"المقتنیٰ بہاء الدین" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
سطر 1: سطر 1:
{{صندوق معلومات شخص}}
{{صندوق معلومات شخص}}
'''بہاء الدین''' ([[979ء]] – [[1043ء]]) ایک سریانی مسیحی تھا اور اس کا نام المقنیٰ بہا الدین تھا ۔ [[دروز]] مذہب کی اشاعت کے لیے [[حمزہ بن علی بن احمد]] کے اس شاگرد نے اس کی مسند سنبھال لی جسے کے بعد کچھ مدت تک رپوش رہا ۔ لیکن یہ معلوم نہ ہوسکا کہ اس نے یہ وقت مصر میں گزارا یا شام تک ۔ اس نے تمام پیرووں یا متوقع پیرووں کو خطوط بھیجے ، جن کا دائرہ بزنطین سے ہندوستان تک پھیلا ہوا تھا ۔ دروزی اب بھی اس کے خطوط بڑے شوق سے پڑھتے ہیں ۔ ان خطوط میں ایک کا نام القسطینطنیہ تھا جو شہنشاہ [[قسطنطین ہشتم]] ( [[1025ء]] تا [[1028ء]]) کے نام بھیجا گیا تھا ۔ ایک کا نام المسیحیہ ہے جس میں مسیحوں سے خطاب کیا گیا ہے ۔ دروزیوں کی چار مقدس کتابیں اس سے منسوب ہیں اور دینی مصنفوں میں وہ سب سے بڑا مانا جاتا تھا ۔ اس کے آخری شارحین میں عبداللہ التنوخی تھا ۔ وفات ( [[1480ء]] ) یہ السید کہلاتا تھا اور اس کی قبر عابیہ (لبنان) میں ہے ۔ وہاں ہر سال ہزاروں دروزی تحفے اور نذریں لے کر جاتے ہیں ۔
'''بہاء الدین''' ([[979ء]] – [[1043ء]]) ایک سریانی مسیحی تھا اور اس کا نام المقنیٰ بہا الدین تھا ۔ [[دروز]] مذہب کی اشاعت کے لیے [[حمزہ بن علی بن احمد]] کے اس شاگرد نے اس کی مسند سنبھال لی جسے کے بعد کچھ مدت تک رپوش رہا ۔ لیکن یہ معلوم نہ ہو سکا کہ اس نے یہ وقت مصر میں گزارا یا شام تک ۔ اس نے تمام پیرووں یا متوقع پیرووں کو خطوط بھیجے ، جن کا دائرہ بزنطین سے ہندوستان تک پھیلا ہوا تھا ۔ دروزی اب بھی اس کے خطوط بڑے شوق سے پڑھتے ہیں ۔ ان خطوط میں ایک کا نام القسطینطنیہ تھا جو شہنشاہ [[قسطنطین ہشتم]] ( [[1025ء]] تا [[1028ء]]) کے نام بھیجا گیا تھا ۔ ایک کا نام المسیحیہ ہے جس میں مسیحوں سے خطاب کیا گیا ہے ۔ دروزیوں کی چار مقدس کتابیں اس سے منسوب ہیں اور دینی مصنفوں میں وہ سب سے بڑا مانا جاتا تھا ۔ اس کے آخری شارحین میں عبداللہ التنوخی تھا ۔ وفات ( [[1480ء]] ) یہ السید کہلاتا تھا اور اس کی قبر عابیہ (لبنان) میں ہے ۔ وہاں ہر سال ہزاروں دروزی تحفے اور نذریں لے کر جاتے ہیں ۔


بہاء الدین نے زندگی کے آخری دور میں نئی پالیسی کو جاری کی ۔ اس نے کہا کہ الحاکم کی غیبت میں اس کے مذہب کی کوئی چیز ظاہر نہ کی جائے اور نہ اس پر عمل ہو ۔ یہ پالیسی بلاشبہ حفاظت کا نتیجہ تھی اور جو جداگانہ طبقہ سنیوں ، شیعوں اور نصیریوں جیسی حریف جماعتوں میں رہتا ہے ۔ اس لیے حفاظت کا کوئی اور ذریعہ بھی نہ تھا ۔ بہا الدین کا کہنا تھا کہ نئے مذہب کے لیے جو انعامات ہیں دنیا اس کی اہل ثابت نہیں ہوئی ۔ لہذا دروازہ بند کردیا گیا اور کسی کو داخل ہونے یا باہر نکلنے کی اجازت نہیں ۔ مقدس کتابیں مخطوطوں کی شکل میں موجود تھیں ۔ عام دروزیوں کو بھی ان کو پڑھنے کی اجازت نہ تھی ۔<ref>ڈاکٹر زاہد علی ۔ تاریخ [[فاطمین مصر]]</ref><ref>فلپ حتی ۔ تاریخ شام</ref>
بہاء الدین نے زندگی کے آخری دور میں نئی پالیسی کو جاری کی ۔ اس نے کہا کہ الحاکم کی غیبت میں اس کے مذہب کی کوئی چیز ظاہر نہ کی جائے اور نہ اس پر عمل ہو ۔ یہ پالیسی بلاشبہ حفاظت کا نتیجہ تھی اور جو جداگانہ طبقہ سنیوں ، شیعوں اور نصیریوں جیسی حریف جماعتوں میں رہتا ہے ۔ اس لیے حفاظت کا کوئی اور ذریعہ بھی نہ تھا ۔ بہا الدین کا کہنا تھا کہ نئے مذہب کے لیے جو انعامات ہیں دنیا اس کی اہل ثابت نہیں ہوئی ۔ لہذا دروازہ بند کردیا گیا اور کسی کو داخل ہونے یا باہر نکلنے کی اجازت نہیں ۔ مقدس کتابیں مخطوطوں کی شکل میں موجود تھیں ۔ عام دروزیوں کو بھی ان کو پڑھنے کی اجازت نہ تھی ۔<ref>ڈاکٹر زاہد علی ۔ تاریخ [[فاطمین مصر]]</ref><ref>فلپ حتی ۔ تاریخ شام</ref>

نسخہ بمطابق 17:11، 24 جنوری 2018ء

المقتنیٰ بہاء الدین
 

معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش سنہ 979ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات سنہ 1043ء (63–64 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

بہاء الدین (979ء1043ء) ایک سریانی مسیحی تھا اور اس کا نام المقنیٰ بہا الدین تھا ۔ دروز مذہب کی اشاعت کے لیے حمزہ بن علی بن احمد کے اس شاگرد نے اس کی مسند سنبھال لی جسے کے بعد کچھ مدت تک رپوش رہا ۔ لیکن یہ معلوم نہ ہو سکا کہ اس نے یہ وقت مصر میں گزارا یا شام تک ۔ اس نے تمام پیرووں یا متوقع پیرووں کو خطوط بھیجے ، جن کا دائرہ بزنطین سے ہندوستان تک پھیلا ہوا تھا ۔ دروزی اب بھی اس کے خطوط بڑے شوق سے پڑھتے ہیں ۔ ان خطوط میں ایک کا نام القسطینطنیہ تھا جو شہنشاہ قسطنطین ہشتم ( 1025ء تا 1028ء) کے نام بھیجا گیا تھا ۔ ایک کا نام المسیحیہ ہے جس میں مسیحوں سے خطاب کیا گیا ہے ۔ دروزیوں کی چار مقدس کتابیں اس سے منسوب ہیں اور دینی مصنفوں میں وہ سب سے بڑا مانا جاتا تھا ۔ اس کے آخری شارحین میں عبداللہ التنوخی تھا ۔ وفات ( 1480ء ) یہ السید کہلاتا تھا اور اس کی قبر عابیہ (لبنان) میں ہے ۔ وہاں ہر سال ہزاروں دروزی تحفے اور نذریں لے کر جاتے ہیں ۔

بہاء الدین نے زندگی کے آخری دور میں نئی پالیسی کو جاری کی ۔ اس نے کہا کہ الحاکم کی غیبت میں اس کے مذہب کی کوئی چیز ظاہر نہ کی جائے اور نہ اس پر عمل ہو ۔ یہ پالیسی بلاشبہ حفاظت کا نتیجہ تھی اور جو جداگانہ طبقہ سنیوں ، شیعوں اور نصیریوں جیسی حریف جماعتوں میں رہتا ہے ۔ اس لیے حفاظت کا کوئی اور ذریعہ بھی نہ تھا ۔ بہا الدین کا کہنا تھا کہ نئے مذہب کے لیے جو انعامات ہیں دنیا اس کی اہل ثابت نہیں ہوئی ۔ لہذا دروازہ بند کردیا گیا اور کسی کو داخل ہونے یا باہر نکلنے کی اجازت نہیں ۔ مقدس کتابیں مخطوطوں کی شکل میں موجود تھیں ۔ عام دروزیوں کو بھی ان کو پڑھنے کی اجازت نہ تھی ۔[1][2]

حوالہ جات

  1. ڈاکٹر زاہد علی ۔ تاریخ فاطمین مصر
  2. فلپ حتی ۔ تاریخ شام