"معرکہ بلاط الشہداء" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
گروہ زمرہ بندی: حذف از زمرہ:تاریخ اسلام
سطر 56: سطر 56:
[[زمرہ:فرانس میں اسلام]]
[[زمرہ:فرانس میں اسلام]]



[[زمرہ:تاریخ اسلام]]
[[زمرہ:تاریخ ہسپانیہ]]
[[زمرہ:تاریخ ہسپانیہ]]



نسخہ بمطابق 14:07، 17 اگست 2017ء

جنگ دربار شہداء
جنگ بلاط الشہداء
غال پر اموی حملے
سلسلہ اسلامی فتوحات،غال کی اسلامی فتح  ویکی ڈیٹا پر (P361) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عمومی معلومات
ملک فرانس  ویکی ڈیٹا پر (P17) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مقام پوئتیے  ویکی ڈیٹا پر (P276) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
47°23′37″N 0°41′21″E / 47.39361111°N 0.68916667°E / 47.39361111; 0.68916667  ویکی ڈیٹا پر (P625) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
متحارب گروہ
آل ميروفنجيان فرنگی خلافت امویہ
قائد
چارلس مارٹل عبدالرحمن الغافقی
قوت
نامعلوم، ممکنہ طور پر 20 سے 30 ہزار نامعلوم، ممکنہ طور پر 20 سے 30 ہزار
نقصانات
1500 ہلاکتیں 10 ہزار ہلاکتیں بشمول عبدالرحمن الغافقی
Map

جنگ دربار شہداء (عربی زبان:معرکہ بلاط الشہداء اور انگریزی زبان: Battle of Tours)، 10 اکتوبر 732ء (114ھ) کو موجودہ فرانس کے شہر تورز (فرانسیسی زبان میں توغ) کے قریب لڑی گئی جس میں اسپین میں قائم خلافت بنو امیہ کو فرنگیوں کی افواج کے ہاتھوں شکست ہوئی۔

اندلس کی فتح کے وقت سے مسلمانوں کی یہ خواہش تھی کی وہ فرانس پر قبضہ کریں۔ فرانس پر باقاعدہ حملہ ہشام کے زمانہ میں ہوا جس کے بدولت مسلمان وسط فرانس تک پیش قدمی کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

عنبسہ کا حملہ

107ھ میں عنبسہ امیر اندلس نے غال پر باقاعدہ لشکر کشی کی اور قرقشونہ فتح کیا۔ قرقشونہ کی فتح کی بنا پر سپٹی مینیا کا تمام علاقہ کی اطاعت قبول کر لی۔ سپٹی مینیا کے بعد عنبسہ غال کے اندرونی حصے کی طرف بڑھا اور دریائے رہون کی وادی کو روندتے ہوئے لیابس فتح کیا۔ اس کے بعد برگنڈی کا رخ کیا اور شہر اوٹن تک کے علاقہ کو زیر و زبر کردیا۔ اس دوران امیر عنبسہ چند دیہاتیوں کے ہاتھوں زخمی ہو گئے لٰہذا عروہ بن عبداللہ کو اپنا جانشین نامزد کر دیا۔ زخم کاری تھے جن سے وہ جانبر نہ ہو سکے۔ یکے بعد دیگرے چند والیوں کا تقرر کیا گیا لیکن بالاخر امیر عبدالرحمن بن عبداللہ الغافقی اندلس کے والی مقرر کئے گئے ۔

عبدالرحمن الغافقی کی تقرری

والی اندلس کی حیثیت سے امیر عبدالرحمٰن کا تقرر تاریخ اسلام کا نہایت ہی اہم واقعہ ہے۔ امیر عبدالرحمن ایک نہایت ہی اولوالعزم، حوصلہ مند، مدبر اور منتظم حکمران تھا۔ وہ عوام الناس کے مختلف طبقوں میں یکساں ہر دلعزیز تھا۔ اس نے حکومت اندلس کی تمام خرابیاں دور کرکے نظم و نسق کی اصلاح کی اور پھر فرانس کی باقاعدہ تسخیر کا منصوبہ بنایا۔ رضاکاروں ، مجاہدوں اور باقاعدہ فوج پر مشتمل یہ لشکر جس کی تعداد تقریباً 70 ہزار تھی۔ 114ھ / 724ء میں فرانس کی حدود میں داخل ہونے کے لیے روانہ ہوا مسلمانوں کا اس سے زیادہ شاندار لشکر اور اس سے زیادہ قابل جرنیل ابھی تک فرانس کی حدود میں داخل نہیں ہوا تھا۔ دوران سفر اطلاع ملی کہ صوبہ دار سرحد عثمان نے ایک فرانسیسی امیر ڈیوک آف ایکی ٹین کی لڑکی سے شادی کر لی ہے اور بغاوت پر آمادہ ہے امیر عبدالرحمن نے فوراً اس کی سرکوبی کے لیے فوج روانہ کی عثمان مارا گیا۔

غال پر حملہ

عبدالرحمن اب غال کے حدود میں داخل ہوگیا۔ وادی رہون مسلمانوں کے قدموں میں تھی۔ مخالف قوتیں خس و خاشاک کی طرح بہتی جارہی تھیں۔ معمولی سی مزاحمت کے بعد مسلمان افواج نے ارلس کے شہر پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد کوہ پائرینیس کو پار کرنے کے بعد بورڈیکس کے شہر کو سر کرتے ہوئے اسامی لشکر برگنڈی کی طرف بڑھا ۔ راستہ میں دریائے ڈارون کے کنارے ڈیوک آف ایکی ٹین نے راہ روکنے کی کوشش کی مگر منہ کی کھائی اور کثیر مالی و جانی نقصان کے بعد راہ فرار اختیار کی۔ اس زمانہ میں فرنگیوں کا بادشاہ تھیوڈور سوم تھا لیکن اصل طاقت پیرس کے میر چارلس مارٹل کے ہاتھوں میں تھی۔ غال کے قومی دفاع کا ذمہ دار درحقیقت یہی شخص تھا۔ چنانچہ ایکی ٹین کے ڈیوک نے چارلس مارشل سے امداد طلب کی ۔ غال موت و زیست کے مسئلہ سے دوچار تھا ۔ چنانچہ یورپ کے دیگر ممالک سے بھی غال کے لیے امدادی فوجیں روانہ کی گئیں۔ عیسائی دنیا مسلمانوں کے خلاف آخری معرکہ آرائی کے لیے اب پوری طرح مستعد تھی۔ چنانچہ چارلس مارٹل اپنی افواج کے ساتھ توغ کے قریب اسلامی افواج کے مدمقابل خیمہ زن ہوا۔

جنگ

مسلمانوں اور عیسائیوں کی تعداد کا کوئی مقابلہ نہ تھا۔ علاوہ ازیں مسلمان افواج میں بربر اور عرب گروہ کے درمیان کشیدگی موجود تھی۔ مال غنیمت کی فراوانی بھی ان کی جنگ سے جی چرانے پر مجبور کر رہی تھی۔ لیکن امیر عبدالرحمن نے اپنی پر تاثیر شخصیت سے کام لے کر فوج میں نئی روح پھونک دی اور مقابلہ آرائی کے لیے تیار کیا۔ ایک ہفتہ افواج آمنے سامنے پڑی رہیں لیکن امیر سے اب ضبط نہ ہو سکا۔ بڑھ کر حملہ کر دیا صبح سے شام تک خونریز جنگ ہوئی مگر رات پھیل جانے کے سبب دوسرے دن تک ملتوی کر دی گئی مسلمان بڑی بہادری اور خوش دلی سے میدان جنگ میں اترے تھے انہیں اپنی فتح کا کامل یقین تھا سات آٹھ روز تک چھوٹی چھوٹی جھڑپیں ہوتی رہیں۔ نویں دن دونوں فوجوں کے درمیاں صبح سے شام تک بڑی خوفناک جنگ ہوئی لیکن یہ معرکہ آرائی بھی فیصلہ کن نہ تھی ۔ دسویں دن علی الصبح ہی جنگ کا آغاز کر دیا گیا دنوں اطراف سے بڑھ بڑھ کر ایک دوسرے پر حملے ہوتے رہے تلواروں کی جھنکار اور گھوڑوں کی ہنہناہٹ سے میدان جنگ میں عجیب شور محشر برپا تھا۔ مسلمانوں کا پلہ بھاری تھا اور آثار دکھائی دے رہے تھا کہ عیسائی فوج تھک ہار کر اب میدان سے پسپا ہونے کو ہے کہ اچانک ایک شخص نے افواہ اڑا دی مسلمانوں کا مال غنیمت خطرے میں ہے۔ مال غنیمت کے چھکڑے کے چھکڑے لدے ہوئے ساتھ تھے۔ سپاہی دوڑ کر اپنے خیموں پر ٹوٹ پڑے تاکہ مال غنیمت کی حفاظت کر سکیں اس افراتفری کو روکنے کے لیے امیر عبدالرحمن نے بڑی کوشش کی لیکن بے سود ۔ عین اس وقت جب کہ وہ اپنی افواج کو منظم کرنے میں لگے ہوئے تھے ایک تیر آکر انہیں لگا اور وہ گھوڑے سے نیچے گر گئے۔ امیر کی عدم موجودگی میں فوج میں ابتری پھیل گئی اور فتح کی امید جب ایک واہمہ بنتی نظر آئی تو بڑی تیزی سے یہ لشکر رات کی تاریکی میں جنوب کی طرف سے اپنے فوجی مرکز سپٹی مینیا تک پسپا ہوگیا۔ صبح طلوع ہوئی تو میدان صاف اور خاموش پا کر عیسائی افواج حیران و ششدر رہ گئیں انہیں یقین نہیں آرہا تھا کہ مسلمان فوج مال غنیمت کے انبار چھوڑ کر پسپائی اختیار کر چکی ہے۔ وہ اسے کوئی جنگی چال سمجھتے ہوئے برے حزم و احتیاط کے ساتھ میدان میں قدم رکھ رہے تھے۔ بہرحال چارلس مارشل نے تعاقب مناسب نہ سمجھا اور اپنی افواج کے ساتھ شمال کی طرف واپس چلا گیا۔

اہمیت

معرکہ بلاط الشہداء اپنی اہمیت کے لحاظ سے دنیا کی 15 اہم جنگوں میں شمار کی جاتی ہے ۔ یہ کہنا درست ہے کہ توغ کے قریب میدان میں مسلمانوں نے دنیا کی حکومت کھو دی۔ اگر مسلمان کامیاب ہو جاتے تو آج یورپ کی تاریخ کا رخ کسی اور طرف ہوتا۔ فرانس کے بعد انگلستان یقیناً اسلامی حملہ کی مزاحمت نہ کر سکتا اور یورپ آج نیلی آنکھوں والی سفید آریائی نسل کی بجائے سیاہ آنکھوں والی سامی نسل کا مسکن ہوتا۔

مشہور مورخ ایڈورڈ گبن نے اپنی معرکہ آرا تاریخ "تاریخ زوال روما" میں لکھتا ہے:

the Rhine is not more impassable than the Nile or Euphrates, and the Arabian fleet might have sailed without a naval combat into the mouth of the Thames. Perhaps the interpretation of the Koran would now be taught in the schools of Oxford, and her pulpits might demonstrate to a circumcised people the sanctity and truth of the revelation of Mahomet.

دریائے رائن نیل یا فرات سے زیادہ گہرا نہیں ہے۔ عرب بحری بیڑا بغیر لڑے ہوئے ٹیمز کے دہانے پر آ کھڑا ہوتا۔ عین ممکن ہے کہ آج آکسفرڈ میں قرآن پڑھایا جا رہا ہوتا اور اس کے میناروں سے پیغمبرِ اسلام کی تعلیمات کی تقدیس بیان کی جا رہی ہوتی۔ [1]

حوالہ جات