"ابو مصعب الزرقاوی" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
درستی املا
درستی
سطر 31: سطر 31:
== گرفتاری ==
== گرفتاری ==


جب القاعدہ کی قیادت سوڈان منتقل ہوگئی اور الزرقاوی اپنے نئے لیڈر المقدصی کے ساتھ 1993ء میں واپس اردن چلے گئے۔ دونوں نے التوحید کے نام سے ایک تنظیم قائم کی اور اردن میں حکومت کے خلاف مسلح بغاوت کے لیے اسلحہ اکٹھا کرنے لگے۔ 13ستمبر 1993ء کو اسرائیل اور پی ایل او میں امن معاہدہ ہو گیا۔ الزرقاوی اس معاہدے کے خلاف کھل کر سامنے آگئے اور 29مارچ 1994ء کو گرفتار کرلئے گئے۔ یہ وہ گرفتاری تھی جس نے ایک نئے الزرقاوی کی تشکیل شروع کی ۔1995ء میں الزرقاوی کو عمر قید کی سزادی گئی اور انہیں عمان سے 85کلو میٹر جنوب میں واقع السوقہ جیل بھیج دیا گیا جو ریگستان میں تھی۔ اس جیل میں الزرقاوی کے پاؤں کے ناخن نوچے گئے ، جسم پر زخم لگا کر نمک چھڑ کا گیا اور کئی کئی ماہ تک قید تنہائی میں رکھا گیا۔ اس جیل میں چھ ہزار سے زائد قیدی بند تھے جن میں سے اکثر کا جرم یہ تھا کہ وہ عرب اسرائیل امن معاہدے کو یہودیوں کی فتح سمجھتے تھے۔ اس معاہدے پر تنقید کرنے والے اردن کے ایک صحافی فواد حسین کو بھی السوقہ جیل میں بند کیا گیا ۔ فواد کی اسی جیل میں الزرقاوی کے ساتھ ملاقات ہوئی ان کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے الزرقاوی پر ظلم بڑھتا گیا اس کی شخصیت میں سے لچک ختم ہوتی گئی۔ الزرقاوی نے اپنے ساتھی فقیہہ الشاوش کی مدد سے جیل میں پورا قرآن مجید حفظ کر لیا اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ اب ہمیں اپنی قوم کی تقدیر اپنے خون سے لکھنی ہے۔
جب القاعدہ کی قیادت سوڈان منتقل ہوگئی اور الزرقاوی اپنے نئے لیڈر المقدصی کے ساتھ 1993ء میں واپس اردن چلے گئے۔ دونوں نے التوحید کے نام سے ایک تنظیم قائم کی اور اردن میں حکومت کے خلاف مسلح بغاوت کے لیے اسلحہ اکٹھا کرنے لگے۔ 13ستمبر 1993ء کو اسرائیل اور پی ایل او میں امن معاہدہ ہو گیا۔ الزرقاوی اس معاہدے کے خلاف کھل کر سامنے آ گئے اور 29مارچ 1994ء کو گرفتار کرلئے گئے۔ یہ وہ گرفتاری تھی جس نے ایک نئے الزرقاوی کی تشکیل شروع کی ۔1995ء میں الزرقاوی کو عمر قید کی سزادی گئی اور انہیں عمان سے 85کلو میٹر جنوب میں واقع السوقہ جیل بھیج دیا گیا جو ریگستان میں تھی۔ اس جیل میں الزرقاوی کے پاؤں کے ناخن نوچے گئے ، جسم پر زخم لگا کر نمک چھڑ کا گیا اور کئی کئی ماہ تک قید تنہائی میں رکھا گیا۔ اس جیل میں چھ ہزار سے زائد قیدی بند تھے جن میں سے اکثر کا جرم یہ تھا کہ وہ عرب اسرائیل امن معاہدے کو یہودیوں کی فتح سمجھتے تھے۔ اس معاہدے پر تنقید کرنے والے اردن کے ایک صحافی فواد حسین کو بھی السوقہ جیل میں بند کیا گیا ۔ فواد کی اسی جیل میں الزرقاوی کے ساتھ ملاقات ہوئی ان کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے الزرقاوی پر ظلم بڑھتا گیا اس کی شخصیت میں سے لچک ختم ہوتی گئی۔ الزرقاوی نے اپنے ساتھی فقیہہ الشاوش کی مدد سے جیل میں پورا قرآن مجید حفظ کر لیا اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ اب ہمیں اپنی قوم کی تقدیر اپنے خون سے لکھنی ہے۔


== رہائی ==
== رہائی ==


1999ء میں اردن کے بادشاہ شاہ حسین کی موت کے بعد انکے بیٹے عبداللہ نے اقتدار سنبھالا تو الزرقاوی کو عام معافی کے نتیجے میں رہائی مل گئی۔ رہائی کے فوراً بعد وہ پشاور آگئے۔ یہاں الزرقاوی کے ویزے کی معیاد ختم ہوگئی اور انہیں پشاور جیل جانا پڑا ۔کچھ ساتھیوں کی کوشش سے رہائی کے بعد الزرقاوی نے افغانستان کا رخ کیا۔ جلال الدین حقانی کے ذریعہ الزرقاوی نے ہرات میں ایک عسکری تربیت کا کیمپ قائم کرنے کی اجازت حاصل کی۔
1999ء میں اردن کے بادشاہ شاہ حسین کی موت کے بعد انکے بیٹے عبداللہ نے اقتدار سنبھالا تو الزرقاوی کو عام معافی کے نتیجے میں رہائی مل گئی۔ رہائی کے فوراً بعد وہ پشاور آ گئے۔ یہاں الزرقاوی کے ویزے کی معیاد ختم ہوگئی اور انہیں پشاور جیل جانا پڑا ۔کچھ ساتھیوں کی کوشش سے رہائی کے بعد الزرقاوی نے افغانستان کا رخ کیا۔ جلال الدین حقانی کے ذریعہ الزرقاوی نے ہرات میں ایک عسکری تربیت کا کیمپ قائم کرنے کی اجازت حاصل کی۔


== القاعدہ ==
== القاعدہ ==
اسی زمانہ میں جب القاعدہ کی قیادت کے ساتھ ان کے تعلقات استوار ہوچکے تھے لیکن وہ القاعدہ میں شامل ہونے سے گریزاں تھے کیونکہ وہ بدستور اس نظریے کے حامی تھے کہ جس طرح طالبان نے افغانستان میں اسلامی حکومت قائم کی ہے اسی طرح عرب مجاہدین کو بھی اپنے ممالک میں اسلامی حکومتوں کے قیام کے لیے جدوجہد کا آغاز کرنا چاہیے۔ دسمبر2001ء میں وہ ہرات سے قندھار آگئے کیونکہ امریکی فوج افغانستان میں داخل ہوچکی تھی اور عرب مجاہدین کا ہر طرف شکار کیا جارہا تھا۔ اردنی صحافی فواد حسین کا دعویٰ ہے کہ قندھار میں بمباری کے دوران الزرقاوی زخمی ہوگئے لیکن کسی طرح اسامہ بن لادن کے پاس تورا بورا پہنچ گئے ، وہاں سے فرار ہو کر خوست اور پھر شمالی وزیرستان پہنچے ۔ یہیں چند دن قیام کیا اور پھر کوئٹہ کے راستے سے افغانستان میں داخل ہو کر ایران کو نکل گئے۔ ایران میں گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی کی مدد سے 2003ء میں وہ عراق چلے گئے۔ ایرانی شہر زاہدان سے بغداد تک انکا القاعدہ سے رابطہ رہا لیکن وہ القاعدہ میں شامل نہ ہوئے۔ اب ایک نئی وجہ اختلاف یہ تھی کہ القاعدہ اہل تشیع کے خلاف کارروائیوں کی مخالف تھی لیکن الزرقاوی کا کہنا تھا کہ اہل تشیع نے افغانستان اور عراق میں امریکی فوج کا ساتھ دیا اس لیے ان پر حملے جائز ہیں۔
اسی زمانہ میں جب القاعدہ کی قیادت کے ساتھ ان کے تعلقات استوار ہوچکے تھے لیکن وہ القاعدہ میں شامل ہونے سے گریزاں تھے کیونکہ وہ بدستور اس نظریے کے حامی تھے کہ جس طرح طالبان نے افغانستان میں اسلامی حکومت قائم کی ہے اسی طرح عرب مجاہدین کو بھی اپنے ممالک میں اسلامی حکومتوں کے قیام کے لیے جدوجہد کا آغاز کرنا چاہیے۔ دسمبر2001ء میں وہ ہرات سے قندھار آ گئے کیونکہ امریکی فوج افغانستان میں داخل ہوچکی تھی اور عرب مجاہدین کا ہر طرف شکار کیا جارہا تھا۔ اردنی صحافی فواد حسین کا دعویٰ ہے کہ قندھار میں بمباری کے دوران الزرقاوی زخمی ہوگئے لیکن کسی طرح اسامہ بن لادن کے پاس تورا بورا پہنچ گئے ، وہاں سے فرار ہو کر خوست اور پھر شمالی وزیرستان پہنچے ۔ یہیں چند دن قیام کیا اور پھر کوئٹہ کے راستے سے افغانستان میں داخل ہو کر ایران کو نکل گئے۔ ایران میں گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی کی مدد سے 2003ء میں وہ عراق چلے گئے۔ ایرانی شہر زاہدان سے بغداد تک انکا القاعدہ سے رابطہ رہا لیکن وہ القاعدہ میں شامل نہ ہوئے۔ اب ایک نئی وجہ اختلاف یہ تھی کہ القاعدہ اہل تشیع کے خلاف کارروائیوں کی مخالف تھی لیکن الزرقاوی کا کہنا تھا کہ اہل تشیع نے افغانستان اور عراق میں امریکی فوج کا ساتھ دیا اس لیے ان پر حملے جائز ہیں۔


== عراق ==
== عراق ==

نسخہ بمطابق 14:38، 2 فروری 2018ء

احمد فضیل النزال الخلایہ
(عربی: أحمد فضيل النزال الخلايله)
پیدائش30 اکتوبر 1966(1966-10-30)
زرقا, اردن
وفاتجون 7، 2006(2006-60-70) (عمر  39 سال)
ہبیب, عراق
وفاداریالقاعدہ
یونٹجماعت التوحید والجہاد
القاعدہ، عراق
مقابلے/جنگیںجنگ عراق

ابع مصعب الزرقاوی (عربی: أحمد فضيل النزال الخلايله) کا اصل نام احمد فاضل تھا۔ وہ 30اکتوبر 1966ء کو اردن کے شہر الزرقا میں پیدا ہوئے ۔اس شہر کی ایک بڑی اکثریت فلسطینی مہاجرین پر مشتمل ہے۔ الزرقاوی کا تعلق دریائے اردن کے مشرقی کنارے میں رہنے والے بدو قبیلے بنو حسن کی خلیلہ شاخ سے تھا ، ان کے آباؤ اجداد 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد اپنی زمینیں چھوڑ کر الزرقا میں پناہ گزین بنے۔

ابتدائی زندگی

الزرقاوی نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہاں ہر طرف ناانصافی اور غربت تھی ۔وہ چھ بہنیں اور چار بھائی تھے۔ غربت کے باوجود الزرقاوی کو تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا ۔ وہ گیارہویں جماعت میں پہنچے تو 1984ء میں انکے والد احمد نزال فوت ہوگئے۔ الزرقاوی کو تعلیم چھوڑ کر نوکری کرنی پڑی۔1988ء میں الزرقاوی نے اپنے علاقے کی مسجد حسین بن علی میں فلسطینی عالم ڈاکٹر عبداللہ عزام اور افغان لیڈر پروفیسر سیاف کی تقاریر سنیں۔ سیاف نے الزرقا کے نوجوانوں کو افغانستان میں جہاد کی دعوت دی اور یہی وہ لمحہ تھا جب بائیس سالہ الزرقاوی نے افغانستان جانے کا فیصلہ کیا۔

جہاد افغانستان

1989ء کے موسم بہار میں وہ پشاور پہنچے تو ان کا جہادی نام ابو محمد الغریب رکھا گیا۔ ڈاکٹر عبداللہ عزام نے اس نوجوان کو میران شاہ کے راستے سے خوست کے پہاڑوں میں بھیج دیا جہاں الزرقاوی نے عسکری تربیت حاصل کی۔ 1991ء میں الزرقاوی نے جلال الدین حقانی کے ہمراہ خوست کی فوجی چھاؤنی سے افغان کمیونسٹ فوج کو نکالنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب امریکا اور اقوام متحدہ افغان مجاہدین کو کابل کے کمیونسٹ حکمرانوں کے ساتھ مفاہمت پر قائل کرنے کی کوشش میں تھے۔ افغان مجاہدین کے گروپوں میں اختلافات بھی پیدا کئے جا چکے تھے اور دوسری طرف اسلام آباد کے حکمران پاکستان میں موجود عرب مجاہدین کو نکالنے کے درپے تھے۔ اسی زمانے میں الزرقاوی کی ملاقات پشاور میں ایک فلسطینی عالم ابو محمد المقدصی سے ہوئی جو مشرق وسطیٰ میں امن کے نام پر اسرائیل اور عرب حکومتوں میں دوستانہ تعلقات کے سخت مخالف تھے۔ المقدصی کا خیال تھا کہ امریکا کے احکامات بجا لانے والی عرب حکومتوں کے خلاف مسلح بغاوت کا وقت آچکا ہے، الزرقاوی انکی حمایت کر رہے تھے جبکہ القاعدہ کا خیال تھا کہ عرب حکومتوں کے خلاف بغاوت کی بجائے اسرائیل اور امریکا کے خلاف مزاحمت کی جائے۔

گرفتاری

جب القاعدہ کی قیادت سوڈان منتقل ہوگئی اور الزرقاوی اپنے نئے لیڈر المقدصی کے ساتھ 1993ء میں واپس اردن چلے گئے۔ دونوں نے التوحید کے نام سے ایک تنظیم قائم کی اور اردن میں حکومت کے خلاف مسلح بغاوت کے لیے اسلحہ اکٹھا کرنے لگے۔ 13ستمبر 1993ء کو اسرائیل اور پی ایل او میں امن معاہدہ ہو گیا۔ الزرقاوی اس معاہدے کے خلاف کھل کر سامنے آ گئے اور 29مارچ 1994ء کو گرفتار کرلئے گئے۔ یہ وہ گرفتاری تھی جس نے ایک نئے الزرقاوی کی تشکیل شروع کی ۔1995ء میں الزرقاوی کو عمر قید کی سزادی گئی اور انہیں عمان سے 85کلو میٹر جنوب میں واقع السوقہ جیل بھیج دیا گیا جو ریگستان میں تھی۔ اس جیل میں الزرقاوی کے پاؤں کے ناخن نوچے گئے ، جسم پر زخم لگا کر نمک چھڑ کا گیا اور کئی کئی ماہ تک قید تنہائی میں رکھا گیا۔ اس جیل میں چھ ہزار سے زائد قیدی بند تھے جن میں سے اکثر کا جرم یہ تھا کہ وہ عرب اسرائیل امن معاہدے کو یہودیوں کی فتح سمجھتے تھے۔ اس معاہدے پر تنقید کرنے والے اردن کے ایک صحافی فواد حسین کو بھی السوقہ جیل میں بند کیا گیا ۔ فواد کی اسی جیل میں الزرقاوی کے ساتھ ملاقات ہوئی ان کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے الزرقاوی پر ظلم بڑھتا گیا اس کی شخصیت میں سے لچک ختم ہوتی گئی۔ الزرقاوی نے اپنے ساتھی فقیہہ الشاوش کی مدد سے جیل میں پورا قرآن مجید حفظ کر لیا اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ اب ہمیں اپنی قوم کی تقدیر اپنے خون سے لکھنی ہے۔

رہائی

1999ء میں اردن کے بادشاہ شاہ حسین کی موت کے بعد انکے بیٹے عبداللہ نے اقتدار سنبھالا تو الزرقاوی کو عام معافی کے نتیجے میں رہائی مل گئی۔ رہائی کے فوراً بعد وہ پشاور آ گئے۔ یہاں الزرقاوی کے ویزے کی معیاد ختم ہوگئی اور انہیں پشاور جیل جانا پڑا ۔کچھ ساتھیوں کی کوشش سے رہائی کے بعد الزرقاوی نے افغانستان کا رخ کیا۔ جلال الدین حقانی کے ذریعہ الزرقاوی نے ہرات میں ایک عسکری تربیت کا کیمپ قائم کرنے کی اجازت حاصل کی۔

القاعدہ

اسی زمانہ میں جب القاعدہ کی قیادت کے ساتھ ان کے تعلقات استوار ہوچکے تھے لیکن وہ القاعدہ میں شامل ہونے سے گریزاں تھے کیونکہ وہ بدستور اس نظریے کے حامی تھے کہ جس طرح طالبان نے افغانستان میں اسلامی حکومت قائم کی ہے اسی طرح عرب مجاہدین کو بھی اپنے ممالک میں اسلامی حکومتوں کے قیام کے لیے جدوجہد کا آغاز کرنا چاہیے۔ دسمبر2001ء میں وہ ہرات سے قندھار آ گئے کیونکہ امریکی فوج افغانستان میں داخل ہوچکی تھی اور عرب مجاہدین کا ہر طرف شکار کیا جارہا تھا۔ اردنی صحافی فواد حسین کا دعویٰ ہے کہ قندھار میں بمباری کے دوران الزرقاوی زخمی ہوگئے لیکن کسی طرح اسامہ بن لادن کے پاس تورا بورا پہنچ گئے ، وہاں سے فرار ہو کر خوست اور پھر شمالی وزیرستان پہنچے ۔ یہیں چند دن قیام کیا اور پھر کوئٹہ کے راستے سے افغانستان میں داخل ہو کر ایران کو نکل گئے۔ ایران میں گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی کی مدد سے 2003ء میں وہ عراق چلے گئے۔ ایرانی شہر زاہدان سے بغداد تک انکا القاعدہ سے رابطہ رہا لیکن وہ القاعدہ میں شامل نہ ہوئے۔ اب ایک نئی وجہ اختلاف یہ تھی کہ القاعدہ اہل تشیع کے خلاف کارروائیوں کی مخالف تھی لیکن الزرقاوی کا کہنا تھا کہ اہل تشیع نے افغانستان اور عراق میں امریکی فوج کا ساتھ دیا اس لیے ان پر حملے جائز ہیں۔

عراق

2004ء میں القاعدہ کی کوششوں سے الزرقاوی نے اپنا موٴقف تبدیل کیا اور اہل تشیع پر حملے بند کردیئے جس کے بعد اسامہ بن لادن نے الزرقاوی کو عراق میں القاعدہ کا امیر مقرر کیا۔ الزرقاوی کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ عراق میں مجاہدین کے تمام گروپوں کو متحد کریں، افغانستان ، شام ، اردن، کویت ، مصر، سعودی عرب، لبنان اور ترکی کے نوجوانوں کو تربیت دیں اور اسرائیل کے ساتھ براہ راست تصادم کی تیاری کریں۔ اس سال جنوری میں مجاہدین شوریٰ کونسل کا قیام الزرقاوی کی عراق میں پہلی اہم سیاسی کامیابی تھی تاہم وہ خاصے غیر محتاط تھے اور اسی لیے عراق میں امریکی بمباری کا نشانہ بن گئے۔ غور کیا جائے تو الزرقا کا یہ جوان 1989ء تک احمد فاضل اور 2003تک ابو محمد الغریب تھا لیکن عراق میں امریکی فوج کے قبضے کے بعد ابو مصعب الزرقاوی پیدا ہوا۔(مصعب انکے سب سے چھوٹے بیٹے کا نام ہے) 2003ء میں جنم لینے والے الزرقاوی کا آئیڈئیل نورالدین زنگی تھے جنہوں نے 1148ء میں موصل کا اپنا مرکز بنا کر 1169ء تک شام اور مصر پر حکومت قائم کی اور انکی وفات کے بعد صلاح الدین ایوبی نے یروشلم فتح کیا۔ سچ تو یہ ہے کہ ابو مصعب الزرقاوی نے مشرق وسطیٰ میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کی کوکھ سے جنم لیا۔ اسے یقین تھا کہ کوئی اوسلو امن معاہدہ بنو حسن قبیلے کو اسکی کھوئی ہوئی زمین واپس نہیں دلوا سکتا لہٰذا اس نے نورالدین زنگی کا راستہ اختیار کیا۔ وہ جانتا تھا کہ اسے زنگی کی طرح دجلہ و فرات کی سرزمین میں صرف تحریک مزاحمت کو منظم کرنے کا موقع ملے گا اور یروشلم پر حملہ کوئی اور کریگا ۔جب تک یروشلم کی مسجد اقصٰی مسلمانوں کو واپس نہیں ملتی الزرقاوی جم لیتے رہیں گے۔ 2006 میں امریکہ فوجوں کے ہاتھوں جاں بحق ہوئے۔

بیرونی روابط