریاستوں کی تشکیل جدید کیلئے فضل علی کمیشن قائم کیا گیا تو علاقہ کے عوام نے اپنے لئے ایک علاحدہ ریاست کے موقف کا مطالبہ کیا تھا لیکن اسے قبول نہیں کیا گیا اور اس علاقہ کو ساحلی آندھرا کے ساتھ ملا کر آندھراپردیش کا نام دیا گیا۔
جولائی 2016 میں مرکز میں [[کانگریس]] کی سربراہی میں حکمراں اتحاد نے آندھرا پردیش میں نئی ریاست تلنگانہ کے قیام کی منظوری دی تھی اور اس کے بعد فروری 2017 میں ملک کے ایوان بالا نے تلنگانہ کے قیام کا بل منظور کیا تھا۔ اس فیصلے پر اس وقت آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ کرن کمار ریڈی احتجاجاً اپنے عہدہ سے مستعفی ہو گئے تھے۔ آندھرا پردیش کے شمالی اضلاع بشمول حیدرآباد پر مشتمل تلنگانہ ریاست کے قیام کا مطالبہ 1956 میں اس وقت سے کیا جا رہا تھا جبکہ تلگو بولنے والے مختلف علاقوں کو ملا کر آندھرا پردیش کی تشکیل عمل میں آئی تھی۔ریاست اپنی تاریخ کے ایک بڑے حصے کے دوران ساحلی آندھرا کے زیادہ خوشحال اور بااثر طبقات کے کنٹرول میں رہی اور یہ شکایت عام رہی کہ انھوں نے غریب اور پسماندہ تلنگانہ عوام کے ساتھ معاشی سماجی اور دوسرے شعبوں میں انصاف نہیں کیا۔ چنانچہ وقفے وقفے سے تلنگانہ کو علاحدہ ریاست بنانے کا مطالبہ سر اٹھاتا رہا۔ 70-1969 میں اس مسئلہ پر پرتشدد احتجاج شروع ہوا جس میں 200 سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ 2001 میں یہ مسئلہ اس وقت پھر شدت کے ساتھ اٹھا جبکہ تلگو دیشم سے علاحدگی اختیار کرنے والے چندر شیکھر راو نے تلنگانہ راشٹر سمیتی کے نام سے اپنی الگ پارٹی بنائی اور تلنگانہ کیلئے اپنی مہم کا آغاز کیا۔
ریاست اپنی تاریخ کے ایک بڑے حصے کے دوران ساحلی آندھرا کے زیادہ خوشحال اور با اثر طبقات کے کنٹرول میں رہی اور یہ شکایت عام رہی کہ انہوں نے غریب اور پسماندہ تلنگانہ کے ساتھ معاشی سماجی اور دوسرے شعبوں میں انصاف نہیں کیا۔چنانچہ وقفے وقفے سے تلنگانہ کو علاحدہ ریاست بنانے کا مطالبہ سر اٹھاتا رہا۔ 70-1969 میں اس مسئلہ پر پرتشدد احتجاج شروع ہوا جس میں 200 سے زیادہ لوگ مارے گئے۔اس کے بعد ہونے والے انتخابات میں تلنگانہ کے عوام نے احتجاج کی قیادت کرنے والی تلنگانہ پرجا سمیتی کو بھاری اکثریت کے ساتھ منتخب کیا۔ لیکن انتخابات کے بعد اسی پارٹی نے قلا بازی کھائی اور خود کو کانگریس میں ضم کرلیا۔ اس دھوکا دہی سے تلنگانہ کے عوام اتنے بدظن ہوئے کہ اگلے دو تین دہایوں تک کسی نے بھی تلنگانہ ریاست کا نام نہیں لیا۔2001 کے دوران یہ مسئلہ اس وقت پھر شدت کے ساتھ اٹھا جبکہ تلگودیشم سے عیلحدگی اختیار کرنے والے چندر شیکھر راو نے تلنگانہ راشٹرسمیتی کے نام سے اپنی الگ پارٹی بنائی اور تلنگانہ کیلئے اپنی مہم کا آغاز کیا۔رفتہ رفتہ یہ جماعت اتنی طاقتور ہوگئی کہ 2004کے انتخابات کیلئے کانگریس پارٹی کو اس علاقائی جماعت کے ساتھ اتحاد کرنا پڑا۔اس موقع پر دونوں پارٹیوں کے درمیان یہ معاہدہ ہوا کہ کانگریس پارٹی تلنگانہ کے مسئلہ کو علاقہ کے عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرنے کی کوشش کرے گی۔ اور اس معاہدہ کی دونوں پارٹیوں نے اپنے اپنے نقطہ نظر سے تشریح کی۔ جہاں ٹی آر ایس کو امید تھی کہ یو پی اے کی حکومت جلد ہی آندھراپردیش کو دو حصوں میں بانٹ کر انہیں تلنگانہ ریاست تحفے کے طور پر پیش کرے گی جبکہ کانگریس پارٹی نے ہمیشہ کی طرح ٹال مٹول کا رویہ اختیار کیا اور اب اس کا یہ کہنا ہے کہ محض ریاستوں کی تنظیم جدید کے ایک اور کمیشن کے قیام کے ذریعہ یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔جہاں تک دوسری پارٹیوں کے موقف کا سوال ہے۔ تلگودیشم ، سی پی آئی اور سی پی آئی ایم آندھراپردیش کے بٹوارے کے خلاف ہیں۔ مجلس اتحاد السملمین جو اس علاقے میں مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی کرتی ہے وہ بھی علاحدہ تلنگانہ کے حق میں نہیں ہے۔ صرف بی جے پی نے ہی اپنا موقف تبدیل کرتے ہوئے اب تلنگانہ کی تائید کا اعلان کیا ہے۔چنانچہ جہاں اب اس مسئلہ پر گڑبڑ اور تشدد کے خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے وہیں اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ آگے چل کر ایک نیا سیاسی محاذ تشکیل پائے جس میں ٹی آر ایس اور بی جے پی کے علاوہ ایک تلگو اداکارہ وجے شانتی کی تلنگانہ تلی پارٹی بھی شامل ہو۔
رفتہ رفتہ یہ جماعت اتنی طاقتور ہوگئی کہ 2004کے انتخابات کیلئے کانگریس پارٹی کو اس علاقائی جماعت کے ساتھ اتحاد کرنا پڑا۔ ہندوستان میں اس سے پہلے آخری بار 2012 میں تین نئی ریاستوں کا قیام عمل میں آیا تھا۔ ان میں مدھیہ پردیش کے مشرقی علاقوں پر مشتمل چھتیس گڑھ کے نام سے نئی ریاست بنائی گئی۔ اتر پردیش کے پہاڑی علاقوں پر مشتمل اتراکھنڈ ریاست اور ریاست بہار کے جنوبی علاقوں پر مشتمل جھار کھنڈ ریاست کا قیام عمل میں آیا تھا۔آندھرا پردیش کے شمالی حصے میں نو اضلاع بشمول حیدرآباد پر مشتمل تلنگانہ ریاست کے قیام کا مطالبہ 1956 میں اس وقت سے کیا جارہا ہے جبکہ تلگو بولنے والے مختلف علاقوں کو ملا کر آندھرا پردیش کی تشکیل عمل میں آئی تھی۔ تاریخی اعتبار سے تلنگانہ کا علاقہ نظام حیدرآباد کی آصف جاہی سلطنت کا حصہ تھا۔ 1948 کے دوران ہندوستان میں حیدرآباد کے انضمام کے بعد تلنگانہ کو کچھ برسوں تک ایک الگ ریاست کی حیثیت حاصل رہی۔ جب لسانی بنیادوں پر ریاستوں کی تشکیل جدید کیلئے فضل علی کمیشن قائم کیا گیا تو علاقہ کے عوام نے اپنے لئے ایک علاحدہ ریاست کے موقف کا مطالبہ کیا تھا لیکن اسے قبول نہیں کیا گیا اور اس علاقہ کو ساحلی آندھرا کے ساتھ ملا کر آندھرا پردیش کا نام دیا گیا۔

ریاست اپنی تاریخ کے ایک بڑے حصے کے دوران ساحلی آندھرا کے زیادہ خوشحال اور با اثر طبقات کے کنٹرول میں رہی اور یہ شکایت عام رہی کہ انہوں نے غریب اور پسماندہ تلنگانہ عوام کے ساتھ معاشی سماجی اور دوسرے شعبوں میں انصاف نہیں کیا۔چنانچہ وقفے وقفے سے تلنگانہ کو علاحدہ ریاست بنانے کا مطالبہ سر اٹھاتا رہا۔ 70-1969 میں اس مسئلہ پر پرتشدد احتجاج شروع ہوا جس میں 200 سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ اس کے بعد ہونے والے انتخابات میں تلنگانہ کے عوام نے احتجاج کی قیادت کرنے والی تلنگانہ پرجا سمیتی کو بھاری اکثریت کے ساتھ منتخب کیا۔ لیکن انتخابات کے بعد اسی پارٹی نے قلا بازی کھائی اور خود کو کانگریس میں ضم کرلیا۔ اس دھوکا دہی سے تلنگانہ کے عوام اتنے بدظن ہوئے کہ اگلے دو تین دہایوں تک کسی نے بھی تلنگانہ ریاست کا نام نہیں لیا۔ 2001 کے دوران یہ مسئلہ اس وقت پھر شدت کے ساتھ اٹھا جبکہ تلگودیشم سے علاحدگی اختیار کرنے والے چندر شیکھر راو نے تلنگانہ راشٹرسمیتی کے نام سے اپنی الگ پارٹی بنائی اور تلنگانہ کیلئے اپنی مہم کا آغاز کیا۔ رفتہ رفتہ یہ جماعت اتنی طاقتور ہوگئی کہ 2004 کے انتخابات کیلئے کانگریس پارٹی کو اس علاقائی جماعت کے ساتھ اتحاد کرنا پڑا۔ اس موقع پر دونوں پارٹیوں کے درمیان یہ معاہدہ ہوا کہ کانگریس پارٹی تلنگانہ کے مسئلہ کو علاقہ کے عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرنے کی کوشش کرے گی۔ اور اس معاہدہ کی دونوں پارٹیوں نے اپنے اپنے نقطہ نظر سے تشریح کی۔ جہاں ٹی آر ایس کو امید تھی کہ یو پی اے کی حکومت جلد ہی آندھرا پردیش کو دو حصوں میں بانٹ کر انہیں تلنگانہ ریاست تحفے کے طور پر پیش کرے گی جبکہ کانگریس پارٹی نے ہمیشہ کی طرح ٹال مٹول کا رویہ اختیار کیا اور اب اس کا یہ کہنا ہے کہ محض ریاستوں کی تنظیم جدید کے ایک اور کمیشن کے قیام کے ذریعہ یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ جہاں تک دوسری پارٹیوں کے موقف کا سوال ہے۔ تلگودیشم، سی پی آئی اور سی پی آئی ایم آندھرا پردیش کے بٹوارے کے خلاف ہیں۔ مجلس اتحاد السلمین جو اس علاقے میں مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی کرتی ہے وہ بھی علاحدہ تلنگانہ کے حق میں نہیں ہے۔ صرف بی جے پی نے ہی اپنا موقف تبدیل کرتے ہوئے اب تلنگانہ کی تائید کا اعلان کیا ہے۔ چنانچہ جہاں اب اس مسئلہ پر گڑبڑ اور تشدد کے خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے وہیں اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ آگے چل کر ایک نیا سیاسی محاذ تشکیل پائے جس میں ٹی آر ایس اور بی جے پی کے علاوہ ایک تلگو اداکارہ وجے شانتی کی تلنگانہ تلی پارٹی بھی شامل ہو۔

== اضلاع ==
== اضلاع ==
تلنگانہ ریاست کے 31 اضلاء ہیں۔
تلنگانہ ریاست کے 31 اضلاء ہیں۔

نسخہ بمطابق 18:31، 13 جون 2017ء


తెలంగాణ
ریاست
بھارت کے نقشہ میں تلنگانہ کا مقام سرخ رنگ میں
بھارت کے نقشہ میں تلنگانہ کا مقام سرخ رنگ میں
ملک بھارت
ریاستتلنگانہ
رقبہ[1]
 • کل114,840 کلومیٹر2 (44,340 میل مربع)
رقبہ درجہ12 واں
آبادی (2011)
 • کل35,286,757
 • کثافت310/کلومیٹر2 (800/میل مربع)
زبانیں
 • دفتریتیلگو، اردو
منطقۂ وقتبھارتی معیاری وقت (UTC+05:30)
عظیم شہرحیدر آباد
ویب سائٹhttp://www.tg.gov.in

تلنگانہ (تیلگو: తెలంగాణ)، بھارت کی ریاست آندھرا پردیش سے الگ کر کے اس کو 2 جون 2014 کو ریاست کا درجہ دیا گیا۔[2] یہ صوبہ بھارت کے حیدرآباد نامی راجواڈے کے تیلگو زبان بولنے والے علاقوں سے مل کر بنا ہے. 'تلنگانہ' لفظ کا مطلب ہے 'تیلگو بولنے والوں کی زمین'.

30 جولائی 2013 کو کانگریس پارٹی نے جمہوریہ بھارت کے 29 ویں ریاست کے طور پر آندھرا پردیش سے تلنگانہ ریاست بنانے کے اپنے ارادے کا اعلان کیا تھا. نئی ریاست کی تعمیر کے لئے ایک وسیع دستور العمل مقرر کیا گیا تھا، اور اس دستور العمل کے لئے 122 دن، یا کم سے کم چار ماہ مختص کیے گئےتھے. سرکاری طور پر تقسیم ہونے سے بھارتی پارلیمنٹ کی طرف سے منظور کیا جانا لازمی ہوتا ہے۔ جس کی منظوری کے بعد اب اس کو ریاست کا درجہ مل گيا ہے۔

تاریخ

ابھی جس علاقے کو تلنگانہ کہا جاتا ہے، اس میں آندھرا پردیش کے 23 اضلاع میں سے 10 اضلاع آتے ہیں. اس علاقے سے آندھرا پردیش کی 294 میں سے 119 اسمبلی نشستیں آتی ہیں. تلنگانہ کو 42 لوک سبھا سیٹوں میں سے 17 سیٹیں حاصل ہوئی ہے.تلنگانہ کو ایک الگ ریاست بنانے کی مانگ کی جاتی رہی ہے، اور اس کے لئے تحریک بھی چلائی گئی.

ہندوستان کی ریاست آندھرا پردیش بروز پیر 2 جون 2014 کو باضابطہ طور پر 2 حصوں میں منقسم ہو گئی جبکہ اس میں سے ملک کی 29 ویں ریاست تلنگانہ وجود میں آگئی ۔تلنگانہ کا قیام اتوار اور پیر کی درمیانی شب کو ہندوستان کے مقامی وقت کے مطابق رات 12 بجے عمل میں آیا۔تلنگانہ ریاست آندھرا پردیش کے دار الحکومت حیدرآباد کے آس پاس کے 10 اضلاع پر مشتمل ہے جبکہ حیدرآباد آئندہ دس برس کیلئے دونوں ریاستوں کا مشترکہ دار الحکومت رہے گا۔ ان 10 برسوں میں آندھرپردیش کو اپنا الگ دار الحکومت بنانا ہوگا۔ مقامی سیاسی جماعت تلنگانہ راشٹر سمیتی نے نئی ریاست کے قیام کیلئےگذشتہ 14 سال تک تحریک چلائی اور نئی ریاست میں اس کی پہلی حکومت ہو گی۔

جولائی 2016 میں مرکز میں کانگریس کی سربراہی میں حکمراں اتحاد نے آندھرا پردیش میں نئی ریاست تلنگانہ کے قیام کی منظوری دی تھی اور اس کے بعد فروری 2017 میں ملک کے ایوان بالا نے تلنگانہ کے قیام کا بل منظور کیا تھا۔ اس فیصلے پر اس وقت آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ کرن کمار ریڈی احتجاجاً اپنے عہدہ سے مستعفی ہو گئے تھے۔ آندھرا پردیش کے شمالی اضلاع بشمول حیدرآباد پر مشتمل تلنگانہ ریاست کے قیام کا مطالبہ 1956 میں اس وقت سے کیا جا رہا تھا جبکہ تلگو بولنے والے مختلف علاقوں کو ملا کر آندھرا پردیش کی تشکیل عمل میں آئی تھی۔ریاست اپنی تاریخ کے ایک بڑے حصے کے دوران ساحلی آندھرا کے زیادہ خوشحال اور بااثر طبقات کے کنٹرول میں رہی اور یہ شکایت عام رہی کہ انھوں نے غریب اور پسماندہ تلنگانہ عوام کے ساتھ معاشی سماجی اور دوسرے شعبوں میں انصاف نہیں کیا۔ چنانچہ وقفے وقفے سے تلنگانہ کو علاحدہ ریاست بنانے کا مطالبہ سر اٹھاتا رہا۔ 70-1969 میں اس مسئلہ پر پرتشدد احتجاج شروع ہوا جس میں 200 سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ 2001 میں یہ مسئلہ اس وقت پھر شدت کے ساتھ اٹھا جبکہ تلگو دیشم سے علاحدگی اختیار کرنے والے چندر شیکھر راو نے تلنگانہ راشٹر سمیتی کے نام سے اپنی الگ پارٹی بنائی اور تلنگانہ کیلئے اپنی مہم کا آغاز کیا۔ رفتہ رفتہ یہ جماعت اتنی طاقتور ہوگئی کہ 2004کے انتخابات کیلئے کانگریس پارٹی کو اس علاقائی جماعت کے ساتھ اتحاد کرنا پڑا۔ ہندوستان میں اس سے پہلے آخری بار 2012 میں تین نئی ریاستوں کا قیام عمل میں آیا تھا۔ ان میں مدھیہ پردیش کے مشرقی علاقوں پر مشتمل چھتیس گڑھ کے نام سے نئی ریاست بنائی گئی۔ اتر پردیش کے پہاڑی علاقوں پر مشتمل اتراکھنڈ ریاست اور ریاست بہار کے جنوبی علاقوں پر مشتمل جھار کھنڈ ریاست کا قیام عمل میں آیا تھا۔آندھرا پردیش کے شمالی حصے میں نو اضلاع بشمول حیدرآباد پر مشتمل تلنگانہ ریاست کے قیام کا مطالبہ 1956 میں اس وقت سے کیا جارہا ہے جبکہ تلگو بولنے والے مختلف علاقوں کو ملا کر آندھرا پردیش کی تشکیل عمل میں آئی تھی۔ تاریخی اعتبار سے تلنگانہ کا علاقہ نظام حیدرآباد کی آصف جاہی سلطنت کا حصہ تھا۔ 1948 کے دوران ہندوستان میں حیدرآباد کے انضمام کے بعد تلنگانہ کو کچھ برسوں تک ایک الگ ریاست کی حیثیت حاصل رہی۔ جب لسانی بنیادوں پر ریاستوں کی تشکیل جدید کیلئے فضل علی کمیشن قائم کیا گیا تو علاقہ کے عوام نے اپنے لئے ایک علاحدہ ریاست کے موقف کا مطالبہ کیا تھا لیکن اسے قبول نہیں کیا گیا اور اس علاقہ کو ساحلی آندھرا کے ساتھ ملا کر آندھرا پردیش کا نام دیا گیا۔

ریاست اپنی تاریخ کے ایک بڑے حصے کے دوران ساحلی آندھرا کے زیادہ خوشحال اور با اثر طبقات کے کنٹرول میں رہی اور یہ شکایت عام رہی کہ انہوں نے غریب اور پسماندہ تلنگانہ عوام کے ساتھ معاشی سماجی اور دوسرے شعبوں میں انصاف نہیں کیا۔چنانچہ وقفے وقفے سے تلنگانہ کو علاحدہ ریاست بنانے کا مطالبہ سر اٹھاتا رہا۔ 70-1969 میں اس مسئلہ پر پرتشدد احتجاج شروع ہوا جس میں 200 سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ اس کے بعد ہونے والے انتخابات میں تلنگانہ کے عوام نے احتجاج کی قیادت کرنے والی تلنگانہ پرجا سمیتی کو بھاری اکثریت کے ساتھ منتخب کیا۔ لیکن انتخابات کے بعد اسی پارٹی نے قلا بازی کھائی اور خود کو کانگریس میں ضم کرلیا۔ اس دھوکا دہی سے تلنگانہ کے عوام اتنے بدظن ہوئے کہ اگلے دو تین دہایوں تک کسی نے بھی تلنگانہ ریاست کا نام نہیں لیا۔ 2001 کے دوران یہ مسئلہ اس وقت پھر شدت کے ساتھ اٹھا جبکہ تلگودیشم سے علاحدگی اختیار کرنے والے چندر شیکھر راو نے تلنگانہ راشٹرسمیتی کے نام سے اپنی الگ پارٹی بنائی اور تلنگانہ کیلئے اپنی مہم کا آغاز کیا۔ رفتہ رفتہ یہ جماعت اتنی طاقتور ہوگئی کہ 2004 کے انتخابات کیلئے کانگریس پارٹی کو اس علاقائی جماعت کے ساتھ اتحاد کرنا پڑا۔ اس موقع پر دونوں پارٹیوں کے درمیان یہ معاہدہ ہوا کہ کانگریس پارٹی تلنگانہ کے مسئلہ کو علاقہ کے عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرنے کی کوشش کرے گی۔ اور اس معاہدہ کی دونوں پارٹیوں نے اپنے اپنے نقطہ نظر سے تشریح کی۔ جہاں ٹی آر ایس کو امید تھی کہ یو پی اے کی حکومت جلد ہی آندھرا پردیش کو دو حصوں میں بانٹ کر انہیں تلنگانہ ریاست تحفے کے طور پر پیش کرے گی جبکہ کانگریس پارٹی نے ہمیشہ کی طرح ٹال مٹول کا رویہ اختیار کیا اور اب اس کا یہ کہنا ہے کہ محض ریاستوں کی تنظیم جدید کے ایک اور کمیشن کے قیام کے ذریعہ یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ جہاں تک دوسری پارٹیوں کے موقف کا سوال ہے۔ تلگودیشم، سی پی آئی اور سی پی آئی ایم آندھرا پردیش کے بٹوارے کے خلاف ہیں۔ مجلس اتحاد السلمین جو اس علاقے میں مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی کرتی ہے وہ بھی علاحدہ تلنگانہ کے حق میں نہیں ہے۔ صرف بی جے پی نے ہی اپنا موقف تبدیل کرتے ہوئے اب تلنگانہ کی تائید کا اعلان کیا ہے۔ چنانچہ جہاں اب اس مسئلہ پر گڑبڑ اور تشدد کے خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے وہیں اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ آگے چل کر ایک نیا سیاسی محاذ تشکیل پائے جس میں ٹی آر ایس اور بی جے پی کے علاوہ ایک تلگو اداکارہ وجے شانتی کی تلنگانہ تلی پارٹی بھی شامل ہو۔

اضلاع

تلنگانہ ریاست کے 31 اضلاء ہیں۔ 1۔ عادل آباد ضلعبھدرادری کوتاگوڈیم ضلعحیدرآباد ضلعجگتیال ضلعجنگاؤں ضلعجیاشنکر بھوپال پلی ضلعجوگولامبا گدوال ضلعکاماریڈی ضلعکریم نگر ضلع 10۔ کھمم ضلع 11۔ کومارم بھیم آصف آباد ضلع 12۔ محبوب آباد ضلع 13۔ محبوب نگر ضلع 14۔ منچیریال ضلع 15۔ میدک ضلع 16۔ میڈچل ضلع 17 ۔ ناگر کرنول ضلع 18۔ نلگونڈا ضلع 19۔ نرمل ضلع 20 أ نظام آباد ضلع 21۔ پیدا پلی ضلع 22۔ راجنا سرسیلا ضلع 23 ۔ رنگا ریڈی ضلع 24 ۔ سنگاریڈی ضلع 25 ۔ سدی پیٹ ضلع 26۔ سوریا پیٹ ضلع 27۔ وقارآباد ضلع۔ 28 ۔ وناپرتی ضلع 29۔ ورنگل رورل ضلع 30۔ ورنگل اربن ضلع 31۔ یادادری بھوواناگری ضلع

اہم دریا

مزید دیکھئے

حوالہ جات

بیرونی روابط