"راج کپور" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
گروہ زمرہ بندی: حذف از زمرہ:اداکار
سطر 74: سطر 74:
[[زمرہ:پنجابی شخصیات]]
[[زمرہ:پنجابی شخصیات]]



[[زمرہ:اداکار]]
[[زمرہ:ہدایت کار]]
[[زمرہ:ہدایت کار]]

نسخہ بمطابق 18:17، 9 اگست 2017ء

راج کپور

پیدائش: 14 دسمبر 1924ء

انتقال: 2 جون 1988ء

ہندوستان کے نامور اداکار اور ہدایت کار ۔ پشاور میں پیدا ہوئے۔فلموں میں ’کلیپ بوائے‘ کے طور پر اپنی فنی زندگی کا آغاز کرنے والے راج کپور نے نہ صرف اپنے والد پرتھوی راج کپور کی فنی وراثت کے دباؤ میں اپنا تخلیقی سفر طے کیا بلکہ اس میں اپنے لئے ایک مقام کی تراش خراش بھی کر ڈالی۔ شروع ہی سے بغیر کسی تعصب اور بغض کے مقبول عام انداز کو اختیار کرکے وہ چار دہائیوں تک فلم کے افق پر اداکار اور ہدایت کار کے طور پر راج کرتے رہے۔

بھارت کے علاوہ روس اور مشرق وسطیٰ تک دیکھے جانے والا یہ فنکار گو میٹرک کے امتحان میں فیل ہوگیا تھا لیکن آج ہندوستان کی یونیورسٹیوں میں سینیما پر موضوع تحقیق کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔

فنی سفر کا آغاز

راج کپور نے اپنے فنی سفر کا آغاز ہدایت کار کیدار شرما کے اسسٹنٹ کے طور پر کیا اور پھر سن انیس سو انتالیس میں بننے والی انہی کی فلم ’نیل کنول‘ میں ہیرو کے طور متعارف ہوئے۔ اس فلم میں ان کے مدمقابل مدھوبالا پہلی دفعہ ہیروئن کے طور پر آئیں۔


ہدایت کاری

راج کپور نے پہلی دفعہ اپنی فلم ’آگ‘ کی ہدایات دیں جو انیس سو اڑتالیس میں بنائی گئی۔ ایک سال بعد بننے والی ان کی اگلی فلم ’برسات‘ بہت مقبول ہوئی جس میں انہوں نے نرگس کے ساتھ کام کیا۔ اس کے بعد تو جیسے کامیابی کے دروازے ان پر کھلتے ہی چلے گئے اور ان کی ایک مخصوص ٹیم بنتی چلی گئی۔

کہانی اور مکالمہ نگار خواجہ احمد عباس، موسیقار شنکر جے کشن، گیت نگار حسرت جئے پوری اور شیلندرا اور گلوکار مکیش اور لتا منگیشکر کے بغیر ان کی فلمیں مکمل نہیں ہوتی تھیں لیکن ان تمام فلموں میں راج کپور کے علاوہ بنیادی ترین کردار نرگس کا تھا جسے وہ اپنی فلموں کی ’ماں‘ کا درجہ دیتے تھے۔


برسات

’برسات‘ سےراج کپور کی زندگی میں ایک اور شروعات بھی ہوئی۔ اُن کی نرگس کے ساتھ ایک کامیاب سکرین جوڑی بنی۔ اور اِسی دوران راج کپور نرگس کے کافی قریب آگئے جس وجہ سے دونوں نرگس اور راج کپور کو کئی سال تک کافی ذہنی تناؤ کا سامنا کرنا پڑا۔

راج کپور پہلے سے ہی کرشنا کپور سے شادی شدہ تھے اور یہ تناؤ کچھ اِس قدر بڑھ گیا کہ راج کپور کے کہنے پر نرگس نے کے آصف کی ’مغل اعظم‘ میں انار کلی کے رول سے اِنکار کر دیا تھا۔

اِنہی دنوں مشرقی بنگال سے آئے ہوئے کیمرامین رادھو کرماکر نے آر کے پروڈکشنس میں کام شروع کیااِور تبھی اُن کے ہاتھ لگا کے عباس کا محبوب خان کے لیے لکھا گیا سکرپٹ۔

یہ فلم ’آوارہ‘ کا سکرپٹ تھا ’آوارہ‘ بہت بڑی ہٹ ثابت ہوئی اور اِس فلم نے راج کپور کو چارلی چیپلن سے مماثلت رکھتی ہوئی ایک نئی شخصیت دے دی۔ اِسی پرسونا کو اُنہوں نے ’شری 420‘ اور ’جس دیش میں گنگا بہتی ہے‘ جیسی فلموں کے لیے اِستحمال کیا۔

اِسی دوران اِن کی تین اور فلمیں ریلیز ہوییں جو تھی ’بوٹ پالش‘، ’اب دلی دور نہیں‘ اور ’جاگتے رہو‘۔ تینوں فلمیں زیادہ کامیاب نہ رہیں۔ ’اب دلی دور نہیں‘ اُن کے کیریر کی سب سے کمزور فلم تھی۔ ناکامی کے اِس مختصر دور کے بارے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اِسی دور میں نرگس اور راج کپورعلیحدہ ہوگئے تھے اور نرگس نے سنیل دت کے ساتھ شادی کر لی۔

یہ دور راج کپور کے لیے کافی مشکل تھا جو آخر کار ’جس دیش میں گنگا بہتی ہے‘ کے ساتھ ختم ہوا- اِس فلم میں اُنہوں نے ساوتھ اِنڈیا کی ایک مشہور اداکارا پدمنی کو ہیروین لیا۔ اُن کی اگلی فلم ’سنگم‘ میں بھی راج کپور نے ساوتھ کی اداکارا ویجنتی مالا کو کاسٹ کیا۔ یہ فلم ’انداز‘ سے کافی ملتی جُلتی تھی اور باکس آفس پہ بڑی ہٹ رہی۔

لیکن اِس فلم کے لیے پہلے دلیپ کمار کو راجندر کمار کا رول آفر کیا گیا۔ اگر دلیپ کمار نے یہ آفر تسلیم کر لیا ہوتا تو شائد ’سنگم‘ ایک اُتنی ہی بڑی اور یاد گار فلم ثابت ہوتی جتنی کہ ’انداز‘- لیکن دلیپ کمار کا فیصلہ شائد غلط نہ تھا کیوں کہ ’سنگم‘ میں وہ راج کپور کے ساتھ پردے پر نظر تو آتے مگر کیسے یہ تو بحیثیت ڈایریکٹرخود راج کپور کے ہی ہاتھ میں تھا۔ ویسے بھی دلیپ کمار کو جوبھی ثابت کرنا تھا وہ ’انداز‘ فلم میں کر چکے تھے۔

’جس دیش میں گنگا بہتی ہے‘ اور ’سنگم‘ کی شوٹنگ کے دوران راج کپور کا نام اُن کی ہیروئینوں سے پھر جوڑا گیا اور بات یہاں تک پہنچی کہ اِن فلموں کے مکمل ہوتے ہی پدمنی اور وے جینتی مالا کی اُن کے گھر والوں نے شادی کرا دی۔

میرا نام جوکر

میں چھ سال تک بننے والی اپنی پسندیدہ فلم ’میرا نام جوکر‘ کے فلاپ ہونے پر بہت دلبرداشتہ رہے لیکن انہوں نے اس تکلیف دہ ناکامی کی راکھ سے اٹھ کر پھرکامیاب فلمیں بنانا سیکھا۔

انہوں نے میرا نام ہے جوکر کے بعد مقبول اداکارہ ڈمپل کپاڈیا کو اپنی فلم ’بوبی‘ میں متعارف کرایا جس کے بعد زینت امان کی ’ستیم، شوم، سندرم‘ اور دیویا رانا کی’رام تیری گنگا میلی ہوگئی` جیسی فلمیں بنائیں۔ گو اس میں کوئی شک نہیں کہ ان فلموں کی ہیروئنیں حالات کی شکار عورتوں کے کردار میں آئیں لیکن ان فلموں پر ہیروئنوں کے بدن کی نمائش کا الزام بھی لگتا رہا ہے۔

’حنا‘ راج کپور کی آخری فلم تھی لیکن اِس کا ذمہ وہ اپنے بڑے بیٹے رندھیر کپور کو سونپ چکے تھے- ویسے بھی زیبا بختیار کے ساتھ بنائی گئی آر کے پروڈکشنس کی اِس فلم سے اُمید کم ہی تھی لیکن یہ فلم بھی کافی چلی۔

صدمے

راج کپور جی پر دو بڑے صدمے گزرے لیکن وہ اپنی طبعی خوش دلی اور ’میرا نام جوکر‘ جیسے انداز سے انہیں سہار کر آگے بڑھ گئے۔ ان میں سے پہلا صدمہ تھا جب نرگس اپنی گھریلو زندگی کو فلم کی دنیا پر فوقیت دیتے ہوئے گھر کی ہوگئیں۔ اور دوسرا ان کی چھ سالوں میں مکمل ہونے والی فلم ’میرا نام جوکر‘ کا بری طرح فلاپ ہونا تھا۔

کی اپنی زندگی کے واقعات پر مبنی تھی۔ فلم کا مرکزی کردار ایک مسخرہ ہے جو دنیا کو اپنے آنسو چھپا کر ہنسانے کی کوشش کرتا ہے۔ انہوں نے ایک دفعہ فنکار کے فن میں اس کی زندگی کے در آنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’لوگ ڈائری لکھتے ہیں میں فلمیں بناتا ہوں۔ میری زندگی ان فلموں کا حصہ ہے جہاں ہر واقعے، ہر رنگ کی چمک ماضی کی یاد میں محفوظ ہو جاتی ہے۔

ان کا عہد جو دلیپ کمار کی المیہ اداکاری کے سائے میں گھرا رہا، اس میں راج کپور حقیقتاً ایک جوکر ہی کی طرح لوگوں کے لئے مسکراہٹیں تخلیق کرتے تھے تاہم انکا آنسو چھپانے کا فن انہیں دلیپ کمار سے کہیں زیادہ المیہ اور بہادر کردار کا درجہ ادا کر گیا۔

دو مئی سن انیس سو اٹھاسی کی رات راج کپور ہندوستانی فلموں میں اپنی گراں مایہ خدمات کے لئے داد صاحب پھلکے ایوارڈ لینے کیلئے آئے لیکن دمے کے ایک اچانک دورے کے سبب سٹیج پر آکر اپنا ایوارڈ وصول نہ کرسکے۔ اس سے ٹھیک ایک مہینے بعد وہ دل کا دورہ پڑنے سے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔