"مزار بہاء اللہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 8: سطر 8:
[[عبد البہاء]] کی وفات کے بعد [[مرزا محمد علی]] اور اس کے حمایتی مزار پر قابض ہوگئے، انہوں جنوری 1922ء میں جبراً مزار کی چابیاں چھین لیں۔<ref name="wilson">{{cite web | title=The Dispensation of Baha'u'llah: Its Continuing Place In History | last = Wilson | first = Helen T. | date = April 2000 | url = http://bahai-library.com/wilson_dispensation_bahaullah | accessdate = 2006-08-12 | publisher = bahai-library.com}}</ref> گورنرِ [[عکہ]] نے چابیوں کو صاحبان اختیار اور مزار پر تعینات گارڈ کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔<ref name="wilson"/> ابتدائی 1923ء میں چابیاں [[شوقی آفندی]] کو واپس مل گئیں۔<ref name="wilson"/> 1950ء کی دہائی میں شوقی آفندی مزار کی مستقبل کی بالائی تعمیر (superstructure) کے منصوبے بنا چکا تھا، جس میں پورے علاقے کی تعمیر اور اس میں 95 ماربل کالموں (ہر ماربل کالم 6 میٹر بلند) کے ساتھ ایک چبوترا شامل کرنا تھا۔<ref>{{cite book |first=اگو |last=گیاچری | authorlink = :en:Ugo Giachery |year=1973 |title=شوقی آفندی&nbsp;— ری کلکشنز |publisher=جارج رونالڈ |location=آکسفورڈ، برطانیہ |isbn=0-85398-050-0 | pages = 132–134, 137}}</ref> شوقی آفندی نے مزار کو ”دریائے نور“ (روشنی کا سمندر) کا نام دیا جو ”کوہِ نور“ (روشنی کا پہاڑ، [[مزار باب]]) کے سائے تلے تھا۔<ref>{{cite journal | title = بہاء اللہ اور اس کا مقدس مزار | first = ذکر اللہ | last = خادم | authorlink = ذکر اللہ خادم | journal = بہائی نیوز |date=مارچ 1976 | page = 15 | url = http://bahai-library.com/bahai_news | issue = 540}}</ref>
[[عبد البہاء]] کی وفات کے بعد [[مرزا محمد علی]] اور اس کے حمایتی مزار پر قابض ہوگئے، انہوں جنوری 1922ء میں جبراً مزار کی چابیاں چھین لیں۔<ref name="wilson">{{cite web | title=The Dispensation of Baha'u'llah: Its Continuing Place In History | last = Wilson | first = Helen T. | date = April 2000 | url = http://bahai-library.com/wilson_dispensation_bahaullah | accessdate = 2006-08-12 | publisher = bahai-library.com}}</ref> گورنرِ [[عکہ]] نے چابیوں کو صاحبان اختیار اور مزار پر تعینات گارڈ کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔<ref name="wilson"/> ابتدائی 1923ء میں چابیاں [[شوقی آفندی]] کو واپس مل گئیں۔<ref name="wilson"/> 1950ء کی دہائی میں شوقی آفندی مزار کی مستقبل کی بالائی تعمیر (superstructure) کے منصوبے بنا چکا تھا، جس میں پورے علاقے کی تعمیر اور اس میں 95 ماربل کالموں (ہر ماربل کالم 6 میٹر بلند) کے ساتھ ایک چبوترا شامل کرنا تھا۔<ref>{{cite book |first=اگو |last=گیاچری | authorlink = :en:Ugo Giachery |year=1973 |title=شوقی آفندی&nbsp;— ری کلکشنز |publisher=جارج رونالڈ |location=آکسفورڈ، برطانیہ |isbn=0-85398-050-0 | pages = 132–134, 137}}</ref> شوقی آفندی نے مزار کو ”دریائے نور“ (روشنی کا سمندر) کا نام دیا جو ”کوہِ نور“ (روشنی کا پہاڑ، [[مزار باب]]) کے سائے تلے تھا۔<ref>{{cite journal | title = بہاء اللہ اور اس کا مقدس مزار | first = ذکر اللہ | last = خادم | authorlink = ذکر اللہ خادم | journal = بہائی نیوز |date=مارچ 1976 | page = 15 | url = http://bahai-library.com/bahai_news | issue = 540}}</ref>


مزار اور اس کے آس پاس کے باغات کے ساتھ ساتھ [[قصر بہجی]] کو جولائی 2008ء میں [[یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ|عالمی ثقافتی ورثہ کی فہرست]] میں شامل کرلیا گیا تھا۔<ref>{{cite web | url = http://whc.unesco.org/en/news/452 | accessdate = 2008-07-08 | date = 2008-07-08 | title = Three new sites inscribed on UNESCO’s World Heritage List | author = UNESCO World Heritage Centre}}</ref><ref>{{cite web | url = http://whc.unesco.org/archive/2007/whc07-31com-8be.pdf | title = Convention concerning the protection of the world cultural and natural heritage | page = 34 | author = World Heritage Committee | date = 2007-07-02 | accessdate = 2008-07-08}}</ref>
== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}

نسخہ بمطابق 04:03، 9 دسمبر 2017ء

مزار بہاء اللہ
مزار کا کونا جہاں بہاء اللہ مدفون ہیں۔

مزار بہاء اللہ عکہ کے قریب بہجی میں واقع ہے۔ بہائیوں کے لیے یہ ایک بہت مقدس مقام ہے۔ بہائی نماز پڑھنے کے لیے اسی مزار کی طرف منہ کرتے ہیں اور اسے ہی اپنا قبلہ مانتے ہیں۔ اس مزار میں بہاء اللہ دفن ہے اور یہ قصر بہجی کی جگہ کے قریب واقع ہے جہاں بہاء اللہ کی وفات ہوئی تھی۔

مزارِ بہاء اللہ درمیانی علاقہ میں موجود ہے اور مزار کے چاروں جانب شجرات کے باغ ہیں، باغ کے راستوں پر ایرانی قالین بھچی ہے۔[1][2] مزار میں موجود شیشے کی چھت بہاء اللہ کی وفات کے بعد ”غلام علی نجار“ نامی شخص نے تعمیر کروائی تھی۔[3] مزار کے درمیانی علاقے کے شمال مغربی کونے میں ایک چھوٹا کمرہ موجود ہے جہاں بہاء اللہ مدفون ہے۔[4][5] درمیانی علاقے میں دیگر کمرے بھی موجود ہیں اور ان کمرے کے دروازے ہیں جو حالیہ برسوں میں یاتریوں اور زائرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے کھولے گئے ہیں۔

عبد البہاء کی وفات کے بعد مرزا محمد علی اور اس کے حمایتی مزار پر قابض ہوگئے، انہوں جنوری 1922ء میں جبراً مزار کی چابیاں چھین لیں۔[6] گورنرِ عکہ نے چابیوں کو صاحبان اختیار اور مزار پر تعینات گارڈ کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔[6] ابتدائی 1923ء میں چابیاں شوقی آفندی کو واپس مل گئیں۔[6] 1950ء کی دہائی میں شوقی آفندی مزار کی مستقبل کی بالائی تعمیر (superstructure) کے منصوبے بنا چکا تھا، جس میں پورے علاقے کی تعمیر اور اس میں 95 ماربل کالموں (ہر ماربل کالم 6 میٹر بلند) کے ساتھ ایک چبوترا شامل کرنا تھا۔[7] شوقی آفندی نے مزار کو ”دریائے نور“ (روشنی کا سمندر) کا نام دیا جو ”کوہِ نور“ (روشنی کا پہاڑ، مزار باب) کے سائے تلے تھا۔[8]

مزار اور اس کے آس پاس کے باغات کے ساتھ ساتھ قصر بہجی کو جولائی 2008ء میں عالمی ثقافتی ورثہ کی فہرست میں شامل کرلیا گیا تھا۔[9][10]

حوالہ جات

  1. نیشنل اپریچیول اسمبلی آف دی یونائٹڈ اسٹیڈس (جنوری 1966)۔ "شرائن آف بہاء اللہ"۔ بہائی نیوز (418): 4۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اگست 2006 
  2. جی۔ ایم۔ وشوناتھن (1994-07-24)۔ "بہائی اتھسٹکس آف دی سیکریڈ"۔ bahai-library.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اگست 2006 
  3. عبد البہاء (1915)۔ میموریلز آف دی فیتھ فُل۔ Wilmette, Illinois، USA: بہائی بپلشنگ ٹرسٹ (شائع 1997)۔ صفحہ: 144۔ ISBN 0-87743-242-2 
  4. Christ Manvell (November 1996)۔ "Visits to the Shrine of Bahá'u'lláh and Meeting with the members of the Universal House of Justice"۔ bahai-library.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اگست 2006 
  5. مزار کے درمیانی کمرے اور اندرونی حصوں کو دیکھنے کے لیے دیکھیے: The Bahá'í World, Vol III, p. 5 and 11.
  6. ^ ا ب پ Helen T. Wilson (April 2000)۔ "The Dispensation of Baha'u'llah: Its Continuing Place In History"۔ bahai-library.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اگست 2006 
  7. اگو گیاچری (1973)۔ شوقی آفندی — ری کلکشنز۔ آکسفورڈ، برطانیہ: جارج رونالڈ۔ صفحہ: 132–134, 137۔ ISBN 0-85398-050-0 
  8. ذکر اللہ خادم (مارچ 1976)۔ "بہاء اللہ اور اس کا مقدس مزار"۔ بہائی نیوز (540): 15 
  9. UNESCO World Heritage Centre (2008-07-08)۔ "Three new sites inscribed on UNESCO's World Heritage List"۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 جولا‎ئی 2008 
  10. World Heritage Committee (2007-07-02)۔ "Convention concerning the protection of the world cultural and natural heritage" (PDF)۔ صفحہ: 34۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 جولا‎ئی 2008